Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 128
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا١ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
وَاِنِ
: اور اگر
امْرَاَةٌ
: کوئی عورت
خَافَتْ
: ڈرے
مِنْۢ بَعْلِھَا
: اپنے خاوند سے
نُشُوْزًا
: زیادتی
اَوْ
: یا
اِعْرَاضًا
: بےرغبتی
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْهِمَآ
: ان دونوں پر
اَنْ يُّصْلِحَا
: کہ وہ صلح کرلیں
بَيْنَهُمَا
: آپس میں
صُلْحًا
: صلح
وَالصُّلْحُ
: اور صلح
خَيْرٌ
: بہتر
وَاُحْضِرَتِ
: اور حاضر کیا گیا (موجود ہے)
الْاَنْفُسُ
: طبیعتیں
الشُّحَّ
: بخل
وَاِنْ
: اور اگر
تُحْسِنُوْا
: تم نیکی کرو
وَتَتَّقُوْا
: اور پرہیزگاری کرو
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
بِمَا تَعْمَلُوْنَ
: جو تم کرتے ہو
خَبِيْرًا
: باخبر
اگر کوئی عورت خوف کھائے اپنے خاوند کی طرف سے نافرمانی یا اعراض کا ، تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے اور حاضر کیا گیا ہے جانوں کے پاس بخل کو اور اگر تم نیکی کرو اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو پس بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کام کرتے ہو اس کی خبر رکھنے والا ہے
ربط آیات گزشتہ دروس میں بعض معاشرتی مسائل کا تذکرہ تھا ، عورتوں ، یتیم بچیوں اور دیگر کمزور طبقات کے متعلق حکم دیا گیا تھا کہ ان کے حقوق ادا کرو اور اس ضمن میں اس سورة کی ابتداء میں اسی موضوع پر نازل ہونے والی آیات کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ کہ ان طبقات پر وہی احکام لاگو ہیں اور انہی سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ عورتوں کے نکاح اور مہر کا خصوصی ذکر تھا کہ ان کے مقرر مہر ادا کرو۔ یتیم بچیوں کے متعلق سرپرستوں کو تنبیہ تھی کہ اگر ان سے خود نکاح کرنا چاہو ، تو ان کا مہر پورا ادا کرو ، اور باقی حقوق بھی بطریق احسن پورے کرو اور اگر خود نکاح نہ کرنا چاہو ، تو انہیں دوسری جگہ نکاح کرنے سے نہ روکو اور نہ ان کے مال پر ناجائز تصرف رکھو۔ ان کمزور طبقات کو اللہ نے باقی لوگوں کے لیے بطور معیار مقرر فرمایا کہ اگر ان طبقات کے ساتھ انصاف کروگے تو باقی لوگوں کے ساتھ بھی انصاف کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہی طبقہ انصاف سے محروم رہا تو پھر باقیوں کے ساتھ بھی عدل نہیں ہوگا ، اور اسی طرح پوری سوسائٹی جائز حقوق سے محروم ہوجائے گی۔ میاں بیوی میں مخاصمت کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کے بعد آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والے کسی ممکنہ اختلاف اور پھر اس کے تصیفہ کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے اور قریب ترین تعلقات قائم ہوتے رہے زوجین کے درمیان مخاصمت کا پیدا ہوجانا بعید از قیاس نہیں کسی ایسی صورت حال کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا وان امراۃ خافت من بعلھانشوزا اواعراضاً اور اگر عورت خوف کھاتی ہے اپنے شوہر کی طرف سے اختلاف کا یا اعراض کا۔ دراصل نشز کا لغوی معنی ابھار ہوتا ہے ، جیسے عربی شاعر کہتا ہے فقد نشزالشرسوف والتصق المعا۔ یعنی پسلیاں فاقے کی وجہ سے ابھر گئیں اور آنتیں ساتھ مل گئیں۔ تو اس نشوز کے لفظ میں لڑائی جھگڑا۔ اختلاف رائے ، نفرت ، ایذا رسانی ، تحقیر وغیرہ ساری چیزیں آتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اگر عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے کسی قسم کی زیادتی کا ڈر ہو دونوں کے مزاجوں میں موافقت موجود نہیں یا خاوند اعراض کرتا ہے ، بیوی کی طرف پوری توجہ نہیں دیتا ، تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فلا جناح علیھا ان یصلحا بینھا صلحا ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں ، کیونکہ والصلح خیر صلح بہر صورت بہتر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب نکاح ہو ہی گیا ہے۔ تو اب کوشش یہی کریں کہ یہ رشتہ ازدواج قائم رہے اور علیحدگی کی نوبت نہ آئے تو بہتر ہے۔ صلح وسیع تر مفہوم میں مفسرین کرام اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنیادی طور پر تو میاں بیوی کے درمیان مخاصمت اور پھر اس کی اصلاح کے متعلق ہے مگر اپنے وسیع تر مفہوم کے پیش نظر یہ آیت بڑی بڑی پارٹیوں ، گروہوں اور ملکوں کے درمیان تنازعات اور ان کے تصفیہ کے لیے بھی راہنمائی کرتی ہے۔ جھگڑا دو افراد کے درمیان ہو یا دو خاندانوں کے درمیان دو پارٹیاں ہوں یا دو سلطنتیں اختلافات ہر جگہ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو فریقین کو آپس میں صلح کرلینی چاہیے اور نتائج کے اعتبار سے ہر متعلقہ فریق کے لیے صلح ہی بہتر ہے۔ یہی بات سورة حجرات میں اس طرح بیان کی گئی ہے وان طائفتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما اگر مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہوجائے تو ان میں صلح کرادیا کرو۔ اور جو پارٹی سرکشی اختیار کرے ، اس پر دبائو ڈال کر صلح پر مجبور کرنا چاہیے کہ اسی میں ان کی بہتری ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ہماری ملت کی مشکلات کی وجہ احکام الٰہی سے روگردانی ہے۔ آج ملت اسلامیہ کے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین پر عمل پیرا ہیں۔ جھگڑے سے متعلق ان واضح احکام کے باوجود دو مسلمان ملکوں کے درمیان کئی سال سے جنگ جاری ہے مگر مصالحت کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کریں اور ایران عراق کے درمیان تصفیہ کرائیں۔ اور پھر اگر ان میں سے کوئی فریق ناجائز طور پر اپنی بات پر اڑا ہوا ہے اور مصالحت پر آمادہ نہیں ہوتا ، تو سورة حجرات کے احکام کے مطابق باقی عالم اسلام کو اسے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی سے باز آجائیں افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان ممالک اور دیگر عالمی اداروں کی کوشش کے باوجود یہ جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ 1 ؎ درس کے وقت عراق ایران جنگ جاری تھی لیکن درس کی طباعت کے وقت ختم ہوچکی تھی۔ (فیاض) اگر فریقین قرآنی احکام پر عمل کرتے تو اتنا جانی اور مالی نقصان نہ اٹھاتے اس ضمن میں حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد بھی ہے جو ترمذی شریف اور دیگر کتب میں موجود ہے کہ اہل اسلام کے درمیان ہر صلح جائز ہے الاصلحاً احل حراماً اوحرم حلالاً سوائے اس صلح کے جس کی بنیاد حرام کو حلال یا حلال کو حرام بنانا ہو۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی صلح جائز اور باعث برکت ہے۔ صلح کی اقسام اور شرائط فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ صلح کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم اقرار ، دوسری سکوت اور تیسری انکار ہے۔ پہلی قسم کے متعلق فرمایا کہ اگر کوئی فریق دعویٰ کرے اور دوسرا فریق اس کو تسلیم کرلے ، اپنی غلطی کا اقرار کرلے تو صلح کرانا آسان ہوجاتا ہے دوسری صورت میں اگر کوئی فریق اپنے خلاف لگائے گئے الزام کی نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ تکذیب……… بلکہ سکوت اختیار کرتا ہے۔ تو بھی مصالحت کی بنیاد موجود ہوتی ہے اور اسے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔ باقی رہی تیسری قسم جس میں فریق ثانی دعویٰ کا انکار کرتا ہے تو اس معاملہ میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ انکار کی صورت میں صلح جائز نہیں البتہ باقی ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ صلح اس صورت میں بھی جائز ہے اور مقصد جھگڑے کو ختم کرنا ہے۔ اور جیسا کہ اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ صلح ہی بہتر ہے۔ جب صلح کے لیے گفت و شنید ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ فریقین کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ اور اس کی صورت یہی ہوتی ہے کہ ہر فریق اپنے حق میں کمی کرکے دوسرے کے حق کو تسلیم کرلے اور اس طرح کچھ لے کر اور کچھ دے کر معاملہ کو ختم کیا جاسکتا ہے میاں بیوی کا معاملہ اس آیت کا اصل موضوع ہے۔ تو یہاں پر بھی اگر عورت سمجھتی ہے کہ خاوند کا دل اس سے بھر گیا یا وہ اس سے خوش نہیں ہے ، تو اسے چاہیے کہ وہ خاوند کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے موقف میں لچک پیدا کرے ، اپنے کسی حق میں کمی کردے ، مثلاً اگر پہلے دو سوروپے خرچہ مقرر ہے تو اسے کم کرکے سو روپے کردے۔ یا مہر کا کچھ حصہ معاف کردے۔ یا کوئی دیگر مالی فائدہ پہنچائے جس سے خاوند کو بیوی کی وفاداری کا یقین دلایا جاسکے تو یہی چیز صلح کی بنیاد بن سکتی ہے اور فریقین کے درمیان جھگڑے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ صلح کی مثال حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد حضور ﷺ نے حضرت سودہ ؓ سے نکاح کیا۔ چونکہ آپ زیادہ معمر تھیں کچھ عرصہ بعد حضور ﷺ نے ان کو علیحدہ کرنے کا ارادہ کیا۔ جب ام المومنین کو پتہ چلا تو انہوں نے عرض کیا حضور ! مجھے تو دنیاداری کی چنداں رغبت نہیں ، مجھے آپ طلاق نہ دیں ، میں اپنی باری کے متعلق پنا حق حضرت عائشہ ؓ کو دیتی ہوں ، آپ میری بجائے بھی اس کے ہاں ٹھہرا کریں۔ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ قیمت کے دن میرا نام آپ کی ازواج میں شامل ہو۔ حضو رعلیہ السلام نے اس پیش کش کو قبول فرمایا۔ چناچہ آپ باقی بیویوں کے ہاں ایک ایک دن قیام فرمات تھے اور حضرت عائشہ ؓ کے ہاں دو دن۔ بہرحال یہ میاں بیوی کے درمیان مصالحت کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ یہاں پر یہ اصول مدنظر رہنا چاہیے ، کہ اگر عورت اپنا حق کسی وقت چھوڑتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس حق سے دست بردار ہوگئی ہے ، عورت مناسب وقت پر اپنے حق کو بحال کرنے کی بھی مجاز ہے۔ اگر کسی عورت نے کسی وقت اپنی باری کی قربانی دی ہے ، تو وہ اس کی بحالی کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ صلح ہی بہتر ہے اور علیحدگی کی نوت نہیں آنی چاہیے۔ حرص اور بخل عام طور پر جھگڑے کی بنیاد مالی معاملات ہوتے ہیں۔ ایک فریق دوسرے کا حق غصب کرتا ہے۔ یا اس کے حق میں کمی کرتا ہے تو دوسرے فریق کا رنجیدہ خاطر ہونا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔ ” انہ لحب الخیر لشدید یعنی مال کی محبت میں انسان بڑاپکا ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا وتحبون المال حباً حباً تم مال کے ساتھ پوری پوری محبت کرتے ہو۔ یہی محبت حرص پیدا کرتی ہے اور پھر اگر یہ شدید تر ہوجائے تو بخل کو جنم دیتی ہے انسان مال اکٹھا کرنا تو اپنا حق سمجھتا ہے۔ مگر اسے خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صلح کی بنیاد عموماً مالی حقوق میں کمی یا دستبرداری ہوتی ہے مگر واحضرت الانفس الشح حاضر کی گئی ہے نفسوں کے پاس حرص اور بخل ، یعنی انسان فطری طور پر حریض اور بخیل واقع ہوا ہے۔ یہ مال سے محبت کرتا ہے لہٰذا اپنے حق میں کمی یا اس سے دست برداری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مال سے اس قدر محبت نہ کرو کہ صلح کی بنیاد ہی ختم ہوجائے اگر ضرورت ہو تو مالی قربانی سے بھی دریغ نہ کرو کیونکہ مال آنی جانی چیز ہے اور اس کے مقابلے میں صلح اور حسن معاشرت بیش قیمت ہے۔ لہٰذا اپنے حقوق کی قربانی دے کر بھی اگر صلح کرنی پڑے۔ تو اس سے دریغ نہ کرو۔ مال کی محبت مال کی فطری محبت کے باوجود بزرگانِ دین اپنی تربیت کے ذریعے اس مادہ کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کی ادائیگی مال کی محبت میں کمی کا ایک ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے مال کی محبت پر قابو پا لیا ، وہ کامیاب ہوگیا قرآن پاک میں موجود ہے ” ومن یوق شح نفسہ فالئک ہم المفلحون “ جو شخص بخل سے بچا لیا گیا ، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوگیا۔ حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص نے دوسرے کی تعریف کی کہ وہ نیک آدمی ہے ، نماز روزے کا بڑا خیال رکھتا ہے۔ نوافل ادا کرتا ہے ، مگر اس میں بخل کا مادہ پایا جاتا ہے تو نبی (علیہ السلام) نے فرمایا ای دائٍ ادوء من البخل بخل سے بڑھ کر کون سی بیماری ہو سکتی ہے۔ یہ بہت بری خصلت ہے مومن کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں۔ بہرحال فرمایا کہ انسان میں حرص اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ کہ وہ اللہ کے دین اور آخرت سے غافل ہوجائے۔ مال بلاشبہ انسان کی مجبوری ہے اس کی اپنی ترغیبات ہوتی ہیں۔ مگر اللہ کے بعض بندوں کی تربیت کی وجہ سے حرص کا مادہ بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔ چناچہ امام اوزاعی (رح) کا مقولہ ہے کہ میرے سامنے سونے کی ڈبی بھی رکھی ہو تو مجھے اس میں کچھ رغبت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں مگر فرمایا کہ عام طور پر انسان حرص اور بخل میں مبتلا ہوتے ہیں جو کہ ان کی فطری کمزوری ہے۔ نیکی اور تقویٰ فرمایا اگر کچھ لے دے کر صلح کی صورت پید ا ہوجائے تو یہ بھی درست ہے تاکہ زندگی کے دن خوش اسلوبی سے گزر جائیں۔ تاہم وان تحسنوا اگر تم نیکی کرو و تتقوا اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔ کسی قسم کی زیادتی نہ کرو دوسرے فریق پر ناجائز دباؤ نہ ڈالو اور جس قدرممکن ہو ، عورت کو سہولت بہم پہنچاؤ ۔ فان اللہ کان بما تعلمون خبیراً تو اللہ تعالیٰ تمہارے امور سے باخبر ہے۔ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ تمہاری صلح و مخاصمت نیکی اور پرہیزگاری اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے وہ تمہارے کوائف سے بھی واقف ہے اور تمہاری ضرورتوں کو بھی جانتا ہے۔ اگر تم اپنی طرف سے دوسریف ریق کو رعایت دو گے ، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل سے بہت کچھ عطا کر دے گا اور پھر آخرت میں اس کا اجر تو بہت وسیع ہے۔ لہٰذا دوسرے کے ساتھ حتی الامکان حسن سلوک کی کوشش کیا کرو۔ اسی لیے فرمایا کہ خود نقصان اٹھا کر بھی اگر دوسرے کے ساتھ نیکی کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو گے ، تو اللہ تعالیٰ سے بہتر اجر پاؤ گے۔ فطری میلان متعدد ازواج میں سے کسی ایک طرف زیادہ میلان بھی فطری امر ہے اور عام طور پر انسان خواہش کے باوجود اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو بھی دہرایا ہے۔ ولن تستطیعوا ان تعدلوابین النساء ولوحرصتم اور تم ہرگز طاقت نہیں رکھتے کہ عورتوں کے درمیان پورے طریقے سے انصاف کرسکو ، اگرچہ تم کتنی ہی حرص کرو۔ چاہنے کے باوجود عورتوں کے درمیان مکمل انصاف بڑا مشکل کام ہے۔ چناچہ نبی حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ خدا تعالیٰ کیق انون کے مطابق ظاہری طور پر اپنی بیویوں کی رہائش ، کھانے ، لباس اور لین دین میں برابری کی کوشش کرو۔ حضور ﷺ خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں مگر ساتھ یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے کہ اے مولا کریم ! میں یہ کام اپنی طاقت کے مطابق انجام دے رہا ہوں ، اور جس معاملہ میں استطاعت نہیں رکھتا یعنی جو چیز میرے بس میں نہیں ہے اس میں میرا مؤاخذہ نہ کرنا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ طبعی میلان کسی ایک طرف ہو جسے میں تقسیم نہ کرسکوں۔ اسی لیے فرمایا کہ تم خواہش کے باوجود عورتوں کے درمیان مکمل انصاف نہ کرسکو گے۔ مگر یادرکھو ! خدا تعالیٰ کا قانون یہ ہے فلا تمیلوا کل المیل کسی ایک طرف مکمل طور پر نہ جھک جاؤ ۔ کہیں ایسا نہ ہوا فتذروھا کا لمعلقۃ کہ دوسری بیوی کو درمیان میں لٹکتا چھوڑ دو ۔ نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھو اور اس کا حق بھی ادا کرو۔ ایک طرف بہت زیادہ رغبت ہو اور دوسری طرف بالکل نہ ہو۔ یہ عدل کے خلاف ہے ، اگر تھوڑا بہت فرق ہوگا تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیگا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں۔ اور اس نے ایک کے ساتھ التفات کیا اور دوسری کو نظر انداز کردیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حالت میں پیش ہوگا کہ اس کا آدھا جسم فالج زدہ ہوگا۔ وہ گھسٹتا ہوا اللہ کی عدالت میں پیش ہوگا۔ کیونکہ اس نے بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویں کی دو بیویاں تھیں مگر اولاد سے محروم رہے۔ تاہم آپ بیویوں کے ساتھ سلوک میں نہایت محتاط تھے۔ جب کوئی چیز باہر سے آتی تو آپ ترازو سے تول کر برابر برابر تقسیم کرتے کہ کسی کے حصے میں کمی بیشی نہ ہوجائے۔ فرمایا عورتوں کے درمیان حتی الامکان عدل قائم کرنے کی کوشش کرو ان تصلحوا و تتقوا پھر اگر تم صلح کرو اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو فان اللہ کان غفوراً رحیماً تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ وہ چھوٹی موٹی غلطیوں کو معاف فرما دے گا۔ تم بہرحال اصلاح کی پوری پوری کوشش کرو۔ علیحدگی کی صورت فرمایا اگر مصالحت کے تمام راستے مسدود ہوجائیں اور اکٹھا رہنے میں حدود اللہ کی خلاف ورزی کا احتمال ہو ، تو پھر علیحدگی بہتر ہے وان یتفرقا اگر میاں بیوی جدا ہوجائیں ، طلاق کی نوبت آجائے تو شریعت محمدی میں یہ بھی روا ہے۔ طلاق کو اس قدر اَنا کا مسئلہ نہ بنالیا جائے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجاؤ ، بلکہ اسے بھی اللہ کی مشیت سمجھ کر قبول کرلو۔ اللہ تعالیٰ اس میں بھی بہتری پیدا کردیں گے فرمایا یغن اللہ کلاً من سعتہ اللہ تعالیٰ فریقین کو اپنی وسعت سے مستغنی کر دیگا ۔ اگر علیحدگی نیک نیتی اور اصلاح کے ارادے سے ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ اور مرد ہر دو کے لیے کوئی دوسراراستہ پیدا فرما دے گا جس سے ان دونوں کی زندگی بہتر طور پر بسر ہو سکے۔ لہٰذا علیحدگی کی صورت میں بالکل بددل نہیں ہوجانا چاہئے۔ بلکہ اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور آئندہ زندگی کے لیے بہتر لائحہ عمل تجویز کرنا چاہئے وکان اللہ واسعاً حکیماً اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا حکمت والا ہے۔ وہ مسب الاسباب ہے۔ تمام اسباب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ، وہ تمہارے لیے کوئی بہتر صورت پیدا کر دے گا۔
Top