Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا
: تم ہرگز نہ پہنچو گے
الْبِرَّ
: نیکی
حَتّٰى
: جب تک
تُنْفِقُوْا
: تم خرچ کرو
مِمَّا
: اس سے جو
تُحِبُّوْنَ
: تم محبت رکھتے ہو
وَمَا
: اور جو
تُنْفِقُوْا
: تم خرچ کروگے
مِنْ شَيْءٍ
: سے (کوئی) چیز
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِهٖ
: اس کو
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
ہرگز حاصل نہ کرسکوگے نیکی یہاں تک کہ تم خرچ کرو اس چیز میں سے جسے تم پسند کرتے ہو۔ اور جو چیز بھی تم خرچ کروگے۔ بیشک اللہ تعالیٰ اس کو خوب جاننے والا ہے۔
ربط آیات : سورۃ آل عمران کے ابتدائی حصے میں زیادہ تر نصاری کی تردید کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے غلط عقائد کا رد فرمایا ہے۔ اور انہیں اصلاح کی دعوت دی ہے تاہم اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے یہودیوں کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بھی خرابیاں بیان کی ہیں ، اور ان کے غلط عقائد کی تردید کی ہے اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔ دین اسلام کے برحق ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی پیروی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ نیز واضح فرمایا ہے کہ اسلام کے سوا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا۔ اور اسلام کے علاوہ کسی دین میں کامیابی ممکن نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہدایت اختیار کرنے کے بعد دوبارہ گمراہی کے راستہ پر چل نکلنے والوں کا رد فرمایا ہے۔ اور ان کی سزا کا تذکرہ کیا ہے اس سے پہلے بیان کیا تھا کہ جو لوگ کفر کی حالت میں مرگئے تو اگر وہ زمین بھر سونا بھی فدیہ کے طور پر قیامت کو دینا چاہیں گے ، تو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا۔ کافر کی نجات ہرگز ممکن نہیں۔ اس کی طرف سے دنیا میں خرچ کیا ہوا مال کسی کام نہ آئیگا۔ قبولیت کا مدار ایمان پر ہے : آج کی آیت میں اہل ایمان سے خطاب ہے۔ انہیں یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔ کہ کافر خواہ کتنا بھی مال خرچ کریں۔ شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتے البتہ اہل ایمان تھوڑی سی چیز بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو اجرِ عظیم کا مستحق ٹھہرے گا۔ مقصد یہ کہ قبولیت کا مدار اسلام اور ایمان پر ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے۔ اخلص دینک یکفیک قلیل من العمل۔ اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو ، تھوڑا عمل بھی تمہارے لیے کفایت کرے گا۔ اخلاص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے عقائد کی اصلاح فرمانبرداری اور نیت کی درستگی سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہو ، تو اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز خرچ کرو ، تاکہ تمہیں اعلی درجے کی نیکی حاصل ہوجائے۔ بِر ، بَر اور اثم : بِر اور بَر کی اصطلاحیں قرآن و سنت میں کثرت سے استعمال ہوئی ہیں کہ بِر سے مراد جنت بھی ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اعلی درجے کی نیکی ہی کے ذریعے کوئی شخص جنت میں داخل ہوسکتا ہے۔ یامطلقاً بِر سے مراد نیکی ہے ، جس کی ادائیگی کے بعد انسان کو اچھا بدلہ مل سکتا ہے۔ مگر جب تک وہ اپنی محبوب چیز کو خرچ نہیں کرے گا۔ اعلی درجے کا معیار حاصل نہیں ہوسکتا۔ ان معانی میں پہلی آیتوں کے ساتھ ربط بھی پیدا ہوجائے گا۔ اہل کتاب اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ انہیں اپنی محبوب چودھراہٹ کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ نجران کے نصاریٰ نے یہی تو کہا تھا کہ اگر ہم ایمان قبول کرلیں تو ان کی جاگیر اور اعزاز ختم ہوجائے گا۔ مقصد یہ کہ اگر اعلی درجے کی نیکی چاہتے ہو ، تو ان سب چیزوں کو قربان کرنا پڑے گا۔ محبوب چیز خواہ مال و دولت ہو یا جاہ و حشمت ان کی قربانی دینا پڑے گی۔ مگر اہل کتاب اس کے لیے تیار نہ تھے۔ بَر اللہ تعالیٰ کا اسم پاک بھی ہے۔ البر الرحیم۔ بہت احسان کرنے والا خدا تعالیٰ ہی ہے۔ بار نیکوکار آدمی کو کہتے ہیں۔ اور اس کی جمع ابرار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابرار یعنی نیکوکار بندوں کی تعریف فرمائی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کسی نے حضور ﷺ سے دریافت کیا۔ حضرت ! بِر کس کو کہتے ہیں۔ فرمایا۔ البر ما اطمئن الیہ النفس۔ یعنی بِر وہ ہے ، جس سے نفس کو اطمینان حاصل ہو۔ اور اثم وہ ہے۔ ما حاک فی الصدر و کرھت ان یطلع علیہ الناس۔ جس سے دل میں کھٹکا پیدا ہو۔ اور تم یہ پسند نہ کرو۔ کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔ ایسی چیز کو ترک کرنا چاہئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں۔ کہ بِر ہر ایسا کام ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور اس کی طرف سے الہام پا کر اس کی مراد میں فنا ہو کر کیا جائے۔ نیز ہر ایسا کام بِر کی تعریف میں آتا ہے جس کی وجہ سے ارتفاقات میں اصلاح پیدا ہوتی ہے۔ روز مرہ زندگی میں اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، حجابات ہٹتے ہیں۔ اور ایسے اعمال کی بدولت دنیا اور آخرت میں اچھا نتیجہ ملتا ہے۔ برخلاف اس کے اثم ایسا فعل ہے ، جو شیطان کی اطاعت کے جذبے سے انجام دیا جاتا ہے اس سے ارتفاقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اور دنیا کے طور طریقوں میں فساد برپا ہوتا ہے ، ایسا فعل انسان میں حجابات پیدا کرتا ہے۔ اور نافرمانی کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ یہ اثم ہے۔ اور اس کا نتیجہ دنیا وآخرت ہر دو مقامات پر برا ہی مرتب ہوتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔ لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔ ہرگز نہ پاؤگے تم اعلی درجے کی نیکی یہاں تک کہ اس چیز میں سے خرچ کرو جسے تم پسند کرتے ہو۔ سارا مال خرچ کرنے کا حکم نہیں ہے۔ بلکہ مما سے مراد ہے اپنی استطاعت کے مطابق۔ جب حضرت ابوطلحہ نے یہ آیت سنی تو حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا حضرت میرے باغات میں سے بیرحاء مجھے بہت محبوب ہے میں اسے اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ اس کو مناسب جگہ پر صرف فرما لیں۔ فرمایا ، خوب ، یہ مال بڑا فائدہ دینے والا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے۔ کہ اسے اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چناچہ ابوطلحہ ؓ نے وہ باغ اپنے تین چار اقرباء میں تقسیم کردیا۔ اس میں میٹھا پانی بھی تھا۔ حضور ﷺ کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کے کنوئیں کا پانی نوش فرماتے۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ جو زمین مجھے خیبر میں ملی ہے وہ مجھے اپنے اموال میں سے زیادہ پیاری ہے میں چاہتا ہوں کہ اسے اللہ کی راہ میں دے دوں۔ آپ نے فرمایا اسے وقف کرو ، چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضور ﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ میرے پاس بڑی اچھی چال والا ایک گھوڑا ہے اور وہ مجھے بڑا محبوب ہے ، میں اسے اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں سرور کائنات نے فرمایا ، بہت اچھے ی بات ہے دے دو ۔ عرض کیا ، حضور ! جسے آپ مناسب سمجھیں دے دیں۔ آپ نے وہ گھوڑا زید ہی کے بیٹے حضرت اسامہ کو دے دیا۔ تاکہ وہ اسے جہاد میں استعمال کرسکیں۔ اس پر زید ؓ کو کچھ تردد ہوا ۔ کہ میں تو اللہ کی راہ میں دینا چاہتا تھا ، مگر حضور (ﷺ) نے میرے اپنے بیٹے کو ہی عنایت کردیا۔ حضور ﷺ کو پتہ چلا ، تو فرمایا ، تردد مت کرو۔ جب تم نے اللہ کی راہ میں دے دیا تو اللہ نے اسے قبول کرلیا ، تمہارا بیٹا اس کا مستحق تھا ، لہذا تمہارے صدقے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس ایک بڑی اچھی رومی لونڈی تھی جو آپ کو بڑی عزیز تھی۔ آپ نے اس کو اللہ کی راہ میں آزاد کردیا۔ خود فرمایا کرتے تھے۔ کہ اگر میں اپنی دی ہوئی چیزوں میں سے واپس لینا چاہتا تو یقیناً اس سے نکاح کرلیتا۔ مگر میں اس کو فی سبیل اللہ آزاد کرچکا ہوں۔ پھر آپ نے مشورہ کرکے اپنے شاگرد نافع سے اس لونڈی کا نکاح کرا دیا۔ مقصد یہ کہ اپنی محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بلاشبہ اعلی درجے کی نیکی ہے۔ پچھلی سورة میں گزر چکا ہے کہ اللہ کی راہ میں اچھی چیز خرچ کرنی چاہئے نہ کہ ردی چیز۔ جب تم خود ناقص چیز پسند نہیں کرتے تو ایسی چیز اللہ کی راہ میں کیسے دیتے ہو۔ حکم تو یہ ہے۔ انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض۔ یعنی اپنی کمائی میں سے اچھی سے اچھی اور پاکیزہ سے پاکیزہ چیز خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ کسی نے حضور ﷺ سے دریافت کیا۔ حضور ! کونسا غلام آزاد کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فرمایا جو مالک کے نزدیک زیادہ پیارا ہو۔ جیسا کہ قربانی کے ضمن میں آتا ہے کہ اچھے سے اچھا ، خوب موتا تازہ ، پالا پوسا ہوا جانور اللہ کی راہ میں قربان کرو۔ اس سے اجر بھی زیادہ ملے گا۔ محبوب چیز کی قربانی : یہ چند مثالیں میں نے عرض کردیں۔ صحابہ کرام عام طور پر اعلی سے اعلی چیز خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ تھوڑا ہو یا زیادہ ایمان ، اسلام اور اطاعت کے جذبہ سے ہوگا ، تو قبولیت کے درجہ کو پہنچے گا۔ اور اس کا اجر بھی اعلے درجے کا ہوگا۔ یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ خرچ کا تعلق صرف مال کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جو بھی کسی پاس محبوب چیز ہے ، اس کی قربانی دے کر اعلی مرتبہ حاصل کرسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو جاہ اور حکومت پیاری ہے تو اس کو قربان کرنا ہوگا۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے عہدہ اور منصب کے ذریعے مخلوق خدا کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔ اور اپنے ذہن سے ظالم اور جابر حاکم کا زعم نکال دے۔ یہی اس کی قربانی ہے۔ اگر کوئی حاکم کسی کا جائز کام نہیں کرتا ، ناجائز ذرائع سے مال اکٹھا کرتا ہے ، اپنے آرام و آسائش کی فکر میں رہتا ہے ، جو کوئی کوٹھی ، کار خادم اور دیگر آرام و آسائش کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ تو اسے اعلی درجے کی نیکی کہاں حاصل ہوسکتی ہے ، اسے تو یہ چیزیں قربان کرنا ہوں گی۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا ہے ۔ ہیچ خیر از چشمک زرکش مجو لن تنالوا البر حتی تنفقوا سونا کھینچنے والی نگاہوں سے کبھی نیکی کی امید نہ رکھو ، جو شخص مال اکٹھا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ وہ نیکی کو کیسے پہنچ سکتا ہے۔ نیکی تو جب حاصل ہوگی جب اپنی محبوب چیز کی قربانی کروگے۔ معاشی نظام : سرمایہ داری نظام میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے بنک بیلنس کی فکر میں رہتا ہے جائز و ناجائز ، حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں۔ مال آنا چاہئے خواہ کسی راستے سے آئے مگر دوسرے کے ساتھ نیکی کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ جو شخص خود دوسروں کا خون چوستا ہے۔ حرام کھاتا ہے ، سود خور ہے ، لوگوں کی حق تلفی کرتا ہے ، اس سے نیکی کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ اسی لیے قرآن نے سرمایہ دارانہ نظام کو لعنتی نظام قرار دیا ہے۔ امریکہ برطانیہ ، فرانس سب لعنتی نظام معیشت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وسائل معیشت اکثر ناجائز ہیں۔ مال اکٹھا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ، دوسری طرف الحادی نظام ہے۔ یہ سراسر خدا تعالیٰ اور شرائع الہیہ کا انکار ہے۔ روس اور چین وغیرہ میں یہی نظام ہے مگر سرمایہ دارانہ نظام کی طرح یہ اشتراکی نظام بھی ملعون ہے۔ ہاں جو نظام معیشت انبیاء (علیہم السلام) نے پیش کیا ہے۔ یہی صحیح اسلامی نظام ہے۔ اس کے ذرائع آمدن بھی جائز ہیں اور یہ حرام چیزوں پر خرچ بھی نہیں ہوتا۔ اس میں تعیش اور حرام خوری نہیں ہے۔ یہ نظام ناداروں اور غریبوں کی مدد کرتا ہے ، مظلوم کو اس کا حق دلاتا ہے۔ یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھتا ہے۔ اور بیواؤں کا سہارا بنتا ہے۔ اس نظام کے اپنانے والے مال اکٹھا نہیں کرتے ، انہیں جاہ و حشمت کی کوئی خواہش نہیں ہوتی ، بلکہ ان میں قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ تاجروں کے لیے لمحہ فکریہ : کسی قوم اور ملک کی معیشت میں تاجر حضرات مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ان کا رویہ مثبت ہوگا ، حرام کی کمائی سے بچیں گے ، تو دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیاب ہوں گے ، ورنہ خوار ہوں گے ، حضور ﷺ نے تاجروں کو مخاطب کرکے فرمایا ، اے تاجروں کے گروہ ! یاد رکھو ، قیامت کے دن اکثر تاجر ، فاجر اٹھائے جائیں گے۔ الا من اعطی و بر و صدق۔ سوائے اس کو جو نیکی والا ہوگا ، سچائی والا ہوگا ، اور تقوی والا ہوگا ، ایسے ہی لوگ نبیوں۔ صدیقوں ، شہیدوں اور نیکو کاروں کی قطار میں کھڑے ہوں گے۔ حضور نبی کریم ﷺ بازار میں تشریف لے گئے اور فرمایا ، اے تجار ! میں تم کو ایک بات کہتا ہوں ، تم دو چیزوں کے والی بنائے گئے ہو۔ انہی دو چیزوں کی وجہ سے پہلی کئی امتیں تباہ ہوئیں فرمایا وہ دو چیزیں الکیل والوزن ترازو اور پیمانہ ہیں۔ ان میں کمی بیشی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو ہلاک کیا ، عذاب میں مبتلا کیا ، یہ لوگوں کی حق تلفی کرتے تھے۔ ویل للمطففین۔ میں اسی بات کی طر فاشارہ کیا گیا ہے۔ کہ ماپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ سورة الرحمن میں فرمایا۔ واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسرو المیزان۔ ترازو میں کمی نہ کرو ، بلکہ پورا پورا تولو۔ انصاف کرو ، ناانصافی نہ کرو۔ اسراف و تبذیر : بہرحال اسلام کے علاوہ جو بھی نظام معیشت ہے ، سب ملعون ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ البتہ اسلام کا نظام اور انبیاء کا نظام بالکل الگ ہے۔ اس میں حلال و حرام کی پابندیاں ، اسراف و تبذیر کی پابندیاں ہیں۔ اسی لیے تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ الدنیا سجن المومن۔ یہ دنیا مومن کا قید خانہ ہے۔ مومن جب کلمہ پڑھ لیتا ہے۔ تو پھ اس پر بہت سی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ نہ وہ حرام مال حاصل کرسکتا ہے اور نہ حرام مقام پر خرچ کرسکتا ہے۔ آج کل فضول رسومات میں بےدریغ روپیہ صرف کیا جا رہا ہے اور اسے بڑی عزت سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ سراسر اسراف ہے۔ قرآن پاک نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا ہے۔ ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین۔ حضرت شاہ محمد یعقوب بھوپالی فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان اسراف کو بڑی عزت سمجھتے ہیں ، حالانکہ یہ صریحاً خلاف شرع ہے۔ مثال کے طور پر فرماتے ہیں کہ مسلمان کی عادت بن چکی ہے۔ کہ شادی میں تمام رشتہ داروں کو بلایا جاتا ہے۔ صاحب خانہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس موقع پر کوئی رشتہ دار ناراض نہیں رہنا چاہئے۔ سب کو منت سماجت کرکے راضی کیا جاتا ہے اور تقریب میں بلایا جاتا ہے البتہ اپنی غلط رسوم اور اسراف کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کو رخصت کردیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ جائیں ، ہمارے لیے ہمارے رشتہ دار کافی ہیں۔ اس طرح اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کی جاتی۔ اب دیکھیے ربیع الاول آ رہا ہے۔ مسلمان جھنڈیاں لگا کر حضور ﷺ کی اتباع کا دعویدار بن رہا ہے۔ مگر یہ نہیں سوچتا کہ وہ اسراف کا ارتکاب کرکے حضور نبی کریم ﷺ کی مخالفت کر رہا ہے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ہرگز نہ پا سکوگے اعلی درجے کی نیکی یہاں تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزکو خرچ کرو۔ وما تنفقوا من شیء۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو ، فان اللہ بہ علیم۔ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جاننے والا ہے اسے علم ہے۔ کہ تم کس نیت اور جذبے کے تحت خرچ کر رہے ہو۔ لہذ اس کا بدلہ بھی نیت اور جذبے کے مطابق ہی ملے گا۔
Top