Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 128
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا١ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
وَاِنِ : اور اگر امْرَاَةٌ : کوئی عورت خَافَتْ : ڈرے مِنْۢ بَعْلِھَا : اپنے خاوند سے نُشُوْزًا : زیادتی اَوْ : یا اِعْرَاضًا : بےرغبتی فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْهِمَآ : ان دونوں پر اَنْ يُّصْلِحَا : کہ وہ صلح کرلیں بَيْنَهُمَا : آپس میں صُلْحًا : صلح وَالصُّلْحُ : اور صلح خَيْرٌ : بہتر وَاُحْضِرَتِ : اور حاضر کیا گیا (موجود ہے) الْاَنْفُسُ : طبیعتیں الشُّحَّ : بخل وَاِنْ : اور اگر تُحْسِنُوْا : تم نیکی کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو خَبِيْرًا : باخبر
اگر کوئی عورت خوف کھائے اپنے خاوند کی طرف سے نافرمانی یا اعراض کا ، تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے اور حاضر کیا گیا ہے جانوں کے پاس بخل کو اور اگر تم نیکی کرو اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو پس بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کام کرتے ہو اس کی خبر رکھنے والا ہے
ربط آیات گزشتہ دروس میں بعض معاشرتی مسائل کا تذکرہ تھا ، عورتوں ، یتیم بچیوں اور دیگر کمزور طبقات کے متعلق حکم دیا گیا تھا کہ ان کے حقوق ادا کرو اور اس ضمن میں اس سورة کی ابتداء میں اسی موضوع پر نازل ہونے والی آیات کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ کہ ان طبقات پر وہی احکام لاگو ہیں اور انہی سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ عورتوں کے نکاح اور مہر کا خصوصی ذکر تھا کہ ان کے مقرر مہر ادا کرو۔ یتیم بچیوں کے متعلق سرپرستوں کو تنبیہ تھی کہ اگر ان سے خود نکاح کرنا چاہو ، تو ان کا مہر پورا ادا کرو ، اور باقی حقوق بھی بطریق احسن پورے کرو اور اگر خود نکاح نہ کرنا چاہو ، تو انہیں دوسری جگہ نکاح کرنے سے نہ روکو اور نہ ان کے مال پر ناجائز تصرف رکھو۔ ان کمزور طبقات کو اللہ نے باقی لوگوں کے لیے بطور معیار مقرر فرمایا کہ اگر ان طبقات کے ساتھ انصاف کروگے تو باقی لوگوں کے ساتھ بھی انصاف کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہی طبقہ انصاف سے محروم رہا تو پھر باقیوں کے ساتھ بھی عدل نہیں ہوگا ، اور اسی طرح پوری سوسائٹی جائز حقوق سے محروم ہوجائے گی۔ میاں بیوی میں مخاصمت کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کے بعد آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والے کسی ممکنہ اختلاف اور پھر اس کے تصیفہ کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے اور قریب ترین تعلقات قائم ہوتے رہے زوجین کے درمیان مخاصمت کا پیدا ہوجانا بعید از قیاس نہیں کسی ایسی صورت حال کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا وان امراۃ خافت من بعلھانشوزا اواعراضاً اور اگر عورت خوف کھاتی ہے اپنے شوہر کی طرف سے اختلاف کا یا اعراض کا۔ دراصل نشز کا لغوی معنی ابھار ہوتا ہے ، جیسے عربی شاعر کہتا ہے فقد نشزالشرسوف والتصق المعا۔ یعنی پسلیاں فاقے کی وجہ سے ابھر گئیں اور آنتیں ساتھ مل گئیں۔ تو اس نشوز کے لفظ میں لڑائی جھگڑا۔ اختلاف رائے ، نفرت ، ایذا رسانی ، تحقیر وغیرہ ساری چیزیں آتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اگر عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے کسی قسم کی زیادتی کا ڈر ہو دونوں کے مزاجوں میں موافقت موجود نہیں یا خاوند اعراض کرتا ہے ، بیوی کی طرف پوری توجہ نہیں دیتا ، تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فلا جناح علیھا ان یصلحا بینھا صلحا ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں ، کیونکہ والصلح خیر صلح بہر صورت بہتر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب نکاح ہو ہی گیا ہے۔ تو اب کوشش یہی کریں کہ یہ رشتہ ازدواج قائم رہے اور علیحدگی کی نوبت نہ آئے تو بہتر ہے۔ صلح وسیع تر مفہوم میں مفسرین کرام اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنیادی طور پر تو میاں بیوی کے درمیان مخاصمت اور پھر اس کی اصلاح کے متعلق ہے مگر اپنے وسیع تر مفہوم کے پیش نظر یہ آیت بڑی بڑی پارٹیوں ، گروہوں اور ملکوں کے درمیان تنازعات اور ان کے تصفیہ کے لیے بھی راہنمائی کرتی ہے۔ جھگڑا دو افراد کے درمیان ہو یا دو خاندانوں کے درمیان دو پارٹیاں ہوں یا دو سلطنتیں اختلافات ہر جگہ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو فریقین کو آپس میں صلح کرلینی چاہیے اور نتائج کے اعتبار سے ہر متعلقہ فریق کے لیے صلح ہی بہتر ہے۔ یہی بات سورة حجرات میں اس طرح بیان کی گئی ہے وان طائفتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما اگر مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہوجائے تو ان میں صلح کرادیا کرو۔ اور جو پارٹی سرکشی اختیار کرے ، اس پر دبائو ڈال کر صلح پر مجبور کرنا چاہیے کہ اسی میں ان کی بہتری ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ہماری ملت کی مشکلات کی وجہ احکام الٰہی سے روگردانی ہے۔ آج ملت اسلامیہ کے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین پر عمل پیرا ہیں۔ جھگڑے سے متعلق ان واضح احکام کے باوجود دو مسلمان ملکوں کے درمیان کئی سال سے جنگ جاری ہے مگر مصالحت کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کریں اور ایران عراق کے درمیان تصفیہ کرائیں۔ اور پھر اگر ان میں سے کوئی فریق ناجائز طور پر اپنی بات پر اڑا ہوا ہے اور مصالحت پر آمادہ نہیں ہوتا ، تو سورة حجرات کے احکام کے مطابق باقی عالم اسلام کو اسے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی سے باز آجائیں افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان ممالک اور دیگر عالمی اداروں کی کوشش کے باوجود یہ جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ 1 ؎ درس کے وقت عراق ایران جنگ جاری تھی لیکن درس کی طباعت کے وقت ختم ہوچکی تھی۔ (فیاض) اگر فریقین قرآنی احکام پر عمل کرتے تو اتنا جانی اور مالی نقصان نہ اٹھاتے اس ضمن میں حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد بھی ہے جو ترمذی شریف اور دیگر کتب میں موجود ہے کہ اہل اسلام کے درمیان ہر صلح جائز ہے الاصلحاً احل حراماً اوحرم حلالاً سوائے اس صلح کے جس کی بنیاد حرام کو حلال یا حلال کو حرام بنانا ہو۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی صلح جائز اور باعث برکت ہے۔ صلح کی اقسام اور شرائط فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ صلح کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم اقرار ، دوسری سکوت اور تیسری انکار ہے۔ پہلی قسم کے متعلق فرمایا کہ اگر کوئی فریق دعویٰ کرے اور دوسرا فریق اس کو تسلیم کرلے ، اپنی غلطی کا اقرار کرلے تو صلح کرانا آسان ہوجاتا ہے دوسری صورت میں اگر کوئی فریق اپنے خلاف لگائے گئے الزام کی نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ تکذیب……… بلکہ سکوت اختیار کرتا ہے۔ تو بھی مصالحت کی بنیاد موجود ہوتی ہے اور اسے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔ باقی رہی تیسری قسم جس میں فریق ثانی دعویٰ کا انکار کرتا ہے تو اس معاملہ میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ انکار کی صورت میں صلح جائز نہیں البتہ باقی ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ صلح اس صورت میں بھی جائز ہے اور مقصد جھگڑے کو ختم کرنا ہے۔ اور جیسا کہ اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ صلح ہی بہتر ہے۔ جب صلح کے لیے گفت و شنید ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ فریقین کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ اور اس کی صورت یہی ہوتی ہے کہ ہر فریق اپنے حق میں کمی کرکے دوسرے کے حق کو تسلیم کرلے اور اس طرح کچھ لے کر اور کچھ دے کر معاملہ کو ختم کیا جاسکتا ہے میاں بیوی کا معاملہ اس آیت کا اصل موضوع ہے۔ تو یہاں پر بھی اگر عورت سمجھتی ہے کہ خاوند کا دل اس سے بھر گیا یا وہ اس سے خوش نہیں ہے ، تو اسے چاہیے کہ وہ خاوند کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے موقف میں لچک پیدا کرے ، اپنے کسی حق میں کمی کردے ، مثلاً اگر پہلے دو سوروپے خرچہ مقرر ہے تو اسے کم کرکے سو روپے کردے۔ یا مہر کا کچھ حصہ معاف کردے۔ یا کوئی دیگر مالی فائدہ پہنچائے جس سے خاوند کو بیوی کی وفاداری کا یقین دلایا جاسکے تو یہی چیز صلح کی بنیاد بن سکتی ہے اور فریقین کے درمیان جھگڑے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ صلح کی مثال حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد حضور ﷺ نے حضرت سودہ ؓ سے نکاح کیا۔ چونکہ آپ زیادہ معمر تھیں کچھ عرصہ بعد حضور ﷺ نے ان کو علیحدہ کرنے کا ارادہ کیا۔ جب ام المومنین کو پتہ چلا تو انہوں نے عرض کیا حضور ! مجھے تو دنیاداری کی چنداں رغبت نہیں ، مجھے آپ طلاق نہ دیں ، میں اپنی باری کے متعلق پنا حق حضرت عائشہ ؓ کو دیتی ہوں ، آپ میری بجائے بھی اس کے ہاں ٹھہرا کریں۔ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ قیمت کے دن میرا نام آپ کی ازواج میں شامل ہو۔ حضو رعلیہ السلام نے اس پیش کش کو قبول فرمایا۔ چناچہ آپ باقی بیویوں کے ہاں ایک ایک دن قیام فرمات تھے اور حضرت عائشہ ؓ کے ہاں دو دن۔ بہرحال یہ میاں بیوی کے درمیان مصالحت کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ یہاں پر یہ اصول مدنظر رہنا چاہیے ، کہ اگر عورت اپنا حق کسی وقت چھوڑتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس حق سے دست بردار ہوگئی ہے ، عورت مناسب وقت پر اپنے حق کو بحال کرنے کی بھی مجاز ہے۔ اگر کسی عورت نے کسی وقت اپنی باری کی قربانی دی ہے ، تو وہ اس کی بحالی کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ صلح ہی بہتر ہے اور علیحدگی کی نوت نہیں آنی چاہیے۔ حرص اور بخل عام طور پر جھگڑے کی بنیاد مالی معاملات ہوتے ہیں۔ ایک فریق دوسرے کا حق غصب کرتا ہے۔ یا اس کے حق میں کمی کرتا ہے تو دوسرے فریق کا رنجیدہ خاطر ہونا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔ ” انہ لحب الخیر لشدید یعنی مال کی محبت میں انسان بڑاپکا ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا وتحبون المال حباً حباً تم مال کے ساتھ پوری پوری محبت کرتے ہو۔ یہی محبت حرص پیدا کرتی ہے اور پھر اگر یہ شدید تر ہوجائے تو بخل کو جنم دیتی ہے انسان مال اکٹھا کرنا تو اپنا حق سمجھتا ہے۔ مگر اسے خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صلح کی بنیاد عموماً مالی حقوق میں کمی یا دستبرداری ہوتی ہے مگر واحضرت الانفس الشح حاضر کی گئی ہے نفسوں کے پاس حرص اور بخل ، یعنی انسان فطری طور پر حریض اور بخیل واقع ہوا ہے۔ یہ مال سے محبت کرتا ہے لہٰذا اپنے حق میں کمی یا اس سے دست برداری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مال سے اس قدر محبت نہ کرو کہ صلح کی بنیاد ہی ختم ہوجائے اگر ضرورت ہو تو مالی قربانی سے بھی دریغ نہ کرو کیونکہ مال آنی جانی چیز ہے اور اس کے مقابلے میں صلح اور حسن معاشرت بیش قیمت ہے۔ لہٰذا اپنے حقوق کی قربانی دے کر بھی اگر صلح کرنی پڑے۔ تو اس سے دریغ نہ کرو۔ مال کی محبت مال کی فطری محبت کے باوجود بزرگانِ دین اپنی تربیت کے ذریعے اس مادہ کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کی ادائیگی مال کی محبت میں کمی کا ایک ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے مال کی محبت پر قابو پا لیا ، وہ کامیاب ہوگیا قرآن پاک میں موجود ہے ” ومن یوق شح نفسہ فالئک ہم المفلحون “ جو شخص بخل سے بچا لیا گیا ، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوگیا۔ حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص نے دوسرے کی تعریف کی کہ وہ نیک آدمی ہے ، نماز روزے کا بڑا خیال رکھتا ہے۔ نوافل ادا کرتا ہے ، مگر اس میں بخل کا مادہ پایا جاتا ہے تو نبی (علیہ السلام) نے فرمایا ای دائٍ ادوء من البخل بخل سے بڑھ کر کون سی بیماری ہو سکتی ہے۔ یہ بہت بری خصلت ہے مومن کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں۔ بہرحال فرمایا کہ انسان میں حرص اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ کہ وہ اللہ کے دین اور آخرت سے غافل ہوجائے۔ مال بلاشبہ انسان کی مجبوری ہے اس کی اپنی ترغیبات ہوتی ہیں۔ مگر اللہ کے بعض بندوں کی تربیت کی وجہ سے حرص کا مادہ بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔ چناچہ امام اوزاعی (رح) کا مقولہ ہے کہ میرے سامنے سونے کی ڈبی بھی رکھی ہو تو مجھے اس میں کچھ رغبت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں مگر فرمایا کہ عام طور پر انسان حرص اور بخل میں مبتلا ہوتے ہیں جو کہ ان کی فطری کمزوری ہے۔ نیکی اور تقویٰ فرمایا اگر کچھ لے دے کر صلح کی صورت پید ا ہوجائے تو یہ بھی درست ہے تاکہ زندگی کے دن خوش اسلوبی سے گزر جائیں۔ تاہم وان تحسنوا اگر تم نیکی کرو و تتقوا اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔ کسی قسم کی زیادتی نہ کرو دوسرے فریق پر ناجائز دباؤ نہ ڈالو اور جس قدرممکن ہو ، عورت کو سہولت بہم پہنچاؤ ۔ فان اللہ کان بما تعلمون خبیراً تو اللہ تعالیٰ تمہارے امور سے باخبر ہے۔ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ تمہاری صلح و مخاصمت نیکی اور پرہیزگاری اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے وہ تمہارے کوائف سے بھی واقف ہے اور تمہاری ضرورتوں کو بھی جانتا ہے۔ اگر تم اپنی طرف سے دوسریف ریق کو رعایت دو گے ، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل سے بہت کچھ عطا کر دے گا اور پھر آخرت میں اس کا اجر تو بہت وسیع ہے۔ لہٰذا دوسرے کے ساتھ حتی الامکان حسن سلوک کی کوشش کیا کرو۔ اسی لیے فرمایا کہ خود نقصان اٹھا کر بھی اگر دوسرے کے ساتھ نیکی کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو گے ، تو اللہ تعالیٰ سے بہتر اجر پاؤ گے۔ فطری میلان متعدد ازواج میں سے کسی ایک طرف زیادہ میلان بھی فطری امر ہے اور عام طور پر انسان خواہش کے باوجود اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو بھی دہرایا ہے۔ ولن تستطیعوا ان تعدلوابین النساء ولوحرصتم اور تم ہرگز طاقت نہیں رکھتے کہ عورتوں کے درمیان پورے طریقے سے انصاف کرسکو ، اگرچہ تم کتنی ہی حرص کرو۔ چاہنے کے باوجود عورتوں کے درمیان مکمل انصاف بڑا مشکل کام ہے۔ چناچہ نبی حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ خدا تعالیٰ کیق انون کے مطابق ظاہری طور پر اپنی بیویوں کی رہائش ، کھانے ، لباس اور لین دین میں برابری کی کوشش کرو۔ حضور ﷺ خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں مگر ساتھ یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے کہ اے مولا کریم ! میں یہ کام اپنی طاقت کے مطابق انجام دے رہا ہوں ، اور جس معاملہ میں استطاعت نہیں رکھتا یعنی جو چیز میرے بس میں نہیں ہے اس میں میرا مؤاخذہ نہ کرنا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ طبعی میلان کسی ایک طرف ہو جسے میں تقسیم نہ کرسکوں۔ اسی لیے فرمایا کہ تم خواہش کے باوجود عورتوں کے درمیان مکمل انصاف نہ کرسکو گے۔ مگر یادرکھو ! خدا تعالیٰ کا قانون یہ ہے فلا تمیلوا کل المیل کسی ایک طرف مکمل طور پر نہ جھک جاؤ ۔ کہیں ایسا نہ ہوا فتذروھا کا لمعلقۃ کہ دوسری بیوی کو درمیان میں لٹکتا چھوڑ دو ۔ نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھو اور اس کا حق بھی ادا کرو۔ ایک طرف بہت زیادہ رغبت ہو اور دوسری طرف بالکل نہ ہو۔ یہ عدل کے خلاف ہے ، اگر تھوڑا بہت فرق ہوگا تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیگا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں۔ اور اس نے ایک کے ساتھ التفات کیا اور دوسری کو نظر انداز کردیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حالت میں پیش ہوگا کہ اس کا آدھا جسم فالج زدہ ہوگا۔ وہ گھسٹتا ہوا اللہ کی عدالت میں پیش ہوگا۔ کیونکہ اس نے بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویں کی دو بیویاں تھیں مگر اولاد سے محروم رہے۔ تاہم آپ بیویوں کے ساتھ سلوک میں نہایت محتاط تھے۔ جب کوئی چیز باہر سے آتی تو آپ ترازو سے تول کر برابر برابر تقسیم کرتے کہ کسی کے حصے میں کمی بیشی نہ ہوجائے۔ فرمایا عورتوں کے درمیان حتی الامکان عدل قائم کرنے کی کوشش کرو ان تصلحوا و تتقوا پھر اگر تم صلح کرو اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو فان اللہ کان غفوراً رحیماً تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ وہ چھوٹی موٹی غلطیوں کو معاف فرما دے گا۔ تم بہرحال اصلاح کی پوری پوری کوشش کرو۔ علیحدگی کی صورت فرمایا اگر مصالحت کے تمام راستے مسدود ہوجائیں اور اکٹھا رہنے میں حدود اللہ کی خلاف ورزی کا احتمال ہو ، تو پھر علیحدگی بہتر ہے وان یتفرقا اگر میاں بیوی جدا ہوجائیں ، طلاق کی نوبت آجائے تو شریعت محمدی میں یہ بھی روا ہے۔ طلاق کو اس قدر اَنا کا مسئلہ نہ بنالیا جائے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجاؤ ، بلکہ اسے بھی اللہ کی مشیت سمجھ کر قبول کرلو۔ اللہ تعالیٰ اس میں بھی بہتری پیدا کردیں گے فرمایا یغن اللہ کلاً من سعتہ اللہ تعالیٰ فریقین کو اپنی وسعت سے مستغنی کر دیگا ۔ اگر علیحدگی نیک نیتی اور اصلاح کے ارادے سے ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ اور مرد ہر دو کے لیے کوئی دوسراراستہ پیدا فرما دے گا جس سے ان دونوں کی زندگی بہتر طور پر بسر ہو سکے۔ لہٰذا علیحدگی کی صورت میں بالکل بددل نہیں ہوجانا چاہئے۔ بلکہ اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور آئندہ زندگی کے لیے بہتر لائحہ عمل تجویز کرنا چاہئے وکان اللہ واسعاً حکیماً اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا حکمت والا ہے۔ وہ مسب الاسباب ہے۔ تمام اسباب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ، وہ تمہارے لیے کوئی بہتر صورت پیدا کر دے گا۔
Top