Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 115
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
اور جو شخص مخالفت کرے گا اللہ کے رسول کی اس کے بعد کہ اس شخص کے لیے ہدایت واضح ہوچکی ہے ۔ اور وہ شخص پیروی کرتا ہے مومنین کے راستے کے علاوہ ہم اس کو پھیردیں گے اسی طرف جس طرف اس نے رخ کیا ہے اور ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے لوٹ کر جانے کی
ربط آیات گزشتہ آیات میں منافقین کی مذمت بیان ہوتی رہی ہے اللہ تعالیٰ نے ا ن کی خیانت ، برائی ، خفیہ مشوروں اور میٹنگوں کا ذکر فرمایا۔ گزشتہ اور اس سے پیوستہ دروس میں منافقین کے ایک خاندان بنوابیرق کا ذکر تھا کہ ان کے ایک آدمی بشیر ابن ابیرق نے چوری کا ارتکاب کیا۔ مگر خود کو اس سے بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے چوری کا الزام ایک مخلص مسلمان لبید ابن سہیل ؓ پر اور پھر ایک یہودی پر لگایا اس کے علاوہ معززین قبیلہ کا ایک وفد بھی حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا ، جس میں مخلص مسلمان بھی شامل تھے۔ اس وفد نے حضور نبی کریم ﷺ کو باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کا آدمی بےگناہ ہے ، اور رفاعہ ؓ اور قتادہ ؓ نے اس پر غلط الزا م لگایا ہے حضور ﷺ نے بھی ظاہری حالات کے مطابق بشیر منافق کو بےگناہ سمجھا اور حضرت قتادہ ؓ کو ڈانٹ دیا کہ انہوں نے غلط الزام لگایا ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرما کر اس سازش کو بےنقاب کردیا چور پکڑا گیا اور اس سے مال بھی برآمد ہوگیا۔ پھر وہ منافق خفت کے مارے مدینہ سے بھاگ گیا اور مرتد ہو کر کفار مکہ سے جاملا حضرت حسان بن ثابت ؓ نے اس کی ہجوکہی ، جب اس کا چرچا ہوا۔ تو بدنامی کے ڈر سے اس عورت نے بھی بشیر کو گھر سے نکال دیا جس کے پاس وہ ٹھہرا ہوا تھا ، مفسرین بیان فرماتے ہیں کہ وہ کسی دیوار کے نیچے آکر مر گیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے حوالہ سے منافقین کی مذمت بیان کی۔ کہ اگر اس شخص میں انصاف کا مادہ ہوتا تو اپنے جرم کا اقرار کرکے حد سرقہ قبول کرلیتا اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جاتا ، مگر اس نے غلط راستہ اختیار کیا۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سفارشی مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ ایسے غلط لوگوں کی حمایت نہ کیا کریں۔ خود حضور نبی کریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہوتا تو یہ لوگ غلط طور پر آپ کو بھی اپنا طرفدار بنالیے…… مگر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر منافقین کی شقاوت کو ظاہر فرمادیا تو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے بعد آج کی آیت میں مومنوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ منافقوں کی چالوں میں آنے کی بجائے مومنین کے راستہ پر چلیں اور مومنین کے راستہ کے خلاف نہ کریں۔ رسول کی مخالفت چنانچہ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ومن یشاقق الرسول جو کوئی اللہ کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ مشاققت دشمنی ضد ، عناد ، یا پارٹی بازی کو کہتے ہیں ، یہ تمام قبیح صفات بشیر بن ابیرق پر صادق آتی ہیں اور اسی کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص نے خود چوری کی ، پھر دوسروں پر اتہام لگایا اور آخر میں اللہ کے رسول کی نافرمانی کا مرتکب ہو کر کفار مکہ سے جاملا۔ اسی لیے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے ، مخالفت کرتا ہے من بعدماتبین لہ الھدی بعد اس کے کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی تھی۔ اور ہدایت کا راستہ وہی ہے جس پر اللہ کا رسول اور اس کے متبعین چل رہے ہیں اور جس کی طرف دوسروں کو بھی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ وہی ہدایت کا پروگرام ہے۔ جو اللہ جل شانہ ، نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں نازل فرمایا ہے۔ اور حضور ﷺ جس کی تشریح و توضیح بیان فرماتے ہیں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سور ۃ بقرہ میں اس طرح بیان فرمایا قدتبین الرشد من الغی یعنی ہدایت کا راستہ گمراہی کے راستے سے بالکل واضح ہوگیا ہے ، اس کے باوجود اگر کوئی شخص اللہ کے رسول اور اس کے لائے ہوئے دین کی مخالفت کرتا ہے۔ تو پھر اس کی سزا وہی ہے جو آیت کے اگلے حصے میں بیان ہورہی ہے۔ سزا کی وجوہات امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ نبی ہمیشہ اپنی قوم کی زبان میں ان کو دین کی دعوت دیتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا قانون ہے ۔ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم ہم نے رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ کسی کو کوئی اشتباہ نہ رہے کہ اللہ کا نبی کس چیز کی طرف دعوت دے رہا ہے ۔ لہٰذا جب کوئی نبی اپنی قوم کو انہی کی زبان میں سمجھائے ، پھر قوم کا کوئی آدمی دعوت کو سن کر اس کا انکار کرے ، تو وہ قطعی طور پر سزا کا مستحق ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ چار چیزیں انسان کو سزا کا مستحق بناتی ہیں۔ پہلی چیز پیدائشی فطرت ہے کہ اس اعتبار سے بھی کوئی انسان سزا یا جزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ دوسری چیز ملاء اعلیٰ کے فرشتے ہیں جو اچھا کام کرنے والوں کے لیے دعا اور برا کام کرنے والوں کے لیے بددعا کرتے ہیں لہٰذا یہ فرشتے بھی جزا وسزا کا سبب بنتے ہیں۔ فرمایا تیسری چیز شریعت مکتوبہ ہے۔ جب یہ نازل ہوتی ہے تو اس پر عمل کرنے والے جزا پاتے ہیں اور انکار کرنے والے سزا پاتے ہیں۔ پھر چوتھے درجے میں اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو بھیج کر ہدایت کا راستہ واضح کرتا ہے اس حجت کے اتمام پر بھی اللہ تعالیٰ جزا وسزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ اتباع کے درجات فرمایا کہ جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد اللہ کے رسول کی مخالفت کرے گا۔ ویتبع غیر سبیل المومنین اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے پر چلے گا۔ جیسا کہ بشیر منافق مومنوں کا راستہ چھوڑ کر مشرکوں کے ساتھ جاملا ، تو فرمایا ہم اس کو وہ سزا دیں گے جس کا ذکر آگے آرہا ہے اور یہ اس لیے کہ اس نے نبی کی اتباع چھوڑ کر دوسرا راتہ اختیار کیا ، حالانکہ نبی کا اتباع فرض ہے۔ اس سورة میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس لحاظ سے فرض ہے کہ وہ خالق اور مالک ہے اور نبی کی اطاعت اس کی رسالت کی وجہ سے لاز م ہے اور اس آیت کی رو سے تیسری چیز یہ آگئی ہے کہ مومنین کے راستے پر چلنا بھی فرض ہے اور مومنین وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے راستہ پرچلنے والے ہیں اور جن کا اعتقاد اور عمل بالکل صحیح ہے۔ یہ تینوں چیزیں درجہ بدرجہ آتی ہیں۔ دلائل شرعیہ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ مومنین سے مراد حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ ہیں ، جو آپ پر ایمان لائے ، آپ کی زیارت کی اور آپ کا اتباع کیا۔ پھر ان کا کسی بات پر اتفاق ہوجائے تو وہ دلیل شرعی بن جاتی ہے۔ گویا اجماع امت میں سب سے پہلے صحابہ ؓ کی جماعت آتی ہے اور جو کوئی ان کے طریقے کے خلاف کرے گا ، تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ صحیحین میں حضور ﷺ کے ارشاد مبارک کی شرح میں محدثین کرام فرماتے ہیں من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھورد جس شخص نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے تو وہ مردود ہے اس طریقے کے متعلق محدثین کرام فرماتے ہیں کہ دلائل شرعیہ چار ہیں اور کسی معاملہ کو سمجھنے کے لیے ان چارروں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ سب سے پہلے کتاب اللہ ہے ، دوسرے نمبر پر سنت رسول اللہ تیسرا اجماع صحابہ ؓ اور چوتھا قیاس ہے۔ اگر کوئی چیز پہلے تین دلائل سے ثابت نہ ہو ، تو پھر چوتھی دلیل کو بروے کار لایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ تمام چیزوں کی تفصیل قرآن پاک میں تو نہیں ہے ، وہاں تو اصول و ضوابط ہیں۔ پھر ان اصولوں کی بہت ، حد تک تشریح و تفسیر حضور ﷺ کے قول ، فعل یا تقریر سے ملے گی۔ مگر تمام مسائل وہاں سے بھی حل نہیں ہوں گے ، پھر اس مسئلہ کو امت کے بہترین لوگوں یعنی صحابہ ؓ پر پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ کسی نتیجہ پر متفق ہیں تو وہ حل ساری امت کے لیے واجب العمل ہے ورنہ ایسی بات میں مجتہدین اجتہاد کرکے مسئلہ کا حل نکالیں گے ، چناچہ یہ اجتہاد یا قیاس بھی شرعی دلیل ہے ۔ دندیا میں ہر روز نئے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا حکم واضح طور پر قرآن ، سنت اور اجماع صحابہ ؓ میں نہیں ملتا ، تو پھر ایسے مسائل قیاس و اجتہاد کے ذریعے ہی حل کیے جائیں گے اور ان پر عمل کرنا عام لوگوں کے لیے ضروری ہوگا ، فرماتے ہیں کہ ان چار دلائل شرعیہ میں سے دو مثبت ہیں یعنی قرآن وسنت ایسے دلائل ہیں جن کے ذریعے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ مثبت دلائل ہیں اور دو دلائل مظہر ہیں کہ ان کے ذریعے مسائل کا حل ظاہر ہوتا ہے اور یہ ہیں اجماع اور قیاس ظاہر ہے کہ جس چیز پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع اور قیاس۔ ظاہر ہے کہ جس چیز پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوگا اس کی ضرور کوئی نہ کوئی بنیاد ہوگی اور جو بات کوئی مجتہد بتلاتا ہے وہ بھی کسی دلیل کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے۔ مجتہد مطلوبہ مسئلہ کے لیے پہلے علت (CAUSE) دریافت کرتا ہے اور پھر اس علت کی بنیاد پر مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے ، لہٰذا یہ بھی شرعی دلیل کا درجہ رکھتی ہے۔ امام شافعی (رح) نے اس آیت سے اجماع کو ثابت کیا۔ بعض کتب میں لکھا ہے کہ امام شافعی (رح) کو اس معاملہ میں تردد تھا کہ اجماع کا ثبوت قرآن پاک کی کس آیت سے ہوتا ہے۔ چناچہ انہوں نے قرآن کریم کی تلاوت شروع کی آپ نے ایک دن میں تین دفعہ پورے قرآن پاک کی تلاوت کی مگر آپ کی تسلی نہ ہوئی۔ آپ متواتر تین دن تک تین تین مرتبہ اول سے آخر تک قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہے اور آخر کار اسی آیت پر آکر اٹک گئیویتبع غیر سبیل المومنین اب آپ کی تشفی ہوگئی کہ اجماع بھی قطعی دلیل شرعی ہے۔ کثرت تلاوت قرآن چوبیس گھنٹے میں دو مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت کرنا تو بہت سے صالحین امت کا معمول رہا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) رمضان المبارک کے دوران ایک مرتبہ دن کو اور ایک مرتبہ رات کو مکمل قرآن پاک پڑھتے تھے۔ امام بخاری (رح) ، یحییٰ بن معین (رح) اور یحییٰ بن سعید قطعان (رح) بھی ایسا ہی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دن رات میں دو مرتبہ قرآن پاک ختم کرتے تھے ۔ بعض صاحب کرامت بزرگوں نے اس سے بھی کم وقت میں قرآن حکیم کی تلاوت مکمل کی ہے خواجہ نظام الدین (رح) نے اپنے ملفوظات میں لکھا ہے کہ خواجہ بہائوالدین زکریاملتانی (رح) کے ایک مرید حسن افغان (رح) ہر روز سات سو مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ لوگوں نے خواجہ صاحب نظام الدین (رح) سے دریافت کیا کہ سات سو مرتبہ تو پھر تصور ہی میں کرتے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہے بلکہ آپ پورے الفاظ کے ساتھ تلاوت قرآن پاک کرتے تھے۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری (رح) جو ہمارے اکابرین میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ تلاوت ممکن ہے ۔ امام رازی (رح) نے اما م شافعی (رح) کے بارہ میں جو تین سو مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت کی روایت بیان کی ہے۔ وہ درست معلوم نہیں ہوتی۔ تین دن تین تین مرتبہ والی روایت صحیح ہے۔ امام محمد (رح) کا معمول تھا کہ آپ ہر روز دس پارے تلاوت فرماتے تھے مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) اور مولانا شیخ الہند (رح) بھی دس پارے تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ہمارے استاد اور شیخ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) بہت مصروف آدمی تھے ، مگر سات پارے روزانہ آپ بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ امیر المومنین حضرت عثمان غنی ؓ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پاک پڑھ جاتے تھے۔ ترمذی شریف میں موجود ہے کہ حضرت سعید بن جبیر تابعی (رح) بھی ایک رکعت میں پورا قرآن تلاوت کرتے تھے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کا کی (رح) دو رکعت میں پورا قرآن اور مزید چار پارے پڑھتے تھے حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید (رح) عصر اور مغرب کے درمیان پورا قرآن تلاوت کرلیتے یا پھر آپ صبح کی نماز کے بعد بیٹھتے اور طلوع شمس تک قرآن پاک پڑھ جاتے۔ یہ لوگ صاحب کرامت تھے۔ ہر آدمی کے بس کی یہ بات نہیں ہے۔ عام لوگوں کے لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ تین دن سے کم عرصہ میں تلاوت قرآن مکمل نہ کی جائے ایسا کروگے تو سمجھ نہیں سکوگے ، مگر خاص لوگوں کا معاملہ اور ہے ، وہ الفاظ اور مضامین کی تفہیم کے ساتھ کم سے کم عرصہ میں قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرلیتے تھے۔ مسلک امام ابوحنیفہ (رح) اجماع کے متعلق اما مابوحنیفہ (رح) کا مسلک بھی یہ ہے کہ جس مسئلہ پر امت کا پہلا طبقہ خصوصاً صحابہ کرام ؓ متفق ہوں ، اس کو مانناضروری ہے اور اس کے خلاف چلنا گمراہی۔ امام طحاوی (رح) نے اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھا ہے کہ ہمارے امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے اللہ کی کتاب قرآن پاک کو لیتے ہیں ، اس کے بعد نبی (علیہ السلام) کی سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں پھر اجماع صحابہ ؓ میں سے متفق علیہ مسئلہ پر عمل کرتے ہیں۔ اور اگر صحابہ میں اختلاف پایا جائے۔ وہاں امام صاحب کسی قوم کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے بعد جب تابعین کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو فرماتے ہیں۔ نحن رجال وھم رجال یعنی وہ تحقیق کے شاہسوار ہیں ، ہم بھی تحقیق کرتے ہیں اور جو بات ہیں ہمیں کتاب وسنت اور اجماع کے مطابق معلوم ہوگی ، اس کو اختیار کریں گے۔ آپ صحابہ ؓ کے اجماع تک ہر فیصلہ شدہ مسئلہ کو تسلیم کرتے ہیں ، اگر وہاں تک کوئی حکم معلوم نہ ہو تو پھر اجتہاد کرتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کا مسلک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی معرکۃ الاراء کتاب حجۃ اللہ البالغہ قوانین اسلام کی تشریح ہے اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے میں حدیث کی شرح بیان کی گئی ہے اور دوسرے میں کلی قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں اسلام کا مکمل نظام پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ بارہ سو سال میں ایسی بلند پایہ کتاب نہیں لکھی گئی۔ آپ بارہویں صدی کے مجدد ، محدث ہفسر اور صاحب طریقت بزرگ ہوئے ہیں۔ چار پانچ پشتوں تک آپ کا سارا خاندان اسی پایہ کا ہوا ہے۔ آپ کے والد ، بیٹے اور پوتے دین کے شیدائی ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسلام کی خاطر پوری قوتیں صرف کردیں اور پوری دنیا خصوصاً برصغیر میں دین کی بےپایاں خدمت انجام دی۔ آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ اگر ہماری تحریر کتاب اللہ کے خلاف ہو یا سنت رسول کے خلاف ہو ، یا اجماع قرون مشہوردلہا بالخیر کے خلاف ہوفانہ خطاء تو سمجھ لینا کہ یہ غلطی ہے رحم اللہ من ایقظنا من سنتنا اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو ہمیں ہماری غلطی سے آگاہ کرے گا۔ قرون مشہودلہا بخیر سے آپ کی مراد وہ زمانہ ہے جس کی بہتری کی گواہی دی گئی ہے حضور ﷺ کا ارشاد خیرالقرون قرنی ثمر الذین یلونھم ثم الذین یلونھم یعنی بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر جو ان کے ساتھ ملنے والے ہیں اور پھر جو ان کے ساتھ ملنے والے ہیں۔ غرضیکہ آپ بھی اجماع صحابہ ؓ کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ سب سے پہلے کتاب اللہ ، پھر سنت رسول اللہ پھر اجماع اور پھر اجتہاد۔ اگر ہمارے اجتہاد میں کوئی غلطی ہوجائے تو وہ ہمارا مذہب نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ ایک تحقیقی بات ہوگی۔ اس سے روشنی تو حاصل ہوتی رہے گی۔ مگر اسے بطور عقیدہ اور عمل نہیں اپنایا جاسکتا۔ فرقہ بندی کی وجہ۔ فرماتے ہیں کہ اجماع امت کا ماننا اس لیے ضروری ہے کہ یہ مومنین کا راستہ ہے۔ وہ مومنین جو اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے رسول کا اتباع کرتے ہیں۔ جو شخص ان کے راستے کو چھوڑ دے گا وہ یقینا گمراہ ہوجائے گا۔ تمام فرقے اسی لیے وجود میں آئے ہیں کہ یہ قرآن وسنت کے مرکز سے ہٹ گئے۔ اگر یہ لوگ یتبع غیر سبیل المومنین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مرکز قائم رہتے تو گمراہ نہ ہوتے ، فکری عملی اور اخلاقی گمراہی مرکز سے ہٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مرزا قادیانی اسی مرکز سے ہٹ کر گمراہ ہوا۔ سرسید نے من مانی تاویلیں کیں ، معجزات کا انکار کیا تو گمراہ ہوا۔ علامہ مشرقی نے بھی یہیں سے ٹھوکر کھائی۔ پرویز نے قرآن پاک کے نئے نئے معافی بنائے اور اسی وجہ سے گمراہ ہوا۔ غرض یہ کہ جتنے بھی فرقے ہیں وہ سب اسی نقطے پر آکر بھٹکتے ہیں۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری (رح) فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں بہت سی باتیں آتی ہیں مگر جہاں عقیدے کا معاملہ آتا ہے ، میں کہتا ہوں کہ ان کو نہیں مانوں گا۔ میں تو وہی بات مانوں گا جو جمہور سے تسلیم کی ہے اور جس پر صحابہ کرام ؓ کا اتفاق ہے۔ حضرت جنید بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں بڑے بڑے نکات آتے ہیں ، مگر جب تک کتاب وسنت کے دو گواہ موجود نہ ہوں ، میں کسی چیز کو نہیں مانوں گا۔ غرض یہ کہ دلائل شرعیہ میں تیسرا نمبر اجماع امت کا ہے اس میں صحابہ کرام ؓ کا اجماع اول درجہ میں ہے جس معاملہ میں ان کا اتفاق ہو ، اس کے خلاف چلنا گمراہی ہے۔ توفیق خدا وندی فرمایا جو اللہ کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت واضح ہوگئی۔ اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے طریقے کی پیروی کرے گا۔ نولہ ماتولی تو ہم پھیردیں گے اس کو اسی طرف جس طرف اس نے رخ کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ہر نیک وبدکام کے لیے توفیق دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے جب کوئی شخص برائی کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہاری توفیق سلب نہیں کرتے اگر اسی راستے پر جانا چاہتے ہو تو جائو۔ اس معاملہ میں تم اپنے فعل میں مختار ہو۔ نیک کام کرنا چاہو تو اس کی توفیق بھی دیتے ہیں اور کفر شرک میں مبتلا ہونا چاہو تو اس سے بھی ہم روکتے نہیں۔ البتہ یہ ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کا حساب کتاب تم لے سے لیں گے۔ اس وقت جدھر جانا چاہو ہم اسی طرف پھیر دیں گے۔ اجتماعیت کی اہمیت حضور ﷺ کا ارشاد ہے علیکم بالجماعۃ یعنی جماعت کو لازم پکڑو۔ جماعت سے علیحدگی اختیار نہ کرو کیونکہ من شذ شذ فی النار ترمذی شریف کی روایت ہے کہ جو جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں جاپڑا۔ فرمایا جب تک کوئی شخص جماعت کے ساتھ منسلک رہے گا شیطان کے حملہ سے محفوظ رہے گا جو بکری ریوڑ کے اندر رہتی ہے وہ بھیڑیے کے حملے سے بچ جاتی ہے اور جو ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے وہ درندوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح شیطان بھی اس شخص پر مسلط ہوتا ہے جو جماعت سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کی اجماعیت کے خلاف چلنے والا آدمی شیطان کا شکار ہو کر گمراہ ہوجائے گا۔ افسوس کا مقام ہے کہ اہل اسلام کی اجتماعیت ایک زمانہ سے بگڑچ کی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے عقیدے اور عمل بگڑ چکے ہیں۔ فرمایا ہم ایسے شخص کو اس کی خواہش کے مطابق پھیردیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگاونصلہ جھنم آخر کار ہم اسے جہنم میں داخل کرینگے کیونکہ ہدایت کے واضح ہونے کے بعد جماعت کے راستہ سے الگ ہوگیا اس نے اللہ کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو شخص جہنم میں پہنچ گیا وساء ت مصیراً وہ تو لوٹ کر جانے کی بہت ہی بری جگہ ہے ۔ ایسا شخص ہمیشہ کے لیے ناکام ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی مذمت کے ساتھ ساتھ اجماع امت کا مسئلہ بھی سمجھادیا کہ ہمیشہ جماعت کو لازم پکڑو ، سلف صالحین کے مسلک پر قائم رہو ، اس کے خلاف چلنے والا گمراہ ہو کر جہنم میں داخل ہوگا۔
Top