Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 63
یَسْئَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں النَّاسُ : لوگ عَنِ : سے (متعلق) السَّاعَةِ ۭ : قیامت قُلْ : فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُدْرِيْكَ : تمہیں خبر لَعَلَّ : شاید السَّاعَةَ : قیامت تَكُوْنُ : ہو قَرِيْبًا : قریب
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں قیامت کے بارے میں۔ آپ کہہ دیجئے ، بیشک اس کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت قریب ہی ہو
گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کے گھر کے آداب اور ازواج مطہرات کے بارے میں احکام بیان فرمائے۔ پھر پیغمبر (علیہ السلام) پر درود وسلام پڑھنے کا مسئلہ بیان کیا۔ اس کے بعد اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچانے والوں کو ملعون ٹھہرایا اور انہیں عذاب کا مستحق قرار دیا۔ اسی طرح ایمان دار مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچانے والوں کی مذمت بیان فرمائی کہ ایسے لوگ بہتان طرازی کرتے ہیں اور بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پھر اللہ نے ازواج مطہرات ، حضور ﷺ کی بیٹیوں اور عام مومنہ عورتوں کے لئے پردے کا حکم دیا اور غنڈہ گردی کرنے والے منافق قسم کے لوگوں کو تنبیہ کی گئی کہ اگر وہ شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان پر تعزیر لگائی جائے گی ، وہ ملعون ہوں گے اور ان کو برے طریقے سے قتل کیا جائے گا۔ فرمایا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ پرانا دستور ہے جو سابقہ انبیاء کے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے دستور کو تبدیل نہیں کرتا۔ بعض منافق لوگ قیامت پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے تھے اور اس نظریے کا تمسخر اڑاتے تھے۔ اللہ نے ان کی اس قبیح حرکت کے متعلق فرمایا یسئلک الناس عن الساعۃ اے پیغمبر ! لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ وہ کب آئے گی۔ یہ لوگ تو قیامت کا انکار کرتے ھتے مگر جب اللہ کے پیغمبر ان کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈراتے تو پھر استہزاء پچھتے ، اچھا بتایئے قیامت کب آئے گی ؟ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ ان سے کہہ دیں انما علمھا عند اللہ وقوع قیامت کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے جو اس نے کسی کو نہیں بتایا۔ ایک روایت میں آتا ہے اما وجب تھا فلا یعلمھا الا اللہ ، یعنی عین وقوع قیامت کی گھڑی کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ یہ علم اس نے نہ کسی نبی مرسل کو دیا ہے اور نہ ملک مقرب کو۔ البتہ قیامت سے پہلے پیش آنے والے بعض واقعات کا ذکر ضرور کیا ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے انا والساعۃ کھتین یعنی میں اور قیامت اس طرح آگے پیچھے آنے والے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں۔ آپ نے دو انگلیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ جس طرح دو انگلیاں متصل ہیں اسی طرح قیامت بھی بالکل قریب ہے ، اب میرے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی نئی شریعت ، بلکہ اب تو قیامت ہی آنے والی ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق کی ہے اقتربت الساعۃ وانشق القمر (القمر۔ 1) قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہوگیا۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ منافقوں نے یہ سوال محض ہٹ دھرمی کی بناء پر کیا ہوگا۔ جس چیز کا جواب دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے اس کا بار بار سوال کرنا بےمعنی بات ہے۔ ہاں ! اگر کسی سادہ لوح آدم ینے محض علم حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا تو حضور ﷺ نے اسے دوسرے طریقے سے سمجھایا۔ جیسے ایک دیہاتی نے عرض کیا تھا ، حضور ! یہ بتایئے متی الساعۃ 1 ؎ قرطبی ص 842 ج 41 2 ؎ موضح القرآن ص 155 کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ نے جواباً فرمایا ما اعدت لھا بھلا یہ تو بتائو کہ تم نے قیامت کے لئے تیار کیا کر رکھا ہے ، جو ایسا سوال کرتے ہو۔ مطلب یہ کہ تم نے کون سے نیک اعمال کئے ہیں جن کے صلہ کے لئے قایمت کے منتظر ہو ؟ اس شخص نے عرض کیا ، حضور ! میں نے کوئی زیادہ نمازیں نہیں پڑھیں ، نہ زیادہ روزے رکھے ہیں اور نہ کوئی زیادہ نیکی کے کام کئے ہیں ، البتہ میں اللہ اور رسول کے ساتھ محبت ضرور رکھتا ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا انت مع من احببت تم آخرت میں نبی کے ساتھ ہو گے۔ جن کے ساتھ تمہیں محبت ہے ، گویا آپ نے اس شخص کو جنت کی بشارت بھی دے دی۔ اب کے برخلاف جو لوگ طعن وتشنیع کے طور پر ایسے سوال کرتے تھے اللہ نے ان کے رو میں فرمایا وما یدریک لعل الساعۃ تکون قریبا آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہی ہو۔ ایک تو قیامت کبریٰ ہے جو پوری کائنات پر یکبارگی وارد ہوگی جب صور اسرافیل پھونکا جائے گا۔ اور اس کے متعلق بھی فرمایا کہ یہ قریب ہی ہے۔ البتہ ایک قیامت صغریٰ بھی ہے جو ہمارے سامنے ہر شخص پر وارد ہوجاتی ہے اور وہ ہر شخص کی انفرادی موت ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے من مات فقد قامت قیامتہ جس کو موت آگئی اس کے لئے تو قیامت واقع ہوگئی۔ قیامت سے مراد جزائے عمل ہے اور یہ ہر شخص کے لئے عالم برزخ میں ہی شروع ہوجاتی ہے ، جب کسی شخص کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تو فوراً قبر کے سوال جواب شروع ہوجاتے ہیں اور پھر اس اولین امتحان کے نتیجے میں یا تو راحت پہنچنا شروع ہوجاتی ہے یا انسان تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تو اس لحاظ سے قیامت تو برپا ہوگئی ، لہٰذا اس کے متعلق الٹ پلٹ سوالات کرنا بےمعنی ہے۔ 1 ؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص 432 ج 01 بحوالہ ویلمی عن انس ؓ مرفعاً اس کے بجائے انسان کو اپنی دوسری زندگی کے لئے تیاری کرنا چاہئے تاکہ وہ اس زندگی میں عذاب الٰہی سے بچ جائے۔ اس آیت کریمہ میں ما یدریک کے الفاظ ہیں جس کا معنی ہے کہ آپ کو کس نے بتلایا بعض مقامات پر اسی کے ہم معنی الفاظ ما ادرئک بھی آتے ہیں جیسے سورة القدر میں ہے وما ادرک ما لیلۃ القدر اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جس چیز کے متعلق یدرک آتا ہے ، وہاں مذکورہ چیز کو ظاہر نہیں کیا جاتا اور جہاں ادرک استعمال ہوتا ہے وہاں بات کی وضاحت کردی جاتی ہے۔ امام سفیان ابن عینہ جو امام ابوحنیفہ (رح) کے شاگرد اور امام شافعی (رح) کے استاد ہیں ، وہ بھی مذکورہ حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے قیام تکے ساتھ یدریک کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کی تفصیلات نہیں بتائیں مگر لیلۃ القدر کے لئے ادرک استعمال کیا ہے تو آگے کچھ تفصیل بھی بتائی ہے کہ لیلۃ القدر ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے اور اس میں روح الامین اور فرشتے نازل ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کفار پر لعنت آگے ارشاد ہوتا ہے ان اللہ لعن الکفرین بیشک اللہ تعالیٰ نے کافروں پر پھٹکار بھیجی ہے ، لعنت کا معنی ہے رحمت سے بعید کردینا سورة بقرہ میں ہے ، جو لوگ کفر کی حالت میں مر گئے اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین (آیت۔ 161) ان پر اللہ ، اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اس مقام پر فرمایا ہے و اعدلھم سعیرا ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ سعیر جہنم کے ناموں میں ایک نام بھی ہے۔ خلدین فیھا ابدا۔ وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ دنیا میں کفر اور شرک میں مبتلا رہے اور اسی پروگرام کو غالب کرنے کی کوشش کرتے رہے ، ایمان اور توحید کی مخالفت کرتے رہے ، انبیاء کا مقابلہ کیا ، ان پر بےہودہ اعتراضات کئے ، دین کا تمسخر اڑایا اور وقوع قیامت کا انکار کیا ، لہٰذا اب یہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے لا یجدون ولیا ولا نصیرا اور پھر کوئی حمایتی اور مددگار بھی نہیں پائیں گے جو اس اڑے وقت میں ان کی مدد کو پہنچے۔ فرمایا یوم تقلب وجوھھم فی النار جس دن ان کے چہرے دوزخ کی آگ میں اوندھے منہ ڈالے جائیں گے۔ تقلب کا مقطی معنی تع پلٹنا ہوتا ہے۔ تاہم حدیث میں اوندھے منہ گرائے جانے کا ذکر بھی آتا ہے۔ اس وقت وہ لوگ سخت افسوس کا اظہار کریں گے اور یقولون یلیتنا اطعنا اللہ واطعنا الرسولا کہیں گے کاش کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی تو کیا اچھا ہوتا اور آج ہم اس سزا میں گرفتار نہ ہوتے ، اس وقت تاسف کریں گے کہ ہم نے دنیا کی زندگی کو یونہی برباد کردیا اور آخرت کے لئے کچھ سامان نہ کیا۔ اگر ہم نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانا ہوتا تو آج یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا ، مگر اس دن ان کا افسوس کسی کام نہ آئے گا اور انہیں عذاب الٰہی کا مزا چکھنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجرم لوگ یہ بھی کہیں گے و قعالوا ربنا انا اطعنا سادتنا و کبراء نا اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی۔ دنیا میں ان کے کہنے پر چلتے رہے فاضلونا السبیلا پس انہوں نے ہمیں صراط مستقیم سے بہکا کر غلط راستے پر ڈال دیا۔ سردار اور بڑے حکومت کے آدمی بھی ہو سکتے ہیں اور مذہبی پیشوا بھی جو قوم کی صحیح راہنمائی نہیں کرتے۔ وہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے لوگوں سے من مانی کرواتے رہتے ہیں اور ایمان و توحید کی بجائے کفر اور شرک کا درس دیتے ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) کا مقابلہ کرنے والے اور ان کی تذیب کرنے والے اکثر بڑے لوگ ہی ہوتے ہیں ، دولت مند ، ملوک ، سردار ، چودھری اور سرمایہ دار لوگ ، لوگوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں اور پھر نہ صرف ان کی دنیا بلکہ عاقبت بھی خراب کردیتے ہیں۔ اس دن لوگ اپنے بڑوں اور پیشوائوں کی شکایت کریں گے ، مگر اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، میں نے تمہیں انسان بنایا تھا ، عقل فہم اور شعور عطا کیا تھا۔ مگر تم بغیر سوچے سمجھے لیڈروں اور مذہبی پیشوائوں کے پیچھے چلتے رہے۔ وہ تمہیں عیاشی اور فحاشی کا سبق دیتے رہے ، شرکیہ اور بدعلیہ امور کا ارتکاب کراتے رہے۔ مشرک مولوی لوگوں سے جھنڈے بازی اور قمقمے بازی پر ہی مال خرچ کراتے رہے اور عوام کو بیوقوف بناتے رہے اس دن افسوس کا اظہار کریں گے کہ ہم نے ان لیڈروں کو ووٹ دے کر ممبر بنایا۔ مگر انہوں نے ہمیں غیراسلامی نظام دے کر برباد کردیا۔ ہم نے پیر ، مولوی اور بزرگ سمجھ کر اپنا ایمان تک ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ مگر انہوں نے ہمیں جہنم کے راستے پر ڈال دیا۔ اس دن لوگ اپنے پیشوائوں کو خطا بکر کے کہیں گے انکم کنتم تاتوننا عن الیمین (الصفت۔ 82) تم ہمارے دائیں بائیں سے آ کر ہمیں سبزباغ دکھاتے تھے ، وہ آگے سے جواب دیں گے کہ تم خود اس وقت سوچتے کہ تم کدھر جا رہے ہو۔ تم آنکھیں بند کر کے ہمارے پیچھے چلتے رہے ، لہٰذا اس گمراہی کے تم خود ذمہ دار ہو۔ جب مجرم لوگ ناامید ہوجائیں گے تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کریں گے ربنا اتھم ضعفین من العذاب اے ہمارے پوردگار ان پیشوائوں کو دگنا عذاب دے کیونکہ یہ خود بھی گمراہ تھے اور ہمیں بھی گمراہ کرتے رہے والعنھم لعنا کبیرا اور ان پر بڑی لعنت بھیج۔ مگر اللہ فرمائے گا کہ تم سب تابع اور متبوع پر ڈبل عذاب ہوگا کیونکہ جس طرح انہوں نے تمہیں گمراہ کیا تھا ، اسی طرح تم نے بھی آگے لوگوں کو گمراہ کیا۔ لہٰذا ایک سزا تمہیں گمراہ ہونے کی ملے گی اور دوسری سزا دوسروں کو گمراہ کرنے کی ملے گی۔ اس طرح جاہل پیر اور مرید دوہری سزا میں مبتلا کئے جائیں گے۔
Top