Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 27
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا : اور تحقیق ہم نے بیان کی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِيْ : میں ھٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن مِنْ كُلِّ : ہر قسم کی مَثَلٍ : مثال لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور البتہ تحقیق ہم نے بیان کی ہیں اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔
ربط آیات : شرک کی تردید کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کے انجام اور ان کو ملنے والے انعام واکرام کا ذکر فرمایا ، نیز مختصر طور پر مشرکوں اور کافروں کی سزا کو بیان فرمایا کہ یہ لوگ دنیا میں بھی ذلت ورسوائی کا سامنا کریں گے اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہوگا ، فرمایا یہ لوگ محض غفلت اور بیوقوفی کی بناء پر ایمان اور وحدانیت کا انکار کرتے ہیں وگرنہ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن کریم نازل فرما کر ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں مختلف قسم کی مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں ، اگر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو یہ ان کی اپنی حماقت ہے قرآن نے تو توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کو مثالوں کے ذریعے واضح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مقصد یہ ہے کہ لوگ حقیقت کو پالیں اور غور وفکر کرکے اپنے انجام کو بہتر بنا لیں ۔ (معجز قرآن) اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے قرآن حکیم کی حقانیت اور اس کے اعجاز کا ذکر کیا ہے پھر شرک اور توحید کی بات ایک مثال کے ذریعے سمجھائی ہے اور آخر میں کفار ومشرکین کے ایک طعنہ کا جواب دیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد ضربنا للناس فی ھذا القران من کل مثل “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے لوگوں کے استفادہ کے لیے قرآن پاک میں ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں ضرب کے مختلف معانی آتے ہیں جن میں مارنا ، سفر کرنا اور بیان کرنا شامل ہیں ، تاہم اس مقام پر بیان کرنا ہی موزوں معنی ہے بعض اوقات کوئی مشکل بات عام تقریر کے ذریعے سمجھ میں نہیں آتی اور اگر اس کی کوئی مثال بیان کردی جائے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے ، قرآن پاک پر ایک عمومی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت سی مثالیں بیان کی ہیں جن میں منافقین اور کفار کے طرز عمل کی مثالیں ہیں ، کفار کے انفاق کی مثال ہے شرک کے بودا پن کی مثال ہے نور خداوندی کی مثال بیان کی گئی ہے ، حق و باطل ، دنیوی زندگی ، علمائے یہود ، مومن اور کافر ، کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ وغیرہ کی مثالیں بھی موجود ہیں ، آج کے درس میں بھی ایک مالک اور متعدد مالکون کے غلام کی مثال بیان کی گئی ہے ، ان مثالوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے اعتقاد ایمان اور توحید کو درست کرلیں ، شرک اور کفر کی قباحت جان لیں اور پھر صراط مستقیم پر گامزن ہو کر اپنی عاقبت کو سنوار لیں ، مطلب یہ ہے (آیت) ” لعلھم یتذکرون “۔ کہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرلیں ۔ اگر بیان کردہ مثال ان کی سمجھ میں آگئی تو اپنی حالت کو درست کرکے بچ جائیں گے وگرنہ ابدی جہنم تو ان کے لیے تیار ہے ۔ فرمایا جس قرآن میں ہم نے مثالیں بیان کی ہیں وہ (آیت) ” قرانا عربیا “ عربی زبان میں ہے وجہ یہ ہے کہ جس پیغمبر آخر الزمان پر یہ قرآن نازل ہوا اور جو قوم اسکی اولین مخاطب تھی وہ سب عرب تھی اور عربی زبان بولتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری کلام بھی اسی زبان میں نازل فرمایا ، سورة حم سجدۃ میں ہے (آیت) ” ولوجعلنہ قرانا اعجمیا لقالوا لولا فصلت ایتہ “۔ (آیت : 44) اگر ہم اس قرآن کو عجمی (غیر عربی) زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ اعتراض کرتے کہ اسے ہماری زبان میں کھول کر کیوں نہیں بنایا گیا ، لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کو عربی زبان میں نازل فرمایا ۔ اور پھر اس قرآن کی ایک صفت یہ ہے (آیت) ” غیر ذی عوج “۔ کہ اس میں کوئی کجی یا ٹیڑھا پن نہیں ہے بلکہ بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں ہیں جو ہر فطرت سلیمہ اور عقل سلیم رکھنے والوں کو آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں ، اس قرآن میں نہ کوئی اختلاف ہے نہ خرابی ، نہ تعارض اور نہ کوئی خلاف واقعہ بات ہاں اگر کسی شخص کا اپنا دماغ ہی مختل ہو تو پھر اس کو ہر چیز ٹیڑھی ہی نظر آئے گی وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ہے سورة الکہف کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس کو ٹیڑھا نہیں بنایا بلکہ ” قیما “ یعنی بالکل درست اور صحیح بنایا ہے جس کی ہر بات واقعہ کے مطابق ہے ، اس میں کوئی خرابی نہیں ہے پھر جس ماحول میں یہ قرآن نازل ہوا ہے وہ لوگ اہل زبان تھے اور قرآن کی فصاحت وبلاغت سے بخوبی آگاہ تھے مگر قرآن کا اعجاز محض عبادت کی موزونیت اور اس کی فصاحت وبلاغت کی بناء پر بلکہ یہ کتاب اپنے علوم ومعارف تعلیم نظام قانون اور صحیح صحیح نقشہ کشی کے اعتبار سے بھی معجز ہے ، قرآن نے دنیا بھر کے عربوں اور غیر عربوں کو چیلنج کر رکھا ہے کہ اگر تمہیں اس کی صداقت میں کچھ شک ہے تو اس جیسی ایک سورة ہی بنا کرلے آؤ (آیت) ” فاتوا بسورۃ من مثلہ “۔ (البقرہ : 23) مگر آج تک کوئی بھی اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا فرمایا ہم نے اس قرآن کو ان تمام خوبیوں کے ساتھ اس لیے نازل فرمایا ہے (آیت) ” لعلھم یتقون “۔ تاکہ لوگ برے انجام سے بچ جائیں اپنے عقیدے وعمل کی اصلاح کرلیں اور اپنی فکر کو صحیح بنالیں ۔ (شرک اور توحید کی مثال) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی قباحت کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ضرب اللہ مثلا “۔ اللہ تعالیٰ ایک مثال بیان کرتا ہے (آیت) ” رجلا فیہ شرکآئ “۔ ایک آدمی یعنی غلام ایسا ہے جس کی ملکیت میں کئی مالک شریک ہیں ، (آیت) ” متشاکسون “۔ وہ آپس میں ضد بازی بھی کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ بعض جھگڑا لو قسم کے مالکوں کا ایک مشترک غلام ہے ، (آیت) ” ورجلا سلما لرجل “۔ اور ایک غلام ایسا ہے جو مکمل طور پر ایک ہی شخص کی ملکیت میں ہے (آیت) ” ھل یستوین مثلا “۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں یکساں نہیں ہوسکتے جس غلام کے کئی مالک ہیں اور وہ ہیں بھی ضدی اور جھگڑالو تو ظاہر ہے کہ ہر مالک غلام سے زیادہ سے زیادہ خدمت لینے کی کوشش کرے گا اور اس طرح وہ مختلف مالکوں کی کھینچا تانی کا شکار ہو کر سخت مصیبت میں گرفتار ہوگا ، اور دوسری طرف وہ غلام ہے جو ایک ہی مالک کی خدمت پر مامور ہے اور وہ اسی ایک کی طرف پوری توجہ دے کر اس کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے ، ایسا غلام پہلے غلام سے بہت آرام میں ہوگا اور اسے کوئی پریشانی بھی لاحق نہیں ہوگی ۔ اس مقام پر شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) لکھتے ہیں کہ ایک غلام جو کئی مالکوں کا ہوگا ، اس کو کوئی بھی اپنا نہیں سمجھے گا اور نہ ہی اس کی پوری طرح خبرگیری کرے گا ۔ اس لیے وہ ہمیشہ تکلیف میں رہے گا اور دوسری طرف وہ غلام ہے جو سارے کا سارا ایک ہی مالک کا ہے وہ شخص اس کو اپنا سمجھتا ہے اور اس کی خبر گیری بھی پورے طریقے سے کرتا ہے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یہ یہی مثال ایک موحد اور مشرک کی ہے ایک اللہ تعالیٰ کو پوجنے والوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوگا ، جب کہ کئی معبودوں کے پجاری ہمیشہ پریشان ہی رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعے توحید کی سعادت اور شرک کی قباحت بیان فرما دی ہے اسی وضاحت کے بعد فرمای (آیت) ” الحمد للہ “ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو ہر طرح کی مثالیں بیان کرکے مسئلہ کو سمجھا دیتا ہے (آیت) ” بل اکثرھم لا یعلمون “۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں کی اکثریت بےسمجھ ہے جو اس قدر واضح حقائق کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے ظاہر ہے کہ ایسے لوگ شقی اور بدبخت ہی ہو سکتے ہیں جو اپنے انجام بد کو پہنچ کر رہیں گے وگرنہ اللہ تعالیٰ نے تو بات کو سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ (موت لازم ہے ) جب حضور ﷺ نے شرک کی تردید میں معبودان باطلہ کو طعن وتشنیع کانشانہ بنایا تو مشرکین سخت برہم ہوئے کہنے لگے یہ شخص نیا دین لے آیا ہے جو ہمارے عقیدے خراب کر رہا ہے اس نے ہمارے درمیان اختلافات پیدا کر دے ہیں ، پھر حضور ﷺ کو تبلیغ حق اور بتوں کی قباحت بیان کرنے سے منع کرتے ، مگر جب آپ ان کی باتوں میں نہ آتے اور اپنے مشن کو جاری رکھتے تو وہ لوگ کہتے (آیت) ” ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون “۔ (الطور : 30) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نبی شاعر ہے ، اور ہم اس کے حق میں زمانے کے حوادثات کا انتظار کر رہے ہیں جونہی یہ شخص موت سے ہمکنار ہوگا اس کا سارا دھندا اور تبلیغ خود بخود ختم ہوجائے گی پھر ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے والا کوئی نہ ہوگا ، لہذا اس کو اپنے حال پر چھوڑ دو اور کچھ عرصہ کے لیے اس کی موت کا انتظار کرو ، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” انک میت وانھم میتون “۔ بیشک آپ بھی موت کا پیالہ پینے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں مرنا تو سب کو ہے یہ بدبخت آپ کی موت کا انتظار جب کریں جب ان کو نہ مرنا ہو ، لہذا ان کی یہ بات لایعنی ہے موت عامہ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے (آیت) ” کل نفس ذآئقۃ الموت “۔ (الانبیآئ۔ 35) موت کا مزا تو ہر ذی روح کو چکھنا ہے خواہ ہو کافر ہو اور یا مومن ، مخلص ہو یا منافق نیک ہو یا بد کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا ، دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو یوں وضاحت فرمائی (آیت) ” افائن مت فھم الخلدون “۔ (انبیائ : 34) اگر آپ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے تو کیا یہ ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے ، نہیں بلکہ ان کو بھی مرنا ہے لہذا آپ کی موت کا انتظار ان کے لیے کچھ مفید نہیں ہوسکتا ۔ (قیامت کے دن مخاصمت) فرمایا موت تو ہر ایک پر طاری ہونی ہے ہر انفرادی موت کو قیامت صغری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ایک دن مجموعی موت یعنی قیامت کبری بھی واقع ہوگی (آیت) ” ثم انکم یوم القیمۃ عندربکم تختصمون “۔ پھر اس دن تم اپنے پروردگار کے پاس جھگڑا کرو گے ، اس مخاصمت کی تفصیل میں حدیث میں بہت سی باتیں وارد ہوئی ہیں ۔ مثلا حضور ﷺ کا فرمان ہے ” لتؤدن الحقوقہ الی اھلھا “۔ لوگوں کے حقوق ادا کرو ورنہ یہ حق قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں دلائے جائیں گے ، فرمایا اگر دنیا میں کسی سینگ والی بکری نے بےسینگ بکری کو اذیت پہنچائی ہے تو قیامت والے دن اس مظلوم کا حق بھی دلوایا جائے گا ، اس دن ایک پڑوسی دوسرے کے خلاف اپنے حق کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے گا اور کہے گا کہ پروردگار ! اس شخص نے مجھے ستایا ، گالی گلوچ دی اور میرا حق غصب کیا ، جو مجھے دلایا جائے ، بیوی اور خاوند بھی آپس میں جھگڑیں گے ، بیوی اپنے خاوند کے ظلم و زیادتی کی شکایت کرے گی اور خاوند اپنے حقوق کی عدم ادائیگی کی بات کرے گا ، پھر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا ، حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ قاتل اور مقتول کا تنازعہ بھی رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہوگا ، مقتول اپنے قاتل کو بالوں سے پکڑ کر گھیسٹتا ہوا دربار خداوندی میں لائے گا ، اس کے جسم سے خون ٹپک رہا ہوگا اور وہ مقدمہ پیش کرے گا ، کہ مولا کریم ! اس شخص نے ظلم و زیادتی کے ساتھ مجھے ناحق قتل کیا ، اللہ تعالیٰ اس جھگڑے کا فیصلہ بھی فرمائیں گے ، حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے ” اول ما یقضی بیان الناس فی الدمآء “۔ یعنی قیامت والے دن سب سے پہلے قتل ناحق کے فیصلے ہوں گے ۔ ایک موقعہ پر حضرت زبیر ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ، کیا دنیا میں پیش آنے والے جھگڑے قیامت کو پھر پلٹ کر آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ! ہاں ہرچیز کے متعلق جھگڑے پیش ہوں گے ، حضرت زبیر ؓ نے کہا ” اذا الشدید “۔ پھر تو معاملہ بہت ہی دشوار ہوگا ، آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے عرض کیا کہ مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس مال و دولت اور روپیہ پیسہ نہ ہو ، فرمایا قیامت والے دن مفلس آدمی وہ ہوگا جس کے تمام نیک اعمال ظلم و زیادتی اور ادائیگی حقوق کے سلسلے میں دوسروں کو تقسیم کردیے جائیں گے ، ظالم کی تمام نیکیاں ماسوائے ایمان ظلم کے بدلے میں مظلوم کو دے دی جائیں گی ، اگر پھر بھی بدلہ پورا نہ ہوا وت پھر مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دیے جائیں گے اور یہ شخص اس بوجھ کو لے کر جہنم میں داخل ہوگا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ظالم حاکم کو بھی اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کی جائے گا رعایا شکایت کرے گی کہ اس نے ہمارے ساتھ فلاں فلاں زیادتی کی ، ہمارے حقوق ادا نہیں کیے یا ہمارے مال وجان کی حفاظت کی ذمہ داری پوری نہیں کی یا اس نے ظلم کو نہیں روکا ، اس مقدمہ کے نتیجے میں ظالم حاکم مغلوب ہوجائے گا ، اس سے کوئی جواب بن نہیں پڑے گا اور بالآخر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انسان کی روح اور جسم بھی آپس میں جھگڑیں گے ، روح کہے گی کہ اے فلاں تو نے اس جسم کے ساتھ فلاں فلاں گناہ کئے لہذا سزا کا مستحق تو ہے مگر جسم کہے گا کہ فلاں برائی کا حکم تو تو نے ہی دیا تھا جس پر میں نے عمل کیا ، لہذا سزا کا مستحق تو ہے ، آپ نے ایک مثال کے ذریعے بات سمجھائی کہ ایک اندھا اور اپاہج ایک باغ کے قریب اکٹھے ہوگئے ، وہ پھل چوری کرنا چاہتے تھے مگر اندھے کو نظر نہیں آتا ہے اور لنگڑا لولا چل کر نہیں جاسکتا ، بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اندھا آدمی معذور کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر باغ میں لے جائیگا اور اپاہج مگر بینا پھل توڑے گا تو فرمایا جس طرح یہ اندھا اور اپاہج دونوں مجرم ہیں اسی طرح روح اور جسم دونوں کو مجرم ٹھہرا کر سزا دی جائیگی ، الغرض ! قیامت والے دن ہر شخص اپنا جھگڑا اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کرے گا اور پھر سب کے قطعی فیصلے ہوں گے ۔
Top