Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی
قُلْ
: فرمادیں
لِّاَزْوَاجِكَ
: اپنی بیبیوں کو
وَبَنٰتِكَ
: اور بیٹیوں کو
وَنِسَآءِ
: اور عورتوں کو
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
يُدْنِيْنَ
: ڈال لیا کریں
عَلَيْهِنَّ
: اپنے اوپر
مِنْ
: سے
جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ
: اپنی چادریں
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَنْ
: کہ
يُّعْرَفْنَ
: ان کی پہچان ہوجائے
فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ
: تو انہیں نہ ستایا جائے
وَكَانَ اللّٰهُ
: اور اللہ ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
اے نبی ! آپ کہہ دیجئے اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مومنوں کی عورتوں سے کہ وہ نیچے لٹکا لیا کریں اپنی چادریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور ان کو تکلیف نہ دی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا ازحد مہربان ہے
گزشتہ آیات میں پہلے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی تعظیم و تکریم اور آپ کے گھر کے اداب بیان فرمائے۔ پھر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا مسئلہ بیان ہوتا ہے اس کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی ایذارسانی پر وعید سنائی گئی کہ ایسا کرنا دنیا و آخرت میں لعنتی بننا ہے ، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ذلت ناک عذاب کی وعید سناتا ہے ، پھر فرمایا جس طرح اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچانا بہت بری بات ہے اسی طرح عام بےگناہ اہ لایمان کی ایذارسانی بھی صریح بہتان اور کھلا گناہ ہے۔ اللہ نے ایسی چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی (علیہ السلام) کی ازواج مطہرات ، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو پردے کا حکم دیا ہے یایھا النبی قل لا زواجک و بنتک و نساء المومنین اے نبی (علیہ السلام) ! اپنی ازواج مطہرات ، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کو کہہ دیں یدنین علیھن من جلابیھن کہ وہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں نیچے لٹکا لیکا کریں۔ یعنی کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا پڑے تو با پردہ نکلیں۔ ذلک ادنی ان یعرفن یہ بات زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں فلا یو ذین اور ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ زمانہ جاہلیت میں عام طور پر لونڈیاں بےپردہ باہر آجاتی تھیں کیونکہ انہیں اپنے مالکوں کی خدمت کرنا ہوتی تھی ، سودا سلف لانا یا کوئی پیغام رسانی کا کام کرنا ہوتا تھا اور پھر اوباش قسم کے لوگ ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لونڈیاں ہیں نہ کہ گھر گرہستی باقاعدہ منکوعہ اور باعزت عورتیں۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ جب آزاد عورتیں باہر نکلیں تو باپردہ نکلیں تاکہ پہچانی جاسکیں کہ یہ باعزت عورتیں ہیں اور کوئی بدکن آدمی ان سے تعرض نہ کرسکے۔ ان کو تکلیف پہنچانے کا یہی مطلب ہے کہ ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے ، کوئی آوازے نہ کسے۔ پردے کا تفصیلی حکم تو سورة نور میں آ چکا ہے تاہم اس مقام پر نبی کے اہل خانہ کی عزت و احترام کے طور پر ان کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ازواج مطہرات بالعموم رات کے وقت قضائے حاجت کے لئے گھروں سے باہر جاتی تھیں کیونکہ اس زمانے میں گھروں میں تو اس قسم کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ بعض دیگر ضروریات کے لئے بھی گھر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ چونکہ اس وقت منافق قسم کے لوگوں کی طرف سے کسی تعرض کا خطرہ تھا۔ اس لئے حضرت عمر ؓ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی ممکنہ بدسلوکی سے بچنے کے لئے ازواج مطہرات کو باپردہ باہر نکلنا چاہئے۔ چناچہ 5 ھ میں اللہ نے پردے کے یہ احکام نازل فرما دیئے۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے عورتوں سے فرمایا اذن لکن ان تخرجن لحوئجکن تم اپنی حاجتوں کے لئے باہر جاسکتی ہو لیکن پردے کے ساتھ تاکہ کوئی بداخلاقی کا واقعہ پیش نہ آئے۔ تو اس سلسلے میں سب سے پہلے امہات المومنین کو خطاب کیا گیا ، پھر نبی (علیہ السلام) کی بیٹیوں کو اور پھر عام مومن عورتوں کو۔ پردے سے متعلق پہلے اسی سورة کے چوتھے رکوع میں گزر چکا ہے کہ ازواج مطہرات گھروں میں رہیں ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولی اور جاہلیت اولی کی طرح کھلے عام بےپردہ نہ پھریں۔ اس وقت 1 ؎ مظہری ص 814 ج 7 و در منثور ص 122 ج 5 2 ؎ مظہری ص 914 ج 7 و در منثور ص 112 ج 5 بھی شریف عورتیں جلابیت یعنی بڑی چادریں استعمال کرتی تھیں جس سے سارا جسم ڈھانپ لیا جاتا تھا اور بدن کے نشیب و فراز نظر نہیں آتے تھے۔ برقع بھی اسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال مقصد پردہ ہے خواہ برقع پہن کر ہو یا بڑی چادر لے لی جائے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ عورت کا سارا جسم ستر ہے۔ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔ لہٰذا عورتوں کو بھڑکیلا لباس پہن کر باہر جانے سیمنع کیا ہے حتیٰ کہ اگر وہ نماز کے لئے بھی جائیں تو سادہ لباس پہن کر نکلیں اور زیور نہ پہنیں ، نہ خوشبو لگائیں ، یہی چیزیں فتنے کا باعث بنتی ہیں۔ لہٰذا ان سے منع کیا گیا ہے۔ عورتوں کی پردہ داری کی خاطر ان پر نہ جمعہ فرض کیا گیا ہے اور نہ عید کی نماز واجب ہے۔ عام نمازوں میں بھی ان کے لئے جماعت کی پابندی نہیں کہ وہ ضرور مسجد میں ہی جا کر نماز ادا کریں۔ ان کو مسجد میں جانے کی صرف اجازت ہے۔ بشرطیکہ راستہ پرامن ہو اور کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ تاہم عورتوں کے لئے گھر میں نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ اس آیت سے شیعہ حضرات کے اس غلط نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے کہ حضور ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ تھی ؓ ۔ لفظ بنتک جمع کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے کہ حضور ﷺ کی متعدد بیٹیاں تھیں۔ حضور ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں جن کے نام زینب ؓ ، رقیہ ؓ ، ام کلثوم ؓ اور فاطمہ ؓ ہیں۔ شیعہ حضرات کی معتبر ترین کتاب اصول کافی میں بھی چار بنات کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ لہٰذا جو لوگ آپ کی تین بیٹیوں کا انکار کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ پردے کا حکم دراصل انسداد فواحش کے لوازمات میں سے ہے شریعت نے یہ حکم اس لئے دیا ہے تاکہ برائی کا موقع پیدا نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر شریعت نے شراب کو حرام قرار دیا ہے تو اس کی مبادی یعنی کشید کرنا اور اس کی تجارت بھی حرام قرار دے دی ہے تاکہ شراب نوشی کا موقع ہی پیدا نہ ہو۔ اس طرح شریعت نے نکاح کی ترغیب دی ہے تاکہ برائی کی طرف رغبت نہ ہو اور پردے کا حکم دیا ہے تاکہ بےحیائی کے اسباب کو ہی روک لیا جائے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جدید تہذیب کے دلدادہ پردے کو عورت کی حق تلفی قرار دیتے ہیں ، کہتے ہیں کہ یہ پردہ مضر صحت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عورتوں کو سرعام برہنہ کردیا گیا ہے۔ اب وہ برقع یا بڑی چادر تو درکنار معمولی دوپٹے کو بھی سر پر لینا بار سمجھتی ہیں اور محض گلے میں لٹکا لینا ہی کافی سمجھتی ہیں۔ اس بےپردگی سے یورپی ممالک کی شریف الطبع انگریز بھی نالاں ہوچکے ہیں۔ اب اخلاق بگڑ رہے ہیں اور نسلیں خراب ہو رہی ہیں۔ پچھلی صدی میں ڈاکٹر سپنسر بہت بڑا فلاسفر ہوا ہے ، جس نے جدید تہذیب کے خلاف سخت ریمارکس دیئے تھے۔ کہتا ہے کہ یورپ کی پینتالیس کروڑ کی آبادی میں سے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ پینتالیس بچے بھی حلالی ہوں ، فحاشی کا اس قدر دور دورہ ہے کہ حلال و حرام کی تمیز ہی اٹھ چکی ہے۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے فحاشی سے بچنے کے لئے سخت قانون دیئے ہیں جن کی پابندی سے انسانی اخلاق درست رہ سکتے ہیں اور انسانی سوسائٹی پاک رہ سکتی ہے۔ اسی لئے شریعت نے پردے کے احکام نازل فرما کر عورتوں کے غیرمحرم مردوں سے میل جول بغیر محرم کے سفر کرنے اور کھیل تماشے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اسلام نے تصویر کشی کو بھی اسی لئے حرام قرار دیا ہے کہ یہ فحاشی کے مبادی میں سے ہے۔ چہجائی کہ کہ سٹیج پر نیم برہنہ رقص ہو اور مرد و زن کا عام اختلاط ہو۔ بہرحال شریعت مطہرہ نے پردے کے احکام نازل فرما کر مسلمان سوسائٹی کو ہر قسم کی قباحتوں سے پاک رکھنے کا درس دیا ہے اس کے باوجود اگر کوئی کوتاہی ہوجائے یا خامی رہ جائے تو فرمایا و کان اللہ غفوراً رحیما تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہبران ہے۔ مطلب یہ کہ اگر پردے کے اہتمام کے باوجود کچھ کوتاہی رہ جائے تو اللہ معاف کر دے گا۔ خدا کے قانون یک پابندی کا جذبہ اور اہتمام ہونا چاہئے۔ نیت نیک ہے تو اللہ تعالیٰ بلاوجہ کسی کو ملعون نہیں کرتا اور نہ وہ گرفت کرے گا۔ تعزیری قانون چونکہ خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات منافقین کی وجہ سے پیش آتے رہتے تھے اس لئے اگلی آیت میں اللہ نے اس قباحت کے لئے تعزیری قانون بھی بیان فرما دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لئن لم یتنہ المنفقون اگر منافق لوگ ان شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے۔ والذین فی قلوبھم مرض اور وہ لوگ بھی جن کے دلوں میں شہوانی بیماری ہے والمرجفون فی امدینۃ اور شہر میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے لنغرینک بھم تو ہم آپ کو ان کے خلاف ابھاریں گے۔ یعنی ایسے لوگوں پر آپ کو غالب کردیں گے۔ آپ ان پر تعزیر لگائیں۔ یا تو وہ شریف شہری بن کر رہیں گے یا پھر مدینہ سے چلے جائیں گے۔ امام ابوبکر حصاص ؓ فرماتے ہیں کہ یہ تعزیری قانون کی طرف اشارہ ہے۔ بعض جرائم کی حدود تو اللہ نے مقرر کردی ہیں کہ اس سے کم یا زیادہ سزا نہیں دی جاسکتی مگر تعزیری قانون میں سزا کی حد بندی نہیں کی گئی بلکہ اے حاکم وقت کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جرم کی نوعیت کے پیش نظر کم و بیش سزا دے۔ تع میرات میں معمولی سزا سے لے کر جرم کے مطابق سزائے موت تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ قاضی مجرم کو قید کی سزا دے سکتا ہے یا ملک بدر کرنے کے احکام جاری کرسکتا ہے یا مجرم کو کوڑے لگوا سکتا ہے۔ یہاں پر مرجفون کا لفظ خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ قوم کی پست حوصلگی کے لئے زمانہ امن و جنگ میں جھوٹی خبریں یعنی افواہیں پھیلانا دشمن کا ہمیشہ سے حربہ رہا ہے۔ یہاں پر چونکہ پردے کے احکام بیان ہو رہے ہیں تو اس مقام پر مرجفون 1 ؎ احکام القرآن للبصاص ص 854 ج 3 سے مراد بےحیائی اور فحاشی کی جھوٹی خبریں پھیلانا بھی ہو سکتا ہے جس سے سوسائٹی میں انتشار پھیلانا مقصود ہو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ، اور اگر کوئی ایسا شخص گرفت میں آجائے تو پھر قاضی اپنی صوابدید کے مطابق اسے زیادہ سے زیادہ سزا بھی دے سکتا ہے۔ پھر جب ایسے بدطینت لوگوں کا محاسبہ ہوگا تو فرمایا ثم لا یجاورونک فیھا الا قلیلا تو وہ آپ کے پڑوس یعنی شہر مدینہ میں نہیں رہ سکیں گے۔ مگر بہت کم دنوں تک۔ اس قسم کے بداخلاق لوگ خودبخود شہر سے بھاگ جائیں گے اور سوسائٹی پاک ہوجائے گی۔ فرمایا ملعونین یہ لعنتی لوگ ہیں ، ان پر پھٹکار پڑے گی۔ اینما ثقفوا اخذوا پھر جہاں بھی یہ پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے۔ یہ شہر میں چھپ چھپا کر اپنی قبیح حرکات جاری نہیں رکھ سکیں گے بلکہ قانون کی گرفت میں آئیں گے و قتلوا تقتیلا اور سخت طریق سے مارے جائیں گے ، ایسے لوگ تعزیری لحاظ سے واجب القتل ہیں اور ان کے ساتھ نہایت سختی سے نپٹا جائے گا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ تعزیری طور پر ان کے سر قلم کئے جاسکتے ہیں۔ جو لوگ معاشرے میں فحاشی ، بےحیائی اور بداخلاقی پھیلانے کے مرتکب ہوتے ہیں ، وہ کسی ہمدردی کے لائق نہیں ، انہیں سخت ترین سزا ملنی چاہئے۔ اللہ کا اٹل دستور ارشاد ہوتا ہے سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل اللہ کا یہ دستور پہلے لوگوں یعنی سابقہ امتوں میں بھی بدستور جاری رہا ہے۔ پہلی شریعتوں میں بھی غنڈے بدمعاش قسم کے لوگوں کی سرکوبی کے لئے قوانین موجود تھے۔ اب آخری شریعت میں بھی اللہ نے یہی قانون رکھا ہے لوگوں کی عزتو ناموس ک یحفاظت ضروری ہے لہٰذا حکومت وقت کو اس کا مناسب انتظام کرنا چاہئے ، صدر ، وزیر اور مشیر بن کر محض دولت جمع کرنا مطمع نظر نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ کارپردازان حکومت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے مذہب ، اخلاق ، عزت ، کاروبار کی حفاظت کرے ، حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر فرد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ لوگ گلیوں بازاروں میں بیٹھ کر برائی کی طرف مائل نہ ہوں بلکہ سب اپنے اپنے کام میں مصروف رہیں۔ فرمایا اللہ کا یہ قانون ابتدا سے جاری ہے ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا اور تم اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائو گے۔ اس قسم کے قوانین تورات میں بھی موجود تھے اور قرآن میں بھی ہیں ان پر عمل درآمد کرنا حکومت وقت کے فرائض میں شامل ہے۔
Top