Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 78
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیْنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک الْمُسْلِمِيْنَ : مسلمان مرد وَالْمُسْلِمٰتِ : اور مسلمان عورتیں وَالْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومن مرد وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتیں وَالْقٰنِتِيْنَ : اور فرمانبردار مرد وَالْقٰنِتٰتِ : اور فرمانبردار عورتیں وَالصّٰدِقِيْنَ : اور راست گو مرد وَالصّٰدِقٰتِ : اور راست گو عورتیں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے مرد وَالصّٰبِرٰتِ : اور صبر کرنے والی عورتیں وَالْخٰشِعِيْنَ : اور عاجزی کرنے والے مرد وَالْخٰشِعٰتِ : اور عاجزی کرنے والی عورتیں وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ : اور صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُتَصَدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَالصَّآئِمِيْنَ : اور روزہ رکھنے والے مرد وَالصّٰٓئِمٰتِ : اور روزہ رکھنے والی عورتیں وَالْحٰفِظِيْنَ : اور حفاظت کرنے والے مرد فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں وَالْحٰفِظٰتِ : اور حفاظت کرنے والی عورتیں وَالذّٰكِرِيْنَ : اور یاد کرنے والے اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ : اور یاد کرنے والی عورتیں اَعَدَّ اللّٰهُ : اللہ نے تیار کیا لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةً : بخشش وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں اور اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں ، اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں۔ اور حفاظت کرنے والے مرد اپنے ناموس کی اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور یاد کرنے والے مرد اللہ کو کثرت سے اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ تعالیٰ نیت یار کی ہے ان کے لئے بخشش اور بہت بڑا اجر
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ رکوع میں اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ الصلوٰۃ واسلام کے اسوہ حسنہ کا ذکر فرمایا اور ان مومنین کی تعریف فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں ، یوم آخرت پر ان کا یقین ہے اور اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے پر مکمل یقین کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سچے لوگوں کی سچائی کا اجر اور منافقین کے انجام کا ذکر بھی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں سزا دے دے یا اگر چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دے کر ان کا انجام بھی بہتر کر دے۔ پھر گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کا ذکر فرمایا اور نبی (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ آپ ان سے برملا کہہ دیں کہ اگر تم دنیا کا مال و دولت اور زینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کر دوں اور گر تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کے گھر کی تلاش ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے لئے اجر عظیم بھی موجود ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے مرتبہ کے پیش نظر ان کو حکم دیا کہ وہ زمانہ جاہلیت کی طرح بےپردہ باہر نہ نکلیں اور اپنے بنائو سنگھار کا اظہار نہ کریں بلکہ شریفانہ طریقے پر اپنے گھروں میں قیام کریں کہ اسی میں ان کی عزت و آبرو ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں اسی طریقہ سے پاک و صاف رکھنا چاہتا ہے۔ اب آج کی آیت میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کا اکٹھا ذکر کر کے ان کی بعض صفات بیان کی گئی ہیں اور انہیں اجر عظیم کی بشارت بھی سنائی گئی ہے احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی موقع پر ازواج مطہرات اور بعض دوسری مومن عورتوں نے حضور ﷺ کے سامنے عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مردوں کا ذکر خیر تو کثرت سے کیا ہے مگر عورتوں کی خیر و خوبی کا ذکر بہت کم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں مردوں اور عورتوں 1 ؎ ابن کثیر ص 784 ج 3 کا اکٹھے ذکر فرمایا اور انہیں اچھے انجام کی خوشخبری سنائی۔ ویسے عام طور پر جب یا ایھا الذین امنوا سے خطاب کیا جاتا ہے تو مخاطبین میں مرد اور عورتیں دونوں اصناف شامل ہوتی ہیں۔ تاہم ان کا علیحدہ ذکر بھی موجود ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں اور مسلمان مردوں کی جن صفات کا تذکرہ کیا ہے وہ اسلام کی بنیادی قدریں (BASIC VALUES OF ISLAM) ہیں جن کو اپنانے سے انسان ترقی کی منازل طے کرسکتا ہ۔ اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ قانون کی پابندی اور محنت و کوشش جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی لازمی ہے اور اس ضمن میں دونوں یکساں ہیں۔ مذکورہ صفات پیدا کر کے مرد ہو یا عورت کامیابی حاصل کرسکتا ہے البتہ دونوں اصناف کے دائرہ کار مختلف ہیں۔ دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ترقی کرسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مصداق بن سکتے ہیں۔ مسلمان مرد و زن ارشاد ہوتا ہے ان المسلمین والمسلمت بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔ اسلام ایک ایسی چیز ہے ، جس کا تعلق ظاہر سے ہے۔ یعنی اسلام سے مراد وہ اعمال ہیں جو نظر آتے ہیں۔ حدیث جبرئیل میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے ایمان ، اسلام اور احسان کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے اسلام کے متعلق فرمایا ان تشھد ان لا الہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ و تقیم الصلوٰۃ و تولی الزکوٰۃ و تصوم رمضان و تحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا کہ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی وحدانیت اور حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی دے ، نماز پڑھے زکوٰۃ ادا کرے ، رمضان کے روزے رکھے اور اگر بخاری ص 21 ج 1 توفیق ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔ جب کوئی شخص یہ اعمال انجام دیتا ہے تو دوسرے دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ شخص مسلمان ہے۔ اہل ایمان مرد و زن پھر فرمایا والمومنین والمومنت اور ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں ایمان کا تعلق تصدیق قلبی کے ساتھ ہے جو نظر نہیں آتی۔ اسی حدیث جبریل میں حضور ﷺ نے ایمان کی تعریف یہ فرمائی ان لومن باللہ و ملئکتہ و کتبہ و رسلہ والیوم الاخر و تو من بالقدر خیرہ و شرہ کہ تو اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، آخرت کے دن پر ایمان لائے اور خیر و شر کی تقدیر کو حق جانے۔ گویا ایمان کا تعلق دل کی تصدیق سے ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی۔ تو اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں اور ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کا ذکر کیا ہے ، جو مذکورہ صفات کے حامل ہیں۔ اطاعت گزار مرد و زن آگے فرمایا والقنتین والقنتت اور اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں۔ قنوت کا معنی اپنی رضا ورغبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی اطاعت کو قبول کرنا ہے۔ جب کوئی شخص کسی کی اطاعت کا دم بھر لیتا ہے تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ مطاع کے ہر حکم کی تعمیل بھی کرے۔ تو قانتین اور قانتات کا یہی مطلب ہے کہ ایسے مرد و زن جو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرنے والے ہوں اور کسی حیلے بہانے سے اس کی اطاعت سے باہرنہ نکلیں۔ دیگر احکام الٰہی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ پوری دلجمعی اور اطمنان کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا بھی اطاعت میں شامل ہے۔ سچے مرد و زن پھر فرمایا والصدقین والصدقت اور سچے مرد اور سچی عورتیں اس سے مراد وہ مرد و زن ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر سچائی کو اپنا شعار بنا لیں۔ سچ کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ نیت ، عقیدے اور ارادے میں سچے ہونا ، اعمال و کردار اور اخلاق میں سچے ہونا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہو توخلوص نیت کے ساتھ سچائی پر مبنی ہو اور اگر عام لوگوں کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے تو وہ کامل سچائی کے ساتھ ہو کسی کے ساتھ جھوٹ ، دھوکہ اور فریب نہ ہو ، زبان وہی کچھ بولے جو ضمیر صحیح طریقے سے جانتا ہو اور ہر کام ایمانداری اور راستی اور صداقت کے مطابق ہو اللہ نے اس مقام پر ایسے ہی مردوں اور عورتوں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا والصبرین والصبرت اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، صبر بھی ملت ابراہیمی کا ایک اہم اصول ہے۔ انسانی زندگی کے کسی مرحلہ پر بھی اس کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر کئے بغیر کوئی کام بھی کماحقہ انجام نہیں پا سکتا۔ وضو کرنے میں سردی یا گرمی کی شدت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ نماز خصوصات تہجد کی نماز کیلئے صبر و برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسم گرما کے طویل روزے محض صبر کے ذریعے ہی رکھے جاسکتے ہیں۔ ارکان حج کی ادائیگی میں بھی مشقت اٹھانے پر صبر درکار ہوتا ہے اور پھر جہاد میں جان کی بازی لگاتے وقت بھی صبر و ہمت ہی کلیہ کامیابی ہوتی ہے۔ کوئی حادثہ پیش آجائے ، پریشانی لاحق ہوجائے ، قحط پڑجائے ، وبا پھیل جائے ، زلزلہ آجائے ، جنگ لگ جائے ، مال و جان کا نقصان ہوجائے یہ سب چیزیں صبر کی متقاضی ہیں۔ ان تکالیف کو منجانب اللہ سمجھتے ہوئے صبر کا اظہار کرے۔ اللہ پر مکمل بھرسہ رکھے کہ مصیبت کو دور کرنے والا وہی ہے۔ جزع فزع کرنے کی بجائے صبر سے کام لے۔ اس سلسلہ میں اللہ نے فرمایا ہے۔ ان الانسان خلق ھنوعا (المعارج۔ 091) انسان بےصبرا پیدا کیا گیا ہے مگر بےصبری کا نتیجہ ہمیشہ خراب ہوتا ہے۔ اللہ نے صبر کرنے والوں کے متعلق فرمایا و بشرالصبرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون (البقرہ۔ 551۔ 651) کہ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ جو اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی کامیابی کی گارنٹی دی ہے۔ عاجز مرد و زن آگے فرمایا والخشعین والخشعت اور عاجزی کرنے والے مرد ار عاجزی کرنے والی عورتیں۔ اللہ کے سامنے خشوع یعنی عاجزی کا اظہار کمال درجے کی صفت ہے اور ہر انسان سے مطلوب ہے اللہ نے اپنے انبیاء کے متعلق بھی فرمایا ہے خشعین للہ واللہ کے حضور نہایت عاجزی اور نیاز مندی کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے عام انسانوں کے ساتھ بھی خشوع کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ غرور وتکبر سے پیش نہیں آنا چاہئے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے ان تواضعوا ولا یفخر بعضکم علی بعض ہر ایک کے ساتھ تواضع سے پیش آئو اور ایک دوسرے کے سامنے بڑائی کا اظہار نہ کرو کہ یہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ بہرحال اس مقام پر اللہ نے عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والی عورتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ سخی مرد و زن آگے فرمایا والمتصقین والمتصدقت اور صدقہ خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ خیرات کرنے والی عورتیں۔ اللہ کی راہ میں غربائ ، مساکین ، یتامیٰ ، بیوگان کی مالی اعانت اور کمزور طبقات کی دستگیری بھی ملت کا اہم اصول ہے بھوکے کو کھانا کھلانا ، ننگے کو کپڑا پہنانا ، بیمار کا علاج ، تعلیمی اخراجات پورے کرنا اور دیگر جائز ضروریات کے لئے مال خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ان الصدقۃ لتطفیء غضب الرب و تدفع میتۃ السوء یعنی صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے حضور ﷺ کے بعض صحابہ کا بیان ہے کہانوں نے رسول اللہ ﷺ سے 1 ؎ مستدرک حاکم ص 5 ج 2 2 ؎ مسند احمد ص 332 ج 4 سنا ان ظل المومن یوم القیمۃ صدقتہ یعنی قیامت کے دن مومن آدمی پر اس کے صدقہ کا سایہ ہوگا۔ روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں آگے اللہ نے روزے دار مردوں اور روزے دار عورتوں کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ والصائمین والصئمت روزے میں رمضان کے فرض اور دیگر ایام میں نفلی روزے شامل ہیں۔ روزہ رکھنا بھی اسلام کی بنیادی قدروں میں شامل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اے ایمان والو ! کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم (البقرۃ۔ 381) تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر۔ مطلب یہ کہ اس فریضہ کو بوجھ نہ سمجھو بلکہ بخوشی انجام دو اور پھر اللہ نے اس کا اجر بھی بڑا رکھا ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ کا فرمان ہے الصوم لی و انا اجزی بہ میرا بندہ خالص میرے لئے روزہ رکھتا ہے اور اس کی جزا بھی میں اپنی مرضی کے مطابق دوں گا۔ حضور کا یہ بھی فرمان ہے ہ جنت کے ایک دروازے کا نام باب الریان ہے جس میں سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ محافظین نامو مرد و زن پھر فرمایا والحفظین فروجھم والحافظت اور اپنے ناموس کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والی عورتیں۔ اللہ نے پاکباز مردوں اور عورتوں کا ذکر فرمایا کہ ناموس کی حفاظت بھی اسلامی قدروں میں سے ہے۔ سورۃ المومنون میں اللہ نے کامیابی حاصل کرنے والے مومنوں کی بعض صفات کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے والذین ھم لفروجھم حفظون (آیت۔ 5) یعنی وہ جو اپنے ناموس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ھمردوں کے ساتھ فروجھم کا لفظ استعمال کیا ہے مگر 1 ؎ مسلم ص 363 ج 1 عورت کی اس قدر پردہ داری مقصود ہے کہ اس کے لئے صرف حفظت کا لفظ آیا ہے ، یہاں فروجھن کو خذف کردیا گیا ہے۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کے حق میں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے۔ پردہ کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ولا تنظر الی فخذ حی و میت کسی زندہ یا مردہ کی ان کی طرف بھی دیکھنا حرام ہے چہ جائیکہ کوئی مرد و زن زنا یا لواطت میں مبتلا ہو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے حفاظت ناموس کو بھی اسلامی اقدار میں داخل کیا ہے اور اس کی پابندی کرنے والے مردوں اور عورتوں کی تعریف فرمائی ہے۔ ذاکرین مرد و زن اور اپنے بندوں کی دسویں صفت اللہ نے یہ بیان کی ہے والذین اللہ کثیر والذکرت اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں۔ حصن حصین والے بزرگ حضرت جزری (رح) لکھتے ہیں کل مطیع للہ فھو ذکر جو شخص اللہ کی اطاعت کے کام میں مصروف ہے ، وہ اللہ کو یاد کرنے والا ہے۔ ویسے ہر شخص کے لئے زبانی ذکر ہی آسان ترین ذکر ہے باقی عبادات کی تو مقدار مقرر ہے ، مگر ذکر کی کوئی حد نہیں مقرر کی گئی ، کوئی جس قدر چاہے اللہ کا ذکر کرسکتا ہے۔ آگے اسی سورة میں آ رہا ہے یایھا الذین امنوا ذکروا اللہ ذکر کثیرا (الاحزاب۔ 14) اے ایمان والو ! اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص رات کو اٹھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرتا ہے۔ پھر وہ دونوں نماز ادا کرتے ہیں تو ان کا نام ذاکرین اور ذاکرات کے رجسٹر میں درج ہوجاتے ہیں فرمایا یہ مرتبہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک آدمی کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہر حالت میں ذکر کرنے والا نہ بن جائے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کان 1 ؎ ابودائود ص 102 ج 32 2 ؎ حصن حصین 3 ؎ ابودائود ص 4 ج 1 کہ حضور ﷺ تمام حالات میں اللہ کا ذکر کرتے رتے تھے… ذکر سے مراد تلاوت قرآن ، تسبیح و تقدیس کے کلمات ، درود پاک ، استغفار اور دیگر اور اد ہیں۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ انسان کو اس قدر کثرت سے ذکر الٰٓہی کرنا چائے کہ اس کی توجہ ہر وقت اسی طرف مبذول رہے۔ اللہ نے ذکر کو کامیابی کا زینہ بھی قرار دیا ہے۔ سورة الجمعۃ میں فرمایا واذکرو اللہ کثیر لعلکم تفلحون (آیت۔ 10 ) اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ عذاب سے نجات دلانے والی چیزوں میں اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں۔ بخشش اور اجر عظیم ان دس بنیادی قدروں اور ان کے حاملین کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا اعداللہ لھم مغفرۃ و اجر عظیما اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ بخشش سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ صفات کے حاملین کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا۔ اس آیت کریمہ میں مردوں ار عورتوں کو اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ فرمایا جن لوگوں میں یہ اسلامی قدریں پائی جائیں گی خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ، سب کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ بحیثیت انسان مرد بھی کمال حاصل کرسکتے ہیں اور عورتیں بھی اس میں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں کی۔
Top