Mualim-ul-Irfan - As-Saaffaat : 114
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق مَنَنَّا : ہم نے احسان کیا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ : موسیٰ پر اور ہارون پر
اور البتہ تحقیق ہم نے احسان کیا موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر
ربط آیات اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے دونوں فرزندوں اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) کا ذکر فرمایا یہ تینوں حضرات اللہ کے نبی اور رسول تھے۔ یہ سباصحاب کامل درجے کے ایماندار اور اعلیٰ پیمانے کی نیکی کرنے والے تھے فلما اسلما کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باپ اور بیٹا ہر وقت اطاعت خداوندی میں مصروف رہتے تھے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو مسئلہ توحید سمجھایا تو وہ مخالف ہوگئی اور ابراہیم (علیہ السلام) کو صفحہہستی سے ناپید کرنے کے منصوبے بننے لگے۔ چناچہ تاریخ عالم کی عظیم ترین آگ جلائی گئی جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کو پھینک دیا گیا ، یہ تو اللہ کی قدرت کی نشانی اور عظیم معجزہ تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اس آگ سے صحیح سلامت بچ نکلے مگر اس کے باوجود قوم کے لوگ آپ کی دعوت قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ پھر آپ نے اللہ کے حکم سے ہجرت کی اور اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ کر بارگاہ رب العزت میں بیٹے کے لئے دعا کی جو اللہ نے قبول فرمائی۔ اور جب بچہ بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچ گیا تو اللہ نے اس کی قربانی کا حکم دیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور اللہ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ جنت سے مینڈھا بھیج کر قربانی کی تکمیل کی اور اسماعیل (علیہ السلام) کو بچا لیا۔ اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری بیوی حضرت سارہ ؓ سے بھی بیٹے کی بشارت ملی اور اللہ نے ان کے ہاں بھی حضرت اسحاق (علیہ السلام) جیسا عظیم المرتبت بیٹا تولد فرمایا ، جن کی اوالد کا سلسلہ دور تک گیا اور جس میں اللہ نے ہزاروں نبی مبعوث فرمائے۔ اس واقعہ میں حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کے لئے تسلی کا مضمون بھی ہے کہ دیکھو اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں نے کیسی کیسی تکالیف اٹھائیں اور کتنے امتحانات سے گزرے تو پھر اللہ نے ان پر انعامات بھی بیشمار کئے۔ اب اگلی آیات چند دیگر انبیاء اور ان کو پہنچنے والی تکالیف اور پھر ان کی کامیابی کا ذکر آ رہا ہے۔ اس سے حضور ﷺ اور آپ کے تابعین کو سمجھانا مقصود ہے کہ مخالفین کی ایذارسانیوں سے دلبرداشتہ نہ ہوں۔ بالآخر کامیابی تمہارے ہی مقدر میں ہوگی۔ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا ذکر ارشاد ہوتا ہے ولقد مننا علی موسیٰ و ھرون اور البتہ تحقیق ہم نے احسان کیا موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات تو قرآن اپک میں چھیالیس سے زیادہ مرتبہ مختلف سورتوں میں بیان ہوئے ہیں تاہم یہاں پر اختصار کے ساتھ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ان نبیوں نے اللہ کی وحدانیت کا پیغام پہنچانے کے لئے کن کن مشکلات کا سامنا کیا۔ مگر بالآخر اللہ نے انہی کو کامیاب بنایا۔ ارشاد ہوتا ہے و نجینھا و قومھما من الکرب العظیم اور ہم نے ان دونوں (موسیٰ اور ہارون علیہم السلام) اور دونوں کی قوم کو بڑی اذیت سے نجات دی۔ وفصربھم اور ہم نے ان کی مدد کی فکانوا ہم الغالبین اور آخر کار وہی غالب آئے اور فرعون اور اس کی قوم کو اللہ نے بحر قلزم میں غرق کردیا اور بنی اسرائیل آزاد ہوگئے۔ پھر فرمایا واتینھما الکتب المسبین اور اللہ کے دونوں نبیوں کو ہم نے ایک واضح کتاب بھی دی۔ اس سے مراد تورات ہے جو اصل میں تو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تاہم چونکہ دونوں پیغمبر اسی کتاب کی تبلیغ کے پابند تھے ، لہٰذا اللہ نے اس کتاب کو دونوں کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس وقت بائبل کے پہلے پانچ باب تورات پر مشتمل ہیں۔ قرآن پاک کے بعد یہ دوسرے نمبر پر عظیم الشان آسمانی کتاب ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے عقائد ، اخلاق ، حدود تعزیرات کے علاوہ معاشرتی احکام بھی بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کی عظمت کے پیش نظر اللہ نے سورة القصص میں قرآن اور تورات ک متعلق مشترکہ طور پر فرمایا قل فاتوا بکتب من عند اللہ ھواھدی منھا (آیت۔ 94) اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دونوں کتابوں سے بہتر ہدایت دہندہ کوئی کتاب ہے تو لے آئو۔ مطلب یہ کہ یہ دونوں کتابیں یعنی قرآن اور تورات سب سے زیادہ جامعیت کی حامل ہیں۔ ان کے علاوہ باقی دو آسمانی کتابیں انجیل اور زبور ہیں مگر وہ اتنی جامع نہیں ہیں ان میں زیادہ تر اخلاقی تعلیم ہے ، مسائل اور تع میرات کم ہیں۔ البتہ توحید کا اثبات اور شرک کی تردید تمام کتب سماویہ میں پائی جاتی ہے۔ پھر اللہ نے اپنے دونوں انبیاء (یعنی موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے متعلق فرمایا و ھدینھا الصراط المستقیم اور ہم نے دونوں کی راہ راست کی طرف راہنمائی کی۔ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) دونوں صراط مستقیم کے راہی تھے۔ اللہ نے ان کے قول و فعل میں استقامت بخشی تھی۔ دیگر انبیاء کی طرح اللہ نے ان کو بھی صغائر و کبائر اور ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھا تھا۔ ان میں کمال درجے کی عبادت و ریاضت تھی اور وہ صبر و تحمل اور بردباری کا پیکر تھے۔ نیز فرمایا و ترکنا علیھما فی الاخرین اور ہم نے پچھلوں کے لئے بھی ان دونوں کے حق میں یہ بات چھوڑ دی یعنی بعد میں آنے والے لوگ بھی ان کو اچھائی کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں سلم علی موسیٰ و ھرون سلام ہو موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) پر اللہ نے ان کو وہ مرتبہ بخشا کہ قیامت تک آنے والے لوگ ان کے لئے سلامتی اور رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔ فرمایا انا کذلک نجزی المحسنین ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ انھما من عبادنا المومنین یہ دونوں ہمارے کامل ایماندار بندوں میں سے تھے۔ پہلے حضرت نوح اور ابراہیم (علیہم السلام) کے لئے بھی یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور اب موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو بھی اللہ نے کامل ایمانداروں میں شمار کیا ہے۔ الیاس (علیہ السلام) کا تذکرہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک اور نبی حضرت الیاس (علیہ السلام) کا تذکرہ اس طرح فرمایا و ان الیاس لمن المرسلین اور بیشک الیاس (علیہ السلام) بھی اللہ کے رسولوں میں سے تھے۔ معلوم ہوا کہ اللہ نے نزول وحی ک یعلاوہ آپ کو مستقل شریعت بھی عطا کی تھی۔ قرآن پاک میں الیاس (علیہ السلام) کا ذکر صرف دو مقام پر آیا ہے۔ پہلا مقام سورة الانعام جہاں اللہ نے اٹھارہ انبیاء کا تذکرہ کر کے فرمایا کہ اگر وہ بھی شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہوجاتے۔ ان میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا نام بھی مذکور ہے اور دوسرا مقام اس سورة میں ہے جہاں اللہ نے آپ کی دعوت توحید کا ذکر فرمایا ہے اور ساتھ ساتھ آپ کی نیکی اور ایمان کا تذکرہ کیا ہے۔ اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ الیاس (علیہ السلام) حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور ان کا زمانہ ایسع نبی کا قریبی زمانہ ہے۔ آپ شرق اردن کے ایک مقام جلتاد میں پیدا وئے ا سزمانے میں بعل بک بڑا متمدن شہر تھا۔ اللہ نے آپ کو اس شہر کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ وہاں کے لوگوں کو توحید کی دعوت دیں۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ وہ زندہ ہیں ، حالانکہ یہ روایت صحیح نہیں ہے حقیقت یہی ہے کہ آپ اپنا دور گزار کر اپنے رب کے ہاں پہنچ چکے ہیں۔ بعل بت کی پوجا بائبل میں بعل بک کے بادشاہ کا نام اخیاب اور اس کی مشرکہ بیوی کا نام ازابل 1 ؎ تفسیر کبیر ص 161 ج 62 والسراج المنیر ص 983 ج 3 2 ؎ طبری ص 39 ج 32 و معالم التنزیل ص 412 ج 3 تا 812 ذکر کیا گیا ہے۔ بادشاہ اپنی بیوی کے زیراثر تھا اور یہ سب لوگ بعل بت کی پوجا کرتے تھے۔ بعل کا لغوی معنی تو سردار ، آقا یا خاوند ہوتا ہے۔ مگر بعل نامی ایک نیکو کار عورت تھی جس کے مرنے کے بعد لوگوں نے اس کا بت بنا کر پوجا شروع کردی۔ یہ بالکل اسی طرح ہوا تھا جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر جیسے نیک آدمیوں کے بت بنا کر لوگ ان کی پوجا کرتے تھے۔ حضور ﷺ کی بعثت کے زمانے میں لات نامی بت کی پرستش ہوتی تھی۔ یہ بھی حقیقت میں ایک نیک آدمی تھا ، حاجیوں کو ستو پلایا کرتا تھا ، جب مر گیا تو لوگوں نے بت بناکر اس کی پرستش شروع کردی۔ اساف اور نائلہ نامی مرد وزن کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا تھا۔ یہ بدبخت خانہ کعبہ میں بدکاری کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے سزا کے طور پر ان کو پتھروں میں تبدیل کردیا۔ پھر لوگوں نے اٹھا کر انہیں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر رکھ دیا تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں۔ مگر جب کچھ زمانہ گزر گیا تو شیطان نے لوگوں کے دلوں میں ایسی وسوسہ اندازی پیدا کی کہ انہیں بزرگ سمجھ کر ان کی پوجا ہونے لگی۔ چناچہ مشرک لوگ ان کے نام کا احرام باندھتے تھے اور لبیک اللھم لبیک کی بجائے لبیک اساف و نائلۃ کہنے لگے۔ الیاس (علیہ السلام) کی دعوت توحید بہرحال الیاس (علیہ السلام) کی قوم بعل کی پوجا کرتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا بعل بک جا کر لوگوں ک توحید کی دعوت دو ۔ آپ نے وہاں پر قوم کو خطاب فرمایا۔ اذ قال لقومہ جب کہ کہا انہوں نے اپنی قوم سے الا تتقون لوگو ! کیا تم ڈرتے نہیں ؟ دیکھو تم کفر اور شرک میں مبتلا ہو۔ اتدعون بعلا کیا تمبعل بت کو پکارتے ہو ، اس سے اپنی حاجات طلب کرتے ہو ، اور اس کے سامنے نذر و نیاز پیش کرتے ہو و تذرون احسن الخالقین اور سب سے بہتر پیدا کرنے والی ذات کو چھوڑ دیتے ہو۔ اس کی عبادت نہیں کرتے اور نہ اس سے حاجت براری کرتے ہو۔ یہ کتنی بیوقوفی کی بات ہے۔ فرمایا وہ بہترین پیدا کرنے والا اللہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ربکم و رب اباء کم الا ولین جو تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے پہلے آبائواجداد کا بھی ، تم اس کی بجائے بعل کی پوجا کرتے ہو جو بےجان مورتی ہے اور تمہارے کسی کام نہیں آسکتی۔ آج بھی مشرک لوگ ویسا ہی کام کر رہے ہیں۔ وہ یہ معاملہ بتوں کے ساتھ کرتے تھے۔ آج کے مسلمانوں نے یہی معاملہ قبروں کے ساتھ شروع کردیا ہے قبروں کو پختہ کیا جاتا ہے ، ان پر گنبد بنائے جاتے ہیں ، پھر چادریں چڑھتی ہیں اور گل پاشی ہوتی ہے اور پھر نادان لوگ ان کو سجدے کرتے ہیں… اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ یہ کفر ، شرک اور بدعات کی باتیں ہیں جن میں رسومات باطلہ بھی شامل ہوجاتی ہیں اور شرک کے یہ اڈے بعض لوگوں کی معیشت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ پھر لوگ انہیں کاروباری لحاظ سے ترقی دیتے ہیں۔ ان کے حق میں الٹا سیدھا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ عرس اور میلے منعقد ہوتے ہیں اور اس طرح ان کا کاروبار چل نکلتا ہے۔ تو الیاس (علیہ السلام) نے فرمایا ، کیا تم بہترین پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر بعل کی پوجا کرتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ خالق کل شیء (الزہر۔ 26) ہر چیز کا پیدا کرنے والا (خالق) تو اللہ ہے مگر احسن الخالقین کے لفظ سے مترشح ہوتا ہے کہ کوئی اور بھی خالق ہیں جن میں سے بہترین خالق اللہ ہے۔ تو یہ بہترین خالق اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ مجازی طور پر انسان بھی تو بعض چیزیں تیار کرتے ہیں۔ مثلاً کیمسٹری والوں نے بیشمار مرکبات تیار کئے ہیں اور فزکس کے ماہرین نے بہت سی مشینری ایجاد کی ہے جس سے ضروریات زندگی کی لاتعداد چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔ بندہ اپنے عطا شدہ اختیارات کو بروئے کار لا کر ہاتھ پائوں ہلاتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے۔ مگر حقیقی خالق وہی ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں گزر چکا ہے کہ انسان کے افعال کا خالق بھی وہی ہے۔ غرضیکہ تمام انسانی ہاتھوں کی بنائی ہوئی مصنوعات کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ سب سے بہترین خالق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کوئی انسان مادے کے بغیر کوئی چیز تخلیق نہیں کرسکتا اور مادہ خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے۔ نیز جب اللہ تعالیٰ کوئی چیز پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ زمین اور آسمان کو بغیر آلے اور مادے کے تخلیق کرسکتا ہے ، اور بغیر باپ ک یبیٹا عطا کرسکتا ہے ، مگر کوئی سائنسدان یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ ہی بہترین خالق ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ بہترین خالق وہ اللہ ہے جو تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے آبائواجداد کا بھی۔ وہی تمہیں بتدریج حد کمال تک پہنچاتا ہے اور تمہیں تمام ضروریات زندگی مہیا کرتا ہے۔ اس دعوت توحید کے جواب میں فکذبوہ قوم کے لوگوں نے الیاس (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا۔ انہوں نے آپ کی کوئی بات نہ مانی بلکہ الٹا آپ کے خلاف ہوگئے اور آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے حتیٰ کہ بادشاہ اپنی بیوی کے کہنے پر آپ کے قتل کے درپے ہوا اور تفسیری روایات کے مطابق آپ کافی عرصہ تک روپوش بھی رہے۔ فرمایا ان کی اس گستاخی ، نافرمانی اور تکذیب کا نتیجہ نکلے گا فانھم لمحضرون کہ قیامت والے دن وہ گرفتار کر کے اللہ کی عدالت میں پیش کئے جائیں گے۔ الا عباد اللہ المخلصین مگر اس کے مخلص بندے اس گرفت سے بچ جائیں گے جو لوگ خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں گے ، ظلم و زیادتی سے باز آجائیں گے ، عدل و انصاف کا دامن تھام لیں گے ، وہی اللہ کے مخلص بندے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائیں گے۔ 1 ؎ طبری ص 49 ج 32 و خازن ص 43 ج 6 الیاس (علیہ السلام) کا مرتبہ اللہ نے فرمایا و ترکنا علیہ فی الاخرین ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں چھوڑا یعنی بعد میں آنے والے لوگ بھی کہیں گے سلم علی ال یاسین سلام ہو الیاسین پر اس سے مراد حضرت الیاس (علیہ السلام) ہی ہیں۔ عربی قرات میں بعض دفعہ ایسے بھی پڑھتے ہیں جیسے طور سینا کو طور سینین (التین۔ 3) بھی کہا گیا ہے۔ فرمایا انا کذلک نجزی المحسنین ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں انہ من عبادنا المومنین ، وہ ہمارے کامل ایماندار بندوں میں سے تھے ، اسی لئے اللہ نے انہیں رسالت و نبوت سے سرفراز فرمایا ہے۔ اور پھر آپ نے دیکھا کہ انہوں نے کس خلوص و لگن کے ساتھ اپنی قوم تک دعوت توحید پہنچائی اور کس طرح مصائب کو برداشت کیا۔ اگرچہ یہاں پر آپ کی ایذارسانیوں کی تفصیل نہیں دی گئی تاہم یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ توحید کی دعوت دینے والوں کو مشکلات کی گھاٹی عبور کرنا ہی پڑتی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے اشارہ کیا کہ آپ کچھ عرصہ تک روپوس رہے کیونکہ قوم آپ کی جان کے درپے تھی۔ لوط (علیہ السلام) کی دعوت اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کا تذکرہ فرمایا و ان لوطا لمن المرسلین اور بیشک لوط (علیہ السلام) بھی اللہ کے رسولوں میں تھے۔ انہوں نے بھی وحدانیت کی تبلیغ اور برائیوں سے منع کرنے کی پاداش میں سخت تکالیف اٹھئایں۔ آپ کی بعثت شرق اردن میں بارہ لاکھ سے زیادہ آبادی والی قوم کی طرف ہوئی جن کے سدوم اور عامورہ وغیرہ چھ بڑے بڑے شہر تھے اور جن کی آبادی چار لاکھ سے زیادہ تھی اور باقی چھوٹی بستیاں اور دیہات تھے۔ آپ عرصہ تک ان کو تبلیغ حق کرتے رہے ، ان میں ہم جنسی کی نہایت ہی قبیح بیماری پیدا ہوچکی تھی جس سے آپ منع کرتے رہے مگر قوم نہ مانی بلکہ الٹا آپ کو طرح طرح سے ایذائیں پہنچائیں۔ آپ کی بیٹیوں کے سوا کوئی شخص بھی ایمان نہ لایا حتیٰ کہ آپ کی بیوی بھی کافرہ ہی رہی۔ یہ تجارت پیشہ لوگ تھے۔ یمن سے شام و فلسطین اور مصر تک جانے والی شاہراہ پر واقع تھے۔ یہاں سے قافلے ہر وقت گزرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے یہ لوگ خاصے آسودہ حال تھے۔ ارشاد ہوا کہ لوط (علیہ السلام) بھی ہمارے رسولوں میں سے تھے۔ اللہ نے آپ کو مستقل شریعت عطا فرمائی تھی۔ آپ نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے اور قوم نے آپ کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ بالآخر قوم کی تباہی کا وقت آگیا۔ اللہ نے حکم دیا کہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات بستی سے نکل جائیں کیونکہ ان پر عذاب آنے والا ہے۔ آپ نے ایسا ہی کیا اور اپنی بچیوں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے اس طرح آپ اور آپ کے گھر والے تو بچ گئے اذ نجینہ و اھلہ اجمعین ہم نے نجات دی آپ کو اور آپ کے گھر والوں سب کو الا عجوزا فی الغبرین سوائے بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں تھی۔ یہ آپ کی بیوی تھی جو آپ کے ساتھ رات کو نہیں نکلی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ نکلی تو تھی مگر راستے سے واپس پلٹ گئی تھی۔ تورات کی روایت کے مطابق حکم یہ تھا کہ بستی سے نکل جائیں مگر پلٹ کر نہ دیکھیں مگر بیوی تھوڑی دور چلی پھر پلٹ کر بستی کی طرف دیکھا تو اللہ نے اس کو وہیں مسخ کردیا اور وہ پتھر بن گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ گھر میں ہی ٹھہری رہی اور باقی قوم کے ساتھ عذاب کا شکار ہوگئی اللہ نے ان کی بستیوں کو الٹ دیا اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش بھی کی جس سے ساری قوم ملیا میٹ ہوگئی۔ اسی چیز کے متعلق فرمایا کہ لوط (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں یعنی بچیوں کو تو ہم نے بچا لیا ثم دمرنا الاخرین پھر دوسروں کو تہس نہس کردیا۔ تدمیر کا معنی تہ وبالا کردینا ہوتا ہے۔ اللہ نے کسی فرد واحد کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ 1 ؎ طبری ص 79 ج 32 2 ؎ طبری ص 79 ج 32 جائے عبرت آگے اہل مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے اور عبرت دلائی جا رہی ہے و انکم لتعرون علیھم مصبحین اور بیشک تم ان پر سے گزرتے ہو صبح کے وقت و بالیل اور ان تباہ شدہ بستیوں پر تمہارا گزر رات کے وقت بھی ہوتا ہے۔ تم تجارتی سفر پر مصر ، شام اور فلسطین کی طرف جاتے ہو۔ تو ان بستیوں کے کھنڈرات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہو۔ حضور ﷺ کے زمانہ تک ان بستیوں کے کھنڈرات موجود تھے جنہیں مشرکین مکہ دیکھتے تھے مگر ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے تھے۔ بحرمیت کو تو خدا تعالیٰ نے اس قدر برباد کردیا کہ اس میں اب بھی کوئی جاندار چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ اللہ نے عبرت دلاتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کا انجام دیکھ کر بھی تم راہ راست پر نہیں آتے۔ انہوں نے اپنے نبی لوط (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ ان کو ایذائیں پہنچائیں ، حق کو تسلیم نہ کیا تو انکا کیا حشر ہوا۔ اگر تم بھی انہی کے راستے پر چلتے ہوئے نبی آخر الزمان کی مخالفت کرو گے ان کو تکالیف پہنچائو گے اور ان پر ایمان نہیں لائو گے تو تمہارا انجام بھی قوم لوط سے مختلف نہیں ہوگا افلا تعلقون کیا تم سمجھ نہیں رکھتے۔ تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ کافروں ، مشرکوں اور بدکردار لوگوں کا انجام کای ہوتا ہے ؟ ان کو دیکھ کر ہی نصیحت پکڑ لو تو بچ جائو گے وگرنہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہو گے۔
Top