Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 77
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَشْتَرُوْنَ : خریدتے (حاصل کرتے) ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا اقرار وَاَيْمَانِهِمْ : اور اپنی قسمیں ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَا : نہیں خَلَاقَ : حصہ لَھُمْ : ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُھُمُ : ان سے کلام کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ يَنْظُرُ : نظر کرے گا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا يُزَكِّيْهِمْ : اور نہ انہیں پاک کرے گا وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی سی قیمت خریدتے ہیں یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور اللہ ان سے کلام نہیں کرے گا۔ اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا قیامت کے دن ، اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ اور ان کے لیے ددناک عذاب ہے۔
اہل کتاب کی تیسری خیانت : اس سے پیشتر اہل کتاب کی دینی اور مالی خیانت کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ آج کی آیات بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں اور ان میں اہل کتاب کی تیسری بڑی خیانت کا ذکر ہے یہ لوگ ان پیش گوئیوں کو چھپا لیتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے سابقہ کتب میں قرآن کریم اور حضور خاتم النبیین ﷺ کے متعلق نازل فرمائی تھیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس بات کی وضاحت فرمائی ہے۔ کہ اس نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا۔ کہ ان کے پاس جو نبی آئے گا اس پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے مگر جب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اور قرآن پاک اترنا شروع ہوا تو ان لوگوں نے اپنے عہد کا کچھ پاس نہ کیا۔ آگے اس سورة میں مختلف قسم کے عہدوں کا ذکر آ رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے عہد کا ذکر تو سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ اور بعض دوسری سورتوں میں بھی آئے گا۔ مگر یہ ان کی بہت بڑی خیانت تھی کہ اپنے عہد کو بھول گئے اور نہ قرآن پر ایمان لائے اور نہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کو تسلیم کیا۔ حالانکہ ان کے عہد کا ذکر خود تورات میں بھی موجود ہے۔ مگر انہوں نے تحریف کرکے تورات کے احکام کو بھی بدل دیا۔ اور قرآن پاک کو بھی تسلیم نہ کیا۔ حضور ﷺ والسلام کے ایک صحابی اشعث بن قیس کی کچھ زمین ایک یہودی کے قبضے میں تھی ، جسے وہ چھوڑتا نہیں تھا۔ اس کی شکایت اس نے آپ (علیہ السلام) کی خدمت میں کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے۔ جو گواہی دے کہ زمین واقعی تمہاری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ البینۃ علی المدعی۔ گواہ پیش کرنا مدعی پر لازم ہے۔ لہذا تم اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش کرو۔ صحابی رسول نے عرض کیا۔ حضور ! میرے پاس گواہ تو کوئی نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر مدعا علیہ کی قسم پر فیصلہ ہوگا۔ مسلمان کہنے لگا کہ حضرت ! یہ شخص تو فاجر ہے۔ یہ تو جھوٹی قسم بھی کھا جائے گا۔ اس کا کیا اعتبار ہے۔ آپ نے فرمایا اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں جس پر فیصلہ کیا جائے۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا من حلف علی یمین فاجرۃ لیقطتع بھا مال امرٗ مسلم لقی اللہ عز وجل وھو علیہ غضبان۔ جو شخص کسی مسلمان۔ کا مال کھانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھاتا ہے۔ قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔ آپ نے یہ آیت بھی تلاوت فرمائی۔ ان الذین یشترون بعہد اللہ و ایمانھم الخ۔ حضرت اشعث بن قیس فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔ اہل کتاب کی بد عہدی : ارشاد ربانی ہے۔ ان الذین یشترون بعہد اللہ و ایمانھم ثمنا قلیلا۔ جو لوگ اپنے عہد اور قسم کے بدلے دنیا کا حقیر مال خریدتے ہیں اولئک لا خلاق لھم فی الاخرۃ ۔ ان کے لیے آخرت میں کچھ نہیں۔ دنیا کا مال جس قدر بھی زیادہ ہو۔ آخرت کے مقابلے میں بالکل حقیر ہے۔ مالحیوۃ الدنیا الا متاع۔ یہ دنیا کی زندگی تو تھوڑا سا برتنے کا سامان ہے۔ قل متاع الدنیا قلیل۔ آپ کہ دیں دنیا کا سارا مال و اسباب آخرت کے مقابلے میں بلکل قلیل ہے۔ لہذا دنیا کے حقیر مال کو ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے والوں کو آخرت میں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ولا یکلمھم اللہ۔ اور اللہ ان سے شفقت و مہربانی کے ساتھ کلام نہیں کرے گا۔ غصے اور باز پرس کی صورت میں تو ضرور کلام کرے گا۔ مگر لطف و کرم کے ساتھ گفتگو نہیں فرمائے گا۔ ولا ینظر الیھم یوم القیمۃ اور نہ نگاہ شفقت سے ایسے لوگوں کی طرف دیکھے گا۔ ولا یزکیھم اور ان کو پاک بھی نہیں کرے گا۔ یہ ہمیشہ نجاستوں میں لت پت رہیں گے۔ ولھم عذاب الیم۔ اور وہ عذاب الیم کا شکار ہوں گے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے عہد لیا تھا۔ کہ ہر نبی برحق کی حمایت کرنا اس پر ایمان لانا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے عہد کی پابندی کرنا۔ مگر ان لوگوں نے عہد کو توڑ دیا۔ انبیاء کی تکذیب کی اور اللہ کے احکام کو چھپایا۔ کلام الہی میں تحریف کی۔ جھوٹی قسم کھا کر دنیا کا مال حاصل کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے عہد کی پابندی کی سخت تاکید کی تھی ، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وکان عھد اللہ مسئولا۔ اللہ کے عہد کے متعلق باز پرس ہوگی۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے عام حکم بھی دیا اوفوا ابالعقود۔ اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ عہد سے روگردانی منافق کی نشانی ہے۔ اللہ کی نظر میں ایسے لوگ مبغوض ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے ساتھ کلام شفقت نہیں کرے گا ، ان کی طرف نظر شفقت سے نہیں دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ مبغوض لوگ : حدیث شریف میں آتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ۔ نہ ان کے ساتھ کلام شفقت کرے گا۔ نہ نظر رحمت سے دیکھے گا۔ اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ ان میں سے ایک آدمی وہ ہے منع ابن السبیل فضل الماء۔ جو کسی مسافر کو زائد پانی سے مستفید نہیں ہونے دیتا۔ کنواں یا چشمہ ہے پانی بھی اپنی ضرورت سے زیادہ ہے مگر وہ مسافر کو پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ روکتا ہے۔ فرمایا ایسا شخص اللہ کی نگاہ میں مبغوض ہے۔ اس گروہ کا دوسرا آدمی وہ ہے۔ جو نماز عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھا کر گاہک کو سودا خریدنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور تیسرا آدمی وہ ہے۔ جو خلیفۃ المسلمین اور امام کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے پھر اگر اس کا دنیوی مقصد پورا ہوتا رہے ، تو عہد کی پاسداری کرتا ہے۔ اور یہ مقصد پورا نہ ہو تو بیعت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ تین قسم کے آدمی اللہ کی نگاہ میں مبغوض ہوں گے۔ ایک اور حدیث میں یوں بھی آتا ہے۔ کہ وہ شخص بھی مبغوض ہوگا۔ مبرء بوالدیہ۔ جو اپنے والدین سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ ان کی خدمت کرنے کی بجائے ، ان کے ساتھ احسان کرنے کی بجائے ، ان سے نفرت کرتا ہے۔ فرمایا وہ شخص بھی مبغوض ہے مبرء من ولدہ۔ جو اپنی اولاد سے نفرت کرتا ہے۔ انہیں ان کی مطلوبہ شفقت و محبت مہیا نہیں کرتا۔ اور تیسرا آدمی وہ ہے کہ انعم علیہ قوم۔ اس کی قوم نے اس پر احسان کیا۔ مگر وہ ان کی ناشکری اور ناقدری کرتا ہے۔ فرمایا یہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام کرے گا نہ نظر شفقت سے دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ صحیح احادیث میں آتا ہے۔ کہ تین قسم کے آدمی اس زمرہ میں آتے ہیں۔ المسبل۔ وہ شخص جو اپنے پاجامے یا تہبند۔ پتلون کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔ مردوں کے لیے مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ عورتیں مستثنا ہیں : دوسرا شخص والمنفق سلعتہ جو جھوٹی قسم اٹھا کر سودا بیچتا ہے۔ گاہک کو جھوٹا یقین دلاتا ہے۔ اور تیسرا شخص المنان ہے۔ جو کسی پر احسان کرکے جتلاتا ہے اس کا نہ صرف احسان ضائع ہوا۔ بلکہ وہ بھی مبغوض گروہ میں شامل ہوگیا۔ ایک حدیث میں حضور نبی کریم کا ارشاد ہے تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے۔ پہلا شخص۔ التاجر الحلاف۔ یعنی قسمیں کھانے والا تاجر ہے۔ والفقیر المختال۔ دوسرا شخص وہ ہے جو محتاج ہو کر غرور کرے۔ والبخیل المنان۔ اور تیسرا شخص احسان جتلانے والا بخیل ہے ان تینوں اقسام کے آدمیوں سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے۔ محبوب لوگ : پھر فرمایا تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے پہلا شخص وہ ہے جو دشمن کے مقابلے میں جہاد کرتا ہے۔ پھر یا تو فتح تک پہنچتا ہے یا شہید ہوجاتا ہے۔ فرمایا دوسرا محبوب آدمی وہ ہے ۔ جو کسی قافلے میں شامل ہو کر سفر پر جاتا ہے۔ پڑاؤ کے مقام پر قافلے والے سو جاتے ہیں اور وہ خدا کے حضور کھڑا ہو کر نماز پڑتا ہے اللہ کے سامنے اپنی مناجات پیش کرتا ہے۔ پھر جب نماز فجر کا وقت ہوجاتا ہے۔ تو اپنے ساتھیوں کو بیدار کردیتا ہے۔ فرمایا تیسرا محبوب خدا وہ شخص ہے جو پڑوسی کی تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے موت آجائے یا وہاں سے علیحدگی اختیار کرلے۔ ان اقسام کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ آیت زیر درس میں یہودیوں کا ذکر اس گروہ میں کیا گیا ہے۔ جن سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے۔ وہ مبغوض لوگ ہیں۔ انہوں نے اپنے عہد کو توڑا اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔ قسم تو سچی بھی نہیں کھانی چاہئے۔ سوائے اس کے کہ براٗت کے لیے ہو۔ محض دنیا کا حقیر مال حاصل کرنے کے لیے قسم اٹھانا باعث وبال ہے۔ تحریف لفظی : اگلی آیت میں یہودیوں کی ایک اور بری خصلت کا تذکرہ ہے۔ وہ جان بوجھ کر زبان کے ہیر پھیر سے اصل لفظ کو بگاڑ کر بولتے تھے۔ جس سے سننے والا کچھ اور مطلب سمجھ سکتا تھا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ وان منھم لفریقا یلون السنتھم بالکتب۔ ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ کی کتاب زبان کو مروڑ کر پڑھتا ہے۔ لتحسبوہ من الکتب ، تاکہ تم گمان کرو کہ یہ اللہ کی کتاب میں سے ہے۔ وما ھو من الکتب ، حالانکہ وہ اللہ کی کتاب میں سے نہیں ہے۔ اہل کتاب کی اس قبیح حرکت کی مثال سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ جب یہ لوگ حضور کی مجلس میں آتے تھے۔ تو لفظ راعنا کی بجائے زبان کو گھما کر راعینا کہتے تھے حالانکہ دونوں لفظوں کے معانی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ راعنا کا معنی ہے کہ حضور ! ہماری طرف توجہ فرمائیں ، اور راعینا کا معنی چرواہا یا احمق ہے۔ اس طرح وہ لوگ رسول مقبول ﷺ کی توہین کا ارتکاب کرتے تھے ، یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ کتنے خائن لوگ ہیں جو اللہ کی کتاب اور نبی کے ساتھ بھی خیانت کرتے ہیں۔ اس قسم کی تحریف لفظی کی مثال تورات میں بھی موجود ہے۔ وہاں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے مروہ کے مقام پر لے گئے۔ مروہ چونکہ مکہ معظمہ میں ہے۔ اس لیے یہاں سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی ثابت ہوتی ہے۔ جس کو یہودی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تو اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح اللہ کہتے ہیں۔ چناچہ اس حقیقت سے بچنے کے لیے وہ لفظ مروہ کو موریا کہہ کر بولتے تھے۔ تاکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں انجام پانے والی قربانی مکہ میں ثابت نہ ہوسکے۔ مقصد یہ کہ یہ لوگ اللہ کی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ اور اصل لفظ کو بگاڑ کر کچھ اور ہی بنا دیتے تھے۔ انجیل میں موجود لفظ فارقلیط کی جگہ مددگار یا شفیع لکھ دیا۔ اور دس ہزار کی بجائے لاکھوں لکھ دیا۔ اور اس طرح لفظی تحریف کی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ اس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا۔ آگے فرمایا ما مسنا من لغوب۔ یہ اس لیے فرمایا کہ ان بدبختوں نے تورات میں بھی رد و بدل کیا ، تورات میں بھی موجود ہے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ مگر ان لوگوں نے آگے لکھ دیا۔ فاستراح (پھر اس نے آرام کیا) اللہ نے فرمایا یہ تو کفر کا کلمہ ہے۔ کیا خدا تعالیٰ تھک گا تھا ، جو آرام کی ضرورت پڑی۔ اللہ کے ساتھ ایسی بات منسوب کرنا صریح کفر ہے۔ مگر ان لوگوں نے محض ساتویں دن کی چھٹی ثابت کرنے کے لیے یہ لفظ بڑھا دیا۔ یہ بھی تحریف لفظی کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے نہ صرف الفاظ کو تبدیل کیا ، بلکہ معنوطی طور پر بھی مطلب کچھ کا کچھ کردیا۔ تحریف معنوی : مسلمانوں میں اہل بدعت بھی اس بیماری کا شکار ہیں۔ یہ قرآن پاک کے الفاظ تو تبدیل نہیں کرسکے مگر مطلب سارا الٹ پلٹ کردیا ہے۔ جس آیت سے چاہتے ہیں ، اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں۔ دیکھئے میلاد کا موسم آتا ہے۔ پہاڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ پوچھو بھائی یہ پہاڑیاں کیسی ہیں ، کہتے ہیں قرآن میں صفا ومروہ پہاڑیوں کا ذکر آیا ہے۔ ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ ۔ کہ یہ پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس قسم کی باتیں قرآن پاک میں صریح تحریف ہے۔ قطعاً ناجائز اور گمراہی کا باعث ہے۔ بہت سے واعظین اور خود ساختہ مفسرین بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ایک صاحب نے بسم اللہ کی تفسیر لکھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ اسم اللہ سے مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ حالانکہ اسم اللہ سے اللہ کا نام مراد ہے۔ اور اللہ کا نام لے کر ہی شروع کرنا چاہئے ۔ مگر انہوں نے اس کا معنی تبدیل کردیا۔ خود پروفیسر ہیں ، معلم ہیں ، مگر تفسیر یہ کی ہے کہ مرزا قادیانی نے بھی تو یہی کہا۔ کہ میرا نام سورة فتح میں محمد رکھا رکھا گیا ہے اور رسول اللہ بھی لکھا ہے (العیاذ باللہ) ۔ یعنی لفظ تو محمد رسول اللہ ہے مگر اس نے کہا کہ اس سے مراد میری ذات ہے۔ اسی طرح خاتم النبیین کا ترجمہ یہ کیا ہے۔ کہ حضور ﷺ مہریں لگا لگا کر نبی بنا رہے ہیں۔ آپ کے بعد جو بھی نبی آئے گا وہ آپ کی مہر سے بنے گا۔ سب سے پہلے مرزا نے اپنے آپ کو اس قسم کا نبی شمار کیا۔ اسی کو تحریف معنوی کہتے ہیں جو کفر ہے۔ فرمایا اس قسم کی لفطی و معنوی تحریف کرکے ، ویقولون ھو من عند اللہ کہتے ہیں۔ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا ، وما ھو من عنداللہ۔ حالانکہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ غلط معانی اور الفاظ کو اللہ کی طرف منوب کرنا بدترین قسم کی خیانت ہے۔ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ اسی لیے فرمایا۔ ویقولون علی اللہ الکذب ، وہ اللہ پر افترا باندھتے ہیں۔ اور کتمانِ حق بھی کرتے ہیں۔ آگے سورة مائدہ میں آئے گا کہ انہوں نے زنا کے حکم کو تورات میں چھپا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ذریعے ظاہر فرما دیا۔ مطلب بدلنے کا کام یہاں پر فضل الرحمن اور پرویز نے بھی کیا ہے۔ نماز کا معنی کچھ کردیا۔ حج کا معنی عالمی کانفرنس کردیا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یہ لوگ الفاظ تو اب نہیں بدل سکتے مگر مفہوم بدل کر تحریف معنوی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وھم یعلمون۔ حالانکہ وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ بعض باطنی فرقے بھی اس قسم کی تحریف میں ملوث ہیں۔ انہوں نے حج سے مراد پیر کی زیارت لیا ہے۔ روزہ کا مطلب یہ ہے کہ پیر صاحب جو راز بتائیں اسے چھپا کر رکھا جائے۔ یہ صریحاً تحریف ہے۔ الفاظ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کا مفہوم بھی وہی لینا چاہئے۔ جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ اور جس کی وضاحت اللہ کے نبی نے کی۔ یا نبی کے صحابہ یا آئمہ دین نے کی ، جنہوں نے حقیقتاً اس کا مطلب سمجھا ہے۔ اگر آیات قرآنی کا مطلب وہ لیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہے تو درست ہے ، ورنہ سراسر گمراہی ہوگی۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہوگا۔
Top