Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 6
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِكُمْ مَّعْرُوْفًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
اَلنَّبِيُّ
: نیی
اَوْلٰى
: زیادہ (حقدار)
بِالْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں کے
مِنْ
: سے
اَنْفُسِهِمْ
: ان کی جانیں
وَاَزْوَاجُهٗٓ
: اور اس کی بیبیاں
اُمَّهٰتُهُمْ ۭ
: ان کی مائیں
وَاُولُوا الْاَرْحَامِ
: اور قرابت دار
بَعْضُهُمْ
: ان میں سے بعض
اَوْلٰى
: نزدیک تر
بِبَعْضٍ
: بعض (دوسروں سے)
فِيْ
: میں
كِتٰبِ اللّٰهِ
: اللہ کی کتاب
مِنَ
: سے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
وَالْمُهٰجِرِيْنَ
: اور مہاجرین
اِلَّآ اَنْ
: مگر یہ کہ
تَفْعَلُوْٓا
: تم کرو
اِلٰٓى
: طرف (ساتھ)
اَوْلِيٰٓئِكُمْ
: اپنے دوست (جمع)
مَّعْرُوْفًا ۭ
: حسن سلوک
كَانَ
: ہے
ذٰلِكَ
: یہ
فِي الْكِتٰبِ
: کتاب میں
مَسْطُوْرًا
: لکھا ہوا
اللہ کے نبی کو زیادہ تعلق ہے ایمان والوں کے ساتھ ان کی جانوں سے ، اور نبی کی بیویاں ان (مومنوں ) کی مائیں ہیں اور قرابت دار بعض زیادہ تعقل رکھتے ہیں بعض کے ساتھ اللہ کی کتاب میں ایمان والوں اور ہجرت کرنے والوں سے ، مگر یہ کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوئی احسان کرنا چاہو ۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے
ربط آیات : سورۃ احزاب کے بنیادی مضامین اللہ کے نبی کا ادب واحترام اور عورتوں سے متعقل بعض احکام ہیں ، گزشتہ درس میں اللہ نے فرمایا تھا کہ کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے ، نیز یہ کہ اگر تم اپنی بیویوں کو ظہار کے طریقے پر ماں کہ دو تو وہ مائیں نہیں بن جاتیں ، یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں جن میں حقیقت نہیں ہے ۔ پھر فرمایا کہ جس کو تم منہ بولا بیٹا نا لیتے ہو وہ تمہارا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا لہٰذا اس کو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی نسبت کر کے پکارنا چاہئے اور اگر ایسے کسی شخص کے باپ کا نام پتہ معلوم نہ ہو تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی اور ساتھی ہیں ان کو بھائی کہہ کر پکارا کرو۔ فرمایا اگر غلطی سے یا بھول کر کوئی غلط کلمہ زبان سے نکل جائے تو اللہ کے ہاں اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص عمداً ایسی بات کرے گا تو قابل مواخذہ ہوگا۔ اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کی فضیلت ، مرتبہ اور ایمانداروں کے ساتھ آپ کے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ اس سورة میں یہ مضمون آگے بھی مختلف عنوانوں سے بیان ہو رہا ہے اور اسی ضمن میں ازواج مطہرات کے مرتبہ اور فضیلت کی بہت سی باتیں بھی آ رہ یہیں۔ اہل ایمان پر نبی کا ادب و احترام اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو جو بھی خیروخوبی نصیب ہوئی ہے یا آئندہ ہوگی وہ نبی کے توسط سے ہی ہوگی۔ ایسی کوئی بات یا کوئی فعل نہیں کرنا چاہئے جو نبی کی شان کے خلاف ہو یا اس سے آپ کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ نبی اور مومن کا تعلق نبی اور مومنوں کے باہمی تعلق کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ النبی اولی بالمومنین من انفسھم نبی کو اہل ایمان کے ساتھ ان کی جانوں سے بھی زیادہ تعلق اور لگائو ہے۔ اولیٰ کا معنی قریب بھی ہوتا ہے اور مطلب وہی ہے کہ اللہ کا نبی مومنوں سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے۔ مگر اہل بیت اس کا غلط مفہوم لیتے ہیں۔ وہ اس لفظ سے نبی (علیہ السلام) کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ قرآن اپک نے اس مشرکانہ عقیدے کی مختلف طریقوں سے تردید کی ہے۔ حاضر ناظر ہونا اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے۔ اور مخلوق میں سے کوئی بھی ہستی اس صفت میں شریک نہیں۔ وھو بکل شیء علیم (البقرہ۔ 92) واللہ علی کل شیء شہید (البروج۔ 