Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
ہرگز حاصل نہ کرسکوگے نیکی یہاں تک کہ تم خرچ کرو اس چیز میں سے جسے تم پسند کرتے ہو۔ اور جو چیز بھی تم خرچ کروگے۔ بیشک اللہ تعالیٰ اس کو خوب جاننے والا ہے۔
ربط آیات : سورۃ آل عمران کے ابتدائی حصے میں زیادہ تر نصاری کی تردید کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے غلط عقائد کا رد فرمایا ہے۔ اور انہیں اصلاح کی دعوت دی ہے تاہم اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے یہودیوں کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بھی خرابیاں بیان کی ہیں ، اور ان کے غلط عقائد کی تردید کی ہے اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔ دین اسلام کے برحق ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی پیروی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ نیز واضح فرمایا ہے کہ اسلام کے سوا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا۔ اور اسلام کے علاوہ کسی دین میں کامیابی ممکن نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہدایت اختیار کرنے کے بعد دوبارہ گمراہی کے راستہ پر چل نکلنے والوں کا رد فرمایا ہے۔ اور ان کی سزا کا تذکرہ کیا ہے اس سے پہلے بیان کیا تھا کہ جو لوگ کفر کی حالت میں مرگئے تو اگر وہ زمین بھر سونا بھی فدیہ کے طور پر قیامت کو دینا چاہیں گے ، تو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا۔ کافر کی نجات ہرگز ممکن نہیں۔ اس کی طرف سے دنیا میں خرچ کیا ہوا مال کسی کام نہ آئیگا۔ قبولیت کا مدار ایمان پر ہے : آج کی آیت میں اہل ایمان سے خطاب ہے۔ انہیں یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔ کہ کافر خواہ کتنا بھی مال خرچ کریں۔ شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتے البتہ اہل ایمان تھوڑی سی چیز بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو اجرِ عظیم کا مستحق ٹھہرے گا۔ مقصد یہ کہ قبولیت کا مدار اسلام اور ایمان پر ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے۔ اخلص دینک یکفیک قلیل من العمل۔ اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو ، تھوڑا عمل بھی تمہارے لیے کفایت کرے گا۔ اخلاص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے عقائد کی اصلاح فرمانبرداری اور نیت کی درستگی سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہو ، تو اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز خرچ کرو ، تاکہ تمہیں اعلی درجے کی نیکی حاصل ہوجائے۔ بِر ، بَر اور اثم : بِر اور بَر کی اصطلاحیں قرآن و سنت میں کثرت سے استعمال ہوئی ہیں کہ بِر سے مراد جنت بھی ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اعلی درجے کی نیکی ہی کے ذریعے کوئی شخص جنت میں داخل ہوسکتا ہے۔ یامطلقاً بِر سے مراد نیکی ہے ، جس کی ادائیگی کے بعد انسان کو اچھا بدلہ مل سکتا ہے۔ مگر جب تک وہ اپنی محبوب چیز کو خرچ نہیں کرے گا۔ اعلی درجے کا معیار حاصل نہیں ہوسکتا۔ ان معانی میں پہلی آیتوں کے ساتھ ربط بھی پیدا ہوجائے گا۔ اہل کتاب اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ انہیں اپنی محبوب چودھراہٹ کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ نجران کے نصاریٰ نے یہی تو کہا تھا کہ اگر ہم ایمان قبول کرلیں تو ان کی جاگیر اور اعزاز ختم ہوجائے گا۔ مقصد یہ کہ اگر اعلی درجے کی نیکی چاہتے ہو ، تو ان سب چیزوں کو قربان کرنا پڑے گا۔ محبوب چیز خواہ مال و دولت ہو یا جاہ و حشمت ان کی قربانی دینا پڑے گی۔ مگر اہل کتاب اس کے لیے تیار نہ تھے۔ بَر اللہ تعالیٰ کا اسم پاک بھی ہے۔ البر الرحیم۔ بہت احسان کرنے والا خدا تعالیٰ ہی ہے۔ بار نیکوکار آدمی کو کہتے ہیں۔ اور اس کی جمع ابرار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابرار یعنی نیکوکار بندوں کی تعریف فرمائی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کسی نے حضور ﷺ سے دریافت کیا۔ حضرت ! بِر کس کو کہتے ہیں۔ فرمایا۔ البر ما اطمئن الیہ النفس۔ یعنی بِر وہ ہے ، جس سے نفس کو اطمینان حاصل ہو۔ اور اثم وہ ہے۔ ما حاک فی الصدر و کرھت ان یطلع علیہ الناس۔ جس سے دل میں کھٹکا پیدا ہو۔ اور تم یہ پسند نہ کرو۔ کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔ ایسی چیز کو ترک کرنا چاہئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں۔ کہ بِر ہر ایسا کام ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور اس کی طرف سے الہام پا کر اس کی مراد میں فنا ہو کر کیا جائے۔ نیز ہر ایسا کام بِر کی تعریف میں آتا ہے جس کی وجہ سے ارتفاقات میں اصلاح پیدا ہوتی ہے۔ روز مرہ زندگی میں اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، حجابات ہٹتے ہیں۔ اور ایسے اعمال کی بدولت دنیا اور آخرت میں اچھا نتیجہ ملتا ہے۔ برخلاف اس کے اثم ایسا فعل ہے ، جو شیطان کی اطاعت کے جذبے سے انجام دیا جاتا ہے اس سے ارتفاقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اور دنیا کے طور طریقوں میں فساد برپا ہوتا ہے ، ایسا فعل انسان میں حجابات پیدا کرتا ہے۔ اور نافرمانی کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ یہ اثم ہے۔ اور اس کا نتیجہ دنیا وآخرت ہر دو مقامات پر برا ہی مرتب ہوتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔ لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔ ہرگز نہ پاؤگے تم اعلی درجے کی نیکی یہاں تک کہ اس چیز میں سے خرچ کرو جسے تم پسند کرتے ہو۔ سارا مال خرچ کرنے کا حکم نہیں ہے۔ بلکہ مما سے مراد ہے اپنی استطاعت کے مطابق۔ جب حضرت ابوطلحہ نے یہ آیت سنی تو حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا حضرت میرے باغات میں سے بیرحاء مجھے بہت محبوب ہے میں اسے اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ اس کو مناسب جگہ پر صرف فرما لیں۔ فرمایا ، خوب ، یہ مال بڑا فائدہ دینے والا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے۔ کہ اسے اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چناچہ ابوطلحہ ؓ نے وہ باغ اپنے تین چار اقرباء میں تقسیم کردیا۔ اس میں میٹھا پانی بھی تھا۔ حضور ﷺ کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کے کنوئیں کا پانی نوش فرماتے۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ جو زمین مجھے خیبر میں ملی ہے وہ مجھے اپنے اموال میں سے زیادہ پیاری ہے میں چاہتا ہوں کہ اسے اللہ کی راہ میں دے دوں۔ آپ نے فرمایا اسے وقف کرو ، چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضور ﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ میرے پاس بڑی اچھی چال والا ایک گھوڑا ہے اور وہ مجھے بڑا محبوب ہے ، میں اسے اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں سرور کائنات نے فرمایا ، بہت اچھے ی بات ہے دے دو ۔ عرض کیا ، حضور ! جسے آپ مناسب سمجھیں دے دیں۔ آپ نے وہ گھوڑا زید ہی کے بیٹے حضرت اسامہ کو دے دیا۔ تاکہ وہ اسے جہاد میں استعمال کرسکیں۔ اس پر زید ؓ کو کچھ تردد ہوا ۔ کہ میں تو اللہ کی راہ میں دینا چاہتا تھا ، مگر حضور (ﷺ) نے میرے اپنے بیٹے کو ہی عنایت کردیا۔ حضور ﷺ کو پتہ چلا ، تو فرمایا ، تردد مت کرو۔ جب تم نے اللہ کی راہ میں دے دیا تو اللہ نے اسے قبول کرلیا ، تمہارا بیٹا اس کا مستحق تھا ، لہذا تمہارے صدقے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس ایک بڑی اچھی رومی لونڈی تھی جو آپ کو بڑی عزیز تھی۔ آپ نے اس کو اللہ کی راہ میں آزاد کردیا۔ خود فرمایا کرتے تھے۔ کہ اگر میں اپنی دی ہوئی چیزوں میں سے واپس لینا چاہتا تو یقیناً اس سے نکاح کرلیتا۔ مگر میں اس کو فی سبیل اللہ آزاد کرچکا ہوں۔ پھر آپ نے مشورہ کرکے اپنے شاگرد نافع سے اس لونڈی کا نکاح کرا دیا۔ مقصد یہ کہ اپنی محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بلاشبہ اعلی درجے کی نیکی ہے۔ پچھلی سورة میں گزر چکا ہے کہ اللہ کی راہ میں اچھی چیز خرچ کرنی چاہئے نہ کہ ردی چیز۔ جب تم خود ناقص چیز پسند نہیں کرتے تو ایسی چیز اللہ کی راہ میں کیسے دیتے ہو۔ حکم تو یہ ہے۔ انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض۔ یعنی اپنی کمائی میں سے اچھی سے اچھی اور پاکیزہ سے پاکیزہ چیز خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ کسی نے حضور ﷺ سے دریافت کیا۔ حضور ! کونسا غلام آزاد کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فرمایا جو مالک کے نزدیک زیادہ پیارا ہو۔ جیسا کہ قربانی کے ضمن میں آتا ہے کہ اچھے سے اچھا ، خوب موتا تازہ ، پالا پوسا ہوا جانور اللہ کی راہ میں قربان کرو۔ اس سے اجر بھی زیادہ ملے گا۔ محبوب چیز کی قربانی : یہ چند مثالیں میں نے عرض کردیں۔ صحابہ کرام عام طور پر اعلی سے اعلی چیز خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ تھوڑا ہو یا زیادہ ایمان ، اسلام اور اطاعت کے جذبہ سے ہوگا ، تو قبولیت کے درجہ کو پہنچے گا۔ اور اس کا اجر بھی اعلے درجے کا ہوگا۔ یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ خرچ کا تعلق صرف مال کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جو بھی کسی پاس محبوب چیز ہے ، اس کی قربانی دے کر اعلی مرتبہ حاصل کرسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو جاہ اور حکومت پیاری ہے تو اس کو قربان کرنا ہوگا۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے عہدہ اور منصب کے ذریعے مخلوق خدا کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔ اور اپنے ذہن سے ظالم اور جابر حاکم کا زعم نکال دے۔ یہی اس کی قربانی ہے۔ اگر کوئی حاکم کسی کا جائز کام نہیں کرتا ، ناجائز ذرائع سے مال اکٹھا کرتا ہے ، اپنے آرام و آسائش کی فکر میں رہتا ہے ، جو کوئی کوٹھی ، کار خادم اور دیگر آرام و آسائش کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ تو اسے اعلی درجے کی نیکی کہاں حاصل ہوسکتی ہے ، اسے تو یہ چیزیں قربان کرنا ہوں گی۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا ہے ۔ ہیچ خیر از چشمک زرکش مجو لن تنالوا البر حتی تنفقوا سونا کھینچنے والی نگاہوں سے کبھی نیکی کی امید نہ رکھو ، جو شخص مال اکٹھا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ وہ نیکی کو کیسے پہنچ سکتا ہے۔ نیکی تو جب حاصل ہوگی جب اپنی محبوب چیز کی قربانی کروگے۔ معاشی نظام : سرمایہ داری نظام میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے بنک بیلنس کی فکر میں رہتا ہے جائز و ناجائز ، حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں۔ مال آنا چاہئے خواہ کسی راستے سے آئے مگر دوسرے کے ساتھ نیکی کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ جو شخص خود دوسروں کا خون چوستا ہے۔ حرام کھاتا ہے ، سود خور ہے ، لوگوں کی حق تلفی کرتا ہے ، اس سے نیکی کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ اسی لیے قرآن نے سرمایہ دارانہ نظام کو لعنتی نظام قرار دیا ہے۔ امریکہ برطانیہ ، فرانس سب لعنتی نظام معیشت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وسائل معیشت اکثر ناجائز ہیں۔ مال اکٹھا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ، دوسری طرف الحادی نظام ہے۔ یہ سراسر خدا تعالیٰ اور شرائع الہیہ کا انکار ہے۔ روس اور چین وغیرہ میں یہی نظام ہے مگر سرمایہ دارانہ نظام کی طرح یہ اشتراکی نظام بھی ملعون ہے۔ ہاں جو نظام معیشت انبیاء (علیہم السلام) نے پیش کیا ہے۔ یہی صحیح اسلامی نظام ہے۔ اس کے ذرائع آمدن بھی جائز ہیں اور یہ حرام چیزوں پر خرچ بھی نہیں ہوتا۔ اس میں تعیش اور حرام خوری نہیں ہے۔ یہ نظام ناداروں اور غریبوں کی مدد کرتا ہے ، مظلوم کو اس کا حق دلاتا ہے۔ یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھتا ہے۔ اور بیواؤں کا سہارا بنتا ہے۔ اس نظام کے اپنانے والے مال اکٹھا نہیں کرتے ، انہیں جاہ و حشمت کی کوئی خواہش نہیں ہوتی ، بلکہ ان میں قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ تاجروں کے لیے لمحہ فکریہ : کسی قوم اور ملک کی معیشت میں تاجر حضرات مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ان کا رویہ مثبت ہوگا ، حرام کی کمائی سے بچیں گے ، تو دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیاب ہوں گے ، ورنہ خوار ہوں گے ، حضور ﷺ نے تاجروں کو مخاطب کرکے فرمایا ، اے تاجروں کے گروہ ! یاد رکھو ، قیامت کے دن اکثر تاجر ، فاجر اٹھائے جائیں گے۔ الا من اعطی و بر و صدق۔ سوائے اس کو جو نیکی والا ہوگا ، سچائی والا ہوگا ، اور تقوی والا ہوگا ، ایسے ہی لوگ نبیوں۔ صدیقوں ، شہیدوں اور نیکو کاروں کی قطار میں کھڑے ہوں گے۔ حضور نبی کریم ﷺ بازار میں تشریف لے گئے اور فرمایا ، اے تجار ! میں تم کو ایک بات کہتا ہوں ، تم دو چیزوں کے والی بنائے گئے ہو۔ انہی دو چیزوں کی وجہ سے پہلی کئی امتیں تباہ ہوئیں فرمایا وہ دو چیزیں الکیل والوزن ترازو اور پیمانہ ہیں۔ ان میں کمی بیشی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو ہلاک کیا ، عذاب میں مبتلا کیا ، یہ لوگوں کی حق تلفی کرتے تھے۔ ویل للمطففین۔ میں اسی بات کی طر فاشارہ کیا گیا ہے۔ کہ ماپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ سورة الرحمن میں فرمایا۔ واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسرو المیزان۔ ترازو میں کمی نہ کرو ، بلکہ پورا پورا تولو۔ انصاف کرو ، ناانصافی نہ کرو۔ اسراف و تبذیر : بہرحال اسلام کے علاوہ جو بھی نظام معیشت ہے ، سب ملعون ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ البتہ اسلام کا نظام اور انبیاء کا نظام بالکل الگ ہے۔ اس میں حلال و حرام کی پابندیاں ، اسراف و تبذیر کی پابندیاں ہیں۔ اسی لیے تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ الدنیا سجن المومن۔ یہ دنیا مومن کا قید خانہ ہے۔ مومن جب کلمہ پڑھ لیتا ہے۔ تو پھ اس پر بہت سی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ نہ وہ حرام مال حاصل کرسکتا ہے اور نہ حرام مقام پر خرچ کرسکتا ہے۔ آج کل فضول رسومات میں بےدریغ روپیہ صرف کیا جا رہا ہے اور اسے بڑی عزت سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ سراسر اسراف ہے۔ قرآن پاک نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا ہے۔ ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین۔ حضرت شاہ محمد یعقوب بھوپالی فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان اسراف کو بڑی عزت سمجھتے ہیں ، حالانکہ یہ صریحاً خلاف شرع ہے۔ مثال کے طور پر فرماتے ہیں کہ مسلمان کی عادت بن چکی ہے۔ کہ شادی میں تمام رشتہ داروں کو بلایا جاتا ہے۔ صاحب خانہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس موقع پر کوئی رشتہ دار ناراض نہیں رہنا چاہئے۔ سب کو منت سماجت کرکے راضی کیا جاتا ہے اور تقریب میں بلایا جاتا ہے البتہ اپنی غلط رسوم اور اسراف کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کو رخصت کردیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ جائیں ، ہمارے لیے ہمارے رشتہ دار کافی ہیں۔ اس طرح اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کی جاتی۔ اب دیکھیے ربیع الاول آ رہا ہے۔ مسلمان جھنڈیاں لگا کر حضور ﷺ کی اتباع کا دعویدار بن رہا ہے۔ مگر یہ نہیں سوچتا کہ وہ اسراف کا ارتکاب کرکے حضور نبی کریم ﷺ کی مخالفت کر رہا ہے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ہرگز نہ پا سکوگے اعلی درجے کی نیکی یہاں تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزکو خرچ کرو۔ وما تنفقوا من شیء۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو ، فان اللہ بہ علیم۔ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جاننے والا ہے اسے علم ہے۔ کہ تم کس نیت اور جذبے کے تحت خرچ کر رہے ہو۔ لہذ اس کا بدلہ بھی نیت اور جذبے کے مطابق ہی ملے گا۔
Top