Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 98
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ کہ دیجئے اے اہل کتاب ! تم اللہ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو۔ اللہ گواہ ہے۔ ان چیزوں پر جو تم کرتے ہو۔
ربط آیات : گذشتہ اسباق میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے غلط ملط اعتراضات کے جوابات دیے اور ملت ابراہیمی کی وضاحت فرمائی۔ اور یہ بھی واضح کیا کہ حضور خاتم النبیین ﷺ اور آپ کے ساتھی ہی اصل ملت ابراہیمی پر قائم ہیں۔ اس کے علاوہ ملت ابراہیمی کے مرکزی قبلہ بیت اللہ شریف کا تذکرہ ہوا ، اور اس کے فضائل بھی بیان ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کے اتباع کا بطور خصوصی حکم دیا۔ اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بطور نصیحت اور تنبیہ اہل کتاب سے خطاب فرمایا ہے۔ کہ جب ھضور (علیہ السلام) کا ملت ابراہیمی پر قائم ہونا ثابت ہوچکا ، تو پھر اہل کتاب کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیئے۔ اور انہیں جان لینا چاہیئے۔ کہ ان کا اپنا طریقہ خود ساختہ ہے۔ جسے ملت ابراہیمی سے کوئی واسطہ نہیں۔ تکفیر آیات : ارشاد ہوتا ہے قل یاھل الکتب اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ اہل کتاب سے خطاب فرمائیں۔ اور کہ دیں اے اہل کتاب ! اہل کتاب سے مراد یہود و نصاری ہیں جو اپنے آپ کو اللہ کی کتابوں تورات اور انجیل کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لغوی طور پر تو اہل کتاب ہر وپ شخص ہے جو کسی بھی آسمانی کتاب پر ایمان لاتا ہے یا اس کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے۔ مگر حضور ﷺ سے پہلے نازل ہونے والی دیگر کتب و صحائف کے ماننے والوں نے اپنا سلسلہ منقطع کردیا تھا ۔ لہذا اہل کتاب کا اطلاق ان دو گروہوں یعنی یہود ونصاری پر ہوتا ہے۔ جو اپنی نسبت تورات اور انجیل کی طرف کرتے تھے۔ قرآن پاک نے اہل کتاب کا لقب صرف انہی دو اقوام کو دیا ہے ، اور جگہ جگہ ان کو خطاب کیا ہے۔ فرمایا اے پیغمبر ﷺ آپ اہل کتاب سے کہ دیں لم تکفرون بایت اللہ تم اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو۔ آیات میں اللہ کی توحید اور اس کے احکام ، دلائل وبراہین اور معجزات وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب یہ سب چیزیں تمہارے پاس پہنچ چکی ہیں ، تو پھر تم انکار کیوں کرتے ہو ، ایمان کیوں نہیں لے آتے۔ یاد رکھو ، واللہ شھید علی ما تعلمون تم جو کچھ کر رہے ہو ، اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہے۔ یعنی سب کچھ اس کے سامنے ہو رہا ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لہذا تمہارا فرض ہے کہ حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد اس پر ایمان لے آؤ اور اگر پھر بھی تم کفر پر اڑے رہے ، تو پھر یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ نہیں سکو گے۔ خدا تعالیٰ سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ شھید کا یہی معنی ہے۔ صراط مستقیم میں رکاوٹ : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے شکوے کے انداز میں فرمایا ہے۔ قل یاھل الکتب اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ اہل کتاب سے کہ دیں لم تصدون عن سبیل اللہ من امن تم اہل ایمان کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو۔ جو لوگ ایمان کی دولت سے مالامال ہوچکے ہیں۔ تم چاہتے ہو ، کہ وہ پھر ایمان سے پھرجائیں۔ اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے مختلف حیلے بہانے کرتے ہو۔ منجملہ ان کے ایک صورت یہ ہے ، تبغونھا عوجا کہ تم صراط مستقیم میں عیب ، نقص اور کجی تلاش کرتے ہو۔ تاکہ اس کا اظہار کر کے لوگوں میں دین حق سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی جائیں اور وہ اس سیدھے راستے کو چھوڑنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اللہ نے فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو۔ مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے کے لیے یہودیوں نے اوس اور خذرج کی پرانی دشمنی کو زندہ کرنے کی کوشش کی ، مگر اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے۔ کہ اوس اور ضذرج کے قبائل مدینے میں سینکڑوں سال سے آباد تھے ، کافی بڑی تعداد والے قبیلے تھے۔ ان کا اصل تعلق یمنی خاندانوں سے تھا مگر مدینے میں آکر آباد ہوگئے۔ مشہور ہے۔ کہ یہ دونوں قبیلے ایک معمولی سی بات پر لڑائی میں ملوث ہوئے اور یہ لڑائی ایک سو بیس سال 120 تک چلتی رہی حضور ﷺ کے درود مدینہ کے بعد یہ لوگ مسلمان ہوگئے اور اپنی تمام پرانی رنجش ترک کر کے آپس میں شیر و شکر ہوگئے۔ یہودی مسلمانوں کو کسی صورت پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کسی مجلس میں ان دونوں قبائل کے لوگ موجود تھے۔ وہاں شاس ابن قیس یہودی نے یہ اشعار پڑھے یا پڑھوائے جس سے ان دونوں قبیلوں کی پرانی حمیت جاہلیہ پھر بیدار ہوگئی قریب تھا کہ ان میں پھر فساد کی آگ بھڑک اٹھتی کہ حضور ﷺ وہاں تشریف لے آئے اور فرمایا ، بڑے افسوس کی بات ہے۔ کہ میں اللہ کا پیغمبر تمہارے درمیان موجود ہوں مگر تم پھر پرانی عصبیت کی باتیں کرنے لگے ہو۔ آپ (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو سخت تنبیہ فرمائی ، تو وہ تائب ہو کر لڑائی سے باز آگئے۔ تاہم یہودیوں نے ان مسلمان قبیلوں کو لڑانے کی پوری کوشش کی تاکہ یہ اسلام سے بدظن ہو کر دوبارہ کفر کا راستہ اختیار کریں۔ اللہ نے فرمایا ، تم ایسا برا کام کیوں کرتے ہو۔ موجودہ زمانے کے یہودی بھی اسلام کے خلاف سازش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہ انہوں نے مصر سے تحریف شدہ قرآن پاک شائع کر کے پوری دنیا میں تقسیم کیا۔ آہت کریمہ " ومن یبتغ غیرالاسلام دینا " میں لفظ غیر کو اڑا کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ کبھی الفاظ بدلے ، کبھی معنی بدلے اور کبھی قرآن پاک میں موجود پیش گوئیوں کو جھٹلانے کی کوشش کی۔ تاکہ مسلمانوں میں اشتباہ پیدا ہوجائے اور وہ اسلام سے بدظن ہوجائیں۔ ان کا مقصد یہی ہے۔ کہ اسلام میں کجی تلاش کی جائے اور پھر اسے خوب مشتہر کیا جائے۔ مشرقین نے اس ضمن میں بڑی کوششیں کی ہیں۔ وہ علوم شرقیہ پر عبور حاصل کر کے قرآن و حدیث کی تفسیر و تشریح کرتے ہیں اور پھر ان میں نہایت ہوشیاری کے ساتھ باطل نظریات داخل کردیتے ہیں تاکہ لوگ اسلام سے بیزار ہوجائیں۔ بحر حال اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کے ذریعے اہل کتاب سے فرمایا کہ تم ان لوگوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو ، جو ایمان لا چکے ہیں۔ تم اللہ کے راستے میں کجی تلاش کرتے ہو۔ وانتم شھداء حالانکہ تم گواہ ہو۔ شہداء ، شہید کی جمع ہے۔ جس کا عام فہم معنی گواہ ہے۔ یعنی اے اہل کتاب تم گواہ ہو ۔ امام ابوبکر جصاص (رح) مفسر قرآن فرماتے ہیں۔ کہ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب کی گواہی مسلمان پر کیسے معتبر ہوگی ، جب کہ گواہی کے لیے دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہونا قرآن پاک کی رو سے ضروری ہے اس کا جواب امام صاحب یہ فرماتے ہیں ۔ کہ یہاں شہید سے مراد گواہ نہیں بلکہ اہل علم ہے۔ چناچہ انتم شھداء کا معنی انتم علمین ہوگا ا یعنی تم جانتے ہو۔ اور جان بوجھ کر اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہو۔ فرماتے ہیں۔ کہ اس کا دوسرا معنی انتم عقلاء بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی تم عقل و شعور رکھتے ہو مگر جان بوجھ کر اسلام کی راہ میں رکاوٹ کھڑع کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ موجودہ زمانے کے یہودیوں نے ایک اور حربہ استعمال کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اہل اسلام کے دلوں میں نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کی محبت موجزن ہے ہم ان پر غالب نہیں آسکتے ، لہذا ان کی یہ کوشش ہے۔ کہ کسی طریقے سے اہل السلام کے دل سے حضور ﷺ کی محبت کو نکال دیا جائے۔ مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ آج کے زمانے میں کتنا بھی گیا گزرا مسلمان ہے۔ اس کا دل پیغمبر اسلام کی محبت سے سرشار ہے۔ اہل کتاب کی ان تمام کارستانیوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما اللہ بغافل عما تعملون اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے۔ وہ تمہاری نیتوں کو جانتا ہے۔ تم یقینا سخت ترین سزا کے مستحق ہوگے۔ اہل اسلام کو تنبیہ : اہل کتاب سے شکوہ کرنے کے بعد اب اہل ایمان سے خطاب ہے۔ اور انہیں تنبیہ کی جارہی ہے کہ کہیں یہود و نصاری کی سازش کا شکار نہ ہوجانا۔ اگر تم ان کے جال میں پھنس گئے ، تو وہ یقینا تمہارے ایمان پر ڈاکہ ڈالیں گے اور تمہیں ہمیشہ کے لیے ناکام و نامراد بنا دیں گے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ یایھا الذین امنو ان تطیعو فریقا من الذین اوتو الکتب اے اہل ایمان اگر تم اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی اطاعت کروگے ، ان کی بات مانو گے ، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ یردوکم بعد ایمانکم کفرین یہ لوگ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیر دیں گے ، ان کے دل میں یہ چیز بری طرح کھٹک رہی ہے۔ کہ تم کیوں ایمان آئے ہو۔ لہذا ان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے۔ کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے بدظن کر کے دوبارہ کفر کے اندھیروں میں دھکیل دیں۔ یہود ونصاری کی اس خصلت بد کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے۔ " ولن ترضی عنک الیھود ولا النصری ھتی تتبع ملتھم " یہود و نصاری آپ سے کبھی خوش نہیں ہوں گے۔ جب تک آپ اپنا دین چھوڑ کر ان کا دین اختیار نہ کرلیں تطیعو یعنی اطاعت میں عقیدہ اور اعمال دونوں چیزیں شامل ہیں۔ اگر تم نے اہل کتاب کی اطاعت عقیدے میں کی ، تو تمہارا عقیدہ بھی ویسا ہی ہوجائے گا ، جو کہ یقینا باطل عقیدہ ہے۔ ان کے عقیدے میں کفر و شرک شامل ہے۔ لہذا ان کی بات مان کر بھی کفر میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اور اگر تم نے اعمال میں ان کی بات تسلیم کی ، تو تمہارے اعمال بھی کافروں جیسے ہوجائیں گے۔ کر بحر حال کفر ہے۔ خواہ وہ عقیدے میں ہو یا عمل میں ہو۔ اور یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ لفار کے اعمال کی ایک مثال یہ ہے۔ کہ وہ آپس میں برسرپیکار رہتے ہیں۔ اور اگر مسلمان بھی ویسے ہی کام شروع کردیں ، تو دونوں میں کیا فرق رہ گیا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ سباب المومن فسوق وقتالہ کفر یعنی مسلمانوں کو گالی دینا فسق ہے۔ اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ کہ اہل کتاب سے ہوشیار رہو ، ان کی اطاعت نہ عقیدے میں کرو نہ اعمال میں۔ اگر ایسا کروگے تو ان کی خواہش کی تکمیل ہوگی اور وہ تمہیں ایمان کے نور سے نکال کر کفر کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔ اس کے بعد فرمایا وکیف تکفرون تم کس طرح کفر کروگے۔ وانتم تتلی علکیم ایت اللہ حالانکہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں۔ یعنی قرآن کریم نازل ہو رہا ہے۔ اور تمہارے لیے ہدایت کا سامان بہم پہنچایا جارہا ہے۔ اس صورت حال میں تم کیسے کفر کرسکتے ہو۔ اکثر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ صحابہ ؓ کے بارے میں ہے جو آپ کے زمانہ مبارک میں موجود تھے۔ چناچہ انہیں مخاطب کر کے کہا جارہا ہے۔ کہ نزول قرآن کے اس بابرکت ترین دور میں یہود و نصاری کی اطاعت اخ تیار کرلو ، تو یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہوگی۔ اور اگر اس خطاب کے مخاطبین میں صحابہ ؓ کے بعد آنے والے مسلمان بھی سمجھے جائیں تو اس کا معنی یہ ہوگا ، کہ اللہ کا قرآن تمہارے پاس موجود ہے جس کی تلاوت تم ہر روز کرتے ہو ، اس کے احکام کو سمجھتے ہو ، تو پھر تم کس طرح کفر کرتے ہو۔ فرمایا اہک تو اللہ کی آیتیں تم پر پڑھی جاتی ہیں ، اور دوسری بات یہ ہے۔ وفیکم رسولہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ جو تمہیں آیات پڑھ کر سناتا ہے۔ اور تمام احکام سے آگاہ کرتا ہے۔ تمہیں توحید اور ایمان کا درس دیتا ہے ، اور کفر و شرک سے بچاتا ہے۔ اس کے بعد تم کیسا کفر کروگے آیت کے اس حصہ کا بھی بظاہر اطلاق تو صحابہ کرام پر ہی ہوتا ہے جن کے درمیان حضور رسول مقبول ﷺ بنفس نفیس موجود تھے۔ تاہم اگر اس کا اطلاق بعد میں آنے والے اہل اسلام پر بھی کیا جائے ، تو اس کا مطلب یہ ہوگا ، کہ اگرچہ نبی اکرم ﷺ تم میں بذاتہ تو موجود نہیں ہیں مگر آپ کی سنت ، احادیث ، آثار ، تعلیمات اور شریعت تو تمہارے درمیان موجود ہے۔ اور قیامت تک باقی رہے گی ، اس کے باوجود تم یہود و نصاری کی بات مان کر گمراہی کا راستہ اختیار کرو ، تو کتنے افسوس کا مقام ہے۔ عقیدہ حاضر و ناظر : بعض اہل برعت اس مقام پر سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ وفیکم رسولہ کا مطلب یہ ہے۔ نبی (علیہ السلام) بنفس نفیس ہر زمانے اور ہر مقام پر تمہارے درمیان موجود ہیں۔ لہذا آپ حاضر و ناظر ہیں۔ حالانکہ امر مسلم یہ ہے کہ ہر وقت ہر مقام پر حاضر ناظر ہونا صرف اللہ کی صفت ہے۔ پیغمبر (علیہ السلام) کی یہ صفت نہیں ہے۔ مگر یہ لوگ بھی یہودیوں سے کم نہیں ہیں ، جو صحیح العقیدہ مسلمانوں کے عقیدے فاسد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے۔ جیسے پہلے آیت گزر چکی ہے " ومن دخلہ کان امنا " جو حرم شریف میں داخل ہوگیا ، اسے امن نصیب ہوگا ظاہری طور پر اسے کسی جرم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ جب تک وہ حرم سے باہر نہ آجائے اور باطنی طور پر دوزخ سے مامون ہوگا۔ گویا وہاں داخل ہوجانے والے کو امن حاصل ہوجانا بیت اللہ شریف کی خاص صفت ہے ، مگر یار لوگوں نے یہی عبارت خواجہ فرید الدین شکر گنج (رح) کے مزار کے دروازے پر لکھ دی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے۔ کہ جو اس دروازے میں داخل ہوگیا ، ظاہری اور باطنی طور پر مامون ہوگیا۔ یہ کتنی غلط بات ہے۔ جو چیز اللہ نے بیت اللہ شریف کے متعلق فرمائی ہے لوگوں نے اسے بناوٹی دروازے پر چسپاں کردیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں ، خواجہ صاھب نے تو اپنی زندگی میں کبھی نہ فرمایا ، کہ جو اس دروازے سے گزر گیا ، وہ جنتی ہوگیا ، خواہ وہ کفر شرک اور بدعت میں ہی کیوں نہ ملوث ہو۔ العیاذباللہ۔ خواجہ فرید الدین تو ماشاء اللہ شہخ السلام تھے۔ نہایت صالح اور نیک انسان تھے آپ کے ہاتھ پر لاکھوں افراد نے اسلام قبول کیا ، بہت سے راجپوت خاندان آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان سے غلط بات منسوب کرنا کس قدر ناانصافی ہے۔ واقعی لوگ بدعت اور شرک میں اندھے ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دین کی سمجھ عطا کرے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے جسے میسر آجائے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین اللہ تعالیٰ جس شجص کے بارے میں بہتری کا ارادہ فرماتا ہے ، اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور فضل ہے ، اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ الغرض ! وفیکم رسولہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ کا نبی تمہارے درمیان فی نفسہ موجود ہے ، بلکہ اس کی سنت اور شریعت موجود ہے۔ اس سے استفادہ کرتے رہو تو گمراہ نہیں ہوگے۔ اعتصام باللہ : فرمایا اہل کتاب تو تمہیں دین اسلام سے پھیر دینا چاہتے ہیں۔ مگر ومن یعتصم باللہ جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا فقد ھدی الی صراط مستقیم پس بیشک ایسے شخص کو ہدایت دی گئی سیدھے راستے کی۔ گویا ایسا شخص گمراہ نہیں ہوگا۔ اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کا معنی یہ ہے کی اس پر ایمان لائے ۔ اس کے دین کی باتوں پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو۔ جس نے اللہ کی ذات پر پورا پورا بھروسہ کیا ، اس نے اعتصام باللہ کو پا لیا۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہیئے ۔ کہ وہ اسباب پر بھی زیادہ انحصار نہ کرے بلکہ محض اللہ کی ذات پر ایمان رکھے ، اس پر توکل رکھے تو شیطان بھی دفع ہوگا۔ اور یہود ونصاری بھی اپنی سازش میں ناکام ہوں گے۔ بدعت ختم ہوگی۔ یہ اکسیری نسخہ ہے۔ اسلام کی تعلیم ہی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے۔ ہر کام اسی کے نام کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے۔ جو رحمن اور رحیم ہے اسی ذات پر ہمارا بھروسہ ہے ، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ تمام قوتوں کا مالک ہے یہی اعتصام باللہ ہے۔ لہذا جو کوئی اللہ پر ایمان لا کر اس کے احکام کو مضبوطی سے پکڑے گا ، وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔ یہاں پر اسی بات کی تعلیم دی گئی ہے۔
Top