Mualim-ul-Irfan - Faatir : 5
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ٙ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ : پس ہرگز تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ : دنیا کی زندگی وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ : اور تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے بِاللّٰهِ : اللہ سے الْغَرُوْرُ : دھوکہ باز
اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ پس نہ دھوکہ دے تم کو دنیان کی زندگی اور نہ دھوکہ دے تم کو اللہ کے بارے میں بڑا دھوکے باز
ربط آیات گزشتہ درس میں حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کے لیے تسلی کا مضمون تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کو تکالیف پہنچاتے ہیں تو آپ ان سے خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ پہلے لوگ بھی اسی طرح اپنے رسولوں کو جھٹلاتے رہے۔ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں۔ وہ ان مکذبین کو ضرور سزا دے گا۔ اسکے بعد اللہ نے عام بنی نوع انسان کو خبردار کیا ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اس کے اغوا سے بچنے کی کوشش کرتے رہو۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے ، قیامت ضرور واقع ہوگی۔ محاسبے کا وقت آئے گا اور پھر جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسباب ضلالت میں سے دو اسباب کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلا سبب یہ فرمایا یا یھا الناس ان وعد اللہ حق اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ اللہ نے وقوع قیامت اور جزائے عمل کا جو وعدہ لوگوں کے ساتھ کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ قیامت ضرور برپا ہوگی اور ہر شخص کو بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی۔ سورة الانبیاء میں اللہ کا فرمان ہے وعدا علینا انا کنا فعلین (104) وقوع قیامت برحق ہے اور ہم ایسا کرکے رہیں گے۔ قرآن پاک کا تقریباً ایک تہائی حصہ اسی مسئلہ قیامت پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تمام کتب سماویہ میں بھی اس مسئلہ کو کھول کر بیان کیا گیا ہے تاہم قیامت کی جس قدر تفصیلات قرآن پاک نے بیان کی ہیں۔ اتنی دوسری کتابوں میں نہیں ہے۔ فرمایا ، لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے فلا تعزنکم الحیوۃ الدنیا پس دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے گویا اس دنیا کی زندگی کا ظاہری عیش و آرام اور اس کی رنگینیاں اسباب ضلالت میں سے پہلا سبب ہے۔ اسی میں الجھ کر آخرت کو نہ بھلا بیٹھنا۔ یہ زندگی تو اللہ نے آزمائش کے لیے دی ہے کہ انسان یہاں آکر کیسے اعمال انجام دیتے ہیں۔ اس فانی دنیا میں مگن ہو کر اپنے اصلی مقام کی فکر بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ سورة الملک کی ابتداء میں اسی بات کا تذکرہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم لمن عملا (آیت 2) جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں اچھے اعمال کون انجام دیتا ہے۔ اللہ نے کفار کے متعلق فرمایا ہے ذلک مثلعھم من العلم (النجم 3) ان کا تمام تر جغرافیہ صرف دنیا کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے یعنی ان کا منبع علم صرف دنیا کی زندگی ہے وہ اس کے آگے کچھ نہیں جانتے۔ فرمایا یعلمون ظاہرا من الحیوۃ الدنیا وھم عن الاخرۃ ھم غفلون (الروم 7) وہ دنیا کی ظاہری زندگی کے متعلق تو خوب جانتے ہیں مگر آخرت کی زندگی سے بالکل بیخبر ہیں ، اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اسی اللہ نے مختلف طریقوں سے سمجھایا ہے کہ انسان دنیا کی ظاہری زیب وزینت اور رونق پر فریفتہ ہو کر دھوکہ نہ کھائیں۔ فرمایا وما الحیوۃ الدنیا الا لعب ولھو وللدار الاخرۃ خیر الذین یتقون (الانعام 32) دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے اور متقین کے لیے آخرت کا گھر ہی بہتر ہے۔ سورة العنکبوت میں بھی ارشاد ہے وما ھذہ الحیوۃ الدنیا الا لھو و لعب وان الدار الاخرۃ لھی الحیوان (آیت 64) یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل تماشہ ہے مگر آخرت کا گھر ہی ہمیشہ کی زندگی کا گھر ہے۔ اس کو کہیں فراموش نہ کردینا۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے قیامت ضرور واقع ہوگی ، لہٰذا تمہیں دنیا کی زندگی کہیں دھوکے میں ڈال دے۔ شیطان کا اغوا اللہ نے اسباب ضلالت میں سے دوسرا سبب یہ فرمایا ولا یغرنکم باللہ الغرون اور اللہ کے بارے میں تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے بڑا دھوکے باز یعنی شیطان۔ وہ تمہارا ازلی دشمن ہے اور تمہیں متواتر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فرمایا ان الشیطن لکھ عدو فاتخذوہ عدوا بیشک شیطان تمہارا خطرناک دشمن ہے۔ لہٰذا اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ انما یدعوا حربہ لیکونوا من اصحب السعیر بیشک اپنے گروہ کو دعوت دیتا ہے تاکہ وہ سارے کے سارے دوزخ والے بن جائیں وہ کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے تاکہ اس کی جماعت بہت بڑی جماعت بن جائے۔ اس آیت کریمہ میں لفظ غرور غ کی زبر کے ساتھ آیا ہے جس کا معنی دھوکہ باز یا فریبیہ ہے اور اگر یہی لفظ غ کی پیش کے ساتھ ہو تو معنی دھوکہ ہوگا تو فرمایا شیطان تمہارا دشمن ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ شیطان سے بچنے کا طریقہ اما قشیری چوتھی صدی کے بزرگ گزرے ہیں۔ وہ اپنی کتاب (رسالہ قشیریہ) رسالہ قشیریہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ شیطان انسان کا سخت ترین دشمن ہے جس کے متعلق خود اللہ جل شانہ کا فرمان ہے انہ یرلکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم (اعراف 27) وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ اس کی دشمنی انسان کے لیے ہر لحظہ جاری ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسے آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس نے انکار کیا تو وہ مردود ٹھہرا مگر اس نے اللہ کے سامنے عہد کیا ، پروردگار لا غرینھم اجمعین (الحجر 39) میں تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ کہنے لگا ، میں آگے پیچھے ، دائیں بائیں غرضیکہ ہر راستے سے آکر انسان کو گمراہ کروں گا۔ چناچہ شیطان اور اس کے چیلے ہر وقت انسان کے درپے رہتے ہیں۔ تو ایسے ازلی دشمن سے بچنے کے لیے امام قشیری (رح) فرماتے ہیں کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں حضور ﷺ نے بعض کلمات بتائے جن کے ورد سے شیطان کے شر سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ مثلا لاحول ولا قوۃ الا باللہ گناہ سے بچائو اور نیکی کی انجام دہی پس اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ممکن ہے اسی طرح اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم میں مردود شیطان سے اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں۔ یہ الفاظ بھی آتے ہیں اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم من ھمزۃ و نفخہ و نفثہ میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں شیطان مردود کی چھیڑ چھاڑ ، اس کے تکبر اور اس کے سحر سے۔ اعوذ باللہ القادر من الشیطن القادر میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو قادر ہے شیطان سے بچنے کے لیے جو غدار ہے۔ بہرحال شیطان کے اغواء سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی استعانت کی ضرورت ہے۔ بخاری شریف کی روایت (بخاری ، قرطبی ص 224 ج 14 فیاض) میں آتا ہے کہ جب انسان سو جاتا ہے اور شیطان کو انسان کے اندر داخل ہونے کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ ناک میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے اور دل پر پھونکیں مارتا رہتا ہے اور اس طرح وسوسہ اندازی کرتا ہے پھر جب انسان بیدار ہو کر اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اس کو اللہ کے ذکر سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ انسان کی افسوسناک حالت مفسر قرآن امام قرطبی اور ایک دوسرے بزرگ ابن سماک فرماتے ہیں کہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ انسان اپنے محسن کو جانتے ہوئے بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور اس کے احسان کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ خالق اور محسن حقیقی کو ہر شخص خوب پہچانتا ہے کہ اس کے بیشمار انعامات ہیں مگر اس کا شکریہ بہت کم بندے ہی ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو اچھی طرح علم ہے کہ شیطان اس کا ازلی ابدی دشمن ہے مگر اس کے باوجود اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ گویا انسان کجی حالت کس قدر افسوسناک ہے۔ امام فضیل بن عیاض حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے شاگرد تھے۔ وہ انسان کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے انسان ! تم کذاب اور مفتری ہو کہ ظاہر میں تو شیطان پر لعنت بھیجتے ہو مگر باطن میں اس کے ساتھ دوستانہ ہے۔ تم اکثر کام شیطان کی خواہش کے مطابق انجام دیتے ہو ، تمام رسم و رواج ، بدعات ، شرکیہ اور کفریہ حرکات اور فضول خرچی شیطان کی خواہش کی تکمیل ہی تو ہے سورة یٰسین میں اللہ نے ابن آدم کو خطاب کرکے فرمایا ہے الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن انہ لکم عدو مبین (آیت 60) اے ابن آدم ! کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کیا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے مگر تم پھر بھی اس کے دام میں پھنس گئے۔ فرمایا ، شیطان کو اپنا دشمن سمجھوانما یدعوا حزبہ لیکونوا من اصحب السعیر بیشک وہ اپنے گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ سب دوزخ والوں میں ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بڑی جماعت بنا کر ان کو جہنم میں لے جانا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفر اور ایمان کا انجام بھی بیان کردیا ہے ارشاد ہوتا ہے الذین کفروا وہ لوگ جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا لھم عذاب شدید وہ سخت عذاب میں مبسلا ہوں گے۔ کفر کا انجام لازماً برا ہوگا۔ کفر کا معنی دین ، شریعت اور توحید کا انکار ہے۔ یہ سخت جرم ہے جس کی سزا دائمی جہنم ہے۔ دوسری طرف اہل ایمان کے متعلق فرمایا والذین امنوا و عملو الصلحت اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیئے لھم مغفرۃ واجر کبیر ان کے لیے بخشش اور بہت بڑا اجر ہوگا۔ ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ دوسری منزل ہے اگر ایمان کی بنیاد مستقیم ہے تو نیکی بھی مقبول ہوگی ورنہ نہیں ، نیک اعمال میں سب سے پہلے فرائض یعنی نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج آتے ہیں۔ پھر جہاد ، قربانی اور صدقہ و خیرات کا نمبر ہے۔ انسان سے بہت سی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ایمان اور نیک اعمال کی وجہ سے معاف فرمادے گا۔ دوسرے مقام پر ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایمان کی برکت سے جنت کے راستے پر چلا کر وہاں تک پہنچائے گا۔ فرمایا ! ایمان اور اعمال صالحہ کی برزکت سے ایک طرف غلطیاں اور کوتاہیاں معاف ہوں گی تو دوسری طرف اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر بھی میسر آئے گا۔ اللہ نے اہل ایمان کے لیے یہ بشارت بھی سنادی ہے۔
Top