Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 114
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
کچھ بہتری نہیں ان کے بہت سے پوشیدہ مشوروں میں مگر وہ شخص کہ جس نے حکم دیا صدقہ کرنے کا یا نیک کام کرنے کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا اور جو شخص یہ کام کرے گا اللہ کی خوشنودی کی تلاش کے لیے پس ہم عنقریب دینگے اس کو بہت بڑا اجر
گزشتہ رکوع میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی کارگزاری بیان فرمائی کہ انہوں نے خود چوری کرکے مورد الزام دوسروں کو ٹھہرایا۔ اور حضور ﷺ کو بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ چور نہیں ہیں بلکہ ان پر الزام لگانے والے زیادتی کے مرتکب ہیں۔ انہوں نے برادری کے معززین کے ذریعے حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی صفائی بھی پیش کی مگر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ان کی سازش کا پردہ چاک کردیا اور اپنے نبی کو تمام حالات سے آگاہ کردیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ کی عصمت کا مسئلہ بھی آگیا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو یہ لوگ آپ کو غلط بات کا طرف دار بنادیتے۔ اللہ نے فرمایا کہ خائن لوگوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے ، اللہ تعالیٰ خائنوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا ، اور جن مخلص مسلمانوں نے محض برادری کی وجہ سے حضور ﷺ کے پاس منافقوں کی سفارش کی تھی۔ اللہ نے ان کو سخت تنبیہہ فرمائی کہ اس دنیا میں تو تم نے ان کی وکالت کا حق اد ا کردیا مگر کل قیاتم کے دن وہ اللہ کی بارگاہ میں کونسا وکیل پیش کریں گے جو ان کی حمایت کرسکے بہرحال اللہ نے فرمایا کہ کسی بےگناہ پر الزام لگانا بہت بری بات ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا کہ جس منافق نے چوری کا ارتکاب کیا تھا ، اس نے صحیح راستہ اختیار نہیں کیا تھا ، چوری کا راز کھل گیا ، پھر وہ ہتھیار بھی واپس ہوئے جو اصل مالکان نے اللہ کی راہ میں وقف کردئیے۔ چور کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ اقرار جرم کرکے دنیا میں سزا پالیتا تو اس کی آخرت برباد نہ ہوتی مگر اس نے غلط راستہ اختیار کیا۔ مرتد ہو کر کافروں سے جاملا ، اور پھر ایک دیوار کے نیچے آکر مرگیا اور ہمیشہ کے لیے ناکام ہوگیا۔ خفیہ مشورے اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے برادری کے لوگوں کی مذمت بیان فرمائی ہے جو اپنے آدمی کی بریت کے لیے خفیہ مشورے کرتے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے اجتماعی مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اہل ایمان کی بہتری کے لیے پوشیدہ مشورے یا میٹنگیں کرنا بالکل درست ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان امور کی نشاندہی بھی کی ہے جن کے متعلق مشورہ کرنا برحق ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ لاخیر فی کثیرمن ناجوالھم ان کے بہت سے پوشیدہ مشوروں میں کوئی بہتری نہیں ہے۔ نجری سرگوشی یا کا ناپھوسی کو کہتے ہیں اور اس سے مراد خفیہ میٹنگ ہے جس میں صلاح مشورہ کیا جائے تو فرمایا کہ یہ لوگ بشیر منافق کی صفائی کے لیے اور دوسروں پر الزام لگانے کے لیے جو خفیہ میٹنگیں یا مشورے کرتے ہیں اور مشورے بھی ایسے کہ ” لایرضی من القول جو منشائے الٰہی کے خلاف ہیں ، فرمایا ایسے مشوروں کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ صدقہ کا حکم فرمایا بعض خفیہ مشورے مفید بھی ہیں مثلاً الامن امر بصدقۃ یہ کوئی شخص صدقہ کرنے کا حکم دے ، تاکہ غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ اس قسم کا مشورہ کرنا تو بڑی خوبی کی بات ہے کہ کسی کی حاجت براری بھی ہوسکے اور اس کی عزت نفس بھی برقرار رہے۔ قرآن پاک میں صدقہ کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقت اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے تاکہ سوسائٹی کو امن و سکون حاصل ہو۔ محتاجوں کو اپنا بھائی سمجھنا اور اللہ کے عطا کردہ وسائل سے ان کی مدد کرنا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عاید کردہ فرائض میں سے ہے۔ اور اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ صدقہ سے انسان میں تذکیہ نفس پیدا ہوتا ہے بخل ختم ہو کر فیاضی جیسی اعلی اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ صدقہ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کل معروف صدقۃ یعنی ہر نیکی صدقہ کے حکم میں آتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انسانی جسم کے تین سو ساٹھ اعضا (جوڑ) ہیں ۔ جب انسان صبح نیند سے صحیح سلامت بیدار ہوتا ہے۔ تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ ہر عضو کے بدلے صدقہ کرے۔ عرض کیا گیا ، حضور ! یہ تو بہت بڑا بوجھ ہے۔ اگر کوئی شخص ہر جوڑ کے بدلے ایک ایک پیسہ بھی صدقہ کرے تو سارے جسم کے لیے کافی رقم کی ضرورت ہوگی۔ اور ہر ایک کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی۔ نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی شخص جو بھی کلمہ اپنی زبان سے نکالتا ہے وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص سبحان اللہ یا الحمد اللہ یا لا الہ الا اللہ یا اللہ اکبر کہتا ہے۔ درود شریف پڑھتا ہے یا استغفار کے کلمات ادا کرتا ہے ، تو یہ سب اسن کے لیے صدقہ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کو نیکی کی بات بنادینا یا برائی سے روک دینا بھی صدقہ ہے ، حتی کہ اگر کوئی شخص راستے سے کانٹا یا پتھر ہٹادیتا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو ، تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ فرمایا اگر کسی کو کوئی چیز بھی میسر نہ ہو تو چاشت کے وقت دو رکعت نفل ادا کرے تو یہ سب اعضا کی طرف سے کفایت کرجائیں گے۔ بہرحال صدقے کا عام فہم معنی اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنا ہے۔ کسی حاجت مند کی مالی اعانت کردی جائے ، زکوۃ بھی اسی میں آتی ہے کہ یہ واجب ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو کپڑا پہنادینا ، کھانا کھلادینا ، عیدالاضحیٰ پر قربانی کردینا اور عیدالفطر کو فطرانہ اداکرا سب صدقات میں آتے ہیں بشرطیکہ یہ سب کچھ خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ سود خوری صدقہ کی ضد سود ہے جس سے سوسائٹی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ کسی ضرورت مند کی اعانت کرنے کی بجائے اسے رقم دے کر اس پر سود وصول کرنا نہایت ہی قبیح حرکت ہے جس سوسائٹی میں سود کی لعنت آجاتی ہے وہ سوسائٹی پست سے پست تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ سود حرص اور لالچ کو جنم دیتا ہے۔ انسان میں تنگ دلی پیدا ہوتی ہے ، انسانی ہمدردی کا جذبہ ختم ہو کر خود غرضی پیدا ہوتی ہے۔ دندیا میں سب سے زیادہ سود خور قوم یہودی ہیں۔ بنکاری کا پورا نظام سود کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہودیوں کے بعد دوسرے نمبر پر سود خور ہندو مہاجن ہیں جن کی سنگ دلی کے واقعات مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں۔ انہی کی دیکھا دیکھی سود خوری کی لعنت پٹھانوں اور عربوں میں بھی آگئی ہے اور پھر بعض دوسرے لوگ بھی سود خوری کرنے لگے ہیں۔ فرمایا مشورہ وہ اچھا ہے جو کہ صدقہ کی ترویج کی خاطر کیا جائے۔ نیک عمل فرمایا اچھا مشورہ صدقہ کے حکم میں ہے یا پھر اومعروف نیکی کا حکم کرنے میں۔ کسی سوسائٹی میں نیکی پھیلانے اور برائی کو مٹانے کی خاطر جو مشورہ کیا جائے وہ بھی اللہ کے ہاں مقبول ہے ۔ نیکی کے صرف بڑے بڑے کام ہی قابل توجہ نہیں ہیں بلکہ معمولی سے معمولی نیکی پر بھی عندا اللہ ماجور ہوتا ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے لاتحقرن من المعروف کسی بھی نیک کام کو حقیر نہ سمجھو ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلیقخواہ اتنی سی بات ہو کہ تم اپنے بھای کو ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ملو یہ بھی نیکی ہے ۔ کسی بھائی کے برتن میں پانی ڈال دینا بھی نیکی ہے۔ غرض یہ کہ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی نیکیاں اکٹھی ہو کر قیامت کو پہاڑ بن جائیں گی اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ثمرہ مرتب ہوگا۔ فرمایا زبانی نیکی یہ بھی ہے کہ کسی کو نیکی کی تلقین کردی یا برائی سے منع کردیا۔ اور فعل نیکی یہ ہے کہ کسی مظلوم کی مدد کری جائے اور کسی مصیبت زدہ کی مصیبت کو رفع کردیا جائے یہ قولی اور فعلی معروف باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر نیکی کے کاموں کے لیے مشورہ کیا جائے ، میٹنگ کی جائے یا کوئی اجلاس بلایا جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ منافقوں کی بہت سی پوشیدہ میٹنگوں کا کوئی فائدہ نہیں البتہ فائدہ اس خفیہ مشورے کا ہے جو صدقہ کے متعلق ہو یا نیکی کو پھیلانے کے لیے کیا جائے ، وگرنہ اکثر مشورے اور میٹنگیں فضول ہی ہوتی ہیں۔ جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ابودائود شریف اور بعض دوسری کتابوں میں حضور ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ یعنی کسی انسان کی اسلام کی خوبی میں سے ہے۔ کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو ترک کردے۔ اور اس کے بجائے اچھی باتوں کو اختیار کرے۔ تو اس سے انسان میں طہارت اور سماحت جیسی پاکیزہ چیزیں پیدا ہوں گی۔ اصلاح ذات البین فرمایا تیسری چیز جس کے لیے مشاورت جائز ہے ۔ وہ ہے اواصلاح بین الناس لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا۔ بعض افراد یا جماعتوں کے درمیان تنازعہ پیدا ہوجاتا ہے ان کی اصلاح کرنے کے لیے جھگڑے کو مٹانے کے لیے اگر میٹنگیں اور مشورے کیے جائیں تو بہت اچھی بات ہے اسے اصلاح ذات البین کہتے ہیں۔ دوسرے مقام پر ہے اصلحوا ذات بینکم اللہ تعالیٰ نے اپنے حالات اچھے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے برخلاف فساد ذات البین بہت بری بات ہے۔ مسلمانوں کا آپس میں جھگڑا و فساد مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جھگڑا معاملات میں ہوتا ہے اور اخلاق میں بھی ، حتی کہ بسا اوقات فساد وعقیدے کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے فساد ذات البین کے متعلق فرمایا ھی حالقہ یہ ہونڈنے والی چیز ہے ۔ پھر فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ فساد بالوں کو مونڈتا ہے بلکہ یہ دین کو مونڈ کر رکھ دیتا ہے آپس کا فساد دین کو ایسے برباد کردیتا ہے۔ جیسے استرابالوں کو بیخ کنی کردیتا ہے۔ جھگڑا پارٹیوں کے درمیان بھی ہوسکتا ہے اور ملکوں کے درمیان بھی ۔ لہٰذا جھگڑے کو مٹانے کے سلسلے میں جو کوشش ، محنت ، مشورہ اور میٹنگ کی جائے وہی بہتر ہے فضول کاموں کے لیے مشورہ کرنا لایعنی ہے اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، بلکہ برائی کو تقویت حاصل ہوگی۔ الغرض ! یہ تین چیزیں بیان کی گئی ہیں جن کے لیے باہمی مشاورت بالکل درست ہے یعنی صدقہ ، نیکی اور اصلاح ذات البین۔ اور ان تمام امور کا مقصد ایک ہی ہے۔ کہ لوگوں کے حالات اچھے ہوجائیں۔ برائی کا خاتمہ ہوجائے۔ فاسد رسومات سے جان چھوٹ جائے اور ان کی بجائے سنت رائج ہو۔ لوگوں میں اسلام اور شریعت کے لیے محبت پیدا ہوجائے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں جو اصلاح ذات البین کے لیے کوشش کرتا ہے۔ ملاء اعلیٰ کے فرشتے اس کے حق میں بہتری کی دعا کرتے ہیں۔ ایسا انسان اللہ کے ہاں پسندیدہ انسان ہوتا ہے کہ وہ فرشتوں کی دعائوں کا مستحق بنتا ہے۔ جائز اور ناجائز مشورے مشورے افراد کے درمیان بھی ہوتے ہیں اور مقامی اور ملکی سطح پر جماعتوں کے درمیان بھی۔ میونسپل کمیٹی کے ممبران بھی میٹنگ کرتے ہیں اور شہر کی اصلاح کے لیے مشورے کرتے ہیں۔ اسی طرح صوبائی اور ملکی سطح پر ممبران صوبائی وقومی اسمبلی اجلاس کرکے صوبائی اور ملکی بہبود کے لیے مشورے کرتے ہیں اور پھر بڑے بڑے منصوبے معرض وجود میں آتے ہیں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ سب لوگ قوم وملت کی اصلاح احوال کے لیے مشورے کرتے ہیں یا کھیل تماشے اور دیگر فضول باتوں کو زیر بحث لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے یعنی صدقہ ، نیکی اور اصلاح ذات البین کیا ہمارے شہر ، صوبے ، یا ملک کے نمائندگان کو کبھی یہ توفیق حاصل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مذکورہ بالا تین آئٹمز کو بھی زیر بحث لائیں ؟ کیا ان امور کی انجام دہی کے لیے بھی قانون سازی ہوتی ہے۔ ؟ کیا غریبوں کی بہبود کے لیے کبھی مشورہ ہوا ہے ؟ وہاں تو فضول چیزوں کے لیے قانون بنتے ہیں۔ وہاں تو فلموں اور ٹیلی ویژن کی ترقی کی باتیں ہوتی ہیں۔ کرکٹ اور ٹینس کے لیے مشورے ہوتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ لوگوں کی تعلیم وتربیت کی باتیں ہوتیں ؟ شریعت کے نفاذ کا مسئلہ پیش ہوتا محتاجوں کی عزت نفس کے لیے کوئی منصوبہ بنتا ، غربت دورہوکر لوگوں کی بنیادی ضروریات کا اہتمام ہوتا ۔ مگر ایسی چیزیں انہیں کہاں نصیب ہیں۔ یہاں پر اختلاف دور کرنے کی بجائے افراد اور پارٹیوں کے درمیان اختلاف بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ انگریز کا پرانا اصول ہے کہ اختلاف بڑھائو اور حکومت کرو (DIVIDE AND RULE) کیونکہ اگر لوگ اچھی بات پر متفق ہوجائیں تو انہیں حکومت کرنے کا موقع کیسے مل سکتا ہے۔ یہاں تو سیاسی پارٹیوں میں رسہ کشی کی ہوا دی جاتی ہے۔ شیعہ سنی کا فساد کرایا جاتا ہے ۔ مقلد غیر مقلد کا مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے ، دیو بندی اور بریلوی کو لڑایا جاتا ہے اور یہی ایک اصول ہے جس کے ذریعے اپنی حکومت کو طول دے سکتے ہیں۔ اقتدار پر قبضہ جماسکتے ہیں۔ بھائی تمہارے ذمے تو لازم تھا کہ نیکی کا نظام قائم کرتے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرتے برائی کا قلع قمع طاقت کے ساتھ کرتے عریانی اور فحاشی کے خلاف جہاد کرتے ، نظام صلوۃ قائم ہوتا ، ہر شخص کی عزت آبرو ، مال اور جان محفوظو ہوتی۔ اگر تم برائی ختم نہیں کرتے ، اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ باتوں پر عمل نہیں کرتے تو تمہاری ممبریاں کسی کام کی نہیں۔ تم اپنے فرائض کو کماحقہ ادا نہیں کر رہے۔ اقتدار کی امانت اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے اسے محض تنخواہ اور بھتہ وصول کرنے تک محدود نہ رکھو بلکہ عوام کی خدمت کرکے نہ صرف دنیا میں سرخروئی حاصل کرو بلکہ آخرت کے لیے ذریعہ نجات بھی پیدا کرلو۔ اہل ایمان کی چار صفات اما م شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اہل ایمان یک تمام امتوں کے لیے چار صفات کا ہونا ضروری ہے۔ (1) طہارت (2) اخبات یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی (3) سماحت یعنی فیاضی اور رذیل چیزوں سے پرہیز اور (4) عدالت۔ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ لوگوں کے جھگڑے مٹ جائیں۔ تمام لوگ صلح وصفائی سے رہیں۔ اختلاف اپنوں میں ہو یا بیگانوں میں ، افراد میں ہو یا پارٹیوں میں ، خاندان میں ہو یا ممالک میں ، صلح کرادینا بہت بڑی نیکی ہے۔ سورة حجرات میں بھی آتا ہے کہ مومنوں کے دوگروں کے درمیان اگر جھڑا ہوجائے۔ فاصلحوا بینھماتو ان کے درمیان صلح کرادو ، تو اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا ایجنڈا دے کر فرمایا کہ اگر میٹنگ کرنی ہے ، کوئی مشورہ کرنا ہے تو ان چیزوں کے متعلق کرو۔ صدقہ کا حکم دو تاکہ محتاجوں کی ضروریات پوری ہوں۔ نیکی کا حکم دو تاکہ برائی کا خاتمہ ہوجائے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرو تاکہ تمام جھگڑے اور تنازعے مٹ جائیں۔ اگر تمہارے اپنے جھگڑے ختم ہوجائیں تو کوئی غیر تمہارے طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ برخلاف اس کے اگر تم آپس میں الجھتے رہے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم ذلیل و خوار ہو کر رہ جائو گے۔ رضائے الٰہی فرمایا ومن یفعل ذلک ابتغاء مرضات اللہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی تلاش میں ایسا کرے گا ، صدقہ یا نیکی کا حکم کرے گا یا لوگوں کے درمیان صلح کرادے گا یا ان مقاصد کے حصول کے لیے مشورہ کرے گا اور اس کی مراد رضائے الٰہی ہو ، اپنی نیک نامی اریاکاری یا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایسا نہیں کرتا ، فرمایا مسوف نویتہ اجراً عظیماً عنقریب ہم اسے بہت بڑا اجر عطا کریں گے نیکی دراصل وہی ہے جو صرف خدا کی رضا کے لیے ہو۔ اور ہر اس شخص کے ساتھ کی جائے جو اس کا مستحق ہو۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ زکوۃ و خیرات اس شخص کو دی جاتی ہے جو اپنی پارٹی کا آدمی ہو سفارش اس کی جاتی ہے ، جس نے ووٹ دیا تھا یا آئندہ دے گا یا پھر نیکی اس لیے کی جاتی ہے کہ اپنے فرقے کو عروج حاصل ہو۔ حکومت بھی انعامات سے اسی شخص کو نوازتی ہے جسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا مطلوب ہو۔ یہ تمام چیزیں نیکی کی روح کے خلاف ہیں۔ نیکی جب تک محض اللہ کی رضا کے لیے نہیں ہوگی۔ اس کا کچھ فائدہ نہیں ، ابتغاء مرضات اللہ سے یہی بات سمجھائی گئی ہے۔ اور اللہ کی خوشنودی کے لیے وہی نیکی کرے گا جس کا نظریہ یعنی (IDEOLOGY) صحیح ہوگی۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا بھی محبوب ہوگا اور ملاء اعلیٰ کا دعائوں کا مستحق بھی۔
Top