Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 102
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ١۫ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْ١۪ وَ لْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ١ۚ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
وَاِذَا : اور جب كُنْتَ : آپ ہوں فِيْهِمْ : ان میں فَاَقَمْتَ : پھر قائم کریں لَھُمُ : ان کے لیے الصَّلٰوةَ : نماز فَلْتَقُمْ : تو چاہیے کہ کھڑی ہو طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْھُمْ : ان میں سے مَّعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْٓا : اور چاہیے کہ وہ لے لیں اَسْلِحَتَھُمْ : اپنے ہتھیار فَاِذَا : پھر جب سَجَدُوْا : وہ سجدہ کرلیں فَلْيَكُوْنُوْا : تو ہوجائیں گے مِنْ وَّرَآئِكُمْ : تمہارے پیچھے وَلْتَاْتِ : اور چاہیے کہ آئے طَآئِفَةٌ : جماعت اُخْرٰى : دوسری لَمْ يُصَلُّوْا : نماز نہیں پڑھی فَلْيُصَلُّوْا : پس وہ نماز پڑھیں مَعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْا : اور چاہیے کہ لیں حِذْرَھُمْ : اپنا بچاؤ وَاَسْلِحَتَھُمْ : اور اپنا اسلحہ وَدَّ : چاہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ تَغْفُلُوْنَ : کہں تم غافل ہو عَنْ : سے اَسْلِحَتِكُمْ : اپنے ہتھیار (جمع) وَ : اور اَمْتِعَتِكُمْ : اپنے سامان فَيَمِيْلُوْنَ : تو وہ جھک پڑیں (حملہ کریں) عَلَيْكُمْ : تم پر مَّيْلَةً : جھکنا وَّاحِدَةً : ایک بار (یکبارگی) وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر كَانَ : ہو بِكُمْ : تمہیں اَذًى : تکلیف مِّنْ مَّطَرٍ : بارش سے اَوْ كُنْتُمْ : یا تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَنْ تَضَعُوْٓا : کہ اتار رکھو اَسْلِحَتَكُمْ : اپنا اسلحہ وَخُذُوْا : اور لے لو حِذْرَكُمْ : اپنا بچاؤ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اَعَدَّ : تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
اور جب آپ ان میں موجود ہوں اور آپ ان کے لیے نماز قائم کریں ، تو چاہئے کہ ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور وہ اپنے ہتھیار لے لیں۔ پس جب وہ سجدہ کریں تو آپ کے پیچھے ہوجائیں اور دوسرا گروہ آجائے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی۔ پس وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور لے لیں اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار۔ پسند کرتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ کسی طرح تم کو غافل پائیں اپنے اسلحہ اور سامان سے پس حملہ کردیں تم پر یکبارگی حملہ کرنا۔ اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اگر تمہیں تکلیف ہو بارش کی وجہ سے یا تم بیمار ہو ، کہ تم اپنے ہتھیار اتار دو اور (ہر حالت میں) اپنے بچاؤ کا سامان ا ختیار کرو بیشک اللہ تعالیٰ نے کفر کرنے والوں کے لیے ذلت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے
ربط آیات اس رکوع کی پہلی آیت میں سفر کی حالت میں نماز کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرعی سفر میں چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے اسے دو رکعت بنا دیا ہے۔ اس ضمن میں دیگر ضروری مسائل بھی گزشتہ درس میں بیان کردیے گئے تھے۔ تاہم سفر ہی سے متعلق دو مسائل باقی رہ گئے تھے۔ پہلا مسئلہ یہ کہ نماز قصر کہاں سے شروع کرنی چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مزعومہ سفر کی نصف منزل طے کرلینے کے بعد نماز قصر شروع ہوئی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ کر نماز قصر کرے۔ بعض دیگر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جب سفر کی نیت کرلے تو گھر سے ہی قصر شروع کرسکتا ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ جب مسافر اپنی بستی ، گاؤں یا شہر کی حدود سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے۔ شہر کی حدود سے مراد یہ ہے کہ مثلاً چونگی سے باہر نکل جائے تو نماز کا وقت ہوجائے تو قصر پڑھے گا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا معصیت کے سفر میں بھی سفر کی اجازت ہے یا نہیں۔ امام شافعی (رح) اور دیگر ائمہ معصیت کے سفر پر نماز میں قصر کی اجازت کے قائل نہیں اگر کوئی شخص چوری ، ڈاکے ، قتل ، کھیل تماشے یا دیگر حرام امور کے ارتکاب کے لیے سفر کرتا ہے تو اسے دو رکعت کی معافی حاصل نہیں ہوگی ، کیونکہ ایسا شخص گنہگار ہے اس کے برخلاف امام ابوحنیفہ (رح) کا فتویٰ یہ ہے کہ سفر کی نوعیت خواہ کیسی ہی ہو ، قصر کی اجازت ہے ، کیونکہ قصر کا تعلق سفر سے ہے نہ کہ اطاعت یا معصیت سے ، البتہ جس غلط ارادے سے کوئی شخص جارہا ہے اس کی معصیت کا گناہ اس پر الگ ہوگا۔ نماز بہرحال قصر ہی کریگا۔ نماز خوف آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے خوف کی حالت میں نماز پڑھنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ خوف عام طور پر دشمن کی طرف سے ہوتا ہے۔ ابتدائے اسلام کے زمانہ میں اہل اسلام اکثر دشمن کی طرف سے خوف میں مبتلا رہے۔ مسلمانوں کو دشمنوں کی طرف سے کسی ممکنہ حملہ کا ہمیشہ خوف رہتا تھا اور بعض اوقات کفار اور اہل ایمانکے درمیان جنگ جاری ہوتی تھی۔ چناچہ ترمذی شریف کی روایت کے مطابق یہ آیات ایک لڑائی کے متعلق ہی نازل ہوئیں۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کے کفار کے ساتھ جنگ جاری تھی۔ ہم لوگ ظہر کی نماز پڑھ چکے تھے کہ کفار نے آپس میں مشورہ کیا ستاتیہم صلوۃٌ ہی احب الیہم من الاولاد مسلمانوں کی ایک اور نماز (عصر) آ رہی ہے جو انہیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ لہٰذا جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو ان پر یکبارگی حملہ کر کے انہیں نیست و نابود کردیا جائے۔ بہرحال حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ نے متعدد بار صلوٰۃ خوف پڑھی ہے اور اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں۔ یہاں پر اس کا اجمالی طریقہ اور قانون باین کردیا گیا ہے۔ تاہم اس کی تشریح حضور ﷺ کے ارشادات مبارکہ اور عمل سے واضح ہوتی ہے اور اس کا ذکر احادیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے ۔ یہ نماز سفر میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اور اقامت میں بھی ادا ہو سکتی ہے۔ نماز خوف کے متعلق سورة بقرہ میں بھی کچھ بیان آ چکا ہے۔ وہاں صرف اس قدر تذکرہ آیا ہے کہ جب خوف کی شدت ہو تو فرجالاً او کسیاناً پاؤں پر کھڑے ہو یا سواری پر ہو تو وہیں اشارے سے نماز پڑھ لو۔ ایسی حالت میں رکوع و سجود کی ضرورت بھی نہیں۔ البتہ اس معاملہ میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ کیا چلتے پھرتے بھی نماز ادا ہوجاتی ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ایک جگہ کھڑے کھڑے تو نماز ہوجاتی ہے ، مگر چلتے پھرتے نماز پڑھنا ناجائز ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جنگ کے علاوہ اگر کسی موذی جانور یا درندے کا خوف ہو تو پھر بھی نماز خوف ادا کی جاسکتی ہے۔ کہیں سے شیر یا اژدھا کا خطرہ ہے اور اس کی نگرانی ضروری ہے تو اس صورت میں بھی صلوٰۃ خوف پڑھی جاسکتی ہے تاہم ان تمام حالات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نماز ایسا اہم فریضہ ہے کہ یہ کسی بھی حالت میں ترک نہیں کی جاسکتی۔ حکم عام یا حکم خاص اس آیت میں نماز خوف سے متعلق واذا کنت فیہم کے الفاظ آتے ہیں۔ اور بظاہر معنی یہ ہے کہ نماز خوف حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی روا تھی۔ حنفی اماموں میں سے امام ابو یوسف (رح) ، اور امام ابوحنیفہ (رح) کے دوسرے شاگرد حسن (رح) اسی کے قائل ہیں۔ مالکی مسلک کے امام ابن ماجشون (رح) کا ذکر بھی ملتا ہے کہ یہ نماز حضور نبی کریم (علیہ السلام) کے ساتھ خاص تھی۔ مگر جمہور ائمہ کرام (چاروں امام) اور جمہور محدثین اور فقہائے کرام متفق ہیں کہ صلوٰۃِ خوف حضور ﷺ کی حیات طیبہ کے بعد بھی جاری ہے۔ لہٰذا یہ حکم عام ہے۔ آپ کے بعد یہ نماز صحابہ کرام ؓ نے مختلف مقامات پر ادا کی ، حضرات ابوبکر ، عمر اور عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانوں میں بھی یہ نماز پڑھی جاتی رہی۔ گویا حکم منسوخ نہیں۔ اگرچہ یہ خطاب حضور کو ہے مگر حکم عام ہے اس کی مثال فصل لربک وانحر میں بھی ملتی ہے کہ اگرچہ یہ بھی خطاب نبی (علیہ السلام) کو ہی ہے۔ مگر نماز اور قربانی کا حکم ہر مکان و زمان کے لیے عام ہے۔ نماز خوف کب اور کیوں نماز خوف اس وقت ادا کی جاتی ہے۔ جب تمام لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتے ہوں اور دشمن یا دیگر خطرے کی نگرانی بھی ضروری ہو۔ اگر سب لوگ بیک وقت نماز میں مشغول ہوجائیں تو دشمن کی طرف سے حملہ کا خطرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ نماز ایک امام کے پیچھے دو مختلف گروہوں کی صور ت میں پڑھی جاتی ہے۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں جب آپ بنفس نفیس محاذ جنگ پر موجود ہوتی تھے ، تو سب کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ حضور ﷺ کے پیچھے ہی نماز ادا کریں۔ تاہم آپ کے بعد بھی اگر جماعت میں کوئی ایسی بزرگ ہستی موجود ہے کہ سب لوگ اسی کی اقتداء میں نماز پڑھنا چاہتے ہوں تو پھر نماز خوف کا طریقہ اختیار کیا جائیگا۔ اگر کسی خاص امام کے پیچھے نماز پڑھنا ضروری نہ ہو۔ تو پھر صلوٰۃ خوف پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جماعت کے مختلف گروہوں یا سیکشن بنا دیے جائیں جو اپنے اپنے امام کے پیچھے یکے بعد دیگرے نماز ادا کرلیں۔ نمازِ خوف کا طریقہ فرمایا واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوٰۃ جب آپ ان میں موجود ہوں اور انہیں نماز پڑھائیں فلتقم طائفۃٌ منہم معک تو چاہئے کہ ان میں سے ایک گروہ آپ کے پیچھے (نماز کے لیے) کھڑا ہوجائے ولیاخذوا اسلحتھم اور وہ اپنا اسلحہ بھی اپنے ساتھ رکھیں۔ فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم پھر جب یہ سجدہ کرلیں تو آپ کے پیچھے چلے جائیں ولتات طائفۃٌ اُخریٰ لم یصلوا پھر دوسرا گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی فلیصلوا معک پھر وہ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھیں ولیاخذوا حذرہم واسلحتہم اور اپنے دفاع کا سامان اور اسلحہ اپنے ساتھ رکھیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر نماز خوف سفر کی حالت میں ادا کی جا رہی ہے تو ایک گروہ بمعہ اسلحہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے گا۔ جب یہ لوگ ایک رکعت مکمل کرلیں تو اپنے اسلحہ سمیت واپس اپنے محاذ پر چلے جائیں گے اور دوسرا گروہ آ کر حضور ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے گا اور ایک رکعت آپ کے ساتھ ادا کریگا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی دو رکعت پوری کر کے سلام پھیر دیں گے جب کہ یہ دونوں گروہ ایک ایک رکعت اپنے طور پر ادا کریں گے۔ اب بقیہ ایک رکعت ادا کرنے کے مختلف طریقے وارد ہوئے ہیں مثلاً یہ کہ پہلا گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر واپس محاذ پر جائے اور وہیں اپنی دوسری رکعت پوری کرلے۔ اسی طرح جب دوسرا گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کرلے تو اپنی دوسری رکعت واپس جاکر الگ پڑھ کر سلام پھیر دے احادیث میں یہ طریقہ بھی آتا ہے کہ پہلا گروہ ایک رکعت پڑھ کر محا ذ پر چلا جائے اور دوسرا گروہ آجائے ، وہ بھی ایک رکعت پڑھ کر محاذ پر چلا جائے تو پہلا گروہ واپس آ کر اسی جگہ اپنی دوسری رکعت مکمل کرلے۔ یہ پھر اپنے محاذ پر چلا جائے تو دوسرا گروہ پھر واپس آ کر اپنی دوسری رکعت مکمل کرلیں۔ اور اگر اقامت کی حالت میں چار رکعت نماز ادا کرنا ہے تو ایک کی بجائے دو دو رکعت امام کے ساتھ ادا کی جائیں گی اور دو دو رکعت مقتدی علیحدہ ادا کریں گے۔ اس طرح نماز میں دونوں گروہوں نے آنے جانے میں جو حرکات کی ہیں ، وہ جائز ہیں۔ نماز خوفِ کے لیے یہ خاص حکم ہے ، ورنہ عام حالات میں اگر کوئی نمازی نماز کے دوران کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ صلوٰۃِ خوف کا ایک طریقہ یہ بھی آیا ہے کہ پہلا گروہ ایک یا دو رکعت امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد اپنی بقیہ ایک یا دو رکعتیں وہیں پوری کر کے محاذ پر آجائے اور دوسرا گروہ آ کر ایک یا دو رکعت امام کے ساتھ ادا کرے۔ امام سلام پھیر دے تو یہ گروہ وہیں پر اپنی بقیہ ایک یا دو رکعت ادا کرنے کے بعد محاذ پر واپس جائے یہ سب طریقے روا ہیں اور مغرب کی نماز ادا کرنا مقصود ہو تو پہلا گروہ دو رکعت امام کے ساتھ پڑھے گا اور بقیہ ایک رکعت علیحدہ ادا کرے گا پھر دوسرا گروہ آ کر ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھیگا۔ اور وہ رکعت علیحدہ ادا کرے گا۔ یہ تمام طریقے اس صورت میں اختیار کیے جائیں جب کہ دشمن قبلہ کی طرف نہیں ہے بلکہ الٹی طرف ہے یا کسی دوسری سائڈ میں ہے اور اگر دشمن قبلہ کی سمت میں صف آرا ہے تو ایسی صورت میں حضور ﷺ نے تمام مجاہدین کی دو صفیں بنائیں اور سب نے بیک وقت نماز شروع کی۔ دونوں صفوں نے قیام اور رکوع اکٹھا کیا ، پھر حضور ﷺ سجدہ میں گئے تو پہلی صف والے آپ کے ساتھ سجدہ میں شریک ہوئے جب کہ دوسری صف والے دشمن کی نگرانی کے لیے کھڑے رہے۔ جب اگلی صف سجدے سے فارغ ہوگئی تو پچھلی صف والوں نے بھی سجدہ کیا۔ جب دوسری رکعت شروع ہوی تو اگلی صف پیچھے چلی گئی اور پچھلی صف آگے آگئی ہے۔ پھر سب نے رکوع اکٹھا کیا۔ پھر اگلی صف نے حضور کے ساتھ سجدہ کیا اور پچھلی صف والے کھڑے رہے اس کے بعد پچھلی صف والوں نے سجدہ کیا۔ اور پھر تشہد کے بعد سب نے نماز اکٹھے مکمل کی۔ دشمن کامنصوبہ فرمایا نماز خوف کا یہ طریقہ دشمن سے حفاظت کے لیے اختیار کیا گیا ہے کیونکہ ودالذین کفرو لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکمکفار کا منصوبہ تو یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تم اپنے اسلحہ اور سامان سے غافل ہوجاؤ ۔ فیمیلون علیکم میلۃً واحدۃً اور وہ تم پر یکبارگی حملہ کردیں۔ ترمذی شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار نے اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ جب مسلمان نماز میں مشغول ہوں تو ان پر ٹوٹ پڑیں مگر پیشتر اس کے کہ وہ اپنے منصوبے کی تکمیل کرتے اللہ تعالیٰ نے نماز خوف کا طریقہ بتلا کر دشمنوں کے منصوبہ کو خاک میں ملا دیا۔ بہرحال یہ سب طریقے اسی صورت میں اختیار کیے جائیں گے جب دوران جنگ تھوڑا بہت موقع مل جائے جس کے دوران مذکورہ طریقہ سے نماز ادا کی جاس کے۔ اور اگر حالات ایسے ہوں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی دشمن سے غافل ہونا باعث نقصان ہو سکتا ہے ، تو پھر نماز کو قضا کرنے کی بھی اجازت ہے۔ جنگ خندق کے موقع پر مسلمانوں کی چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں جن کی قضا رات کو بعد از نماز عشاء دی گئی ۔ حضرت انس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک کے بعد مسلمانوں نے ایران کے قلعہ تستر پر سحری کے وقت حملہ کیا اور اس دوران نماز فجرادا کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ مسلمان صلوٰۃ خوف بھی ادا نہ کرسکے اور جنگ جاری رکھی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوئی اور قلعہ فتح ہوگیا۔ مسلمانوں نے نماز فجر سورج نکلنے کے بعد ادا کی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ اس قضا کی ادائیگی میں مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ دنیا ومافیہا کے خزانے مل جانے سے بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ اس طرح قلعہ بھی فتح ہوگیا اور نماز بھی ادا ہوگئی اگرچہ بعد از وقت بہرحال اس قسم کی صورت حال بھی واقع ہو سکتی ہے اور یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ عذر میں رخصت فرمایا ولا جناح علیکم تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ ان کان بکم اذی من مطرٍ او کنتم مرضیٰ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف میں ہو یا بیمار ہوجاؤ ۔ ان تضعوا اسلحتکم کہ تم اپنے ہتھیار اتار دو ۔ آیت کے پہلے حصہ میں ہر وقت ہتھیار بند رہنے کا حکم تھا۔ حتیٰ کہ نماز کے وقت بھی ہتھیار ساتھ رکھنا ضروری فرمایا تھا۔ اب فرمایا کہ اگر کوئی معقول عذر ہو ، یعنی بارش ہوجائے یا تم میں سے کوئی مجاہد بیمار ہوجائے تو اپنے ہتھیار اتار لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایسا کرسکتے ہو مگر یاد رکھو وخذوا حذرکم اپنے بچاؤ کا سامان ہر حالت میں اختیار کرو۔ اپنے دفاع سے کبھی غافل نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ اسلحہ اتار کر کسی ایسی جگہ نہ رکھو جہاں سے بوقت ضرورت فوری طور پر دستیاب نہ ہو ، بلکہ اپنے قریب اور نگرانی میں رکھو تاکہ بوقت ضرورت فوراً اس سے لیس ہو سکو۔ ناکامی کے اسباب آج مسلمانوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس اپنے بچاؤ کا سامان نہیں ہے اور دشمن ان پر غالب آ رہا ہے گزشتہ چار سو سال سے یہی حالت ہے۔ دشمن ہر محاذ پر مسلمانوں کو ناکام بنا رہا ہے۔ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بالکل پسپا ہو رہے ہیں۔ ان کے پاس اپنے بچاؤ کا کوئی سامان نہیں۔ پہاڑوں سے مع دنیات نکالنا ہو یا تیل کے لیے کنواں کھودنا ہو ، مسلمانوں کے پاس کوئی انتظام نہیں۔ نہ اوزار ہیں اور نہ ٹیکالوجی۔ ماہرین بھی باہر سے منگوانا پڑتے ہیں اور مشینری بھی باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر محاذ پر شکست کھا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں مگر اغیار نے ان کے دماغ اس قدر ماؤف کردیے ہیں کہ یہ اپنے وسائل سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے لکل حالٍ عندہ عتاد حضور ﷺ ہر موقع و ہر حالت کے لیے سامان تیار رکھتے تھے ، مگر آج مسلمان بہت پیچھے رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے ناکام ہو رہے ہیں ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، صنعت و حرفت ، تجارت جنگ غرضیکہ ہر میدان میں آج مسلمان دوسروں کا دست نگر ہے لہٰذا دشمن کی زد میں ہے۔ فرمایا ان اللہ اعلر للکفرین عذاباً مھیناً ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے ذلت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے اگر تم مستعد ہو گے تو اللہ تمہارے ہاتھوں سے ہی دشمن کو سزا دلوا دے گا۔ ورنہ اپنے قانون مکافات کے مطابق ان کو آخرت میں تو سزا مل کر رہیگی۔ تم اپنے بچاؤ کا سامان بہرحال تیار رکھو۔
Top