Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 54
اِنْ تُبْدُوْا شَیْئًا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم ظاہر کرو شَيْئًا : کوئی بات اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ كَانَ : ہے بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے عَلِيْمًا : جاننے والا
اگر تم ظاہر کرو گے کسی چیز کو یا چھپائو گے تو بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے
گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کے گھر کے آداب سکھائے کہ آپ کے گھروں میں بلا اجازت نہ جائو۔ اگر تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے تو قبل از وقت نہ جائو اور جب کھانا کھا چکو تو بات چیت کے لئے بیٹھے نہ رہو۔ بلکہ اٹھ کر چلے جائو۔ اگرچہ نبی کریم (علیہ السلام) اپنے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں مگر انہیں بلاوجہ رک جانے سے تکلیف پہنچتی ہے۔ پھر نبی کی ازواج مطہرات کے متعلق فرمایا کہ تمہیں ان سے کوئی چیز طلب کرنی ہو تو سامنے نہ آئو۔ بلکہ پردہ داری کا خیال رکھتے ہوئے پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ تمہارے اور ان کے دلوں کی طہارت کے لئے یہی طریقہ بہتر ہے تاکہ دلوں میں کسی قسم کے وسوسے نہ پیدا ہونے پائیں۔ عام عورتوں کے برخلاف نبی کی بیویوں سے متعلق زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اب آج کی آیات بھی حضور نبی کریم (علیہ السلام) اور آپ کی ازواج مطہرات کے آداب سے متعلق ہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے وما کان لکم ان تودوا رسول اللہ یہ بات تمہارے لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو کسی طرح بھی تکلیف پہنچائو۔ بلکہ تمہیں تو ہر وقت نبی کا ادب و احترام قائم رکھنا چاہئے۔ اپنے قول و فعل سے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے۔ جو آنحضرت ﷺ کے لئے تکلیف کا باعث ہو ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذلکم کان عند اللہ عظیما اور نہ یہ کہ تم نکاح کرو۔ اس کی بیویوں سے اس کے بعد کبھی بھی ، بیشک تمہاری یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ بات حضور ﷺ کے ادب کے علاوہ بھی مناسب نہیں کہ نبی کی بیویوں کے ساتھ کوئی دوسرا شخص نکاح کرے۔ نبی (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ میں تو ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا کہ آپ نے کسی کو طلاق دی ہو اور اس نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کیا ہو۔ صرف ایک بیوی کو حضور ﷺ نے قبل از مقاربت طلاق دی تھی۔ اس ضمن میں فقہاء اور علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی عورت نکاح ثانی کرسکتی ہے یا نہیں ، تاہم زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بغیر مقاربت کے طلاق شدہ عورت پر نکاح ثانی کی حد عائد نہیں ہوتی۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک عورت کے نکاح کرلینے کی اطلاع پر آپ نے کہا تھا کہ یہ عورت امہات المومنین میں شامل نہیں ہے۔ حضور ﷺ کی وفات کے وقت آپ کے عقد میں نو بیویاں تھیں مگر اس آیت کی رو سے کسی امتی نے کسی عورت کے ساتھ نکاح نہیں کیا۔ آپ کی دو لونڈیاں بھی تھیں مگر انوں نے بھی نکاح نہیں کیا کہ ایسا کرنا حضور ﷺ کو اذیت پہنچانے کے مترادف تھا۔ امہات المومنین کے نکاح ثانی نہ کرنے کے متعلق مفسرین کرام کئی ایک وجوہات بیان کرتے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت دین کو امہات المومنین کے ساتھ وابستہ کردیا تھا۔ پیچھے اسی سورة میں گزر چکا ہے والذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ (آیت۔ 43) تمہارے گھروں میں جو آیات الٰہی اور سنت پڑھی جاتی ہے اس کو عام کرو۔ اسی مقصد کے لئے اللہ نے حضور ﷺ کو چار سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔ تو اگر آپ کے بعد آپ کی ازواج دوسرا نکاح کرلیتیں تو اس سے اشاعت اسلام کا اہم فریضہ متاثر ہونے کا احتمال تھا لہٰذا اللہ نے نبی کی بیویوں پر نکاح ثانی کرنے پر پابندی لگا دی اور اگر کوئی شخص ازواج مطہرات کی نفسانی تقاضوں کی بات کرے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ ان پاک نفوس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ نبی کی رفاقت میں امہات المومنین کے دلوں کو وہ سکون اور اطمینان حاصل تھا۔ جو دنیا بھر میں کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ پیچھے آیت 06 میں یہ بھی گز چکا ہے و ازواجہ امھتھم کہ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں لہٰذا جس طرح حقیقی ، سوتیلی اور رضاعی ماں کیس اتھ نکاح حرام ہے ، اسی طرح امہات المومنین کے ساتھ بھی نکاح حرام ہے۔ البتہ ان کی اوالد سے امتی کا نکاح ہو سکتا ہے کہ حرمت نکاح صرف ازواج مطہرات تک محدود ہے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ نکاح کے ضمن میں حقیقی ماں ، سوتیلی ماں ، رضاعی ماں اور ام المومنین کا ایک ہی حکم ہے ، تاہمبعض مسائل مختلف بھی ہیں۔ مثلاً حقیقی یا رضاعی ماہ سے پردہ نہیں ہوتا مگر ام المومنین سے پردہ کرنا پڑتا ہے۔ حقیقی ماں کا خرچہ اولاد کے ذمے ہوتا ہے مگر ام المومنین کے خرچہ کی ذمہ داری عام مومن پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ان کا کفیل بیت المال ہوتا ہے۔ امہات المومنین کے ساتھ امتی کے نکاح کی ممانعت کی ایک وجہ مسئلہ تخیر بھی ہے۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ جب ازواج مطہرات نے نبی (علیہ السلام) سے خرچہ بڑھانے کا مطالبہ کیا تو اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان کو کہہ دیں کہ اگر تم دنیا کی زیب وزینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں اچھے طریقے سے علیحدہ کر دوں اور اگر اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کے گھر کی طلبگار ہو تو پھر اسی پر قناعت کرو۔ ازواج مطہرات نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا اور اپنے مطالبہ سے دستبردار ہوگئیں۔ چناچہ اللہ نے ان کی اس قربانی کے پیش نظر اپنے نبی کو یہ حکم بھی دیا کہ آپ مزید نکاح نہیں کرسکتے اور نہ ان کے بدلے میں کوئی دوسری عورت نکاح میں لاسکتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے نبی (علیہ السلام) کی رفاقت کو پسند کیا۔ اس لئے اللہ نے کسی امتی کو ان کے ساتھ نکاح کی ہمیشہ کے لئے ممانعت فرما دی۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) اپنی تفسیر معارف القرآن میں ایک وجہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جس طرح نبی کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی اسی طرح نبی کی بیویوں کے ساتھ نکاح بھی حرام ہے کیونکہ نبی کو حیات حاصل ہے۔ نبی دنیا کی زندگی تو ختم کرچکے ہیں مگر برزخ میں ان کو مکمل زندگی حاصل ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غائب ہوچکا ہو۔ جس طرح غائب شخص کی بیوی کے ساتھ نکاح نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح نبی کی بیوی کے ساتھ بھی نکاح درست نہیں۔ مولانا عبدالحق حقانی (رح) اپنی مشور و معروف تفسیر حقانی کی چھٹی جلد میں لکھتے ہیں کہ نبی پر طبعی موت تو واقع ہوئی ہے کیونکہ نص قرآنی سے ثابت ہے کل نفس ذائقۃ الموت (آل عمران۔ 581) ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے انک میت وانھم میتون (الزمر۔ 