Mualim-ul-Irfan - Faatir : 2
مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَ مَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
مَا يَفْتَحِ : جو کھول دے اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ رَّحْمَةٍ : رحمت سے فَلَا مُمْسِكَ : تو بند کرنے والا انہیں لَهَا ۚ : اس کا وَمَا يُمْسِكْ ۙ : اور جو وہ بند کردے فَلَا مُرْسِلَ : تو کوئی بھیجنے والا نہیں لَهٗ : اس کا مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
جو کچھ کھول دے اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی رحمت سے ، پس نہیں کوئی روکنے والا اس کو اور جس کو روک دے پس نہیں کوئی بھیجنے والا اس کے سوا اور وہی ہے کمال قدرت کا مالک اور حکمتوں والا
اس سورة مبارکہ کی ابتداء حمد باری تعالیٰ سے ہوئی۔ سب تعریفیں اور ستائشیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا ایجاد کنندہ ہے جس نے فرشتوں کو پیغام رسانی کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ فرشتوں کے متعدد پر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے تخلیق میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہ فرشتے پیغام رسانی کے علاوہ فیضان رسانی کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عمومی رحمت کا ذکر فرمایا ہے اور اپنی صفت خلق کو بیان کیا ہے۔ ساتھ ساتھ شرک کی تردید ہے اور آخر میں نبی (علیہ السلام) اور آپ کے پیروکاروں کے لیے تسلی کا مضمون ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ما یفتح اللہ للناس من رحمۃ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جو کچھ کھول دے فلا ممسک لھا تو اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ خدا تعالیٰ کی رحمت کا یہ دروازہ انسان کے جسمانی فوائد کے لیے بھی کھلا ہے اور روحانی ضروریات کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ انسانی جسم کی نشونما اور بقاء کے لیے بارش برساتا ہے ، اس کے ذریعے پھل اور اناج اگاتا ہے جو انسان کی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں اور انساننی جسم کی نشونما کا سبب بنتے ہیں ، اسی طرح مالک الملک انسان کی روحانی تربیت اور ہدایت کمے لیے اپنے نبیوں کو مبعوث فرماتا ہے۔ ان پر وحی نازل فرماتا ہے۔ شرائع اور قوانین عطا کرتا ہے۔ اسی سلسلہ کی آخری کڑی کے طور پر اللہ نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کو اپنی آخری اور جامع کتاب قرآن حکیم عطا فرمائی۔ قرآن کریم ہدایت انسانی کے لیے ایک ایسا خزانہ ہے جو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے منبع رشد و ہدایت ہے۔ اس کے ذریعے انسانوں کو بقائے دائمی کا سامان حاصل ہوتا رہے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کوئی بھی بند نہیں کرسکتا اسی طرح وما یمسک جس دروازے کو خود اللہ تعالیٰ بند کردے۔ اپنی جسمانی یا روحانی رحمت کو روک لے فلاس سل لہ من بعدہ تو اس کے بعد اس کی روکی ہوئی چیز کو کوئی بھیجنے والا نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو کوئی چیز نہ دینا چاہے تو اس کی مرضی کے خلاف کون ہے جو دے سکے اور اس کی منشاء کے خلاف رحمت کا دروازہ کھول سکے ؟ یہ ناممکن ہے۔ وھول العزیز الحکیم اور وہ ذات کمال قدرت کی مالک اور حکمتوں والی ہے ، اس کے سامنے کوئی دوسری طاقت سر نہیں اٹھاسکتی ، تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور ہر چیز پر غالب ذات خداوندی ہے۔ اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے وہ ساری مخلوق کا خالق ہے اور ہر ایک کی استعداد اور صلاحیت کو جانتا ہے۔ وہ مخلوق کے قول و فعل اور مخفی ارادوں سے بھی واقف ہے۔ لہٰذا وہ بہتر سمجھتا ہے کہ کس مخلوق کو کتنا اور کب عطا کرنا ہے اور کس کو کس وقت تک کسی چیز سے محروم رکھنا ہے گویا اس کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں۔ شرک کی آمیزش موطا امام مالک میں (موطا امام مالک و قرطبی ص 321 ج 14) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رحمت کا دروازہ اللہ تعالیٰ ہی کھولتا ہے کسی دوسری ہستی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے مگر بعض لوگ یہ صفت غیر اللہ میں بھی مانتے ہیں مثلاً مشرکین کا ایک گروہ نزول بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کرتا ہے کہ فلاں پچھتر طلوع ہوا تو بارش برسی۔ اسی طرح دنیا میں پیش آنے والے حوادثات کو کسی نہ کسی ستارے کے اثر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ایک رات بارش ہوئی تو صبح کے وقت حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرے بندوں میں سے دوقسم کے بندوں نے صبح کی ہے ایک گروہ وہ ہے جنہوں نے کہا مطرنا بفضل اللہ و برحمۃ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے بارش ہوئی اور دوسرا گروہ کہتا ہے مطرنا بنوء کذا ہم پر فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش ہوئی۔ فرمایا ایسے لوگ کفران نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں اور اگر وہ ستاروں کو حقیقی موثر مانتے ہیں تو قطعی کافر ہیں۔ اللہ نے سورة الواقعہ میں فرمایا ہے۔ وتجعلون رزقکم انکم تکذبون (82) تم ایسی چیزوں کو ستاروں کی طرف منسوب کرکے اللہ کی رحمت کو جھٹلاتے ہو۔ یہ تو شرک والی بات ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہ معمول (در منشور ص 244 ج 5 و ابن کثیر ص 547 ج 3) تھا کہ جب بارش ہوتی تو یوں کہتے مطرنا بنوء الفتح یعنی ہم پر فتح کے نو (ستارے) کے ساتھ بارش ہوئی اور پھر یہی آیت تلاوت فرماتے ما یفتح اللہ للناس… الخ گویا فتح سے مراد یہ ہے کہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ، اور جس پر وہ خود رحمت کا دروازہ بند کردے اسے کوئی کھول نہیں سکتا۔ حضرت صغیرہ بن شعبہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نماز کے بعد اکثر یہ ورد کیا کرتے (خازن ص 297 ج 5 و معالم التنزیل ص 194 ج 3) تھے لاہ الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجد منک الجد (بخاری ، مسلم) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! نہیں کوئی روکنے والا اس چیز کو جو تو عطا کردے اور نہیں کوئی دینے والا وہ چیز جو تو روک دے اور تیرے سامنے کسی کی کوشش والے کی کوشش فائدہ مند نہیں ہوسکتی۔ حضرت مغیرہ ؓ یہ بھی بیان کرتے ہیں لھی قیل وقال یعنی حضور ﷺ نے قیل قال یعنی بات بات پر نکتہ چینی اور ہر بات میں کیڑے نکالنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے کثرت سوال سے بھی منع فرمایا ہزے۔ اگرچہ مجبوری کے وقت سوال کرنے کی کسی حد تک اجازت ہے مگر آپ نے کثرت سوال سے منع فرمایا ہے کہ یہ چیز عزت نفس کے خلاف ہے۔ آپ نے اضاعت مال یعنی فضول خرچی سے بھی منع فرمایا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے کام میں اپنا سارا مال بھی خرچ کردے تو یہ اسراف نہیں ہوگا بلکہ اسراف وہ ہوگا جو مال ناجائز اور مکروہ کاموں میں صرف کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اپنا مال عورتوں اور بچوں کے ہاتھ میں نہ دو کہ وہ ضائع کردیں گے تعیش کے کاموں اور فضول ٹیپ ٹاپ میں مال خرچ کرنا بلاشبہ فضول خرچی میں داخل ہے جس سے منع فرمایا گیا ہے۔ عورتوں کے حقوق آج کل عورتوں کے حقوق کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے۔ انگریز نے انہی حقوق کی آڑ میں عورتوں کو آزادی کا سبق پڑھا کر آگے بڑھایا اور مردوں کے برابر قرار دیا جس کے نتیجے میں کئی قسم کی اخلاقی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ حرام کاری کی وجہ سے نسلیں خراب ہوگئی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی اسلام نے ہی صحیح معنوں میں حفاظت کی ہے۔ قبل از اسلام بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ یہ تو انسانیت کی توہین ہے جسے کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے عورت کو وراثت کا حق دیا ہے مگر آج عورت کو غیر ضروری جہیز کے نام پر وراثت سے محروم رکھا جارہا ہے۔ یہ کون سی حق پروری ہے ؟ اسلام نے عورت کو عائشہ ؓ ، خدیجہ ؓ ، ام سلمہ ؓ ، جیسے خوبصورت نام دیئے مگر ہم نے عورت کو اس کے نام سے بھی محروم کردیا۔ اب وہ باپ یا خاوند کے نام کا لاحقہ بن کر رہ گیا ہے جیسے ارم نذیر یا مسز ناصر وغیرہ۔ یہکون سی عزت افزائی ہے ؟ عورت کو فیکٹر ی میں ملازمت دے کر یا فوج ، پولیس اور دفتر میں بھرتی کرکے مزدور بنادیا گیا ہے حالانکہ عورت تو گھر کی زینت اور اس کی ذمہ دار ہے۔ اللہ نے عورت کو چاروں باعزت مقام عطا کیے ہیں۔ بحیثیت ماں عورت کا بڑا بلند مقام ہے اللہ نے اولاد کی جنت ماں کے قدموں کے نیچے رکھی ہے۔ بحیثیت بہن بھی عورت کو نہایت احترام کا مقام دیا گیا ہے۔ بحیثیت بیٹی اس کا مشتاقانہ مقام ہے اور بحیثیت بیوی وہ گھر کی مالکہ ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ جس طرح مردوں کا حق عورتوں پر ہے اسی طرح عورتوں کا حق مردوں پر ہے یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے درجے میں مردوں کو عورتوں پر فضیلت بخشی ہے مگر ان کے بھی مردوں پر حقوق ہیں۔ ان کے حقوق کی ادئیگی ضروری ہے کسی عورت کو اس کے جائز حق سے محروم رکھنا اسے زندہ درگور کرنے والی بات ہے جس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ حضور ﷺ نے ماں کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے۔ باپ کے مقابلے میں خدمت کے لیے ماں زیادہ حقدار ہے کیونکہ وہ باپ کی نسبت کمزور ہوتی ہے۔ فرمایا والدین کے لیے اذیت کا باعث نہ بنو چہ جائیکہ ان کو گالیاں دے کر گھر سے نکال دیا جائے یا ان سے ذلت آمیز سلوک کیا جائے۔ عامر ابن قیس (رح) ایک بزرگ گزرے (در منشور ص 244 ج 5) ہیں جو غالباً صحابی ہیں ان کا قول ہے کہ قرآن کریم میں چار آیات ایسی ہیں کہ جب میں ان کی تلاوت کرلیتا ہوں تو مجھے کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ میری صبح کیسے گزرے گی اور شام کیسے ؟ گویا یہ آیات مجھے ہر چیز سے مستغنی کردیتی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان چار آیات میں سے پہلی آیت تو یہی آیت زیر درس ہے یعنی ما یفتح اللہ… وھو العزیز الحکیم اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور کمال رحمت کا ذکر ہے جس کی وجہ سے اس ذات پر یقین مزید محکم ہوجاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دوسری آیت کریمہ وان یمسسک اللہ بضرفا کاشف لہ الا ھو وان یردک بخیر فلالہ لفضلہ (یونس 107) اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کو کوئی دور نہیں کرسکتا اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ فرماتے ہیں کہ تیسری آیت یہ ہے سیجعل اللہ بعد عسر یسرا (الطلاق 7) اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد آسانی پیدا فرماتا ہے۔ ایسی ہی دوسری آیت ہے ان مع العسر یسرا (نشرح 6) بیشک تنگی کے بعد آسانی ہے اگر اللہ کی مصلحت کے مطابق اس زندگی میں راحت نصیب نہ ہوسکے تو آخرت کی زندگی میں تو لازماً کامیابی اور راحت نصیب ہوگی۔ فرمایا چوتھی آیت یہ ہے وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا (ہود 6) زمین پر چلنے پھرنے والے ہر جاندار کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ غرضیکہ ان آیات میں خدا تعالیٰ کی ذات پر مکمل اعتماد اور توکل پایا جاتا ہے اسی لیے حضرت عامر ؓ فرماتے ہیں کہ ان آیات کی تلاوت مجھے ہر چیز سے مستغنی کردیتی ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ ، صفت خلق کا بیان اور شرک کا رد فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یا یھا الناس اذکرو نعمت اللہ علیکم اے لوگو ! اللہ کے احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جسمانی اور روحانی ہر قسم کے انعامات سے نوازا ہے وان تعدو نعمت اللہ لا تحصوھا (ابراہیم 34) حتی کہ اگر تم ان انعامات الٰہیہ کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ اللہ کے اتنے لاتعداد احسانات ہیں۔ ذرا غور فرمائیں کہ ایک انسان چوبیس گھنٹے میں ایک لاکھ سے زیادہ سانس لیتا ہے اور ہر سانس کے ذریعے انسان کو دو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں جب سانس اندر جاتا ہے تو انسان کا خون تر و تازہ ہوتا ہے اور جب انسانی سانس باہر نکلتا ہے تو فاضل مادے باہر نکلتے ہیں۔ تو اندازہ لگائیں کہ دن رات میں انسان کو کتنی نعمتیں میسرآتی ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ نے انسان کو بیشمار ظاہری اور باطنی قویٰ عطا فرمائے ہیں ، دیکھنے ، سننے ، چلنے پھرنے ، بولنے اور غور و فکر کرنے کی کتنی ہی نعمتیں ہیں کہ انسان ان سب کا شکریہ ادا کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہزے کہ اللہ نے فرمایا کہ اس کے بندے اگر اس کا تھوڑا سا شکریہ بھی ادا کردیں تو وہ راضی ہوجاتا ہے ورنہ کوئی شخص کسی نعمت کا شکریہ ادا کر ہی نہیں سکتا۔ اللہ کے فرشتے اگرچہ ہمہ تن عبادت میں مصروف رہتے ہیں مگر شکریہ کا حق ادا کرنے میں وہ بھی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ھل من خالق غیر اللہ یرزقکم من السماء وارلاض کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچاتا ہو۔ یہ استفہامیہ انکار کہلاتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ یقینا کوئی نہیں ہے۔ خالق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر جاندار کو روزی بھی وہی پہنچاتا ہے۔ مگر انسان کس قدر نادان واقع ہوا ہے کہ اس روزی کی خاطر اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے ، اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے حاجات طلب کرتا ہے اور اس طرح شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ روزی کا اختیار تو صرف اللہ کے پاس ہے جو خالق ہے اور جسے ہنود ، یہود ، مشرک ، مجوسی ، سب تسلیم کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی گزر چکا ہے کہ خدا کے سوا روزی کا مالک کوئی نہیں لہٰذا فابتغوا عند اللہ الرزق واعبدوہ واشکروا لہ (العنکبوت 170) لہٰذا اسی کے ہاں رزق تلاش کرو ، اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکریہ ادا کرو۔ ہر ذی روح کے حالات کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق روزی کا دروازہ کھولتا ہے۔ فرمایا الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر (الملک 140) کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے ؟ وہ تو نہایت باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ، مطلب یہ کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ فرمایا جب اللہ کے سوا خالق کوئی نہیں ہے جو تمہارے لیے روزی کا سامان مہیا کرسکے تو لا الہ الا ھو اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ہے فاتی توفکون تو پھر تم کدھر پھیرے جاتے ہو۔ تمہیں تو یقین ہونا چاہئے کہ جس خالق نے پیدا کیا ہے وہ روزی کا بندوبست بھی ضرور کرے گا ، سب اختیار اسی کے پاس ہیں۔ وہی عبادت کے لائق ہے۔ ہنود کے ہاں تو تین خدا ہیں ایک پیدا کرنے والا ، دوسرا باقی رکھنے والا اور تیسرا فنا کرنے والا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق ، مالک ، متصرف ، مدبر اور موت طاری کرنے والی فقط ایک ہی ذات ہے لہٰذا اسی سے ڈرنا چاہئے اور صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ تسلی کا مضمون اگلی آیت میں اللہ کریم نے اپنے نبی اور آپ کے پیرو کاروں کو تسلی دی ہے کہ اگر یہ لوگ آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے ، مشرکین نے ہر نبی کی تکذیب اور مخالفت کی اور طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں۔ لہٰذا آپ دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھیں۔ ارشاد ہوتا ہے وان یکذبوک اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں فقد کذبت رسل میں قبلک تو بیشک آپ سے پہلے رسول بھی جھٹلائے گئے۔ لوگوں نے ان کو بھی رسول ماننے سے انکار کردیا۔ اللہ کے ہر نبی نے اپنی قوم کو ایمان اور توحید کی دعوت دی یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ (الاعراف 85) اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں مگر لوگوں نے اللہ کے نبیوں کو گالیاں دیں ، پتھر مارے اور تکذیب کی۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب تمہارا کوئی عزیز فوت ہوجائے اور تم سخت غم میں مبتلا ہو تو اس وقت میرا تصور کیا کرو کہ مجھے کتنی تکالیف اور کتنے غم واندوہ برداشت کرنے پڑے۔ اللہ کا نبی اس کا محبوب بندہ ہوتا ہے۔ جب وہ بھی اس جہان سے رخصت ہوگئے تو ہمارے تمہارے کسی عزیز کی کیا بات ہے ؟ اسی لیے فرمایا کہ جب کوئی غم لاحق ہو تو میرا اسوہ سامنے رکھو۔ ایک شخص نے حضور ﷺ کے متعلق بڑی غلط بات کی کہنے لگا اے محمد ﷺ انصاف کرو۔ آپ کے دل پر سخت چوٹ لگی۔ فرمایا اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون انصاف کرے گا۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آسمان والے تو مجھے امین سمجھتے ہیں اور تم مجھے بےانصاف جانتے ہو۔ اس قدر پریشانی کے باوجود آپ نے فرمایا رحم اللہ موسیٰ لقد اوذی باکثر من ھذا فصبر اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ تکالیف دی گئیں مگر انہوں نے صبر کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر لوگوں نے سخت اتہام لگائے ، آپ کی تکذیب کی مگر انہوں نے ہمیشہ صبر سے کام لیا۔ فرمایا اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا آپ تسلی رکھیں والی اللہ ترجع الامورتمام امور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ آپ فکر نہ کریں اور اپنا کام کرتے جائیں ، اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔
Top