Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 50
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَحْلَلْنَا : ہم نے حلال کیں لَكَ : تمہارے لیے اَزْوَاجَكَ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْتَ : تم نے دے دیا اُجُوْرَهُنَّ : ان کا مہر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ : مالک ہوا يَمِيْنُكَ : تمہارا دایاں ہاتھ مِمَّآ : ان سے جو اَفَآءَ اللّٰهُ : اللہ نے ہاتھ لگا دیں عَلَيْكَ : تمہارے وَبَنٰتِ عَمِّكَ : اور تمہارے چچا کی بیٹیاں وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ : اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خَالِكَ : اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ : اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں الّٰتِيْ : وہ جنہوں نے هَاجَرْنَ : انہوں نے ہجرت کی مَعَكَ ۡ : تمہارے ساتھ وَامْرَاَةً : اور مومن مُّؤْمِنَةً : عورت اِنْ : اگر وَّهَبَتْ : وہ بخش دے (نذر کردے نَفْسَهَا : اپنے آپ کو لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے اِنْ : اگر اَرَادَ النَّبِيُّ : چاہے نبی اَنْ : کہ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ : اسے نکاح میں لے لے خَالِصَةً : خاص لَّكَ : تمہارے لیے مِنْ دُوْنِ : علاوہ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ : مومنوں قَدْ عَلِمْنَا : البتہ ہمیں معلوم ہے مَا فَرَضْنَا : جو ہم نے فرض کیا عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْٓ : میں اَزْوَاجِهِمْ : ان کی عورتیں وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں) لِكَيْلَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے عَلَيْكَ : تم پر حَرَجٌ ۭ : کوئی تنگی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے پیغمبر ! بیشک ہم نے حلال قرار دی ہیں ، آٰپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں جن کے مہر آپ نے ادا کردیئے ہیں ، اور و جو آپ کی ملکیت میں ہیں جو اللہ نے آپ پر لوٹانی ہیں اور آپ کی چچازاد ، پھوپھی زاد ، ماموں زاد ار خالہ زاد بیٹیاں جنہوں نے ٓپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ ایماندار عورت بھی جو اپنے آپ کو نبی کے لئے ہبہ کر دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے۔ یہ آپ کے لئے خاص ہے۔ دیگر مومنوں کے علاوہ۔ تحقیق ہم جانتے ہیں جو ہم نے مقرر کیا ہے۔ ایمان والوں پر ان کی بیویوں کے بارے میں اور ان کی لونڈیوں کے بارے میں تاکہ تم پر کوئی حرج نہ ہو اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے
ربط آیات گزشتہ آیت میں مطلقہ عورت کی عدت کا مسئلہ بیان ہوا تھا کہ اگر کسی عورت کو مباشرت سے پہلے طلاق دے دی جائے تو اس کے لئے کوئی عدت نہیں ، وہ جس وقت چاہے نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ پھر اللہ نے حسن معاشرت کے ضمن میں فرمایا کہ طلاق شدہ عورت کو کپڑوں کا ایک جوڑا دے کر اچھے طریقے سے رخصت کرو۔ اور اگر مہر مقرر ہے اور ابھی ادا نہیں کیا تو وہ بھی ادا کرو۔ اگر مہر مقرر نہیں ہوا تو کپڑوں کا جوڑا دینا واجب ہوگا ، بصورت دیگر مستجب ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نکاح کے سلسلے میں پیغمبر ﷺ کی سات خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں سے چار خصوصیات اس آیت کریمہ میں آگئی ہیں اور باقی تین آمدہ دروس میں بیان ہوں گی۔ تعدد ازواج کی اجازت حضور ﷺ کی پہلی خصوصیت کے متعلق ارشاد بایر تعالیٰ ہے یایھا النبی اے نبی (علیہ السلام) انا احللنا لک ازواجک التی اتیت اجورھن ہم نے آپ کے لئے وہ بیویاں حلال کردی ہیں جن کے مہر آپ ادا کرچکے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ازواج جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے کہ آپ نے جتنی بھی عورتوں کے مہر ادا کردیئے ہیں وہ سب آپ کے لئے حلال ہیں چاہے ان کی تعداد کتنی بھی ہے۔ یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ وگرنہ عام مسلمانوں کے لئے بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ جیساذ کہ سورة النساء میں اللہ کا فرمان موجود ہے فنکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلث و ربع (آیت۔ 3) پس اپنی طاقت کے مطابق دو ، تین یا چار عورتوں سے نکچاح کرسکتے ہو۔ بشرطیکہ ان کے حقوق ادا کرسکو اور ان کے درمیان انصاف کرسکو۔ اور اگر ایسا نہ کرسکو تو پھر ایک عورت پر ہی اکتفا کرو۔ کثرت ازواج پر اعتراض حضور ﷺ کی تعدد ازدواج پر لوگ اعتراض کرتے آئے ہیں۔ خاص طور پر ہندو اور عیسائی اس اعتراض میں پیش پیش رہے ہیں بلکہ بعض غلط کار لوگوں نے اس پر کتابیں لکھی ہیں۔ ہندوئوں میں سے لاہور کا راجپال تھا جس نے ” رنگیلا رسول “ نامی کتاب لکھ کر اپنی خباثت کا اظہار کیا تھا۔ اس کو غازی علم الدین شہید (رح) نے کیفر کردار تک پہنچایا اور خود بھی تختہ دار پر چڑھ گیا۔ لوگ اس کے جذبہ ایمانی کے معترف ہیں۔ پیغمبر (علیہ السلام) کی کثرت ازواج پر اعتراض کرنے والے انصاف سے کام نہیں لیتے۔ حضور ﷺ نے 52 سالہ ازدواجی زندگی نہایت اچھے طریقے سے بسر کی۔ گویا پچاس سال کی عمر تک تو آپ نے اسی ایک عورت پر اکتفا کیا۔ تو کیا باون سال کی عمر میں نعوذ باللہ آپ کو عیاشی کی ضرورت پیش آگئی تھی ؟ حضرت خدیجہ ؓ کی فوتیدگی کے بعد آپ نے ایک دوسری معمر عورت حضرت سودہ ؓ سے نکاح کیا۔ اور چار سال تک وہی اکیلی آپ کے نکاح میں رہی۔ تیسری خاتون جس سے آپ نے نکاح کیا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی حضرت عائشہ ؓ تھی۔ ان کے ساتھ نکاح مکہ میں نابالغ عمر میں ہوا اور رخصتی مدینہ میں آ کر ہوئی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جوانی کا زمانہ تو آپ نے بوڑھی عورتوں کے ساتھ گزار دیا تو بڑھاپے میں آپ کو زیادہ بیویاں کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی ؟ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کثرت ازواج کا حکم حضور ﷺ کو خود اللہ نے دیا تھا انا احللنا لک یعنی ہم نے آپ کے لئے حلال کردیں۔ اور اس میں مصلحت یہ تھی کہ دین اسلام کی تبلیغ کو عام کیا جاسکے۔ چونکہ عورتوں کے مسائل عورتوں سے ہی دریافت کئے جاسکتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ عورتیں حضور ﷺ کی صحبت میں رہ کر احکام دین سیکھیں اور پھر ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں چناچہ آپ کی تمام ازواج مطہرات عالمہ فاضلہ اور نہایت پاکباز تھیں ، لہٰذا انہوں نے تبلیغ دین کے لئے بڑا کام کیا۔ اس کام میں ان کا حصہ بعض اوقات مردوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ کثرت ازواج کا دوسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف نفرت کو حتی الامکان دور کیا جائے۔ چناچہ اس سلسلہ میں بہت حد تک کامیابی بھی ہوئی۔ ابو سفیان ؓ اگرچہ قریش خاندان سے تھے مگر حضور ﷺ اور دین کے سخت دشمن تھے ، مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ کا نکاح حضور کے ساتھ ہوگیا تو ابو سفیان ؓ کی دشمنی بہت حد تک کم ہوگئی تھی۔ یاد رہے کہ آپ پہلے ہی اسلام لا چکی تھیں اور مہاجرین حبشہ میں بھی شامل تھیں۔ وہیں آپ کا نکاح حضور ﷺ کے ساتھ غائبانہ طور پر وہا تھا۔ حضرت صفیہ ؓ بطور لونڈی آپ کے پاس آئی تھیں مگر آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا۔ اس طرح یہودیوں کی نفرت بھی کم ہوگئی۔ اسی نکاح کی وجہ سے یہودیوں کو حضور ﷺ کے قریب آنے کا موقع ملا۔ اور ان میں سے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ، عربوں میں یہ عام دستور تھا کہ جس خاندان میں کسی شخص کا نکاح ہوجاتا وہ سارا خاندان اس شخص کو اپنا داماد سمجھتا۔ اور حتی الامکان اس سے حسن سلوک سے پیش آتا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ کثرت ازواج کی وجہ سے آپ کی دشمنی بہت کم و گئی۔ اسی طرح باقی نکاحوں کی وجہ سے بھی اسلام کو بہت فائدہ پہنچا۔ لونڈیوں کی علت حضور ﷺ کی پہلی خصوصیت تو اللہ نے یہ بیان فرمائی کہ آپ کو کثرت ازواج کی اجازت فرما دی اور آپ کی دوسری خصوصیت یہ ہے وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک اور وہ لونڈیاں بھی آپ پر ہم نے حلال قرار دی ہیں جو اللہ نے آپ پر لوٹائی ہیں۔ مثلاً حضرت صفیہ کا تعلق یہودی خاندان سے تھا اور وہ آپ کے ہاں بحیثیت لونڈی آئی تھیں۔ یہودیوں کی ایک اور عورت ریحانہ بھی بطور لونڈی آپ کی تحویل میں آئی تھی۔ اسی طرح مصر کے بادشاہ مقوقس نے ماریہ قبطیہ ؓ نامی لونڈی آپ کی خدمت میں بھیجی تھی جس سے اولاد بھی ہوئی۔ تو اللہ نے فرمایا کہ ہم نے آپ کے لئے لونڈیاں بھی حلال قرار دی ہیں۔ یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ لونڈیاں تو عام مسلمانوں کے لئے بھی حلال ہیں اس میں حضور ﷺ کے لئے کیا خصوصیت ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ لونڈیوں کے معاملے میں حضور ﷺ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد بھی کوئی امتی ایسی لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا جو حضور ﷺ کی ملکیت میں رہی ہو۔ خاندانی و مہاجر عورتوں سے نکاح اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی تیسری خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے و بنت عمک و بنت عمتک و بنت خالک و بنت خلتک التی ھاجون معک اور آپ کے لئے ہم نے حلال قرار دی ہیں آپ کی چچا کی بیٹیاں اور پھوپھی کی بیٹیاں اور ماموں کی بیٹیاں اور خالہ کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ رشتہ کی مذکورہ عورتوں سے نکاح تو عام مسلمانوں کا بھی حلال ہے۔ تاہم حضور ﷺ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کا نکاح مذکورہ عورتوں میں صرف اسی وقت حلال ہے جب کہ انوں نے ہجرت بھی کی ہو یعنی مکہ چھوڑ کر آپ کے پاس مدینہ طیبہ آگئی ہوں۔ البتہ جن عورتوں نے ہجرت نہیں کی ان کے ساتھ آپ کا نکاح حلال نہیں۔ حالانکہ عام مسلمانوں کے لئے یہ شرط نہیں ہے۔ چناچہ حضور ﷺ نے حضرت علی کی ہمشیرہ ام ہانی ؓ سے نکاح کی خواہشظاہر کی تھی مگر اللہ نے محض اس لئے منع فرما دیا کہ اس نے ہجرت نہیں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے خاندان کی غیر مہاجر عورتوں سے شادی سے اس لئے منع کردیا کہ اس طرح ان عورتوں کو دوہری فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ ایک تو وہ آپ کے خاندان قریش سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسرے اگر وہ آپ (علیہ السلام) کی زوجیت میں آ جتایں تو شاید اس دوہری فضیلت پر اترانے لگتیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگا دی کہ ان عورتوں سے نکاح صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ہجرت کی ہو۔ ہجرت چونکہ محض رضائے الٰہی کے لئے کی جاتی ہے ، لہٰذا مہاجر عورتوں میں فخر و خود پسندی کا احتمال بہت کم تھا۔ ہجرت کے ساتھ مشروط کرنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جس عورت نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہوگی ، اس کو دین کی تعلیم و تربیت کا بھی زیادہ موقع ملا ہوگا اور زیادہ عورتوں سے نکاح کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اسلام کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو لہٰذا اللہ نے ہجرت کی یہ شرط عائد کردی۔ بغیر مہر کے نکاح کی اجازت اللہ نے حضور ﷺ کی چوتھی خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے۔ وامراۃ مومنۃ ان و ھبت نفسھا للنبی ان ارادنبی ان یستنکحھا اور ہم نے وہ مومنہ عورت بھی آپ کے لئے حلال کردی ہے جو اپنے نفس کو نبی کے لئے بخش دے۔ اگر اللہ کا نبی اس سے نکاح کا ارادہ رکھتا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت ازخود بغیر مہر کے نبی (علیہ السلام) سے نکاح پر رضامند ہے تو اس کی بھی اجازت دے دی گئی۔ جب کہ عام امتیوں کے لئے مہر کی ادائیگی ضروری ہے۔ جیسا کہ سورة النساء میں ہے و احل لکم ما وراء ذلکم ان تبتغوا باموالکم (آیت۔ 42) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے چار محرکات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے علاوہ باقی عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ تم مال خرچ کرو یعنی انہیں حق مہر ادا کرو۔ یہ ادائیگی اس قدر ضروری ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے نکاح کے بعد مباشرت نہیں کی فنصف ما فرضتم (البقرہ۔ 732) تو پھر بھی اسے نصف مہر ادا کرنا ہوگا۔ تاہم اللہ نے نبی (علیہ السلام) کو مہر کی ادائیگی کے بغیر بھی نکاح کی اجازت دے دی جب کہ کوئی عورت ازخود ایسا کرنے پر رضامند ہو۔ حضور ﷺ کو اللہ کی طرف سے یہ اجازت تو مل گئی ، مگر آپ کی حیات مبارکہ میں ایسا کوئی موقع نہیں آیا کہ آپ نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا ہو۔ ایک خاتون نے اپنے آپ کو حضور کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مگر آپ نے یہ پیشکش قبول نہیں فرمائی تھی بلکہ اس عورت کا نکاح اپنے ایک صحابی سے کرا دیا تھا۔ یہ بھی حضور ﷺ کی خصوصیت ہے۔ اللہ نے فرمایا خالصۃ لک من دون المومنین یہ سہولت خالص آپ کے لئے ہے۔ باقی مومنوں کے لئے نہیں۔ احکام الٰہی کی حکمت آگے ارشاد ہوتا ہے قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم تحقیق ہم جانتے ہیں جو ہم نے ان کی بیویوں کے بارے میں مقرر کیا ہے وما ملکت ایمانھم اور ان کی لونڈیوں کے بارے میں بھی مطلب یہ ہے کہ ہم نے عام نکاح اور لونڈیوں کے بارے میں جو قحقو و مہر مقرر کئے ہیں ان کی ادائیگی ضروری ہے ہاں اگر کوئی عورت از خود سارا یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دے تو اس کی اجازت ہے فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ہنیئا من یا (النسائ۔ 4) یعنی اگر وہ مہر کا کچھ حصہ معاف کر کے تمہیں خوش کرلیں۔ تو پھر تم اسے خوشگوار اور خوش ہضم کھا سکتے ہو۔ اور اگر تمہاری بیوی مہر لینا چاہتی ہے تو ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ آخرت میں مواخذہ ہوگا۔ فرمایا ، نکاح کے بارے میں ہم نے یہ خصوصی احکام اس لئے جاری کئے ہیں لکیلا یکون علیک حرج تاکہ آپ پر کوئی تنگی نہ ہو۔ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دین کو قائم کرنا ہے ، اسلام کو پھیلانا ہے ، لہٰذا اللہ نے آپ کے لئے بعض سہولتیں پیدا کردی ہیں تاکہ آپ ترویج دین کے سلسلہ میں کوئی دقت محسسو نہ کریں مثلاً یہ کہ آپ بیک وقت چار سے زیادہ نکاح بھی کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی عورت ایسا چاہے تو آپ بغیر مہر کے بھی نکاح کرسکتے ہیں۔ فرمایا و کان اللہ غفور رحیما اللہ تعالیٰ نہایت ہی بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ وہ معمولی غلطیوں ، کوتاہیوں کو معاف کرتا رہتا ہے اور بندوں کو اپنی رحمت سے نوازتا رہتا ہے۔
Top