Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو لَسْتُنَّ : نہیں ہو تم كَاَحَدٍ : کسی ایک کی طرح مِّنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے اِنِ : اگر اتَّقَيْتُنَّ : تم پرہیزگاری کرو فَلَا تَخْضَعْنَ : تو ملائمت نہ کرو بِالْقَوْلِ : گفتگو میں فَيَطْمَعَ : کہ لالچ کرے الَّذِيْ : وہ جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں مَرَضٌ : روگ (کھوٹ) وَّقُلْنَ : اور بات کرو تم قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی ( معقول)
اے نبی کی بیویو ! نہیں ہو تم عام عورتوں کی طرح اگر تم ڈرتی رہو تو نہ دب کر بات کرو ، پس لالچ کرے گا وہ شخص جس کے دل میں بیماری ہے اور کہو بات دستور کے مطابق
ربط آیات جب ازواج مطہرات نے اپنے اخراجات میں اضافہ کا مطالبہ کیا تو حضور ﷺ نے ناراض ہو کر ایک ماہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی۔ پھر اللہ نے یہ آیات نازل فرما کر نبی کی بیویوں کو تنبیہ کی۔ گزشتہ درس میں یہ گزر چکا ہے کہ اللہ نے نبی (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی عورتوں سے کہہ دیں کہ اگر وہ دنیا کی زیب وزینت چاہتی ہیں تو آئو میں تمہیں طلاق دے کر اچھے طریقے سے رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کے گھر کی متلاشی ہو تو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ نے نیکی کرنے والوں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے دنیا کی خواہش خدا اور اس کے رسول کے قرب کے منافی ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی عورت صریح غلطی کرے گی تو اسے دوسروں کی نسبت سزا بھی زیادہ ملے گی۔ البتہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور اچھے اعمال انجام دے گی تو اس کو اجر بھی دگنا ملے گا۔ اللہ نے ان کے لئے آخرت میں عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔ امہات المومنین کیلئے سلیقہ گفتگو ان آیات میں بھی امہات المومنین سے خطاب ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ینساء النبی اے نبی کی بیویو ! لسنن لاحد من النساء ان تقینن اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اللہ نے تمہیں بڑا شرف عطا کیا کہ تمہیں نبی کی زوجیت کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ آیت 2 میں بھی گزر چکا ہے النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجہ امھتھم اللہ کا نبی مومنوں سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے اور اس کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔ اگر تم میں تقویٰ اور طہارت ہوگی تو تمہیں تمام عورتوں پر فضیلت ہے۔ تمہاری اس برتر حیثیت کا تقاضا ہے فلا تخضعن بالقول کہ کسی اجنبی آدمی سے دب کر بات نہ کرو بلکہ کلام میں درشتگی اختیار کرو۔ کیونکہ نرم لہجے میں بات کرنے سے فیطمع الذی فی قلبہ مرض دل کا روگی آدمی لالچ کرے گا۔ دل کے روگ سے مراد نفاق ، خواہشات نفسانی اور شہوانی میلان ہے۔ اس لئے حکم دیا کہ اگر کسی اجنبی آدمی سے بات کرنی پڑے تو روکھا پن ظاہر کرو ، تاکہ کسی بد باطن آدمی کے دل میں کوئی خیال نہ آسکے۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی بیویوں کو ادب سکھایا ہے کہ غیر مرد سے بات کرتے وقت اس طرح بات کرو جس طرح اپنے بیٹے سے کی جاتی ہے و قلن قولا معروفا اور بات بھی دستور کے مطابق بھلی اور معقول ہونی چاہئے۔ تبرج جاہلیت اللہ نے امہات المومنین کو یہ حکم بھی دیا و قرن فی بیوتکن کہ اپنے گھروں میں ٹھہری رہو ، بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلو کیونکہ گھروں میں رہنا ہی عورتوں کی اصل وضع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں تقسیم کار کردیا۔ مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ محنت مشقت کر کے کمائی کرے اور عورتوں کا کام یہ ہے کہ وہ امور خانہ داری کو انجام دیں ، بچوں کی پرورش ، کھانا پکانا ، کپڑے دھونا اور گھر کی صفائی کرنا عورت کے ذمے ہے۔ یہ سب کام گھر کی چار دیواری کے اندر انجام دیئے جاتے ہیں۔ اسی لئے اللہ نے نبی کی بیویوں کو کم دیا ہے کہ وہ گھر میں مقیم رہیں ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولیٰ اور جاہلیت اولیٰ کی عورتوں کی طرح اپنے آپ کو کھلے طور پر نہ دکھاتی پھریں۔ مطلب یہ کہ گھر میں رہ کر امورخانہ داری انجام دیں اور اگر اشد ضرورت کے تحت گھر سے باہر جانا پڑے تو پھر جاہلیت اولیٰ کے زمانے کی طرح بےپردہ نہ جائیں۔ (موضح القرآن ص 505 جاہلیت اولیٰ کے… زمانے سے متعلق مختلف اقوال پائے جاتے ہیں بعض نے اسے حضرت نوح (علیہ السلام) یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے پر محمول کیا ہے مگر زیادہ صحیح زمانہ وہ ہے جو حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے عربوں کا دور تھا۔ یہ کفر کی جاہلیت تھی۔ کفر و شرکت کی رسومات عام تھیں اور عورتوں کی بےباکی تھی۔ وہ بنائو سنگھار کے ساتھ برہنہ سر گھروں سے باہر جاتی تھیں۔ اسی کو جاہلیت اولیٰ کا نام دی گیا ہے اور نبی کی بیویوں کو اس دور کی بےپردگی سے منع فرمایا گیا ہے۔ عورت کے لئے پردہ حضور ﷺ کے زمانہ کے بعد جو جاہلیت پیدا ہوئی اور آج بھی موجود ہے یہ جاہلیت ثانیہ ہے اور فسق و فجور کی نمائندگی کرتی ہے۔ عورتیں بےپردہ بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ سینما گھروں ، آرٹ گیلریوں ، کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں مردوں کے ساتھ اختلاط عام ہے۔ جاہلیت اولیٰ اور جاہلیت ثانیہ دونوں معیوب ہیں اس سے بداخلاقی پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب عورتوں کو پنجروں میں بند کرنا نہیں بلکہ خرابی کو روکنا ہے۔ ضرورت کے وقت عورت باہر بھی جاسکتی ہے۔ مگر پردے کے ساتھ۔ خود ازواج مطرات کے متعلق فرمایا اذن لکم ان تخرجن لحوائجکن تم اپنی ضروریات کے لئے باہر جاسکتی ہو۔ بعض بےسہارا عورتوں کو کام کاج کے لئے باہر جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کی اجازت ہے۔ نماز کے لئے خاوند کی اجازت سے مسجد میں جاسکتی ہے مگر پردے کے ساتھ۔ آگے آٹھویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیں یدلین علیھن من جلائبھن کہ وہ اپنی چادریں لٹکا لیا کریں تاکہ ان کے جسم کے نشیب و فراز نظر نہ آئیں اور نہ ان کی زیب وزینت کسی کو فتنے میں ڈالے برقع ضروری نہیں ، یہ کام بڑی چادر سے بھی 1 ؎ تفسیر نسفی ص 203 ج 3 و جمل ص 634 ج 3 و مظہری ص 963 ج 7 2 ؎ بیان القرآن ص 84 ج 9 لیا جاسکتا ہے۔ بہرحال پردہ ہونا چاہئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو عورت گھر میں رہ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیکی کے کام انجام دے گی ، برائی سے بچے گی ، اللہ تعالیٰ اس کو مجاہدین جیسا اجر عطا فرمائے گا۔ عورت کا بلا اجازت باہر جانا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر مسجد میں بھی جانا چاہیں تو خاوند یا سرپرست کی اجازت لے کر جائیں۔ مردوں کو بھی فرمایا کہ اگر عورتیں مسجد میں جانے کی اجازت طلب کریں تو دے دیا کرو بشرطیکہ راستہ پرامن ہو یعنی فساق و فجار سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ عورت کا گھر کی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا ، بڑے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ اور صحن کی نسبت بڑے کمرے میں پڑھنا افضل ہے۔ عورت جتنا چھپ کر نماز پڑھے گی اتنا اجر زیادہ ہوگا ، مسجد میں جانے کی صرف اجازت ہے فضیلت نہیں ہے کیونکہ عورتوں کی اصل وضع گھر میں قرار پکڑنا ہے۔ بنائو سنگھار کر کے ، زیورات اور بھڑکیلا لباس پہن کر عورتوں کا بےحجابانہ باہر نکلنا عورتوں کی وضع کے خلاف ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ کہ اگر عورت مسجد میں نماز کے لئے بھی جائے تو معمولی لباس پہن کر جائے اور خوشبو نہ لگائے کہ یہ فتنے کا باعث بن سکتی ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ عورت ستر ہے ، جب یہ باہر نکلتی ہے تو شیطان جھانک کر دیکھتا ہے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہے جس سے بےحیائی کے لوازمات پیدا ہوتے ہیں موجودہ عریانی انگریز اور بےدین لوگوں کی پیدا کردہ ہے جو عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ قرآن کے خلاف جاہلیت کی طرف قدم ہے۔ اگر عورت مجبور ہے تو اس کو اجازت لے کر باپردہ باہر 1 ؎ ابن کثیر ص 284 ج 3 و مستدرک حاکم ص 902 ج 1 2 ؎ ابن کثیر ص 284 ج 3 نکلنا چاہئے۔ حیا تو عورتوں اور مردوں کا زیور ہے۔ اللہ نے جاہلیت اولیٰ کی تقلید سے منع فرمایا ہے : اہل بیت کی طہارت فرمایا ، اے نبی اپنی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنے گھروں میں اور جاہلیت اولیٰ کے طور اطوار اختیار نہ کریں اور یہ بھی وا اقمن الصلوٰۃ اور نماز قائم رکھو و آتین الزکوٰۃ اور زکوٰۃ دیتی رہو و اطعن اللہ و رسولہ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتی رہو۔ ازواج مطہرات کے لئے اللہ نے یہ تاکیدی حکم دیا ہے اور پھر ان امور کی حکمت بھی بیان فرمائی انما برید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے جس یعنی گندی باتوں کو اہل بیت تم سے دور کر دے۔ و یطہرکم تطہیرا اور پاک کر دے تم کو پاک کرنا۔ غرضیکہ ان احکام کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کی بیویوں کو ہر قسم کی غلاظت سے بالکل پاک صاف رکھے۔ اللہ کے نبی تو معصوم ہوتے ہیں اور مقرب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ازواج کو بھی بلند مرتبہ عطا کیا ہے اور ان کی پاکیزگی کے ساتھ موصوف کیا ہے۔ افراد اہل بیت اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی (علیہ السلام) کی ازواج مطہرات کو خطاب کر کے ان کے لئے اہل بیت کا لفظ استعمال کیا۔ دوسری حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ ، حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کو ایک چادر کے نیچے جمع فرما کر اللھم ھو لاء اھل بیتی اے مولا کریم یہ میرے اہل بیت ہیں۔ وہاں پر ام المومنین ام سلمہ بھی تھیں انوں نے عرض کیا ، حضور ! مجھے بھی ان میں شامل کرلیں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا انت علی خیر یعنی تم تو بہتری پر ہو۔ یہاں پر دو گروہ بن گئے کہ اہل بیت میں کون کون لوگ شامل ہیں۔ 1 ؎ بیان القرآن 74 ج 9 و ابن کثیر ؟ 584 ج 3 ایک گروہ وہ ہے جو اس آیت کے مطابق صرف ازواج مطہرات کو اہل بیت میں شمار کرتا ہے اور حضور ﷺ کی اولاد اور آپ کے خاندان کے لوگوں کو اہل بیت کے افراد نہیں مانتا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو مذکورہ حدیث کے مطابق صرف حضور ﷺ کے خاندان اور اولاد کو ہی اہل بیت سمجھتا ہے اور ازواج مطہرات کو اس میں شامل نہیں کرتا۔ یہ دونوں شیعہ اور رافضی ہیں اور گمراہ ہیں۔ جو لوگ صرف پنج تن کو اہل بیت کہتے ہیں وہ بھی گمراہ ہیں کیونکہ یہ نظریہ نص قرآنی کے خلاف ہے۔ دوسری طرف حدیث بھی صحیح ہے اس سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ حقیقتاً قرآن اور حدیث میں تضاد نہیں ہے صرف سمجھنے کی بات ہے۔ نص قرآنی عام ہے اور اس کے مطابق اہل بیت میں ازواج بھی شامل ہیں اور اولاد بھی۔ ہم اپنی زبان میں اہل بیت کا متبادل لفظ ” گھر والے “ بولتے ہیں اور جب ایسا کہتے ہیں تو اس سے مراد نہ تو صرف ازواج ہوتی ہیں اور نہ صرف اولاد ، بلکہ ازواج اور اولاد دونوں مراد ہوتے ہیں۔ لہٰذا نہ تو ازواج کو اہل بیت سے خارج کیا جاسکتا ہے اور نہ اولاد کو حدیث میں صرف اولاد کو اہل بیت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ میری ازواج تو محص قرآنی کے مطابق اہل بیت میں شامل ہیں ، میری یہ اولاد بھی اہل بیت میں شامل ہے۔ ان سے بھی گندگی کو دور کر کے انہیں پاک صاف کر دے۔ مسلم شریف میں زید بن ارقم ؓ کی روایت ہے کہ آپ سے شاگردوں نے پوچھا۔ کیا حضور کی ازواج اہل بیت نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ازواج مطرات اہل بیت ہیں۔ مگر حضور ﷺ کے اہل بیت وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ان لصدقۃ لا تحل لمحمد ولا لاھل محمد بیشک صدقہ نہ تو محمد ﷺ کے لئے حلال ہے اور نہ آپ کے اہل بیت 1 ؎ بیان القرآن ص 84 ج 9 2 ؎ بیان القرآن ص 84 ج 9 کے لئے اوار اہل بیت میں یہ پانچ خاندان آتے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے یعنی اہل حارث ؓ ، اہل عباس ؓ ، اہل علی ؓ ، اہل عقیل ؓ اور اہل جعفر ؓ یہ سارے خاندان اسلام لانے سے پہلے بھی حضور ﷺ کے معاون تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی وفادار رہے۔ یہ حضور ﷺ کا عصبہ ہیں اور اہل بیت کہلاتے ہیں۔ الغرض اہل بیت میں حضور ﷺ کی ازواج مطہرات ، اولاد اور مذکورہ پانچ خندان بھی جن پر صدقہ حلال نہیں شامل ہیں۔ کتاب و حکمت کی تعلیم پھر اللہ نے ازواج مطہرات سے فرمایا واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہے ، اس کو یاد کرو۔ ظاہر ہے کہ آیات الٰہی سے مراد قرآن پاک ہے جو ازواج مطہرات کے گھروں میں پڑھایا جاتا تھا اور حکمت کا معنی دانشمندی کی باتیں ، دین کا فہم اور اس کا اتباع اور پیغمبر (علیہ السلام) کا طور طریقہ ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی سنت کمال درجے کی حکمت ہے۔ تو یہ چیزیں جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد کرو خود سیکھو اور دوسروں کو سکھائو تاکہ یہ چیزیں ان کے لئے بھی نمونہ بن جائیں۔ فرمایا ان اللہ کان لطیف خبیر بیشک اللہ تعالیٰ بہت مہربان باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ لطیف کے دونوں معنی آتے ہیں یعنی لطف و کرم والا بھی اور باریک بین بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ختم رسالت کے لئے منتخب فرمایا اور بلند مرتبے پر فائز کیا ، آپ کی ازواج مطہرات کو وہ شرف عطا فرمایا جو دنیا بھر میں کسی دوسری عورت کو حاصل نہیں۔ ان کو امت کی مائیں بنایا تاکہ وہ امت کے حق میں مربی اور معلمات بن جائیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات نے امت کی صحیح تربیت کا حق ادا کردیا۔ امہات المومنین حضور ﷺ کی وفات کے بعد چالیس پینتالیس سال تک حین حیات رہیں اور امت کی کماحقہ تربیت کرتی رہیں۔ ان کو تقویٰ ، طہارت ، عبادت اور تعلیم میں اعلیٰ درجے کی حیثیت حاصل رہی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت مہربانی کرنے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔
Top