9) مطلب یہ ہے کہ علیم کل اور ہر جگہ حاضر و ناظر صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس موقع پر نہایت ہی عمدہ تقریر لکھی ہے۔ فرماتے ہیں 1 ؎ تفسیر عثمانی ، ص 245 (فیاض) ہیں کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو مومن آدم یکا ایمان آفتاب نبوت کی ایک شعاع ہے۔ ابریز والے بزرگ اگرچہ امی تھے مگر بڑے علم و فہم والے اور صاحب کشف بزرگ تھے ، ان کے ملفوظات ان کے ایک مرید نے ایک عظیم کتاب کی صورت میں جمع کئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ پیغمبر کے قلب مبارک سے ایک تار سا نکل کر ہر اہل ایمان کے قلب کے ساتھ آ کر مل جاتا ہے۔ اگر یہ تار یعنی تعلق ٹوٹ جائے ، تو انسان سعادت سے محروم ہوجاتا ہے۔ یہ کشفی بات ہے مگر درست ہے۔ اسی لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر مومن غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ ایمان حقیقت میں اللہ کے نبی کے قلب مبارک کی شعاع کا نتیجہ ہے۔ پیغمبر (علیہ السلام) آفتاب نبوت ہیں ، لہٰذا اگر کوئی شخص حقیقت ایمان کو سمجھنے کے لئے فکری حرکت شروع کرے گا تو ایمان کی حقیقت پانے سے پہلے اسے پیغمبر کی معرفت حاصل کرنا پڑے گی ، کیونکہ ایمان تو پیغمبر کے واسطہ سے ہی آتا ہے۔ غرضیکہ نبی کا وجود مسعود ہم سے ہماری ہستی سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ نبی بمنزلہ باپ نبی کے ساتھ اس روحانی تعلق کی بناء پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر (علیہ السلام) مومنوں کے حق میں بمنزلہ باپ کے ہیں۔ حضرت سلمان فارسی کی روایت میں آتا ہے کہ کفار مشرکین حضور ﷺ کے متعلق طرح طرح کی بیہودہ باتیں کرتے تھے اور مختلف قسم کے اعتراض کرتے تھے۔ مگر ہمارا جواب یہی ہوتا تھا کہ پیغمبر (علیہ السلام) ہمارے لئے بمنزلہ باپ کے ہیں بلکہ با پسے بھی زیادہ شفیق ہیں۔ انہوں نے ہمیں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کی تعلیم دی ہے۔ حتیٰ کہ استنجا پاک کرنے کا طریقہ بھی سمجھایا ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے انا لکم بمنزلۃ الوالد یعنی میں تمہارے لئے بمنزلہ باپ ہوں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت جابر ؓ کی روایت کے مطابق قرآن کی بعض قراتوں میں یہ الفاظ بھی 1 ؎ 2 ؎ ابن کثیر ص 764 ، ج 3 3 ؎ در منثور ص 381 ، ج 5 و روح المعانی 251 ، ج 12 و مدارک 492 ، ج 3 و احکام القرآن للجصاص 553 ، ج 3 (فیاض) آتے ہیں و ازواجہ امتھتھمو ھو اب لھم یعنی پیغمبر (علیہ السلام) کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور آپ ان کے حق میں بمنزلہ باپ کے ہیں۔ اگر باپ اور بیٹے کے تعلق پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بیٹے کا وجود باپ کے مرہون منت ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ بار بار حسن سلوک کا حکم دیا ہے و بالوالدین احسانا (بنی اسرائیل۔ 32) باپ کے اپنے بیٹے کے ساتھ اس قریب ترین تعلق کی بناء پر ہی بیٹے کے لئے باپ کی شفقت اور تربیت طبعی ہوتی ہے۔ جتنی باپ کو بیٹے سے ہمدرد یہوتی ہے اتنی اور کسی سے نہیں ہوتی۔ ہر شریف باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بڑھ کر ہو۔ نیک بخت ، لائق اور باعزت ہو ، یہ اس کی طبعی شفقت کا نتیجہ ہوتا ہے ، لیکن اگر بنظر غور دیکھا جائے تو نبی اور امتی کا تعلق اس سے بھی زیادہ ہے۔ باپ تو بیٹے کے ظاہری وجود کا ذریعہ ہوتا ہ۔ نیز باپ کی شفقت بھی طبعی ہوتی ہے۔ مگر نبی کو جو تعلق اور شفقت امتی کے ساتھ ہوتی ہے وہ باپ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ امتی کا روحانی وجود اور اس کا ایمان نبی کی روحانیت کا عکس ہوتا ہے۔ اس لئے نبی کی طرف سے جو شفقت ، مہربانی ، توجہ اور تربیت امتی کے لئے ہوتی ہے وہ والدین سے کہیں زیادہ وتی ہے۔ باپ کے ذریعے اللہ نے ہمیں دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی ہے۔ جب کہ نبی کے طفیل انسانوں کو دائمی حیات حاصل ہوتی ہے۔ جسے ایمان نصیب ہوگیا توحید سمجھ میں آگئی اور نیکی حاصل ہوگئی اسے گویا ابدی حیات مل گئی۔ غرضیکہ اللہ کے نبی ہمارے ساتھ جو ہمدردی ، خیرخواہی ، شفقت اور تربیت فرماتے ہیں ایسی شفقت اور ہمدردی خود ہمارا وجود بھی نہیں کرسکتا۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ کے نبی کو اہل ایمان کے ساتھ ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریبی تعلق ہے۔ نبی کو تصرف کا حق یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی کو مومنوں کے مال وجان میں تصرف کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ، چناچہ شاہ عبدالقادر دہلوی لکھتے ہیں کہ 1 ؎ موضع القرانہ ص 105 (فیاض) اللہ کے نبی کو یہ حق اس لئے حاصل ہے کہ وہ اللہ کا نائب ہے۔ تصرف کی مثال اسی طرح ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو آگ میں ڈالنا پسند نہیں کرتا۔ لیکن اگر اللہ کا نبی حکم دے دے کہ تم ایسا کرو۔ تو امتی پر ایسا کرنا فرض ہوجائے گا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی کو ہماری جانوں اور روحوں پر بھی تصرف حاصل ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ کا ارشاد ہے لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولاد اور سب لوگوں کو زیادہ محبوب نہ بن جائوں۔ نبی کو امتی کے ساتھ زیادہ لگائو اور تعلق کا یہی معنی ہے۔ اگر ہمارا نفس برا ہے تو وہ بری بات کی ہی تلقین کرے گا ، مگر اللہ کا نبی ہمیشہ اچھی بات کی تلقین کرے گا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ نبی کو ہمارے ساتھ خود ہمارے نفسوں سے بھی زیادہ ہمدردی ہے۔ اور اگر انسان کا نفس اچھا بھی ہے تو بسا اوقات وہ انسان کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتا اور ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وقت غلط فیصلہ کر بیٹھے مگر یہ اللہ کے نبی کی شان ہے کہ وہ اپنے امتی کے حق میں ہمیشہ صحیح فیصلہ کرے گا۔ اس کے پیش نظر ہمیشہ امتی کی خیرخواہی ہی ہوگی۔ اپنی جان بھی اپنے ساتھ وہ ہمدردی اور شفقت نہیں کرسکتی جو اللہ کا نبی امتی کے ساتھ کرتا ہے۔ لہٰذا اسے امتی کے ساتھ اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ لگائو ہے۔ ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں نیز یہ بھی وازواجہ امھتھم کہ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں یہ مسئلہ آگے بھی آ رہا ہے جہاں نبی کی بیویوں سے نکاح کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔ بہرحال ازواج مطہرات کو دو وجوہ سے مومنوں کی مائیں قرار دیا گیا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ حضور کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد آپ کی بیویوں کا 1 ؎ ابن کثیر ص 764 ، ج 3 و مظہری ص 803 ، ج 7) ( فیاض) نکاح کسی امتی کے ساتھ جائز نہیں۔ یہ مسئلہ آگے بالتفصیل آ رہا ہے اور وہ صرف وجہادب و احترام کی ہے۔ حضور ﷺ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں مگر ان کا ادب و احترام حقیقی ماں سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی کی بیویوں پر حقیقی ماں جیسے تمام احکام لاگو نہیں ہوتے ، مثاً کوئی آدمی حقیقی ماں سے پردہ نہیں کرتا۔ اس کے پاس خلوت میں بیٹھ سکتا ہے اور اس کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ مگر روحانی ماں یعنی نبی کی بیوی کے ساتھایک امتی یہ کام نہیں کرسکتا۔ کوئی شخص حقیقی یا رضاعی ماں کی بیٹی سے نکاح نہیں کرسکتا مگر نبی کی بیویوں کے سلسلے میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی طرح بیٹا ماں کی وراثت میں حقدار ہوتا ہے مگر نبی کی بیویوں کی وراثت میں یہ حق قائم نہیں ہوتا۔ غرضیکہ نبی کی بیوی پر ماں کا اطلاق صرف دو صورتوں میں ہے ایک یہ کہ اس کے ساتھ نکاح ابدی حرام ہے اور دوسری یہ کہ اس کا ادب و احترام واجب ہے۔ نبی کی بیویوں کی توہین کرنے والا شخص یا تو منافق ہے یا بےایمان رافضی لوگ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی توہین کے مرتکب ہوئے۔ حالانکہ ان کی برأت کا ذکر ہم سورة نور میں پڑھ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پورے دو رکوع آپ کے حق میں نازل فرما کر آپ کی طومارت اور پاکیزگی کو بیان کردیا ہے اللہ نے آپ پر لگائے گئے اتہام کی سخت الفاظ میں مذمت بیان کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کی بیویوں اور مومنوں کی مائوں کو ہرنجاست سے پاک رکھا ہے۔ اللہ نے سورة نور میں یہ اصول بیان کردیا ہے والطیبات للطیبین (آیت۔ 62) پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اللہ کا نبی بھی پاک ہے اور اس کی تمام بیویاں بھی پاک ہیں۔ اللہ نے انہیں ہر قسم کی اخلاقی نجاستوں سے محفوظ رکھا ہے۔ قرابتداروں کا حق آگے وراثت کے سلسلے میں قرابت داروں کا حق بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے و اولو الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ من المومنین والمھجرین اللہ کی کتاب میں بعض قرابتدار بعض کے ساتھ مومنوں اور مہاجروں کی نسبت زیادہ لگائو رکھتے ہیں جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو حضور ﷺ نے مہاجرین اور انصار میں رشتہ اخوت قائم کردیا تھا ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا۔ چناچہ ہر دو بھائی حقیقی بھائیوں کی طرح ہوگئے۔ حتیٰ کہ فرمایا یرث المھاجر الانصاری اگر مہاجر بھائی فوت ہوجائے تو اس کی وراثت اس کے انصاری بھائی کو ملے گی اور اس طرح انصاری بھائی کا وارث اس کا مہاجر بھائی ہوگا۔ یہ عبوری احکام تھے۔ پھر جب اسلام کو تقویت حاصل ہوگئی ، مسلمانوں کی جماعت مضبوط ہوگئی ، لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوگئے اور مہاجرین کے عزیز و اقارب بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تو اللہ نے پہلے حکم کو منسوخ کردیا اور فرمایا کہ وراثت کے معاملے میں دینی بھائی کی نسبت کسی شخص کے اصل عزیز و اقارب ہی زیادہ حقدار ہیں۔ وراثت کے مسائل اور ہر حصے دار کے حصہ کی مقدار اللہ نے سورة النساء میں بیان کردی ہے کسی میت کے وارث پہلے نمبر پر ذوی الفروض یعنی وہ رشتہ دار ہیں جن کے حصے اللہ نے قرآن میں مقرر کردیئے ہیں۔ پھر دوسرے نمبر پر عصبہ آتے ہیں جن میں اولاد اور اب پکی طرف سے رشتہ دار شامل ہیں۔ پھر تیسرے نمبر پر ذوی الارحام یعنی ماں کی طرف سے رشتہ دار آتے ہیں۔ تو فرمایا ، کہ اب وراثت کا حکم وہ نافذ العمل ہوگا جس میں میت کے حقیقی رشتہ داروں کو حصہ دار قرار دیا گیا ہے۔ البتہ عام مومنین اور مہاجرین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ان کو عطیہ پیش کرنا ، ان کی خدمت کرنا درست ہے مگر وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ساتھیوں کے ساتھ احسان فرمایا عام مومنین اور مہاجرین کی نسبت تمہارے رشتہ دار تم سے زیادہ لگائو 1 ؎ ابن کثیر ص 764 ، ج 3 (فیاض) رکھتے ہیں یعنی ان کا حق فائق ہے الا ان تفعلوا الی اولئکم معروفا مگر یہ کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوئی احسان کرنا چاہو تو بخوشی کرسکتے ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ وہ وراثت میں حقدار نہیں ہوں گے ایک صورت میں اللہ نے اجازت دی ہے اور وہ یہ کہ کوئی شخص اپنے کسی رفیق یا ساتھی کے حق میں زیادہ سے زیادہ اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے کسی کی خدمت خاطر کرنا چاہو تو اس کی اجازت ہے۔ کان ذالک فی الکتب مسطوراً اور یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ اس کتاب سے کون سی کتاب مراد ہے ؟ بعض مفسرین کتاب سے مراد لوح محفوظ لیتے ہیں کہ وہاں یہ حکم لکھا ہوا موجود ہے۔ بعض دوسرے مفسرین اس سے کتاب تورات مراد لیتے ہیں کہ وہاں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے۔ اور قرآن پاک میں تو یہ مسئلہ بہرحال آ گیا ہے اور یہ بھی اللہ کی آخری اور عظیم ترین کتاب ہے تو اس آیت کریمہ میں اللہ نے پہلے نبی اور مومنوں کے باہمی تعلق کو بیان کیا۔ پھر ازواج مطہرات کے ادب و احترام اور ان کی محرکات میں شمولیت کا ذکر کیا۔ پھر سلسلہ مواخات کے احکام کو تبدیل کر کے فرمایا کہ وراثت کے معاملہ میں دینی بھائیوں کی نسبت اصل رشتہ داروں کو فوقیت حاصل ہے۔ البتہ عام مومنین اور مہاجرین یعنی دینی بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔
Top