Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 8
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیْلًا١ۖۗ اِنَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ
وَاِذَا
: اور جب
مَسَّ
: لگے پہنچے
الْاِنْسَانَ
: انسان
ضُرٌّ
: کوئی سختی
دَعَا رَبَّهٗ
: وہ پکارتا ہے اپنا رب
مُنِيْبًا
: رجوع کر کے
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
ثُمَّ اِذَا
: پھر جب
خَوَّلَهٗ
: وہ اسے دے
نِعْمَةً
: نعمت
مِّنْهُ
: اپنی طرف سے
نَسِيَ
: وہ بھول جاتا ہے
مَا
: جو
كَانَ يَدْعُوْٓا
: وہ پکارتا تھا
اِلَيْهِ
: اس کی طرف ۔ لیے
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
وَجَعَلَ
: اور وہ بنا لیتا ہے
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
اَنْدَادًا
: (جمع) شریک
لِّيُضِلَّ
: تاکہ گمراہ کرے
عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭ
: اس کے راستے سے
قُلْ
: فرمادیں
تَمَتَّعْ
: فائدہ اٹھا لے
بِكُفْرِكَ
: اپنے کفر سے
قَلِيْلًا ڰ
: تھوڑا
اِنَّكَ
: بیشک تو
مِنْ
: سے
اَصْحٰبِ النَّارِ
: آگ (دوزخ) والے
اور جب پہنچتی ہے انسان کو کوئی تکلیف تو پکارتا ہے اور اپنے پروردگار کو اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوتا ہے پھر جب وہ اس کو بخشتا ہے نعمت اپنی طرف سے تو وہ بھول جاتا ہے اس کو جس کی طرف پکارتا تھا اس سے پہلے ، اور ٹھہراتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے شریک تاکہ گمراہ کرے اللہ تعالیٰ کے راستے سے آپ کہہ دیجئے (اے پیغمبر ﷺ فائدہ اٹھا لے تو اپنے کفر کے ساتھ تھوڑے دنوں تک بیشک تو دوزخ والوں میں سے ۔
ربط آیات : سورة کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس حال میں کہ صرف اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرنے والے ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی طرح بھی شریک نہ بناؤ نہ اس کی ذات میں ، نہ صفات میں اور نہ ہی ولدیت کا عقیدہ رکھو ، اللہ تعالیٰ واحد اور قہار ہے اور ساری کائنات اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کے تصرف میں ہے ، پھر فرمایا انسانوں کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جان سے کی ہے اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور تمہارے فائدے کے لیے مویشیوں کے آٹھ جوڑے بنائے ، تمہاری پیدائش بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب طریقے سے کی ماؤں کے پیٹوں کے اندھیروں میں تمہارا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا پروردگار اور مستحق عبادت ہے پھر فرمایا کہ اگر تم اس کی وحدانیت کا انکار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تو بےپرواہ ہے تمہارے کفر کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، نہ اس کو کچھ نقصان پہنچ سکے گا مگر وہ اپنے بندوں سے کفر کی بات کو پسند نہیں کرتا ، اور اگر تم اس کا شکر ادا کرو گے تو وہ تم سے راضی ہوگا ، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے حتی کہ وہ سینوں کے رازوں سے بھی واقف ہے تمہیں تمہارے اعمال کے مطابق ہی بدلہ ملے گا ۔ (انسانی فطرت کے دو رخ) اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ناشکر گزاری کا حال اس طرح بیان فرمایا (آیت) ” واذا مس الانسان ضر “ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ” دعا ربہ منیبا الیہ “ تو پکارتا ہے اپنے پروردگار کو اس کی طرف رجوع رکھتے ہوئے اس انسان کی حالت عجیب ہے مصیبت کے وقت یہی سمجھتا ہے کہ اس کو دور کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں لہذا اسی کے سامنے گڑگڑاتا ہے (آیت) ” ثم اذا خولہ نعمۃ منہ “۔ پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے نعمت بخشتا ہے یعنی جب تکلیف دور ہوجاتی ہے کوئی بیماری تھی تو شفا مل گئی ، تنگدستی تھی تو خوشحالی آگئی ، بےاولاد تھا تو اولاد مل گئی ، غرضیکہ جب کوئی نعمت حاصل ہوجاتی ہے ” نسی ما کان یدعوا الیہ من قبل “۔ تو پھر وہ اپنی اس پہلی حالت کو بالکل ہی بھول جاتا ہے جس کی طرف وہ پکارتا تھا ، گویا کہ اس کو کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہی نہیں تھی چاہئے تو یہ تھا کہ جب اس کی تکلیف دور ہوچکی تو اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کرتا جس کو وہ تکلیف کے وقت پکارتا تھا اور جس نے اس مصیبت کو رفع کردیا ، مگر انسان اس قدر ناشکر گزار ہے کہ اپنی اس سابقہ تکلیف کو ہی بھول جاتا ہے اور لہو ولعب میں مبتلا ہو کر ناشکر گزاری کا مظاہرہ کرتا ہے فرمایا ایک تو وہ تکلیف کے رفع ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا اور دوسرا ظلم یہ کرتا ہے (آیت) ” وجعل للہ ان دادا “ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے شریک ٹھرانے لگتا ہے مصیبت تو اللہ تعالیٰ نے دور کی تھی مگر وہ نذر ونیاز دوسروں کی دینے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی تکلیف فلاں بزرگ کی وجہ سے دور ہوئی ہے یا یہ فلاں ستارے یا سیارے کے اثرات کا نتیجہ ہے اور پھر اس غلط عقیدہ کا پراپیگنڈا بھی کرتا ہے ” لیضل عن سبیلہ “ تاکہ دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے گمراہ کردے ، پھر یہ شخص اپنے قول ، فعل اور عمل سے دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو بالکل فراموش کردیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ ان لوگوں کو واضح طور پر کہہ دیں ” تمتع بکفرک قلیلا “۔ اپنے اس کفر کے ساتھ تھوڑا عرصہ تک فائدہ اٹھا لو ، اپنے اس باطل عقیدے کے سایہ میں اس دنیا کی زندگی میں عیش و آرام کرلو ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت ہے لیکن بالآخر (آیت) ” انک من اصحب النار “۔ بیشک تم دوزخ والوں میں سے ہو تمہارے اس شرک اور ناشکری کا بدلہ تمہیں دوزخ کی صورت میں ملے گا جہاں سے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہوگی ، اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورة العنکبوت میں اس طرح بیان فرمایا (آیت) ” فاذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین ، فلما نجھم لی البر اذا ھم یشرکون “۔ (آیت 65) جب مشرک لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور وہ کشتی گرداب میں پھنس جاتی ہے تو اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے خالصتا اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اسی کے سامنے گڑگڑاتے ہیں مگر جب اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو پھر اس کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں اور اس نجات کو دوسروں کے ساتھ منسوب کرنا شروع کردیتے ہیں فرمایا یہ کتنے ناشکر گزار لوگ ہیں جو تنگی کے وقت تو اسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں ، مگر خوشحالی کے وقت اس کو فراموش کردیتے ہیں اور اس آسودگی کا سہرا دوسروں کے سر پر باندھ دیتے ہیں ۔ (نیک وبد کا تقابل) آگے اللہ تعالیٰ نے نیک وبد میں تقابل کے طور پر فرمایا ہے (آیت) ” امن ھو قانت “ بھلا وہ شخص جو کہ اطاعت کرنے والا ہے (آیت) ” اناء الیل ساجدا وقائما “۔ رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے (آیت) ” یحذر الاخرۃ “۔ اور وہ آخرت سے ڈرتا بھی ہے (آیت) ” ویرجوا رحمۃ ربہ “۔ اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے ، فرمایا کہ کیا ایسا خدا پرست انسان نافرمانوں اور ناشکر گزاروں کے برابر ہو سکتا ہے ؟ یقینا ایسا نہیں ہو سکتا ۔ اس مقام پر لفظ قانت استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہم نے اطاعت کرنے والا کیا ہے قنوت کا لفظ نماز کی ایک خاص حالت کے متعلق بھی آیا ہے (آیت) ” وقوموا للہ قانتین “۔ (البقرہ : 238) یعنی نماز کے لیے ایسی حالت میں کھڑے ہو کر خدا کے سامنے عاجزی کرنے والے ہو نگاہ کو بالکل نیچے رکھو اور دائیں بائیں التفات نہ کرو ، نہ کپڑوں کے ساتھ کھیلو اور نہ کسی اور شغل میں مشغول ہو ، اس کے علاوہ قنوت کا معنی لمبی قرات کرنا بھی ہوتا ہے حدیث میں آتا ہے ” افضل الصلوۃ طول القنوت “ افضل نماز وہ ہے جس میں لمبی قرات کی جائے ، البتہ فقہائے کرام میں اس بات میں اختلاف ہے کہ لمبی قرات زیادہ افضل ہے یا زیادہ سجدے کرنا افضل ہے بعض فرماتے ہیں کہ سجدہ بڑی بلند عبادت ہے جس سے قرب الہی حاصل ہوتا ہے ، لہذا زیادہ سجدے کرنے میں فضیلت ہے لیکن امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں قرات زیادہ کرنے میں زیادہ فائدہ ہے ۔ بہرحال قنوت کا معنی اطاعت ہوتا ہے اور نماز میں قنوت کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پورے سکون کے ساتھ سجدے کی جگہ پر نگاہ رکھتے ہوئے نہایت عجز و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو تو فرمایا جو شخص سکون کے ساتھ قیام و سجود کرتا ہے آخرت سے ڈرتا ہے اور خدا کی رحمت کا امیدوار ہے وہ نافرمانوں کے برابر ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ پھر فرمایا ’ قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ کہہ دیں (آیت) ” ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون “ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یعنی عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ؟ بالکل نہیں ، ایماندار اور فاجر برابر نہیں ہو سکتے اگر ایسا ہو تو پھر تو اندھیرنگری بن جائے ، نیکی اور بدی کا معیار ہی باقی نہ رہے ، علم وجہالت خلط ملط ہوجائیں ، فرمایا یہ دونوں گروہ مساوی نہیں ہوسکتے علم کا حاصل کرنا تو فرائض میں داخل ہے علم کے بغیر انسان نہ خدا کی ذات کو پہچان سکتا ہے نہ اس کی صفات کو ، نہ توحید کو ، نہ آخرت کے معاملات اور نہ ہی حقوق کی ادائیگی میں تمیز کرسکتا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ اہل علم اور بےعلم کبھی برابر نہیں ہو سکتے ، فرمایا (آیت) ” انما یتذکر اولوالالباب “۔ ایسی مثالوں سے تو صاحب عقل و دانش ہی نصیحت حاصل کرسکتے ہیں ۔ (تقوی کی منزل) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کی زبان سے خوف خدا کی تلقین فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قل یعباد الذین امنوا اتقوا ربکم “۔ اے پیغمبر ! آپ میرے ان بندوں کو کہہ دیں جو ایمان لے آئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہیں کہ کہیں ان کی کوئی نافرمانی نہ ہوجائے کہیں کفر ، شرک اور نفاق میں ملوث نہ ہوجائیں ، ایسا نہ ہو کہ ہم میں شقاوت پیدا ہوجائے ، اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجائیں ، اسی لیے فرمایا کہ میرے بندو ! اپنے قول وفعل عمل اور اخلاق میں نہایت محتاط رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) تقوی کا معنی (1) (الطاف القدس مترجم ص 93) محافظت است برحدود شرع کرتے ہیں ، یعنی شریعت کی حدود کو قائم رکھنے کا نام تقوی ہے سب سے پہلے اپنے اعتقاد اور ایمان کی حفاظت کرو اس میں کفر ، شرک اور بدعقیدگی کو داخل نہ ہونے دو ، اپنے ایمان کو بری نیت ، حسد ، بغض اور گندے اخلاق سے پاک رکھو ، فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” للذین احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنۃ “۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی کو اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہے انہیں ان کی نیکی کا بدلہ ضرور ملے گا البتہ شرط یہ ہے کہ اس نیکی کی تہ میں ایمان موجود ہو ، اللہ تعالیٰ نے یہ ایک واضح اصول بتلا دیا ہے (آیت) ” فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ “۔ (الانباء : 14) جس شخص نے کوئی نیکی کا کام کیا بشرطیکہ وہ ایماندار ہو تو اس کی محنت کی ناقدری نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی نیکی کا بدلہ ضرور دیا جائے گا ، یہاں بھی فرمایا کہ اس دنیا میں نیکی کے کام کرنے والوں کو آخرت میں لازما اچھا بدلہ ملے گا ۔ (ہجرت کا حکم) اب آیت کے اگلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حالات کے مطابق ہجرت کر جانے کی ترغیب دی ہے ، اس حکم کے نزول کے وقت تک نبوۃ کے پانچ یا چھ سال گزر چکے تھے اہل ایمان کفار کی ایذارسانیوں کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے دو گروہ حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وارض اللہ واسعۃ “ اللہ تعالیٰ کی زمین بڑی وسیع ہے لہذا اگر حالات بالکل نامساعد ہوجائیں تو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت ہے مطلب یہ کہ جب کسی مقام پر کفار کا غلبہ ہو اور خدا کے دین کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے تو پھر ایمان اور دین کی حفاظت کے لیے اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا چاہئے ” شان الہجرۃ لشدید “ ہجرت میں تکلیف بھی بڑی اٹھانا پڑتی ہے وطن ، عزیز و اقارب ، زمین ومکان اور کاروبار ہرچیز کو چھوڑنا پڑتا ہے لہذا یہ مشکل کام ہے پھر دوران ہجرت مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں ، دشمن کا خطرہ ہوتا ہے مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر رہائش اور کاروباری مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات آب وہوا بھی موافق نہیں آتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہجرت کا درجہ بھی بہت بڑا رکھا ہے اہل ایمان مہاجرین اور مجاہدین کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” اعظم درجۃ عند اللہ “۔ (التوبہ : 20) اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا بہت بڑا مرتبہ ہے اور یہ کامیاب لوگ ہیں اسی لیے حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے لیے ہجرت کی دعا بھی فرمائی ہے ” اللھم امض لاصحابی ھجرتھم ولا تردھم علی اعقابھم “۔ اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو نافذ فرما اور انکو واپس نہ پلٹنا کیونکہ ہجرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہجرت دین اور ایمان کی حفاظت کی خاطر کی جاتی ہے تاہم بعض اوقات ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے ، مثلا اگر کسی جگہ انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا یا اسے رزق حلال نصیب نہیں ہوتا تو اس پر ہجرت فرض ہوجاتی ہے جب مکہ فتح ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اب مکہ دارالاسلام بن گیا ہے لہذا یہاں سے ہجرت کا حکم ختم ہوگیا ہے ہاں اگر بعد میں کسی جگہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو ہجرت کا حکم نافذ العمل سمجھا جائے گا ۔ (صبر کا بےحساب اجر) فرمایا جنہوں نے دین اور ایمان کی خاطر ہجرت کی اور مشکلات کو عبور کیا اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا (آیت) ” انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب “۔ تو ایسے صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلاحساب پورا بدلہ دے گا ، اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کے کام کے لیے اجر کی تحدید فرمائی ہے لیکن صبر کے متعلق فرمایا کہ اس کا اجر بےحساب ہوگا جس کی کوئی حد مقرر نہیں ، توحید ، ذکر الہی ، شکر نماز ، شعائر اللہ کی تعظیم وغیرہ کی طرح صبر بھی ملت ابراہیمی کا ایک بہت بڑا اصول ہے ۔ امام غزالی (رح) صبر کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کے مختلف مقامات ہیں کبھی جسمانی تکلیف پر صبر کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے برداشت کرنے کی توفیق طلب کی جاتی ہے کبھی اجتماعی مصائب پر صبر کی ضرورت ہوتی ہے اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی صبر کے بغیر نہیں ہو سکتی ، وضو ، نماز روزہ ، حج جہاد وغیرہ کی انجام دہی میں صبر و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے ، معاصی سے بچاؤ کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے غرضیکہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر صبر کا اظہار بےانتہاء اجر کا باعث ہوگا ۔
Top