Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے پیغمبر ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیں کہ اگر تم چاہتی ہو دنیا کی زندگی اور اس کی زینت ، پس آئو میں تمہیں فائدہ پہنچائوں اور رخصت کر دوں تم کو اچھے طریقے سے رخصت کرنا
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ خندق کا حال بیان کیا اور منافقوں کی مذمت بیان کی۔ پھر اللہ نے بنی قریظہ کی سرکوبی کا حکم دیا۔ چناچہ ان کو مغلوب کر کے ان کے بالغ مردوں کو قتل کردیا گیا ، عورتوں اور بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنایا گیا ، اور ان کے مالوں ، زمینوں اور مکانات پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ پھر اللہ نے ایک اور سرزمین کی فتح کی خوشخبری دی جس کو 6 ھ میں فتح کیا گیا۔ یہ خیبر کی فتح تھی۔ وہاں سے بھی مسلمانوں کو کافی مال و دولت حاصل ہوا اور ان زمینوں کا خراج بھی ملنے لگا۔ ازواج مطہرات کا مطالبہ مسلمانوں کی پے درپے فتوحات اور ان کے نتیجے میں مال و دولت حاصل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہت اچھی ہوگئی۔ اب ازدواج مطہرات کو بھی خواشہ پیدا ہوئی کہ جس طرح عام مسلمانوں کی مالی حالت بہتر ہوگئی اسی طرح ان کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچنا چاہئے اور ان کو ملنے والے خرچہ میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اس مسئلہ پر ساری ازواج مطہرات نے مشورہ کیا اور پھر حضرت ام سلمہ کو نمائندہ مقرر کیا کہ وہ اس معاملہ میں حضور ﷺ سے بات کریں۔ کیونکہ آپ بڑی شائستہ اور سمجھدار خاتون تھیں۔ انہوں نے مناسب موقع پر دیگر بیویوں کی موجودگی میں حضور ﷺ کی خدمت میں عرضداشت پیش کی۔ یہ مطالبہ اگرچہ ناجائز نہیں تھا کیونکہ بیوی کا حق ہے کہ وہ خاوند سے ضروریات زندگی کا مطالبہ کرے۔ بایں ہمہ حضور ﷺ نے اسے قناعت کے خلاف سمجھا اور آپ بیویوں سے ناراض ہوگئے۔ ازواج سے علیحدگی حضور ﷺ نے اس مطالبے کا اس حد تک برا منایا کہ آپ نے اپنی تمام ازواج سے ایک ماہ کے لئے ایلا کرلیا یعنی علیحدگی اختیار کرلی۔ آپ مسجد نبوی کے قریب ہی ایک بالاخانے میں تشریف فرما ہوگئے۔ عام مشہور ہوگی کہ حضور ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ ان حالات میں ازواج مطہرات کا پریشان ہونا تو فطری امر تھا تمام مسلمانوں کو بھی سخت تشویش لاحق ہوگئی۔ سب سے زیادہ پریشانی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کو تھی کیونکہ ان دونوں کی بیٹیاں حضور ﷺ کے نکاح میں تھیں۔ کوئی شخص اس معاملہ میں مداخلت کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ بالآخر حضرت عمر ؓ نے جرأت کر کے اس جمود کو توڑنے کی کوشش کی اور حضور ﷺ سے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی جو دے دی گئی۔ حضرت عمر ؓ نے حاضر ہو کر کھڑے کھڑے عرض کیا کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے فرمایا ، نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا اللہ اکبر۔ حضرت عمر ؓ کی کچھ ڈھارس بندھی تو انہوں نے حضور ﷺ سے بیٹھنے کی اجازت چاہی ، آپ کا مقصد یہ تھا کہ کوئی دل لگی کی بات کر کے حضور ﷺ کو خوش کیا جائے چناچہ اجازت ملنے پر آپ حضور ﷺ کے پاس بیٹھ گئے اور بات شروع کردی کہ مکہ میں تو ہم اپنی عورتوں پر غالب تھے اور کوئی ہمارے سامنے چوں چرا نہیں کرتی تھی مگر مدینہ میں آ کر ہماری عورتوں نے بھی یہودی عورتوں کی دیکھا دیکھی انہی کا رنگ ڈھنگ اختیار کرلیا ہے۔ ایک دفعہ خود میری بیوی نے مجھ سے زائد خرچہ کا مطالبہ کیا تو مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اس کی گردن پر مکہ مارنے شروع کردیئے۔ یہ سن کر حضور ﷺ مسکرا دیئے اور اس طرح کچھ دیر تک گفتگو ہوتی رہی ادھر مسجد میں مسلمان بڑے پریشان تھے کہ پتہ نہیں حضور ﷺ نے کیا فیصلہ کیا ہے ، کہیں واقعی اپنی بیویوں کو طلاق تو نہیں دے دی ؟ اتنے میں حضرت 1 ؎ طبری ص 651 ج 12 و معالم التنزیل ص 371 ج 3 عمر ؓ نے واپس آ کر مسلمانوں کو تسلی دی اور بتایا کہ حضور ﷺ نے طلاق نہیں دی۔ اسی طرح ایام گزرتے رہے حتیٰ کہ 92 دن کے بعد حضور ﷺ بالا خانے سے نیچے اترے ، تو اس وقت آیات زیر درس نازل ہوئیں۔ ان آیات میں حضور ﷺ کی ازواج مطہرات سے خصوصی خطاب ہے۔ اللہ نے ان کو تنبیہہ کی ہے اور اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی ازواج سے دریافت کرلیں۔ اگر وہ دنیا میں خلعہ باٹھ کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں تو کہہ دیں کہ آخر میں تمہیں طلاق دے کر اھے طریقے سے رخصت کر دوں اور اگار تم اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو پھر موجودہ حالت پر ہی قناعت کرو۔ خاندان نبوت کی قناعت پسندی حضور ﷺ کی ازواج مطہرات نے زندگی بھر دنیا کے مال و متاع اور زیب وزینت کی بجائے قھناعت کو پسند کیا۔ آپ اپنی بیویوں کو جس قدر خرچہ عطا کرتے تھے ، وہ اسی پر گزارا کرتی تھیں بلکہ اپنے حصہ میں سے زیادہ تر غرباء اور مساکین پر خرچ کر دیتیں اور خود عسرت کی زندگی بسر کر تیں حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی ازواج مطہرات نے خوشحالی کی زندگی نہیں گزاری۔ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک بوری یا دو بوری بھر درہم ہدیہ کے طور پر آئے تو انہوں نے شام سے پہلے سب تقسیم کردیئے۔ خادمہ نے عرض کیا کہ آپ افطاری کے لئے تو کچھ رکھ لیتیں۔ فرمایا اگر پہلے یاد کرا دیتی میں تمہیں اجازت دے دیتی ، اب تو کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ دشمنان اسلام خصوصاً یہود و نصاریٰ آج بھی اعتراض کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی مکی زندگی تو واقعی پیغمبروں جیسی تھی مگر مدینے میں آپ نے بادشاہوں جیسے طور طریقے اختیار کر لئے اسی طرح تعدد ازواج کے متعلق بھی بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں ، بیہ تمام اعتراضات بعید از حقیقت اور محض ضد اور عناد کا مظہر ہیں حضور ﷺ کی پوری زندگی بالکل بےداغ اور روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کوئی انصاف پسند آدمی آٓپ کی ذات پر بادشاہی یا عیش و عشرت کا الزام نہیں لگا سکتا اور یہی حال آپ کی ازواج مطہرات کا بھی تھا۔ انہوں نے بھی حضور ﷺ کے اتباع میں آخرت کی زندگی کو دنیا کی زندگی پر ترجیح دی اور ہمیشہ فقر و فاقہ کو پسند کیا۔ دنیا اور آخرت میں سے انتخاب بہرحال جب نبی (علیہ السلام) کی ازواج مطہرات نے آپ سے آسودہ حالی کا مطالبہ کیا تو آپ کو یہ بات پسند نہ آئی۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے بھی یہ آیات نازل فرما کر حضور ﷺ کی تائید فرما دی اور آپ کو حکم دیا یایھا النبی قل لا زواجک اے نبی ﷺ آپ اپنی ازواج سے کہ دیں۔ ان کنتن تردن الحیوٰۃ الدنیا و زینتھا اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت چاہتی ہو ، عیش و عشرت اور آسودہ حالی کی طلبگار ہو فتعالین امتعکن تو آئو میں تمہیں فائدہ پہنچا دوں۔ جب کوئی شخص اپنی عورت کو طلاق دے دیتا ہے۔ اور وہ مہر بھی ادا کرچکا ہے تو اس کے لئے مستجب ہے کہ عورت کو رخصت کرتے وقت حسب استطاعت ایک جوڑا کپڑے دے کر اسے رخصت کر دے اور اگر ایسی عورت ہے جس کا مہر مقرر نہیں ہوا تھا تو اس کے لئے ایک جوڑا کپڑے دینا واجب ہوجاتا ہے۔ فائدہ پہنچانے سے یہی مراد ہے۔ فرمایا اگر دنیا چاہتی تو میں تمہیں فائدہ پہنچائوں و اسر حکن سراجا جمیلا اور تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کر دوں یعنی طلاق دے کر بالکل فارغ کر دوں۔ پھر فرمایا و ان کنتن تردن اللہ و رسولہ والدار الاخرۃ اور اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا چاہتی ہو اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہو ، دنیا کی آسودگی کو ترک کرنے پر آمادہ ہو تو پھر خوب سن لو فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجراً عظیما کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایسی عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ جو دنیا کی عیش و عشرت کو ترک کردیں گی ، اللہ تعالیٰاس کو آخرت میں دائمی آرام و راحت کا عطیہ عنایت فرمائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی بتلا دیا یٰنساء النبی اے نبی کی بیویو ! من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ تم میں سے جو کوئی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے گی یضعف لھا العذاب ضعفین تو اس کی سزا بھی دوگنی ہوجائے گی۔ و کان ذلک علی اللہ یسیرا اور یہ چیز اللہ کے لئے بہت آسان ہے کہ وہ کسی کو دگنا عذاب دے۔ سزا اور جزا حسب مرتب یہ ایک اصولی بات ہے کہ کسی شخصیت کا جس قدر درجہ بلند ہوگا کوتاہی کی صورت میں اس کا مواخذہ بھی اتنا ہی سخت ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جو مرتبہ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کو حاصل تھا ، وہ دنیا میں کسی دوسری عورت کو حاصل نہیں۔ لہٰذا فرمایا کہ نیکی پر تمہارا اجر وثواب بھی دوسروں کی نسبت دوگنا ہے۔ اسی طرح برائی کی صورت میں تمہایر سزا بھی دگنی ہوجائے گی۔ خود حضور ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کفار کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے اور اگر آپ ایسی بات کر بیٹھتے اذا الا ذقنک ضعف الحیوٰۃ و ضعف الممات لم لا تجد لک علینا نصیرا (بنی اسرائیل) تو آپ کو دنیا میں بھی دگنی سزا دیتے اور بعد از وفات بھی اور پھر تم ہمارے مقابلہ میں کسی کو اپنا مددگار نہ پاتے۔ یہ بھی ایک مسلم قانون ہے کہ کسی مقدس مقام پر کیا جانے والا گناہ کسی عام مقام پر سرزد ہونے والے گناہ کی نسبت زیادہ سنگین تصور ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو سزا بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مسجد میں چوری یا کوئی دیگر جرم کرتا ہے یا حرم شریف میں کسی کجروی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی سزا بھی زیادہ ہوگی جس طرح حرم شریف میں ادا کی جانے والی ایک نماز کا اجر وثواب دیگر مساجد کی نسبت ایک لاکھ گنا اور مسجد نبوی اور بیت المقدس میں پچاس پچاس ہزار کے برابر ہے۔ اسی طرح ایسے مقدس مقامات پر جرم کی سزا بھی لازمی زیادہ ہوگی۔ اسی لئے نبی کی بیویوں کو بھی تنبیہہ کردی گئی کہ چونکہ تم مراتب عالیہ پر فائز ہو ، لہٰذا تمہاری کسی غلطی اور کوتاہی کی سزا بھی دگنی ہوگی۔ اس مقام پر اللہ نے نبی کی بیویوں کے متعلق فرمایا کہ اگر تم فحش کا ارتکاب کرو 1 ؎ ابن ماجہ ص 201 ، مشکوٰۃ ص 64 و جامع صغیر ص 64 گی تو تمہاری سزا دگنی ہوگی۔ اس لفظ کے مختلف معانی آتے ہیں۔ مثلاً اس کا اطلاق بدزبانی ، بےحیائی اور بخل پر بھی ہوتا ہے مگر یہاں پر اس لفظ سے زنا یا بدکاری مراد نہیں ہے کیونکہ اللہ کے پاک نبی کی بیویوں سے ایسا ممکن ہی نہیں۔ بعض روایات میں آتا ہے ما ذنت امراۃ نبی قط یعنی نبی کی کسی بیوی نے کبھی زنا کا ارتکاب نہیں کیا۔ بعض انبیاء کی بیویوں نے کفر کا ارتکاب تو کیا ہے مگر بےحیائی کسی سے سرزد نہیں ہوئی۔ مقصد یہ کہ یہاں پر فحش سے بےادبی ، گستاخی یا بدزبانی وغیرہ جیسی لغزش تو مراد لی جاسکتی ہے ، زنا جیسے فعل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نیکی کا دگنا اجر گزشتہ سے پیوستہ آیت میں نبی (علیہ السلام) کی بیویوں سے فرمایا تھا کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کا گھر پسند کرتی ہو تو اللہ نے تمہارے لئے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ اب اگلی آیت میں ان کی پارسائی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے ومن یقنت منکن للہ و رسولہ اور تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی۔ وہ تعمل صالحاً اور نیک اعمال انجام دے گی نو تھا اجرھا مرتین ہم اس کو اجر بھی دگنا دیں گے۔ جس طرح مقدس مقام ، مقدس مہینے اور مقدس وقت میں عمل کا اجر بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بلند مرتبت ہستی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی تو اس کے اجر وثواب میں اضافہ ہوجائے گا۔ جس طرح حرمت والے مہینوں ، مقامات مقدسہ اور پچھلی رات کے اوقات میں اجر وثواب بڑھ جاتا ہے ، اسی طرح مقدس ہستیوں کے اعمال صالحہ کا اجچر بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فرمایا اعتدنا لھا رزقاً کریما ہم نے اس کے لئے عزت کی روزی بھی تیار کر رکھی ہے دنیا میں عزت کی روزی وہ ہے جو حلال راستے سے آئے جس سے اطمینان قلب حاصل ہو اور جس کے استعمال سے عبادت کا جذبہ قوی ہوا اور اس میں دلجمعی پیدا ہو۔ اور آخرت میں رزق کریم سے مراد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو خاص مقام حاصل ہوگا ، انتہائی باعزت روزی نصیب ہوگی۔ اور ہمیشہ کے لئے نبی کی معیت حاصل ہوگی۔ بہرحال اللہ نے اپنے نبی کی بیویوں کو ترغیب و ترتیب دونوں طریقوں سے سمجھا دیا کہ انہیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
Top