03) اے نبی آپ پر بھی موت وارد ہونی ہے اور ان پر بھی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود حضور ﷺ کو ابدی حیات حاصل ہے جو شہیدوں سے بھی ہزار درجہ بڑھ کر ہے۔ آپ کا دنیا کے ساتھ اب بھی ویسا ہی تعلق ہے جیسا طبعی حیات کہ وقت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے جسد اطہر کو خاک نہیں کھا سکتی اور اسی لئے لوگوں نے بہت سے آثار غریبہ مشاہدہ کئے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ زندہ ہیں اور حیات النبی مشہور ہیں۔ چناچہ زندہ شخص کی بیوی کے ساتھ نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔ مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی تفسیر مظہری میں رقمطراز ہیں کہ ممکن ہے نبی کی بیویوں کے ساتھ نکاح کی ممانعت اس وجہ سے ہو ان النبی حی فی قبرہ کہ اللہ کا نبی قبر میں زندہ ہے ، یہ زندگی محض روحانی زندگی نہیں کیونکہ روح تو ابوجہل کی بھی زندہ ہے ، بلکہ نبی کی زندگی کمال درجے کی زندگی ہے۔ اس برزخی زندگی کے متعلق سلف کے دو مسلک ہیں۔ اگر آپ کی روح مبارک علیین میں 1 ؎ معارف القرآن و مظہری 804 ج 7 2 ؎ تفسیر حقانی ص 78 ج 6 3 ؎ مظہری ص 804 ج 7 ہے تو اس کا تعلق قبر کے ساتھ بھی ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ من صل علی عند قبری سمعتہ و من صل نائیاً ابلغتہ یعنی جو شخص میری قبر پر آ کر درود پڑھے گا تو میں اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھ تک پہنچایا جائے گا۔ حیات النبی ﷺ کے مخالف علماء اس حدیث کو ضعیف بتاتے ہیں حالانکہ یہ حدیث سات سندوں سے آذئی جن میں بعض ضعیف بھی ہیں یعنی ان میں مردانھ سدی صغیر ضعیف راوی ہے مگر امام ابن قیم (رح) نے ابن شیخ کے حوالے سے جو روایت نقل کی ہے وہ بالکل صحیح ہے ، اس کی سند میں کوئی راوی ضعیف نہیں ہے۔ یہ حدیث امام بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں بھی نقل کی ہے۔ امام بیہقی (رح) نے حیات الانبیاء کے نام سے ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے۔ معراج کے واقعہ والی رویات بھی حیات النبی کی تصدیق کرتی ہے۔ جس میں حضور ﷺ نے فرمایا رایت موسیٰ یصلی فی قبرہ قائما میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ کھڑے ہونا جسم کی صفت ہے نہ کہ روح کی۔ گویا آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو روح اور جسم کے ساتھ زندہ مشاہدہ کیا۔ آپ یہ بھی پڑھتے ہیں کہ قبر کو محض ایک گڑھا نہ سمجھو بلکہ مومن کی قبر تاحد نکاح وسیع ہوجاتی ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ میرے منبر اور حجرے کے درمیان والا خطہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ظاہر ہے کہ قبر کسی کے لئے جنت کا باغ بن جاتی ہے اور کسی کے لئے جہنم کا گڑھا۔ اس لئے بعض علماء نے امہات المومنین سے نکاح کی ممانعت کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ آپ حیات ہیں۔ یہ مسلک صرف مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) کا نہیں بلکہ آپ سے پہلے بزرگوں نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ خاص 1 ؎ مشکوۃ ص 78 و مظہری 804 ج 7 2 ؎ مسلم 862 ج 2 و نسائی ص 242 ج 1 و مسند احمد 841 ج 3 3 ؎ بخاری ص 851 ج 1 و مسلم 644 ج 1 4 ؎ حقانی ص 78 ج 6 طور پر قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) تو آپ سے سو سال پہلے فرماتے ہیں۔ امام ابوبکر ؓ تو چھٹی صدی کے مفتی ہیں ، انہوں نے بھی امہات المومنین سے نکاح کی حرمت کی کئی وجہ بیان کی ہے۔ بہرحال نبی کی بیویوں کے ساتھ نکاح کی صراحتاً ممانعت آئی ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ کوئی غیرت مند پسند نہیں کرتا کہ اس کی بیوی کسی دوسرے کے پاس جائے تاہم طلاق یا بیوگی کی صورت میں عام مومننی کے لئے اللہ نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر کوئی میاں بیوی دونوں جنت میں گئے تو کسی عورت کے متعدد خاوند ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ ابدی زندگی وہ شخص گزارے گا جو دنیا میں اس کا آخری خاوند ہوگا۔ لہٰذا میری وصیت ہے کہ میرے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرنا۔ اگر اللہ نے ہم پر خاص مہربانی فرمائی تو ہم دونوں جنت میں میاں بیوی کی حیثیت سے رہیں گے اور پیغمبر (علیہ السلام) کے متعلق تو یہ بات طے ہے کہ جن ازواج مطرات نے دنیا میں آپ کی رفاقت کو اختیار کیا وہ برزخ میں بھی آپ کی بیویاں ہیں اور آخرت میں بھی وہی بیویاں ہوں گی۔ اس میں پیغمبر (علیہ السلام) کی طبعی خواہش کا بھی احترام کیا گیا ہے جو ہر غیرت مند آدمی میں پائی جاتی ہے۔ فرمایا ان تبدوا شیئا و نخفوہ اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو ، چھپائو فا اللہ کان بکل شیء علیما تو اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی زندگی میں ہی بعض منافق اس قسم کی باتیں کرتے تھے کہ حضور ﷺ کی فوتیدگی کے بعد میں آپ کی فلاح بیوی سے نکاح کروں گا۔ بعض مخلص مسلمانوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا۔ چناچہ مفسرین حضرت عبدالرحمن بن عوف (رح) اور حضرت طلحہ ؓ کے متعلق ایسی باتیں 1 ؎ درمنثور ص 512 ج 5 2 ؎ البحرالمحیط ص 742 ج 7 3 مظہری ص 704 ج 7 نقل کرتے ہیں۔ حضرت طلحہ کے متعلق خاص طور پر آتا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ کیونکہ وہ آپ کی چچازاد بنتی تھیں۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت طلحہ ؓ نے بڑا استفسار کیا ، ایک غلام آزاد کیا اور ایک حج پیدل چل کر کیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی زبان سے نکلی ہوئی یہ غلط بات معاف کر دے۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ تمہاری ظاہر اور باطن سب باتوں کو جانتا ہے نبی کی ازواج امتی کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہیں لہٰذا ایسی بات دل میں ہرگز نہ لائو۔ پہلی آیت کے ابتدائی حصے میں اللہ کا یہ فرمان گزر چکا ہے کہ امتیوں کے لیئے ضروری ہے کہ امہات المومنین سے پردہ کا اہتمام کریں اور اگر ان سے کوئی چیز طلب کرنی ہو تو پردے کے پیچھے سے طلب کریں۔ البتہ سورة نور میں محرموں سے عدم حجاب کے احکام گزر چکے ہیں۔ کوئی عورت اپنے محرم کے ساتھ خلوت میں بیٹھ سکتی ہے اور اس کے ساتھ سفر بھی کرسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہی قانون امہات المومنین کے لئے نافذ العمل رکھا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لاجناح علیھن فی آبائھن ولا ابنائھن ولا اخوانھن ولا ابناء و اخوانھن ولا ابناء اخواتھن ولا نسائھن ولا ما ملکت ایمانھن نبی کی بیویوں کو اپنے باپوں ، بیٹوں ، بھائیو ، بھتیجوں ، بھانجوں ، اپنی عورتوں اور غلاموں کے سامنے آنے میں کوئی روک نہیں ہے۔ عورتیں اور غلام تو ویسے ہی پردے سے مستثنیٰ ہیں۔ باقی تمام رشتہ دار عورت کے محرم بنتے ہیں جن سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہے ، اس لئے فرمایا ان سے پر دہضروری نہیں ہے۔ لونڈی غلام کو تو سورة نور میں بھی پردے سے مستثنیٰ قرار دیا جا چکا ہے۔ البتہ باقی غیر محرموں سے پردہ نہایت ضروری ہے۔ فرمایا و اتقین اللہ نبی کی بیویو ! اللہ سے ڈرتی رہو۔ اس کا خوف ہمیشہ تمہارے پیش نظر رنا چاہئے کہ کہیں کوئی غلطی سرزد نہ ہوجائے۔ ان اللہ کان علی کل شیء شہیدا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ اس کی نگاہ سے کوئی چیز غائب نہیں۔ وہ تمہارے اعمال و کردار کا نگہبان اور محافظ ہے ، لہٰذا تمہیں ازحد محتاط رہنا چاہئے۔ یہ امہات المومنین کے لئے خصوصی تعلیم ہوگئی۔
Top