بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اتارنا کتاب کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکمتوں والا ہے ۔
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة الزمر ہے ۔ اس سورة کے آخری رکوع میں جنت اور جہنم کی طرف جانے والے گروہوں کا ذکر ہے۔ زمر ، زمرہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے گروہ یا ٹولہ ہوتا ہے تو سورة کا نام اسی مناسب سے الزمر رکھا گیا ہے ۔ یہ سورة مکی زندگی میں نبوت کے چھٹے یا ساتویں سال میں نازل ہوئی جب کہ صحابہ کی ایک جماعت نے حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کی۔ اس سورة مبارکہ کی پچھتر آیات ، آٹھ رکوع ، 192 الفاظ اور چار ہزار حروف ہیں۔ مضامین سورة : اس سورة مبارکہ کے مضامین بھی سابقہ سورة ص کے ساتھ ملتے جلتے ہیں۔ اس سورة کی ابتداء اور انتہاء میں قرآن پاک کے بطور نصیحت ہونے کا ذکر تھا۔ تو اس سورة کی ابتداء اور انتہاء میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ وہاں پر شروع ، وسط اور آخر میں توحید و رسالت کا ذکر تھا تو یہاں بھی ایسا ہی ہے ویسے مکی سورة ہونے کے ناطے اس سورة میں بھی چاروں بنیادی عقائد ، توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن پاک کی حقانیت کا ہی زیادہ تر تذکرہ ہے اور کچھ ضمنی مسائل بھی ہیں اس سورة کے بعد سات حوامیم سورتیں آ رہی ہیں جن میں سے ہر ایک حروفم مقطعات حم سے شروع ہوتی ہے بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ سات سورتیں پورے قرآن پاک کا لب لباب ہیں اور مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ سورة الزمر حوامیم سورتوں کی تمہید ہے کہ دین کا خلاصہ اور نچوڑ اس سورة میں بیان کردیا گیا ہے اور وہ ہے (آیت) ” فاعبداللہ مخلصا لہ الدین “۔ یعنی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کرو ، اس حالت میں کہ صرف اسی کے لیے اطاعت کو خالص بتانے والے بن جاؤ ۔ اس سورة مبارکہ میں توحید کے عقلی اور نقلی دلائل بیان کیے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ شرک کا رد ہے اور چاروں بنیادی مسائل میں سے توحید کا پہلو زیادہ نمایاں ہے قرآن کی حقانیت کے ساتھ ساتھ اس سے مستفید ہونے والے لوگوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور اس سے اعراض کرنے والوں کا انجام بھی بیان ہوا ہے ، مشرکین کے ساتھ بحث و مباحثہ کا ذکر ہے اور ان کا انذار بھی کیا گیا ہے اس سورة مبارکہ میں جزائے عمل کا مسئلہ بھی بیان ہوگیا ہے ۔ (قرآن کی حقانیت) سابقہ سورة کی طرح اس سورة کی ابتداء بھی قرآن کریم کی حقانیت وصداقت سے ہو رہی ہے ، مشرک لوگ اس کو وحی الہی تسلیم نہیں کرتے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بار بار واضح کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” تنزیل الکتب من اللہ “۔ کتاب کا نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ کسی مخلوق کو کلام نہیں اور نہ یہ پیغمبر اسلام کا گھڑا ہوا ہے بلکہ اس کو تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نازل فرمایا ہے اور یہ ایسی کتاب ہے (آیت) ” لاریب فیہ “ جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، اگر کوئی شخص اس میں شک کا اظہار کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے دماغ کی کجی کی علامت ہے جس طرح بھینگے آدمی کو ایک چیز دو نظر آتی ہے اور یرقان کے مریض کو ہر چیز زرد نظر آتی ہے اسی طرح دماغ کے ٹیڑھے آدمی کو قرآن حکیم کے وحی الہی ہونے میں شکل نظر آتا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے اس کے تمام اصول صحیح اور واقعہ کے مطابق ہیں ، یہ خدا کا بےمثل کلام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے سب سے آخری کتاب کے طور پر نازل فرمایا ۔ فرمایا یہ قرآن اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارا ہوا ہے جو ” العزیز “ یعنی کمال قوت کا مالک ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے لہذا اس قرآن کی تکذیب یا مخالفت کرنے والے کو سزا دینے پر بھی قادر ہے اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ذات ” الحکیم “ بھی ہے ، وہ تمام حکمتوں کا مالک ہے ، یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ منکرین اور مکذبین کی فوری گرفت نہیں کرتا ، بلکہ مہلت دیتا رہتا ہے اس کا ارشاد ہے (آیت) ” واملی لھم ان کیدی متین “۔ (القلم : 45) میں ایسے لوگوں کو ڈھیل دیتا رہتا ہوں مگر میری تدبیر بڑی سخت ہے جب چاہوں گا پکڑ لوں گا اللہ تعالیٰ کا ہر حکم حکمت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے مگر اس کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے ۔ (اخلاص فی العبادت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق “۔ بیشک ہم نے اس کتاب کو آپکی طرف حق کے ساتھ اتارا ہے ، اور اس کی غرض وغایت یہ ہے (آیت) ” فاعبداللہ مخلصا لہ الدین “ “ کہ آپ عبادت کریں اللہ تعالیٰ کی اس حال میں کہ آپ خالص اسی کی اطاعت اور بندگی کرنے والے ہوں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں ، تمام صحف سماویہ اور تمام شرائع الہیہ کی یہی تعلیم ہے ، تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے اسی بات کی تبلیغ کی اور تمام عقلمند اور فطرت سلیمہ رکھنے والے لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبادت صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہونی چاہئے ، اس کے علاوہ کوئی بھی مستحق عبادت نہیں ہے ، پھر تاکیدا فرمایا (آیت) ” الا للہ الدین الخالص “ خبردار ، آگاہ رہو کہ خالص اطاعت ، صرف اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے یہ اطاعت کسی دوسری ذات کے لیے نہیں ہوسکتی ،۔ امام بیضاوی (رح) ، امام زمحشری اور بعض دوسرے بڑے بڑے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اخلاص فی العبادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے شرک اور ریا سے پاک ہو ، اگر عبادت میں شرک یا دکھاوے کی ذرا بھی ملاوٹ ہے تو عبادت خالص نہیں رہے گی اور یہی چیز عبادت کی نامقبولیت کی علامت ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ دکھاوے کی عبادت کا میں کوئی اجر نہیں دوں گا بلکہ ایسا شخص الٹا ماخوذ ہوگا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیری اس عبادت کا میرے پاس کچھ بدلہ نہیں جس کو دکھانے کے لیے یہ عبادت کی تھی اس کا بدلہ اور اجر بھی اسی سے جا کرلے مگر وہ بیچارہ کہاں سے اجر دے گا ؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسا عبادت گزار عبادت و ریاضت کرنے کے باوجود اس کے اجر سے محروم رہے گا غرضیکہ عبادت کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ یہ شرک اور ریا کی آمیزش سے پاک ہو ، سورة الکہف میں فرمایا (آیت) ” فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “ (آیت 110) جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھے اعمال انجام دے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کی ملاوٹ نہ کرے اخلاص فی العبادت جبھی پیدا ہوگا ، جب انسان کا ایمان کامل ہوگا اور ایمان کا کمال یہ ہے کہ یہ شرک وریا سے پاک ہو ، حدیث شریف (1) (فیض القدیرص 216 ج 1 بحوالہ مستدرک عن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں آتا ہے ” اخلص فی دینک یکفیک قلیل من العمل “۔ یعنی اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو اگر ایسا ہوگا تو تھوڑا عمل بھی کفایت کر جائے گا اور اگر اخلاص نہ ہوا تو بڑے سے بڑا عمل بھی رائیگاں جائے گا ، سورة ابراہیم میں موجود ہے (آیت) ” مثل الذین کفروا بربھم اعمالھم کرماداشتدت بہ الریح فی یوم عاصف “۔ (آیت ، 18) کافروں کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے تیز آندھی راکھ کو اڑا لے جاتی ہے جب اعمال میں شرک و ریا کی آمیزش ہوگی تو ان میں وزن نہیں ہوگا ، اور وہ گردغبار کی طرح اڑ جائیں گے سورة القارعہ میں بھی ہے کہ قیامت والے دن جن لوگوں کے اعمال وزنی ہوں گے وہ دل پسند آرام میں ہوں گے (آیت) ” واما من خفت موازینہ ، فامہ ھاویۃ ۔ اور جس کے وزن ہلکے ہوں گے ، اس کا مرجع ہاویہ دوزخ ہے حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ ایمان سے خالی لوگوں کے پہاڑوں جیسے اعمال بھی گرد و غبار کی طرح اڑ جائیں گے ۔ ایک صحابی ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ جب میں صدقہ خیرات کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دو باتیں آتی ہیں ، ایک یہ کہ مجھے اس صدقہ خیرات کا آخرت میں بدلہ ملے اور دوسرا یہ کہ لوگ میری تعریف کریں تو کیا مجھے ایسے صدقہ خیرات کا فائدہ پہنچے گا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، جو عمل ریا کے لیے کیا جائے گا ، خدا کے ہاں اس کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا ، بلکہ خدا ایسے عمل کو باطل کردیتا ہے ، جس طرح شک کرنے سے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں ، اسی طرح ریا کاری سے بھی نیکی ضائع ہوجاتی ہے اور احسان جتلانا بھی عمل کو برباد کرنے کے مترادف ہے غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقہ سے ہونی چاہئے کہ اس میں شرک ، ریا اور بدعت کی ملاوٹ نہ ہو ، ہر عبادت اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور شریعت مطہرہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کی جائیگی تو اس کا فائدہ ہوگا ، ورنہ وہ ضائع ہو جائیگی ۔ آگے مشرکوں کی تردید میں ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” والذین اتخذوا من دونہ اولیآئ “۔ اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو حمایتی اور کارساز بنا لیا ہے وہ کہتے ہیں (آیت) ” ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ لزلفی “ ہم تو ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کا قرب دلا دیں ” زلفی “ کا معنی درجہ اور مرتبہ ہوتا ہے ، یعنی ہمارا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں ، عبادت انتہا درجے کی تعظیم کو کہتے ہیں اور یہ قول وفعل اور عمل ہر طریقے سے ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو کارساز سمجھنا اس کی تعظیم کرنا ، نذارنے پیش کرنا ان کی عبادت کرنے کے مترادف ہے اور مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ ہماری سفارش کرکے ہمیں اللہ کا قرب دلادیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کا یہ عقیدہ ہی غلط ہے کیونکہ غیر اللہ کی عبادت ہی تو کفر ، شرک اور بغاوت ہے ، یہ چیز اخلاص کے بھی خلاف ہے اور اصول کے بھی اور ان کی سفارش بھی جبری قسم کی سفارش ہے کہ ان کے خود ساختہ معبود ان کو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے چھڑا کر اس کا قرب دلا دیں گے ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب ایمان اور اخلاص کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔ فرمایا (آیت) ” ان اللہ یحکم بینھم فیکم فیہ یختلفون “۔ بیشک اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا ان چیزوں میں جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں اب تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے خود ساختہ معبود انہیں بچا لیں گے ، مگر اس بات کا حتمی فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہی ہوگا اور وہاں پتہ چلے گا کہ وہ انکے کسی طرح کام آتے ہیں فرمایا (آیت) ” ان اللہ لا یھدی من ھو کذب کفار “۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی راہنمائی نہیں کرتا جو جھوٹا اور ناشکرگزار ہو ، اللہ تعالیٰ کے علاوہ غیر کی عبادت کا عقیدہ رکھنا تو خالصتا کذب اور افتراء ہے ظاہر ہے کہ غلط عقیدہ رکھنے والا آدمی اور پھر اس پر اصرار کرنے والا جھوٹا ہے جب تک وہ اس اصرار کو ترک نہیں کرے گا ظلم کو ترک کرکے عدل کا طالب نہیں ہوگا اور کفر اور شرک کی بجائے حق کا طالب نہیں ہوگا اسے ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی ، اس طرح جو شخص سچی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور غلط عقیدہ رکھتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کر رہا ہے لہذا ایسے شخص کو بھی راہ راست کی طرف راہنمائی نہیں حاصل ہوسکتی ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ غیر اللہ کو حامی وناصر اور کارساز جاننے والا عقیدہ باطل ہے ، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی کسی کو اس کا قرب نہیں دلا سکتا اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش کرسکتا ہے ، سفارش تو اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مرضی سے ہوگی (آیت) ” من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ “۔ (البقرہ : 255) کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے ؟ کوئی بھی نہیں ، سفارش صرف اس شخص کے لیے ہوگی جس کا عقیدہ درست ہوگا وگرنہ ناشکرگزاروں کو تو راہ راست نصیب نہیں ہوتا ۔ (ولدیت کا باطل عقیدہ) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ولدیت کے باطل عقیدے کا رد کیا ہے لوگ مسیح (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے یا مخلوق میں سے کسی اور کو خدا کی اولاد تسلیم کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ جو چاہیں خدا سے کروا سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لوارادہ اللہ ان یتخذ ولد “۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی اولاد بنانا چاہتا تو ظاہر ہے (آیت) ” لاصطفی مما یخلوق مایشآئ “۔ وہ اپنی مخلوق میں سے ہی جس کا چاہتا منتخب کرتا ، اللہ تعالیٰ خالق ہے اور باقی سب مخلوق ہے ، لہذا اگر وہ کسی کو اولاد بنانے کا ارادہ کرتا تو وہ اس کی مخلوق میں سے ہی کوئی ہوتا اور دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اولاد اپنے باپ کی ہم جنس ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ خالق اور مخلوق ہم جنس بن جاتے اور یہی چیز حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ (آیت) ” لیس کمثلہ شیئ “۔ (الشوری 11) خدا کی مانند کوئی چیز نہیں ہے لہذا خالق اور مخلوق کا ہم جنس ہونا بھی ناممکن ہے مطلب یہ ہوا کہ چونکہ خالق اور مخلوق کا ہم جنس ہونا محال ہے فرمایا ” سبحنہ “ وہ ذات تو ہر قسم کے عیب ، نقص ، کمزوری اور اولاد سے پاک ہے لوگوں نے ولدیت کا عقیدہ غلط طور پر بنا رکھا ہے ، سورة جن میں اللہ تعالیٰ نے جنوں کی زبان سے کہلوایا ہے (آیت) ” وانہ تعلی جد ربنا ما اتخذا صاحبۃ والاولدا “۔ (آیت 3) ہمارے رب تعالیٰ کی ذات بہت بلند ہے اس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اولاد ، وہ ایسی چیزوں سے پاک ہے (آیت) ” ھو اللہ الوادۃ القہار “۔ وہ یگانہ ہے اور قہار ہے کہ ہر چیز اس کے دباؤ میں ہے کوئی چیز اس کے تسلط سے باہر نہیں ، وہ جب چاہئے گا ولدیت کا باطل عقیدہ رکھنے والوں کو گرفت میں لے لیگا ، اللہ تعالیٰ نے اصول دین بتلا دیا ہے کہ اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی عبادت کرو آگے توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔
Top