Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 110
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کام کرے سُوْٓءًا : برا کام اَوْ يَظْلِمْ : یا ظلم کرے نَفْسَهٗ : اپنی جان ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ : پھر بخشش چاہے اللّٰهَ : اللہ يَجِدِ : وہ پائے گا اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو شخص برائی کرے یا ظلم کرے اپنی جان پر پھر وہ اللہ سے بخشش طلب کرے تو پائے گا اللہ کو بخشش کرنے والا اور مہربان ،
ربط آیات اس سورة میں منافقین کا تذکرہ اور ان کی مذمت مختلف مقامات پر ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کارگزاری کا تذکرہ فرمایا کہ جرم کا ارتکاب خود کرکے اس کا الزام دوسروں پر لگادیتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا تھا کہ منافقین نے حضرت رفاعہ ؓ کے گھر چوری کرکے اس کا اتہام پہلے ایک مسلمان پر لگایا اور پھر یہودی پر۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ کے پاس اپنی بریت کی سفارش بھی بہم پہنچائی ، ظاہری حالات دیکھ کر بنی (علیہ السلام) نے بھی ایسا ہی خیال کیا ، مگر اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرما کر اصل صورت حال سے مطلع فرمادیا اور منافقوں کی سخت مذمت بیان کی۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر اس قسم کی غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لینی چاہیے اور مجرموں کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے۔ فرمایا ایسے لوگ دنیا میں تو اپنا حمایتی پیدا کرلیتے ہیں مگر کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کونسا وکیل پیش کریں گے جو ان کی وکالت کرسکے۔ فرمایا اگر وہ منافق چور ارتکاب جرم کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا تو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا۔ مگر الٹا بھاگ گیا اور مرتد ہو کر کفار کے ساتھ جاملا اور نہایت بری موت مرا۔ گناہ کے بعداستغفار ان آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصول کے طور پر یہ ارشاد فرمایا ومن یعمل سوائ جو شخص برائی کا ارتکاب کرے گا اویظلم نفسہ یا اپنے نفس پر زیادتی کرے گا سو ، اور ظلم برنفس تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں اور برائی یا گناہ پر محمول کیے جاتے ہیں تاہم سوء سے مراد وہ گناہ ہے جو متعدی ہو۔ یعنی خود گناہ کرکے الزام دوسرے پر لگادیا جائے یا بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر وہ براہ راست دوسروں پر پڑتا ہے ، جیسے کسی کو قتل یازخمی کردیا جائے ، کسی کی بےعزتی کی جائے یا مال چوری کرلیا جائے اور ظلم وہ گناہ ہے جس کا اثر مرتکب کی اپنی ذات تک محدود رہتا ہے ، جیسے نماز ، روزہ وغیرہ کا تارک یا حلال و حرام سے بےنیاز ، تو فرمایا کسی قسم کا گناہ کیا ہے ، اس کے بعد ثم یستغفر اللہ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے تو یجد اللہ غفوراً رحیما یقینا اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا ، کیونکہ اس زندگی میں بڑے سے بڑے گناہ کفر اور شرک سے بھی توبہ ہوسکتی ہے۔ البتہ حقوق العباد میں یہ شرط ہے کہ توبہ کے ساتھ واصلح یعنی جس شخص کا حق تلف کیا ہے ، اسے ادا کرے یا اس سے معاف کرالے۔ اگر متعلقہ شخص معاف کردے تو بھی مجرم بری الذمہ ہوگیا بہرحال اللہ نے یہ توبہ کا قانون بھی بتادیا ہے کہ التوبۃ معروضۃ مالم یغرغرانسان کی توبہ اس وقت تک قابل قبول ہے ۔ جب تک زندگی کے آخری لمحات میں غرغرے کی حالت طاری نہ ہوجائے ، جب اس کی جان لبوں پر آجاتی ہے اور عالم غیب کا پردہ اٹھ جاتا ہے فرشتے اور برزخ کی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں ، تو اس وقت توبہ کی قبولیت کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے پہلے تندرستی ہو ، بیماری ہو ، ہر حالت میں توبہ قبول ہوتی ہے۔ آگے فرمایا ومن یکسب اثماً جو کوئی شخص گناہ کمائے گا۔ فانما یکسب علی نفسہ تو یقینا وہ اپنے نفس پر ہی کمائے گا ، یعنی جو آدمی قصداً برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی کی جان پر پڑے گا۔ ایسے جرم میں وہ خود ہی ماخوذ ہوگا۔ وکان اللہ علیماً حکیماً اللہ تعالیٰ علیم ہے کہ ہرچیز سے واقف ہے اور حکیم ہے کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ وہ گناہ کرنے والے کے گناہ اور اس کی سزا کو جانتا ہے اور اس کا ہر فیصلہ پراز حکمت ہے۔ بہتان طرازی فرمایا ومن یکسب خطیۃ اواثماً جس شخص نے کوئی خطا کی یا گناہ کا ارتکاب کیا۔ خطا سے مراد صغیرہ گناہ جو بغیر ارادے کے سہواً سرزد ہوگیا۔ اور اثم وہ بڑا گناہ ہے جو نیت اور ارادے سے کیا جائے نیکی اور بدی وہی موثر ہوتی ہے جو قصداً کی جائے۔ تو فرمایا جس شخص نے چھوٹا گناہ کیا یا بڑا ثم یرم بلہ بریاً پھر اس کی تہمت کسی بےگناہ پر لگادی جیسا کہ اس منافق نے چوری کا ارتکاب کرکے دوسروں کو ملوث کرنے کی کوشش کی تھی ، تو فرمایا فقد احتمل بھتاناً واثماً مبیناً ایسے شخص نے بہت بڑا افترا اور گناہ اٹھالیا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کردیا کہ کسی بےگناہ پر اتہمام لگانا بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے بچتے رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ منافقین کی مذمت بھی بیان فرمادی۔ عصمت انبیا (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ منافقین حضور ﷺ کو اپنے ساتھ شامل کرکے آپ کو بھی ملوث کرنا چاہتے تھے ، اس سلسلہ میں انہوں نے سفارش بھی بہم پہنچائی اور دوسروں پر بھی الزام لگایا تکہ وہ خود بری قرار پائیں مگر اللہ تعالیٰ نے ساری صورت حال سے بذریعہ وحی مطلع فرمادیا اور اس طرح آپ کو غلطی سے بچا کر عصمت انبیاء کو برقرار رکھا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ اگر اس کا نبی بعض ظاہری حالات کو دیکھ کر یا کسی قرینے کی بنیاد پر کوئی خلاف معمول رائے قائم کرے یا حکم جاری کردے تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے اپنے نبی کو مطلع کردیتا ہے اور اسے اپنی خلاف حقیقت رائے پر قائم نہیں رہنے دیتا۔ اگر نبی غلطی پر قائم رہے تو یہ اس کی عصمت کے خلاف ہوتا ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ اسے ایسی حالت پر نہیں چھوڑتا۔ نبی اور مجتہد میں یہ بنیادی فرق ہے کہ مجتہد جب اپنے اجتہاد اور غوروفکر سے کوئی غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کا اجر تو بہرحال اس کو مل جاتا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اسے اس کی غلطی سے مطلع کرکے اصلاح کردی جائے۔ اس کے برخلاف اگر نبی سے کسی فیصلہ میں کوئی لغزش ہوجائے تو اسے فوراً بذریعہ وحی مطلع کردیا جاتا ہے اور ایسی خطا سے بچالیا جاتا ہے۔ عصمت کا یہی معنی ہے جس کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ حفاظت خداوندی اللہ نے ارشاد فرمایا ولولا فضل اللہ علیک ورحمۃ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ پر نہ ہوتی۔ لھمت طائفۃ منھم ان یضلوک تو ان میں سے ایک گروہ نے ارادہ کررکھا تھا کہ آپ کو بھی بہکادیں۔ اور اپنا طرفدار بنالیں۔ منافقین نے اس مقصد کے لیے بھرپور کوشش کی تھی اور معززین کا ایک وفد لے کر حضور ﷺ کے پاس گئے۔ آپ نے بھی ظاہری حالات کے مطابق ان کو بےگناہ سمجھا ، اور حضرت قتادہ ؓ کو فرمایا کہ تم ایسے باصلاحیت اور نیک لوگوں پر کیوں شبہ کرتے ہو۔ قریب تھا کہ حضور ﷺ ان کی باتوں میں آکر ان کے طرفدار بن جاتے مگر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو متنبہ کردیا۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ ومایضلون الا انفسھم وما یضرونک من شئییہ لوگ اپنے آپ کو ہی بہکار ہے ہیں۔ اور وہ نہیں نقصان پہنچاسکتے آپ کو کسی قسم کا اب بھی اگر کوئی ایسی حرکت کرے گا تو مجرم ٹھہرے گا۔ اگر کوئی دوسرا شخص بہکاوے میں آکر غلط طور پر طرفدار بن جائے گا تو اس سے کام کا محرک بری الذمہ نہیں ہوگا۔ نہ اس کا گناہ کم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اسے جواب دینا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ ظاہری حالات سے متاثر ہوجانے کی وجہ سے آپ پر تو کوئی الزام نہیں آتا۔ کیونکہ بسا اوقات ایسے حالات میں کوئی شخص ایسی رائے قائم کرلیتا ہے مگر جن لوگوں نے یہ ساری کارروائی کی ہے ، وہ نقصان سے نہیں بچ سکیں گے۔ اور اس گناہ کا وبال انہی پر پڑے گا۔ کتاب وحکمت فرمایا وانزل اللہ علیک الکتب والحکمۃ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے۔ کتاب سے مراد قرآن حکیم ہے اور بقول امام مالک (رح) حکمت سے مراد سنت ہے۔ حکمت کی تفسیر میں اور بھی کئی اقوال آئے ہیں۔ سورة احزاب میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرکات کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ ” واذکرن مایتلی فی بیوتکن من اٰیت اللہ والحکمۃ اور اس بات کو یاد کرو جو اللہ کی آیتیں اور حکمت تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ آیات اللہ سے مراد قرآن پاک اور حکمت سے مراد آپ کے اقوال اور اعمال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو وحی جلی ہے اور جس کے الفاظ منجانب اللہ ہیں۔ اور حکمت وحی خفی ہے جس کے الفاظ اللہ کی جانب سے نہیں ہیں مگر مضمون اللہ تعالیٰ کا ہی القا کردہ ہے۔ جو باتیں حضور ﷺ کی زبان مبارک سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ، وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاشدہ ہیں ۔ حضور ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے قرآن پاک کی تشریح کی ہے اور یہی حکمت ہے۔ کلی اور جزوی علم اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ، آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی وعلمک مالم تکن تعلم اور آپ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ نے جانتے تھے یہی مضمون دوسرے مقام پر اس طرح آیا ہے ” ماکنت تدری ما الکتب والا الایمان (الشوریٰ ) آپ کتاب اور ایمان کی تفصیلات نہیں جانتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر آپ کو آگاہ کیا بعض چیزیں وحی جلی کے ذریعہ بتائیں اور بعض وحی خفی کے ذریعے۔ بعض اہل بدعت آیت کے اس ٹکڑے سے حضور ﷺ کا کلی علم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو نبوت سے متعلقہ تمام چیزیں سکھادیں ، اور جن کا تعلق منصب نبوت کے ساتھ نہیں ہے ان میں سے بھی بہت سی چیزوں کا علم دیدیا مگر ذرے ذرے کا علم نہیں دیا۔ اگر اس آیت کے ذریعے اللہ نے سب کچھ آپ کو بتادیا تھا تو یہ آیت تو 4 ھ یا 5 ھ میں نازل ہوئی اس کے بعد باقی سورتوں کے نزول کی کیا ضرورت تھی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اس سورة کے بعد سورة مائدہ ، سورة توبہ ، سورة احزاب اور بہت سی سورتیں نازل ہوئیں ۔ جب ایک چیز سکھادی تھی تو دوبارہ نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ اس آیت کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا علم حضور ﷺ کو دیا وہ سب سے زیادہ تھا جیسا فرمایا اوتیت علم الاولین والاخرین مجھے پہلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا ، بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلی امتوں کے حالات بتائے ، قرآن پاک میں قصص کا ایک معتدبہ حصہ موجودہ ہے اور بعد میں پیش آنے والے بہت سے واقعات سے بھی آپ کو آگاہ کیا۔ جن کا ذکر قرآن وسنت میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے باوجود آپ علم محیط کے مالک نہیں ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاصا ہے ۔ عالم الغیب والشہادت صرف وہی ذات ہے اللہ نے اپنے انبیاء اور رسل کو دین اور شریعت کا مکمل علم دیا مگر ذرے ذرے کا علم نہیں دیا ، کیونکہ اس کی ضرورت نہ تھی۔ اب اگر کوئی کہے کہ حضور ﷺ فلاں مشینری جوڑنا یا ہوائی جہاز بنانا نہیں جانتے تھے ، تو اس سے آپ کی ذات پر کیا فرق پڑتا ہے ؟ اور آپ کی شان میں کیا کمی آتی ہے ؟ یہ تو ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق کائنات سے ہے اور ان کا جاننا آپ کے لیے ضروری نہیں تھا۔ ہاں ! اگر کوئی یہ کہے کہ حضو رعلیہ السلام دین کی فلاح بات یا حلال و حرام کا فلاں مسئلہ نہیں جانتے تھے ، تو یقینا یہ کلمہ کفر ہے۔ مگر دنیا کی عام چیزیں تو انسان اپنے مشاہدے اور عقل سے سیکھتے ہیں اور اپنے تجربات کو بروے کار لاتے ہیں۔ البتہ بعض علم مضر ہیں وہ اللہ نے اپنے نبی کو نہیں سکھائے اور نہ وہ آپ کی شان کے لائق ہیں۔ سحر ، کہانت ، نجوم آپ کے منصب کے شایان شان نہیں اور اللہ نے آپ کو نہیں سکھائے۔ اسی شعروشاعری کے متعلق فرمایا وماعلمنہ الشعر وماینبغی لہہم نے اپنے نبی کو شعر کا علم نہیں سکھایا ، نہ وہ اس کی شان کے لائق ہے۔ اگر ایسی چیزیں آپ نہیں جانتے تو آپ کی شان میں ذرا برابر فرق نہیں آتا ، مزید برآں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی آپ نے نفی کرنی ضروری ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) تفہیمات الٰہیہ میں فرماتے ہیں کہ آپ کے واجب الوجود ہونے کی نفی کرنا ضروری ہے ، ورنہ انسان ایماندار نہیں ہوگا۔ واجب الوجود ، قادر مطلق اور علیم کل تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے حضور ﷺ کی ذات سے ان سب کی نفی لازم ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ حضور کو ذرے ذرے کا علم دیا گیا ، درست نہیں ہے۔ فضل عظیم فرمایا وکان فضل اللہ علیک عظیماً اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے ، امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کا سب سے بڑا فضل یہ ہے کہ آپ کو نبوت عطا فرمائی ، پھر آپ کو ختم نبوت کا تاج پہنچایا۔ آپ کو جو کتاب دی گئی وہ سب کتابوں سے افضل۔ آپ کی امت بھی تمام امتوں سے افضل۔ آپ کے متبعین بھی سب سے زیادہ آپ کو معجزات بھی دوسرے انبیاء سے زیادہ دئیے گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ظاہری اور معنویٰ اولاد بھی سب سے زیادہ بنائی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے۔ اگلی آیات میں منافقوں کی بعض مزید سازشوں اور ان کے مشوروں کا تذکرہ بیان کیا گیا ہے اور ان کی مذمت بھی کی گئی ہے۔
Top