Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 5
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ۚ یُكَوِّرُ الَّیْلَ عَلَى النَّهَارِ وَ یُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اَلَا هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ ۚ : حق (درست تدبیر کے) ساتھ يُكَوِّرُ : وہ لپیٹتا ہے الَّيْلَ : رات عَلَي النَّهَارِ : دن پر وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ : اور دن کو لپیٹتا ہے عَلَي الَّيْلِ : رات پر وَسَخَّرَ : اور اس نے مسخر کیا الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ ۭ : اور چاند كُلٌّ يَّجْرِيْ : ہر ایک چلتا ہے لِاَجَلٍ : ایک مدت مُّسَمًّى ۭ : مقررہ اَلَا : یاد رکھو هُوَ الْعَزِيْزُ : وہ غالب الْغَفَّارُ : بخشنے والا
پیدا کیے ہیں اس نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ لپیٹ دیتا ہے رات کو دن پر اور لپیٹ دیتا ہے دن کو رات پر اور اس نے مسخر کیا ہے سورج اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے ایک مقررہ مدت پر سو وہی ہے زبردست اور بخشش کرنے والا ۔
ربط آیات : قرآن حکیم کی صداقت اور وحی الہی کی حقا انیت کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دین کے اصل الاصول (آیت) ” فاعبد اللہ مخلصالہ الدین “ کی حقیقت کو آشکارا فرمایا کہ عبادت خالص اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہئے جو ہر قسم کے شرک اور ریا سے پاک ہو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں اور انہیں جزائے عمل کی منزل میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ، اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے مبرا اور منزہ ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ولدیت کے عقیدہ کی نفی کی اور فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اولاد بنانا چاہتا تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے ہی کسی کو منتخب کرتا ، اور اولاد کے ہم جنس ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہوسکتا ، تو اس طرح گویا اللہ تعالیٰ اپنی ہی مخلوق کا ہم جنس ٹھہرتا اور یہی اس کے لیے عیب والی بات ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب ، نقص اور کمزوری سے پاک ہے تو معلوم ہوا کہ ولدیت کا عقیدہ بھی من گھڑت اور باطل ہے ۔ (دلائل توحید (1) نظام کائنات) عقیدہ توحید بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اس کے کچھ عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے (آیت) ” خلق السموت والارض بالحق “۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے ، یعنی کائنات کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت اور مصلحت کے تحت واقع ہوئی ہے اس سے ان لوگوں کی تردید ہوجاتی ہے جو پورے نظام کائنات کو عبث خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی ان کا خالق نہیں ، بس یہ چیزیں شروع سے اسی طرح چلی آرہی ہیں اور اسی طرح چلتی رہی گی ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے ، اس کی ابتدا بھی ہے اور اس کی انتہاء بھی لازما ہوگی ، سورة آل عمران کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان نیک بندوں کا تذکرہ فرمایا جو راض وسما کی تخلیق میں غور وفکر کرتے ہیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں (آیت) ” ربنا ماخلقت ھذا باطلا “۔ (آیت : 191) پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بیکار محض پیدا نہیں کیا ، بلکہ بنی نوع انسان کی مصلحت کے لیے اپنی خاص حکمت کے تحت ان کی تخلیق فرمائی ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے (آیت) ” یکور الیل علی النھار ویکور النھار علی الیل “۔ جو رات کو دن پر لپٹیتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ، اس نے شب وروز کا یہ نظام اپنی حکمت بالغہ کے ساتھ قائم کردیا ہے جن کی آمد ورفت میں ذرا فرق نہیں پڑتا بلکہ ہر رات اور ہر دن اپنے اپنے مقررہ وقت پر یکے بعد دیگر آتے ہیں شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن اور رات ایک پر دوسرا چلا آرہا ہے اور تھوڑا یعنی کمی بیشی نہیں ہوتی بلکہ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے دن چلا گیا تو رات آگئی اور رات گئی تو دن نمودار ہوگیا ، اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النھار “۔ (یس۔۔۔ ) نہ تو سورج چاند کو پکڑ سکتا ہے اور نہ ہی رات دن سے پہلے آسکتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک نہایت ہی متوازن نظام قائم کردیا ہے جس کے ذریعے انسان اور دیگر جاندار اپنی ضروریات زندگی حاصل کرتے رہتے ہیں دن کے وقت انسان کام کاج کرکے اپنے لیے روزی کا سامان کرتے ہیں علم حاصل کرتے ہیں ، عبادت کرتے ہیں اور نیکی کے دوسرے اشغال انجام دیتے ہیں پھر جب وہ کام کاج سے تھک جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ رات کو لے آتا ہے جس میں وہ آرام کرکے اپنی قوی کو بحال کرتے ہیں اور اگلے دن کے اشغال کے لیے پھر تازہ دم ہوجاتے ہیں ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے (آیت) ” وسخر الشمس والقمر “۔ جس نے سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہے (آیت) ” کل تجری لاجل مسمی “۔ ان میں سے ہر ایک مقررہ وقت تک چل رہا ہے اللہ تعالیٰ نے شمس وقمر کی تخلیق اور ان کی مسلسل روانی میں بھی انسانوں کی مصلحت کے کیسے کیسے سامان پیدا کیے ہیں ، شمس وقمر کی ایک تو یومیہ حرکت ہے جس سے شب وروز پیدا ہوتے ہیں دونوں اپنی اپنی منازل میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر دن اور رات ان کی منزل مختلف ہوتی ہے ، اس اختلاف کی وجہ سے سال بھر کے موسموں کا تغیر وتبدل واقع ہوتا ہے جن کے دوران مختلف پھل اور مختلف اجناس پیدا ہوتی ہیں جو انسانوں اور جانوروں کی خوراک بنتی ہیں یہ نظام کائنات اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت تک جاری رہیگا اور پھر جب وہ چاہے گا اس پورے نظام شمس وقمر کو درہم برہم کرکے قیامت برپا کر دے گا اور پھر دوسرا نظام قائم کرے گا ، اسی لیے فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک مقررہ وقت تک چل رہا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” الا ھوالعزیز الغفار “۔ آگاہ رہو کہ جس خدا تعالیٰ نے یہ نظام کائنات قائم کر رکھا ہے ، وہ کمال قوت کا مالک ہے اور بہت بخشش کرنے والا ہے ، یہ اس کی قوت کا ایک ادنی مظاہرہ ہے کہ اس نے چاند سورج ، زمین ، اور دیگر لاکھوں گنا بڑے سیارے قائم کر رکھے ہیں جو سب کے سب ایک مربوط نظام کے تحت اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ، پھر اس کی شان غفاری بھی ہے کہ وہ مجرموں کو فورا گرفت میں نہیں لیتا بلکہ مہلت بھی دیتا ہے ، پھر جب کوئی سچے دل سے تائب ہو کر اس کی طرف رجوع کرلیتا ہے ، برائیوں کو چھوڑ کر نیکی کی طرف راغب ہوجاتا ہے اور ایمان کو قبول کرلیتا ہے ، تو اس کی عفو ومغفرت بھی جوش میں جوش میں آجاتی ہے اور وہ بندوں کے گناہوں کو معاف کرکے انہیں اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے ۔ (2) (تخلیق نسل انسانی) نظام کائنات کو بطور دلیل توحید پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی تخلیق کو بھی اپنی وحدانیت اور قدرت کاملہ کی دلیل بنایا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” خلقکم من نفس واحدۃ “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ، (آیت) ” ثم جعل منھا زوجھا “۔ پھر اسی میں سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہے ، اس سے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ کی تخلیق مراد ہے ، اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نسل انسانی کے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے تخلیق کیا ، اور پھر آپ ہی کی پسلی سے آپ کی زوجہ حوا ؓ کو بھی نکالا ۔ پسلی چونکہ ٹیڑھی ہوتی ہے اس لیے ہر عورت میں فطرتا کجی پائی جاتی ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ عورت سے اسی حالت میں کام لیتے رہو اور اس کی کجی کو درست کر نیکی کوشش نہ کرو ، کہیں یہ ٹوٹ یہ نہ جائے ، بہرحال نفس واحد سے تخلیق کا مضمون اللہ تعالیٰ نے سورة النساء کے آغاز میں بھی بیان فرمایا ہے اے لوگو ! اللہ سے ڈر جاؤ جس نے (آیت) ” خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونسآء “۔ (آیت : 10) تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ، پھر اسی میں سے اس کا جوڑا تخلیق کیا ، اور پھر ان دونوں میں سے کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا ، چناچہ آج دنیا کی پانچ ارب کی آبادی صرف ایک جان سے ہی پھیلی ہے ، (آیت) ” کی قدرت کاملہ کی یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے ۔ (3) مویشیوں کے آٹھ جوڑے) اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” انزل لکم من الانعام ثمنیۃ ازواج “۔ اور تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ جوڑے اتارے ، ان جانوروں کی تفصیل سورة الانعام میں موجود ہے کہ ان سے مراد اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری نر اور مادہ مراد ہیں ، یہ حلال جانور ہیں اور انہی کی قربانی بھی کی جاتی ہے ، یہ جانور خاص طور پر انسان کے خادم ہیں اور لوگ ان سے کئی طرح سے مستفید ہوتے ہیں ، اونٹ بار برادری اور سواری کے کام آتا ہے گائے بیل ہل جوتنے میں بڑے مفید ہیں اور ان کے ذریعے کنوئیں سے پانی بھی کھینچا جاتا ہے بھیڑ اور بکریاں خاص طور پر اون پیدا کرتی ہیں جو لباس اور دیگر ضرورت زندگی میں کام آتی ہے ، اس کے علاوہ ان جانوروں کا گوشت اور دودھ بکثرت استعمال ہوتا ہے اور ان کی کھال اور ہڈیاں بھی انسانی ضروریات میں کام آتی ہیں یہ پالتو جانور ہیں اور انسان مزاج کے بہت قریب ہیں لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کرکے انسانی خدمت پر مامور کردیا ہے ۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ ان جانوروں کے لیے تخلیق کی بجائے نزول کا لفظ استعمال کیا ہے حالانکہ یہ جانور کہیں اوپر سے تو نہیں نازل ہوتے بلکہ زمین پر ہی پیدا ہوتے ہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کا یہ بھی ایک اسلوب بیان ہے اور یہ ان جانوروں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے لوہے کے متعلق بھی فرمایا ہے (آیت) ” وانزلنا الحدید فیہ باس شدید ومنافع للناس “۔ (الحدید ، 25) اور ہم نے لوہا اتارا جس میں شدید خطرہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے فوائد بھی ، اسی طرح لباس کے لیے بھی نزول کا لفظ استعمال ہوا ہے (آیت) ” یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یوادی سواتکم وریشا “۔ (اعراف ، 26) اے بنی آدم ! ہم نے تم پر لباس اتارا جو کہ تمہاری ستر پوشی اور زینت کے کام آتا ہے ، ان تمام مقامات پر نزول کا معنی کہیں اوپر سے اتارنا نہیں بلکہ پیدا کرنا ہی ہے ۔ بعض مفسرین نے لفظ نزول کی بعض توجیہات بھی کی ہیں ، وہ فرماتے ہیں ، کہ جانوروں کی زندگی کا مدار پانی اور چارے پر ہے اور پانی کو اللہ تعالیٰ بارش کی صورت میں اوپر کی طرف سے نازل کرتا ہے جس سے سبزہ پیدا ہونا ہے اور جانوروں کی خوراک بنتا ہے ، لہذا ان جانوروں کو مجازی طور پر نازل کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ کو جنت سے اتارا گیا تھا ، اسی طرح بعض دیگر اشیاء مثلا حجرا اسود اور خوشبو کو بھی جنت سے اتارنے کا ذکر ملتا ہے ، اسی طرح ان مویشیوں کو بھی جنت سے ہی اتارا گیا اس لیے ان کے لیے ” انزل “ کا لفظ استعمال ہوا ہے بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” انزل “ کا مادہ ” نزل “ نہیں بلکہ ” نزل “ ہے جس کا معنی مہمان نوازی ہوتا ہے یہ آٹھ قسم کے جانور بھی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی خدمت اور مہمان نوازی کے لیے پیدا کیے ہیں لہذا ان کے لیے ” انزل “ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ (4) (شکم مادر میں پرورش) اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا چوتھا نمونہ اس طرح ذکر فرمایا ہے (آیت) ” یخلقکم فی بطون امھتکم خلقا من بعد خلق “۔ وہی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے ایک درجے کے بعد دوسرے درجے پر یعنی شکم مادر میں تمہاری نشونما بتدریج مرحلہ اور عمل میں آتی ہے ، اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے کئی مقامات پر کیا ہے مثلا سورة المؤمنون میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا پھر اس کو ایک مضبوط جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا ، پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا ، پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا ، پھر اس کو نئی صورت میں تیار کردیا (آیت) ” فتبرک اللہ احسن الخالقین “۔ (آیت : 14) بڑا بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے غرضیکہ فرمایا ہم نے ماں کے پیٹ میں تمہاری مرحلہ وار نشونما کی اور وہ بھی (آیت) ” فی ظلمت ثلث “۔ تین اندھیروں کے اندر دیکھ لیں ، جہاں بچہ پرورش پاتا ہے وہاں ایک تو ماں کے پیٹ کا اندھیرا ہوتا ہے پھر رحم مادر کا اندھیرا اور تیسرا اندھیرا اس جھلی کا ہوتا ہے جس کے اندر بچہ نشونما پاتا ہے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو تمہیں تین اندھیروں میں حد کمال تک پہنچاتا ہے حالانکہ دنیا کی کوئی بھی مشینری اندھیرے میں کام نہیں کرسکتی بلکہ ذرا بھی برقی رو میں خرابی واقع ہوجائے تو سارا کام بند ہوجاتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی لگائی ہوئی فیکٹری ہے جس میں روشنی کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ تہہ در تہہ اندھیروں میں انسان کو (آیت) ” فی احسن تقویم “۔ (التین ۔ 4) بہترین شکل و صورت میں پیدا فرماتا ہے ، اور یہ بھی اس کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ (دعوت غور وفکر) فرمایا (آیت) ” ذلکم اللہ ربکم “ یہ ہے تمہارا پروردگار جس کی صفات بیان ہوئی ہیں اور جس نے تمہاری مصلحت کے لیے کائنات کا نظام قائم کر رکھا ہے (آیت) ” لہ الملک “ اسی کی بادشاہی ہے اور اس کی سلطنت میں اس کا کوئی شریک نہیں (آیت) ” لا الہ الا ھو “۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، عبادت کے لائق تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو خالق ، مالک ، ہو اور واجب الوجود ہو جب یہ صفات ان کے سو کسی ذات میں نہیں پائی جائیں تو پھر معبود برحق بھی اس کے سوا کوئی نہیں فرمایا حقیقت تو یہ ہے (آیت) ” فانی تصرفون “۔ مگر تم کدھر پھیرے جا رہے ہو تم اس کو چھوڑ کر کس کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھے ہو کس کی نذر ونیاز دیتے ہو اور کس کے سامنے سربسجود ہوتے ہو معبود برحق تو وہ ہے ۔ (کفر اور شکر کا تقابل) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ ایمان اور کفر کی حقیقت بھی سمجھا دی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان تکفروا “۔ اگر کفر کرو گے (آیت) ” فان اللہ غنی عنکم “۔ تو بیشک اللہ تعالیٰ تم سے بےپرواہ ہے انسان لاکھ بار بھی کفر کرے ، اللہ تعالیٰ کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے ؟ اور نہ اس کے ایمان لانے سے خدا تعالیٰ کی شان میں کوئی اضافہ ہوجاتا ہے اس کو کوئی مانے یا نہ مانے اس کی شان ربوبیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، بلکہ کفر کرنے کا نقصان خود کفر کرنے والے کی ذات پر پڑتا ہے اور وہ کمال مطلب تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کو نجات حاصل ہو سکتی ہے اور اگر کوئی شخص ایمان اور توحید پر کاربند ہوتا ہے تو اس کا فائدہ خود اسی کی ذات کو پہنچے گا وہ راحت کے مقام خطیرۃ القدس تک پہنچ جائے گا اسے ترقی نصیب ہوگی تجلی اعظم سے تعلق قائم ہوجائے گا اور بالآخر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مقام میں پہنچ جائے گا اور اگر کفر کا راستہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ تو بےپرواہ ہے ، البتہ (آیت) ” ولا ۔۔۔۔۔۔ لعبادہ الکفر “۔ وہ اپنے سے کفر بات کو پسند نہیں کرتا اگرچہ وہ ایسا کرنے کی توفیق دے دیتا ہے اور کسی کو زبردستی روکتا نہیں ، اس نے نیکی اور بدی ، ایمان اور کفر دونوں راستے واضح کردے ہیں اور انسانوں کو اختیار دے دیا ہے ۔ (آیت) ” فمن شآء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر “۔ (الکہف ، 29) جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے مگر ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ جو کفر کا راستہ پکڑے گا ، اس کے لیے آگے جہنم بھی تیار ہے ۔ فرمایا ، کفر کے بالمقابل (آیت) ” وان تشکروا “ اگر تم شکر ادا کرو گے ۔۔۔۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہوجائے گا ، اس مقام پر کفر کے مقابلے میں ایمان کی بجائے شکر لایا گیا ہے ، امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں پر کفر سے عام کفر یعنی اللہ کی ذات ، صفات ، توحید ، رسل ، کتب سماویہ ، ملائکہ اور معاد کا انکار ہی مراد ہے اور شکر سے ایک خاص چیز مراد ہے ، آپ شکر کی تعریف میں لکھتے ہیں ” حلۃ مرکبۃ من قول و اعتقاد وعمل “۔ یعنی شکر قول اعتقاد اور عمل کا مرکب ہے ، قول یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا زبان سے اقرار کرے ، اعتقاد یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کا دل میں یقین ہو اللہ تعالیٰ کے رسولوں ، وحی الہی ، اس کی کتابوں اور قیامت پر ایمان ہو اور عمل یہ ہے کہ انسان اپنے اعضاء وجوارح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لائے تو فرمایا جس شخص میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں گی وہ گویا صحیح معنوں میں شکر کرنے والا ہوگا چناچہ یہاں پر شکر کے لفظ میں ایمان بھی موجود ہے ، اس لیے اس کو کفر کے مقابلہ میں لایا گیا ہے کہ شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوگا ۔ (بوجھ اپنا اپنا) پھر فرمایا یاد کرو (آیت) ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری “۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھانے کا ، بلکہ ہر ایک کو اپنے عقیدے اور عمل کا خود بھگتان کرنا ہوگا ، وہاں نہ کوئی رشتہ دار کام آئے گا اور نہ ہی کوئی ترجمان یا وکیل کھڑا ہو سکے گا جو کسی کی طرف سے جوابدہی کرسکے ، بلکہ (آیت) ” کل نفس تجادل عن نفسہا “۔ (النحل : 111) ہر شخص کو خود اپنا جھگڑا پیش کرنا ہوگا ، گویا ہر شخص کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوگا ۔ فرمایا (آیت) ” ثم الی ربکم مرجعکم “۔ پھر تم سب کا تمہارے پروردگار کی طرف ہی لوٹنا ہوگا سب کو اس کی عدالت میں لازما ذاتی طور پر پیش ہونا ہوگا ، (آیت) ” فینبئکم بما کنتم تعملون “۔ پھر وہ تمہیں بتلا دے گا جو کچھ کام تم دنیا میں کرتے تھے اس نے تمہارا ایک ایک قول ، فعل اور عمل محفوظ کرکے رکھا ہوا ہے اور قیامت والے دن تمہارے سامنے پیش کر دے گا ، وہ علیم کل ہے کہ اسے تمہارے ہر عمل کا علم ہے اور مختار کل ہے کہ وہ انہیں حاضر کرنے پر بھی قادر ہے ، اور پھر اس کا علم اس قدر وسیع ہے (آیت) ” انہ علیم بذات الصدور “۔ کہ وہ سینوں کے مخفی رازوں کو بھی جانتا ہے وہ ایسے بھیدوں سے بھی واقف ہے جن کو دنیا میں تمہارے سوا کوئی نہیں جانتا تھا وہ تمام رازوں کو افشا کر دے گا اور پھر ہر عمل کا حساب کتاب ہوگا اور جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے ۔
Top