Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 11
قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَۙ
قُلْ : فرما دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کروں مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
آپ کہہ دیجئے (اے پیغمبر ﷺ بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں عبادت کروں اللہ تعالیٰ کی خالص اسی کے لیے اطاعت کرنے والا ہوں ۔
ربط آیات : اس سے پہلے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید میں بہت سے دلائل بیان ہوئے پھر نیک وبد اور عالم و جاہل کا تقابل ہوا کہ دونوں گروہ برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ دلائل سے عقلمند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع ہے اگر کسی مقام پر کفار ومشرکین کا غلبہ ہے ، اور وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ بنتے ہیں اور شعائر دین پر عمل درآمد نہیں کرنے دیتے تو پھر وہاں سے ہجرت کرکے دوسری جگہ چلے جائیں ، ظاہر ہے کہ ترک وطن میں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان تکالیف کو صبر و استقامت سے برداشت کرنے والوں کو بےحساب اجر عطا کیا جائے گا ۔ (اخلاص فی العبادت کا حکم) اب آج کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے اثبات اور شرک کی تردی کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے ” قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ لوگوں کو کہہ دیں یعنی انکے سامنے اس بات کی وضاحت کردیں (آیت) ” انی امرت ان اعبداللہ مخلصا لہ الدین “۔ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں اس حال میں کہ اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرنے والا ہوں دین سے مراد بندگی اور اطاعت ہے یہی مضمون سورة ہذا کی ابتداء میں بھی بیان ہوا تھا (آیت) ” فاعبداللہ مخلصین لہ الدین “۔ صرف اللہ کی عبادت کرو ، اسی کے لیے اطاعت کر خاص کرنے والے ہو کر ، گویا یہ بات بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسی خالص ہی معبتر ہے ، جس میں شرک اور ریا کی آمیزش نہ ہو ، نیز فرمایا کہ آپ یہ بھی کہہ دیں (آیت) ” وامرت لان اکون اول المسلمین “۔ اور مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا اولین فرمانبردار اور اطاعت گزار بن جاؤں چناچہ امت میں اللہ تعالیٰ کا اولین ذات پیغمبر (علیہ السلام) کی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہوتا ہے ، اور پھر ساری امت اس کے تابع ہوتی ہے اس لحاظ سے بھی فرمانبردار میں پہلا نمبر نبی کا ہی ہوتا ہے اور اگر بلحاظ مجموعی تمام کائنات کا شمار کیا جائے تو ازل اور عالم ارواح میں بھی اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت کرنے والی ذات پیغمبر (علیہ السلام) کی ہی ثابت ہوتی ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ کے نزدیک میں تو اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب کہ آدم (علیہ السلام) کا ابھی پانی اور مٹی سے ڈھانچہ تیار ہو رہا تھا تو گویا عالم شہادت اور عالم غیب دونوں مقامات پر تمام لوگوں میں اولین اطاعت گزار اور فرمانبردار پیغمبر (علیہ السلام) ہیں ۔ ساتھ یہ بھی فرمایا (آیت) ” قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم “۔ آپ کہہ دیں کے اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں ، تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ، اللہ کے نبی معصوم اور اس کے مقرب ہوتے ہیں مگر امت کی تعلیم کے لیے واضح کیا جا رہا ہے کہ بفرض محال اگر میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کروں تو میں بھی اس کے غضب سے بچ نہیں سکتا لہذا عام امتیوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کس قدر ضروری ہے اور اس کی نافرمانی کس قدر مہلک ہے آگے اسی سورة میں مزید وضاحت بھی آرہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ البتہ تحقیق تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اور آپ سے پہلے والوں کی طرف بھی (آیت) ” لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین “۔ (آیت : 65) اگر آپ نے بھی شرک کا ارتکاب کیا تو آپ کے بھی سارے اعمال ضائع کردیے جائیں گے ، اس طرح سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء کا نام لے کر فرمایا ہے (آیت) ” ولو اشرکو لحبط عنھم ما کانوا یعملون “۔ (آیت 89) اگر وہ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع کردیے جاتے ۔ آگے پھر اسی مضمون کو اپنے نبی کی زبان سے دوسرے انداز میں کہلوایا (آیت) ” قل اللہ اعبد مخلصا لہ دینی “۔ آپ کہہ دیں کے میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتا ہوں اس حالت میں کہ اس کی اطاعت کو خالص بنانے والا ہوں پہلے کہا تھا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خالص اسی کی عبادت کروں اور اب تعمیل حکم کے انداز میں فرمایا کہ میں تو اسی کا اطاعت گزار بن کر خالص اسی کی عبادت کرنے والا ہوں ، اور اپنے قول ، فعل یا عمل میں کسی طرح بھی عبادت الہی میں شرک یا ریا کی آمیزش نہیں کرتا ، پھر خود اقرار کرنے کے بعد دوسروں کو فرمایا (آیت) ” فاعبدوا ماشئتم من دونہ “۔ تم اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ، تمہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جو شخص مومنوں کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے (آیت) ” نولہ ما تولی ونصلہ جھنم “۔ (النسآء 115) تو جدھر وہ جانا چاہتا ہے ہم اس کی اسی طرح کی توفیق دے دیتے ہیں مگر اس کا ٹھکانا بلانتہا جہنم ہوگا ، ہم کسی کو ہاتھ سے پکڑ کر شرک یا کسی دیگر معصیت سے نہیں روکتے مگر اس پر انجام واضح کردیتے ہیں ، بہرحال فرمایا کہ تم جدھر چاہو جاسکتے ہو مگر میں تو خالص اللہ کی عبادت کرتا ہوں ۔ (نقصان زدہ لوگ) اور ساتھ ساتھ اللہ نے تنبیہ کے طور پر اپنے نبی کی زبان سے یہ اعلان بھی کروا دیا (آیت) ” قل ان الخسرین الذین خسروا انفسھم واھلیھم یوم القیمۃ “۔ آپ ان سے یہ بھی فرما دیں کہ دراصل نقصان اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانوں کو قیامت والے دن نقصان میں ڈالا ، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں خود بھی کفر ، شرک اور معاصی میں مبتلا رہے اور اپنے گھروالوں کو بھی اسی ڈگر پر چلائے رہے صحیح معنوں میں نقصان زدہ لوگ یہ ہیں ، یہ سمجھتے رہے کہ ہم عرسوں میں شریک ہو کر ، مزاروں پر چادریں چڑھا کر ، غیر اللہ کی نذر ونیاز دے کر اور بدعات کو فروغ دے کر بڑے نیکی کے کام کرتے رہے ہیں جو قیامت والید ن ان کے کام آئیں گے ، مگر اللہ نے فرمایا کہ ان کے یہی اعمال قیامت والے دن ریت کے ذرات کی طرح اڑ جائیں گے اور یہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے سورة الکہف میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی نقصان زدہ لوگوں کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ اے پیغمبر ﷺ آپ کہہ دیں کیا ہم نہ بتلائیں تم کو کہ اعمال کے لحاظ سے خسارے میں پڑنے والے کون لوگ ہوں گے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں (آیت) ” الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا “۔ (آیت : 104) جنہوں نے دنیا کی زندگی میں غلط راستے پر چل کر اپنی ساری محنت کو ضائع کرلیا مگر سمجھتے یہ رہے کہ ہم بڑے نیکی کے کام کرتے رہے ، فرمایا ایسے لوگ قیامت والے دن خود بھی نقصان اٹھانے والے ہوں گے اور اپنے گھر والوں کے لیے بھی نقصان کا باعث بنیں گے ، اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ تھا (آیت) ” قوا انفسکم واھلیکم نارا “۔ (التحریم ، 6) لوگو ! خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ مگر انہوں نے گھروالوں کو بھی کفر ، شرک اور بدعات کے کاموں میں لگائے رکھا ، لہذا قیامت والے دن ان کے ساتھ ان کے گھر والے بھی نقصان اٹھانے والے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے متعلق بھی فرمایا ہے (آیت) ” واحلوا قومھم دارالبوار “۔ (ابراہیم 28) کہ یہ لوگ خود بھی جہنم واصل ہوئے اور اپنی قوم کے لوگوں کو بھی وہیں پہنچایا ۔ فرمایا نقصان زدہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے قیامت والے دن اپنی اور اپنے گھر والوں کو جانوں کو نقصان میں ڈالا ، اللہ نے انسان کو جان جیسی قیمتی پونجی دے کر دنیا میں بھیجا تھا تاکہ اس کے ذریعے ایمان اور اطاعت کمالے مگر اس نے یہاں آکر اس پونجی سے کفر ، شرک اور بدعات کو خریدا اور خسارے میں پڑگیا منافقوں کے متعلق بھی فرمایا (آیت) ” فما ربحت تجارتھم “۔ (البقرہ : 16) ان کی اس تجارت نے انہیں کچھ نفع نہ پہنچایا اور وہ زندگی جیسی قیمتی پونجی گنوا بیٹھے ، فرمایا (آیت) ” الا ذلک ھو الخسران المبین “۔ آگاہ رہو کہ یہی کھلا نقصان ہے جس نے خود کو اور گھر والوں کو نذر آتش کردیا ، اور اس سے بڑا گھاٹا کیا ہوگا ؟ فرمایا اس نقصان کا اثر یہ ہوگا (آیت) ” لھم من فوقھم ظلل من تحتھم ظلل “۔ اور ان کے نیچے بھی ایسے ہی سائبان ہوں گے مطلب یہ کہ ان اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا اور دوزخ کی آگ ان کو ہر طرف سے گھیر لے گی ، پھر ناصحانہ انداز میں فرمایا (آیت) ” ذلک یخوف اللہ بہ عبادہ “۔ اللہ تعالیٰ اس چیز کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے (آیت) ” یعباد فاتقون “۔ اے میرے بندو ! مجھ سے ڈرتے رہو کہیں تم اس عذاب میں مبتلا نہ ہوجانا جس سے تمہیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔ (انابت الی اللہ والے لوگ) اب نقصان زدہ لوگوں کے برخلاف اہل اللہ کے متعلق فرمایا (آیت) ” والذین اجتنبوا الطاغوت ان یبدوھا “۔ اور وہ لوگ جنہوں نے طاغوت کی عبادت کرنے سے اجتناب کیا اس کے داؤ میں نہیں آتے (آیت) ” وانابوا الی اللہ “۔ اور طاغوت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا (آیت) ” لھم البشری “۔ ایسے لوگوں کے لیے بشارت ہے (آیت) ” فشر عباد پس میرے بندوں کو بشارت سنا دیں کہ وہ کامیاب ہوجائیں گے اور جو بشارت کے مستحق کون لوگ میں (آیت) ” الذین یستمعون القول “ جو ابا سنتے ہیں یعنی ہر اچھی بری بات ان کے کانوں میں پڑتی ہے (آیت) ” فیتبعون احسنہ “۔ مگر ان میں سے پیروی صرف اچھی بات کی کرتے ہیں فرمایا (آیت) ” اولئک الذین ھدھم اللہ “ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے (آیت) ” واولئک ھم اولو الالباب “۔ اور یہی ہیں جو صحیح معنوں میں عقل مند ہیں ، دنیا کے اعتبار سے خواہ یہ کسی زہرہ میں آئیں خدا کے نزدیک یہی صاحب عقل ہیں جنہوں نے طاغوت کی پوجا کو چھوڑاکر خالص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کیا ، اس آیت کریمہ میں طاغوت کی عبادت سے کنارہ کشی کا ذکر آیا ہے تو طاغوت سے کیا مراد ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتا ہے کہ جنت کا معنی سحر اور طاغوت کا معنی شیطان ہے ، امام ابن ہشام (رح) اپنی سیرت میں لکھتے ہیں ” کلما اضل عن الحق فھو طاغوت “۔ یعنی جو بھی حق کے راستے سے گمراہ کرنے والی طاقت ہو ، وہ طاغوت ہے چناچہ شیطان کے علاوہ بعض انسان بھی طاغوت ہوسکتے ہیں جو لوگوں کو ایمان اور توحید کے راستے سے ہٹا کر غلط راستے پر ڈالتے ہیں ، اس لحاظ سے بعض سلاطین اور ملوک بھی طاغوت ہیں جو ہمیشہ حق کی مخالفت کرتے ہیں ، اس فہرست میں امریکہ کا ریگن اور روس کا گوربا چوف بھی طاغوت ہیں جو دین ، مذہب ، خدا کے وجود اور شرائع الہیہ کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو باطل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔ (حسن اور احس کی بحث) اس آیت کریمہ میں آمدہ لفظ احسنہ “ بھی قابل توجہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہدایت یافتہ اور صاحب عقل وہ لوگ ہیں جو ہر بات کو سنتے ہیں مگر اتباع احسن کا کرتے ہیں ، بعض فرماتے ہیں کہ احسن سے مراد اللہ کا حکم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ لوگوں کو حکم دیں کہ وہ تورات کی احسن باتوں کا اتباع کریں ، اس لحاظ سے اللہ کا دین ، شریعت ، کتابیں ، پیغمبر کا طریق کار سب احسن میں آتا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ (آیت) ” یستمعون القول “۔ میں تو کتاب نبی کیسنت اور شرائع الہیہ بھی آتی ہیں تو ان میں احسن اور غیر احسن کی تمیز کیسے ہو کہ بعض کا اتباع کیا جائے اور بعض کو چھوڑا دیا جائے ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت میں بھی بعض چیزیں حسن ہیں اور بعض احسن کا درجہ رکھتی ہیں ، یعنی بعض باتیں اچھی ہیں اور بعض بہت اچھی ہیں ، اس کی مثال یوں ہے کہ کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچایا تو نقصان زدہ کے لیے بدلہ لینا جائز ہے اور جائز کام حسن کہلاتا ہے ، اگر وہ شخص بدلہ لینے کی بجائے زیادتی کرنے والے کو معاف کر دے تو وہ احسن کے درجے میں یعنی بہت اچھا فعل ہوگا ، اور اس کے بدلے میں اسے آخرت میں بہت بڑا اجر حاصل ہوگا حسن اور احسن کی مثال اس طرح بھی دی جاسکتی ہے کہ ایک طرف عزیمت ہے اور دوسری طرف رخصت ہے رخصت کو اختیار کرنا حسن ہے جب کہ عزیمت کو اختیار کرنا احسن ہے ، مسافر کے لیے سفر کے دروان روزہ افطار کرنے کی رخصت ہے اگر وہ روزہ نہیں رکھتا تو یہ جائز یا حسن ہے ، اور اگر وہ رخصت کی بجائے عزیمت کو اختیار کرتا ہے یعنی دوران سفر بھی روزہ رکھ لیتا ہے تو یہ احسن یعنی زیادہ بہتر ہے اس طرح کسی شخص کو نوافل بیٹھ کر پڑھنے کی رخصت ہے مگر وہ کھڑا ہو کر ادا کرتا ہے تو یہ عزیمت اور احسن کے درجہ میں آئیگی تو اللہ نے احسن چیز کو اختیار کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے ۔ (نیک وبد انجام ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” افمن حق علیہ کلمۃ العذاب “۔ بھلا وہ شخص جس پر عذاب کی بات ثابت ہوگئی ہے ، یعنی اس نے کفر ، شرک اور معاصی کا ایسا راستہ اختیار کیا کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا عذاب ثابت ہوگیا (آیت) ” افانت تنقذ من فی النار “۔ تو کیا ایسے شخص کو آپ چھڑا لیں گے جو دوزخ میں پڑچکا ہے ؟ جو آدمی اپنی ضد ، عناد اور بداعمالی کی بدولت دوزخ کا مستحق ہوچکا ہے ، اس کو آپ کیسے راہ راست پر لاسکیں گے ؟ مطلب یہ کہ ایسا شخص اب عذاب الہی سے نہیں بچ سکتا ۔ ہاں ایسے شخص کے برخلاف (آیت) ” لکن الذین اتقوا ربھم “۔ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، انہیں محاسبہ اعمال اور جزائے عمل کی فکر ہے ، فرمایا (آیت) ” لھم غرف من فوقھا غرف مبنیۃ “۔ ایسے لوگوں کے لیے بالاخانے ہوں گے جن کے اوپر اور بالاخانے بنے ہوئے ہوں گے ، ان رہائش گاہوں میں ضرورت کی ہر چیز مہیا ہوگی اور وہ وہاں نہایت آسائش کی زندگی گزار سکیں گے ، (آیت) ” تجری من تحتھا الانھر “۔ ان رہائش گاہوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوگی کہ ان کے سامنے نہریں بہتی ہوں گی (آیت) ” وعداللہ “۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہوچکا ہے ، (آیت) ” لا یخلف اللہ المیعاد “۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، بلکہ وہ اپنے بندوں کے حق میں اس وعدے کو ضرور پورا کرے گا ، ان کو اپنی رحمت کے مقام میں ہمیشہ کی زندگی عطا کرے گا ، جہاں ہر قسم کا عیش و آرام میسر ہوگا ، اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں کا ذکر فرما دیا ہے اور ان کے انجام سے بھی آگاہ کردیا ہے ۔ اب یہ ہر شخص کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ کس گروہ میں شامل ہو کر اپنی عاقبت کو کس طرح ڈسا لیا چاہتا ہے ۔ (دنیا اور آخرت کی مثال) آگے اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے نیکی ، بدی اور جزائے عمل کی بات سمجھائی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الم تر ان اللہ انزل من السمآء مآء “۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرمایا ، بادل ، ستارے ، سیارے ، فضا اور ہر بلند چیز کو آسمان سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اور پھر بارش کے نزول میں عالم بالا سے آنے والا حکم خداوندی بھی شامل ہوتا ہے تو بارش نازل ہوتی ہے تو فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف سے بارش کی صورت میں پانی نازل فرمایا (آیت) ” فسل کہ ینابیع فی الارض “ پھر اس کو چشموں کی صورت میں زمین کے اندر چلا دیا ، پہاڑوں پر بارش نازل ہوتی ہے یا برف پگھلتی ہے تو اس کا کچھ پانی تو ندی نالوں کی صورت میں سطح زمین پر بہ نکلتا ہے اور کچھ پانی زمین کے اندر ہی نالیوں کی صورت میں چل پڑتا ہے پھر جہاں اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے چشموں کی صورت میں ابل پڑتا ہے اور لوگ اسے پینے کے کام میں لاتے ہیں اور اس سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں (آیت) ” ثم یخرج بہ زرغا مختلفا الوانہ “۔ پھر اس پانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ مختلف رنگوں کی کھیتیاں اگاتا ہے (آیت) ” ثم یھیج “ پھر وہ کھیتی خشک ہوجاتی ہے (آیت) ” فترہ مصفرا “۔ اور تو دیکھتا ہے اس کو زدر (آیت) ” ثم یجعلہ حطامائ “۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو چورا چورا کردیتا ہے ، اس مثال سے مراد یہ ہے کہ جس طرح پانی ملنے پر کھیتی پیدا ہوتی ہے ، پھر وہ پک کر اپنے عروج کو پہنچتی ہے اور پھر زرد اور خشک ہو کرچورا چورا ہوجاتی ہے ، اسی طرح انسانی زندگی بھی عارضی ہے اس دنیا میں اس کو ایک وقت میں عروج بھی حاصل ہوتا ہے مگر بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے اور اگلی دائمی زندگی کا پیش خیمہ بنتی ہے لہذا انسانوں کو چاہئے کہ وہ اس عارضی زندگی پر مفتون ہونے کی بجائے دائمی زندگی کی فکر کرے اور اس کے لیے زاد راہ تیار کرے ، نیز اس مثال سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ جس طرح فصل پک جانے پر اناج اور بھوسہ الگ الگ ہوجاتے ہیں اسی طرح اگلے جہاں میں نیکی اور بدی الگ الگ ہو کر سامنے آجائیگی اور انسان اپنے تمام اعمال وکردار کو دیکھ سکے گا ۔ فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لذکری لاولی الالباب “۔ بیشک اس مثال میں عقلمندوں کے لیے نصیحت ہے ، انسانوں کو اس مثال پر غور وفکر اور اپنے اعمال وکردار کی اصلاح کرنی چاہئے ” الدنیا مزرعۃ الاخرۃ “۔ یہ دنیا بھی آخرت کی کھیتی ہے جو کچھ یہاں پر بوئے گا وہی آگے کاٹے گا ، لہذا دنیا کی زندگی میں آخرت کے لیے سامان پیدا کرنا چاہئے ۔
Top