Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 131
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَقَدْ وَصَّيْنَا : اور ہم نے تاکید کردی ہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جنہیں کتاب دی گئی مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں اَنِ اتَّقُوا : کہ ڈرتے رہو اللّٰهَ : اللہ وَاِنْ : اور اگر تَكْفُرُوْا : تم کفر کرو گے فَاِنَّ : تو بیشک لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَنِيًّا : بےنیاز حَمِيْدًا : سب خوبیوں والا
اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور البتہ تحقیق ہم نے تاکیدی حکم دیا ہے ان لوگوں کو جن کو کتاب دی گئی ہے تم سے پہلے اور تم کو بھی یہی حکم دیا جاتا ہے کہ ڈرتے رہو اللہ تعالیٰ سے اور اگر تم کفر کرو گے پس بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ غنی (بےپروا) ہے اور تعریفوں والا ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں ، یتیم بچیوں اور کمزور طبقات کے حقوق کا ذکر فرمایا ، پھر میاں بیوی کے درمیان نزاع کی صورت میں صلح کرنے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا کہ اگر عورت سمجھتی ہے کہ خاوند اعراض کر رہا ہے تو وہ اپنے حقوق میں کمی کر کے خاوند کو صلح پر آمادہ کرسکتی ہے تاکہ ان کے درمیان نباہ کی صورت پیداہ و سکے۔ متعدد بیویوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے انصاف قائم رکھنے کی تاکیدفرمائی ، اللہ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کسی ایک عورت کی طرف مکمل جھکاؤ ہو۔ اور دوسری کو لٹکتا ہوا چھوڑ دیاجائے ، فرمایا قانون کے مطابق ہر ایک کے ساتھ عدل قائم کرنا چاہئے۔ اس کے باوجود اگر کوئی خامی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ فرمایا اگر میاں بیوی میں نباہ کی کوئی صورت نظر نہ آئے اور علیحدگی تک نوبت آجائے تو وہ بھی خوش اسلوبی سے انجام پانی چاہئے۔ طلاق کو ایک مستقل دشمنی کی صورت نہیں دینی چاہئے بلکہ عورت اور مرد اسی معاشرے کے افراد ہیں ہر ایک کے کچھ حقوق و فرائض ہیں جنہیں ادا کرنا چاہیے ، اگر علیحدگی نیک نیتی اور اصلاح کی خاطر ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ دونوں کے لیے وسعت پیدا فرما دیگا۔ اور باقی ماندہ زندگی کے گزران کیلئے بہتر وسائل پیدا کر دیگا۔ تقویٰ کی تاکید آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن پاک کا یہ اسلوبِ بیان ہے کہ جہاں بھی احکام ، اصول اور قوانین کا ذکر آتا ہے اس کے بعد تقویٰ جیسی بنیادی چیز کی تاکید کی جاتی ہے اس قسم کی ترغیب سے انسان میں تعمیلِ حکم کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے احکام شریعت پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ دوسری چیز جو اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پر دہراتے ہیں وہ اس کی صفات ہیں… اور ان کے بیان سے مقصودیہ ہوتا ہے کہ اگر تعمیلِ حکم میں کوئی کوتاہی رہ گئی تو اللہ تعالیٰ ان صفات کا مالک ہے وہ تمہیں سزا دینے پر قادر ہے ، لہٰذا اس کے احکام کی تعمیل میں کسی قسم کی حجت بزی نہیں ہونی چاہیے انسان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تقویٰ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اگر انسان میں تقویٰ پیدا ہوجائے تو اس کے لیے حکم کی تعمیل نہایت آسان ہوجاتی ہے۔ لہٰذا تمام چیزوں کا اصل الاصول تقویٰ ہے۔ سورۃ نساء کی ابتداء میں عورتوں اور دیگر کمزور طبقات یتیموں وغیرہ کے حقوق کا ذکر ہے ، لہٰذا وہاں بھی مضمون کی ابتدا اسی لفظ تقویٰ سے ہوتی ہے۔ ” یایھا الناس اتقوا ربکم “ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈر جاؤ ۔ اب آج کی آیات میں بھی تخلیق کائنات کا بار بار ذکر کرنے کے ساتھ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا وللہ ما فی السموٰت و ما فی الارض اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ درحقیقت تمام چیزوں کا مالک اور متصرف اللہ تعالیٰ ہے ارض و سما کی ہرچیز اسی کی پیدا کردہ ہے لہٰذا یاد رکھو ولقد وصینا الذین اوتوا لکتب ہم نے تاکیدی طور پر حکم دیا تھا ان لوگوں کو جنہیں کتاب دی گئی من قبلکم تم سے پہلے یعنی یہود و نصاری۔ ان کو بھی یہی حکم تھا وایاکم اور تمہیں بھی حکم دیا جا رہا ہے ان اتقوا اللہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اگر تم میں خوفِ خدا پیدا ہوجائے گا تو اس مالک الملک کے احکام کی خلاف ورزی نہیں ہوگی ، تم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکو گے ، کسی کا حق تلف نہیں کرو گے اور کسی پر زیادتی نہیں کرو گے۔ تقویٰ سے مراد خوفِ خدا ہے اور جب یہ چیز پیدا ہوجاتی ہے تو انسان کفر ، شرک ، الحاد اور دیگر تمام گندے عقیدوں سے متنفر ہو کر معاصی سے بچ جاتا ہے کامل تقویٰ کا حامل انسان کبائر کے علاوہ صغائر اور مشتبہ چیزوں سے بھی بچتا رہتا ہے۔ حرام سے بچنا تو بہرصورت لازم ہے ورنہ تقویٰ حاصل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں شرعی حدود قائم کردیئے ہیں جو شخص ان حدود کی حفاظت کرے گا ، وہی منصب تقویٰ پر فائز ہوگا۔ آخرت میں اچھے ثمرات کا انحصار تقویٰ پر ہے۔ اگر انسان متقی ہے تو اس کا اخلاق ، نیک اعمال اور اعلیٰ اطوار اسے دنیا میں بھی سرخرو کریں گے اور آخرت میں تو اس کے لیے اجر عظیم ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی بار بار تاکید فرمائی ہے۔ اہل کتاب اور تقویٰ جیسا کہ اس آیت کریمہ سے واضح ہے ، اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو بھی ویسے ہی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، جس طرح اس امت محمدیہ کو دیا گیا ہے۔ مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی بجائے اپنے عقائد ہی بگاڑ لیے ہیں۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ مدار فلاح تقویٰ ہے مگر عیسائی کہتے ہیں کہ کامیابی کا مدار محبت پر ہے۔ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بیحد محبت کرتا ہے اس لیے وہ سب کچھ خود ہی معاف کر دیگا۔ لہٰذا ہمیں کسی محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ برخلاف اس کے انجیل کی اصلی تعلیم قرآن پاک سے ہی مطابقت رکھتی ہے۔ وہاں پر آج بھی ایسی آیات موجود ہیں جن میں انسان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اے ابن آدم ! تم اس ذات سے ڈرو جو روح اور جسم دونوں کو جہنم میں ڈال سکتی ہے۔ مگر عیسائیوں نے تقویٰ کا عقیدہ پس پشت ڈال کر انبیت اور کفارے کا عقیدہ وضع کرلیا اور عمل اور تقویٰ کو فراموش کر بیٹھے۔ فرمایا ہم نے اہل کتاب اور اہل ایمان سب کو حکم دیا کہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں اور ساتھ یہ بھی فرما دیا وان تکفروا اگر تم انکار کروگے ، کفر کے راستے پر چل نکلوگے تو سن لو فان للہ ما فی السموت و ما فی الارض پس بیشک اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ ہر چیز کا خالق ، مالک اور متصرف وہی ہے۔ وکان اللہ غنیا حمیداً اللہ تعالیٰ بےپروا ہے اور ہر حالت میں تعریفوں والا ہے۔ بادشاہی اللہ کی ہے پھر تاکیداً فرمایا واللہ ما فی السموت و ما فی الارض یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وکفی باللہ وکیلاً اور کافی ہے اللہ تعالیٰ کارساز ، ان آیات میں للہ… فی الارض تین دفعہ دہرایا گیا ہے۔ شاہ عبدالقادر محدث (رح) فرماتے ہیں کہ پہلی بار نازل ہونیوالے اس کلمہ کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت وسعت کے ساتھ ہے۔ اس سے گزشتہ آیت کے آخری الفاظ تھے وکان اللہ واسعاً حکیماً تو اسی صفتِ وسعت کے ساتھ ہی آج کی پہلی آیت کی ابتدا و للہ ما فی المس موت و ما فی الارض سے ہوئی ہے فرمایا چونکہ زمین و آسمان کی ہر چیز کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا کائنات جیسی وسیع تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی صفت وسعت ہی کارفرما ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ آیت کے اگلے حصے میں مذکورہ جملے کا تعلق تکفرو کے ساتھ کہ اس سے فوراً پہلے یہی لفظ آیا ہے اور اس سے مقصود یہ یاد دلانا ہے کہ دیکھو ! دنیا جہاں کی ہرچیز پر تصرف فقط اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تو ان حالات میں تم اس کا کفر یعنی انکار کر کے کہاں جاسکتے ہو ، بادشاہی تو اسی کی ہے ، اس کی سلطنت سے بھاگ کر کہاں جائے پناہ تلاش کرو گے ، لہٰذا کفر کر کے تم اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ وکان اللہ غنیاً حمیداً اللہ ہر چیز سے مستغنی ہے کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے ، وہ بہرحال سب تعریفوں کا مالک ہے۔ اس جملے کی تیسری آیت کے متعلق شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت کارسازی سے ہے جیسا کہ آج کے درس کی دوسری آیت میں پھر آیا ہے واللہ ما فی السموت و مافی الارض چناچہ اس آیت میں یہ جملہ دہرانے کے عبد فرمایا وکفی باللہ وکیلاً مقصد یہ ہے کہ پوری کائنات یعنی زمین ، آسمان ، چاند ، سورج ، ستارے ، سیارے غرضیکہ ہر چیز کا مالک وہی مالک الملک ہے اور اس میں بسنے والے ہر انسان ، جن ، فرشتے ، چرند ، پرند ، کیڑے مکوڑے وغیرہ کا کام بنانے والا بھی وہی ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے گا ، اللہ تعالیٰ اس کے کام دنیا میں بھی ٹھیک بنا دیگا اور آخرت میں بھی اسے بیشمار انعامات سے نواز دے گا ، کیونکہ کارساز وہی ہے۔ اسی لیے سورة مزمل میں اسی کو کارساز پکڑنے کا حکم ہے ” لا الہ الا ہو واتخذہ وکیلاً “ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، لہٰذا کار ساز بھی اسی کو سمجھو اور اسی پر بھروسہ رکھو ، کام بنانیوالا صرف وہی ہے۔ معبود برحق صرف اللہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی ان صفات کا تذکرہ فرما کر معبودان باطلہ کی نفی کردی ہے جب مالک و مختار ، قادر مطلق ، کارساز اور علیم کل اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ تو پھر اس کے علاوہ معبود بھی کوئی نہیں ہو سکتا۔ مگر سب کچھ جاننے کے باوجود غیر اللہ کی پوجا کرنے والے لوگ موجود ہیں کوئی زمین کی پرستش کر رہا ہے کوئی آسمان کروّں چاند سورج کا پرستار ہے اور کوئی حقیر سے حقیر چیز کا پجاری بنا بیٹھا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد (رح) نے ایک بڑا عجیب فقرہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ انسانی فکروذہن بھی عجیب چیز ہے ، جب وہ ماننے پر آتا ہے تو گوبر جیسی ناپاک چیز کو پوجنے لگتا ہے اور جب انکار کرنے پر آئے تو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر نوح (علیہ السلام) پر پتھر برسانے لگے۔ ہندو اسی ذہنیت کے ملاک ہیں۔ وہ گائے کے گوبر کو پوتر (پاک) سمجھتے ہیں اور ناپاک چیز کو اسی کے ذریعہ …پاک کرتے ہیں۔ وہ اپنے باورچی خانے میں گوبر اور پیشاب کا چوکا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الٰہ صرف وہی ہے ، باقی تمام مخلوق اس کے سامنے عاجز و بےبس ہے۔ سورة فاطر میں صاف موجود ہے ” یایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ہو الغنی الحمیدٌ غنی صرف خدا کی ذات ہے باقی سب اس کے محتاج ہیں۔ صمد وہی ہے وہ بےنیاز ہے ، جو چاہے کرتا ہے ، حاجت روا اور مشکل کشا بھی وہی ہے۔ کوئی فرشتہ نبی ، جن یا کوئی قبر والا حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ہو سکتا۔ وہ تو مخلوق ہیں اور اللہ کے سامنے محتاج ہیں۔ اس کے باوجود جو لوگ امداد کے لیے غیروں کو پکارتے ہیں۔ ان کی بیوقوفی کا اظہار بھی اسی آیت سے ہوتا ہے وللہ ما فی السموت و ما فی الارض اللہ تعالیٰ تو سورة الرحمن میں فرماتا ہے ” یسلہ من فی السموت والارض “ زمین و آسمان کا ہر فرد اسی کے دروازے کا سوالی ہے کائنات کی ہر چیز زبان حال یا زبان قال سے اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنے والی ہے۔ درختوں کے پتے اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ تمام نباتات کی جڑیں اپنی ضروریات کی چیزیں اسی سے طلب کرتی ہیں۔ اللہ کے مقرب فرشتے اور اس کے مقربین بندے اسی کے سوالی ہیں ، اسی کا تقرب اور اسی کے انعامات کے طلب گار ہیں۔ مگر مشرک انسان ستاروں اور سیاروں کے علاوہ مکھی مچھر تک کی پوجا کر رہے ہیں اور اپنی حاجات ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت سے صاف سمجھ آ رہی ہے کہ جب زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ملکیت ہے تو پھر سوالوں کو پورا کرنے والا بھی وہی ہے اس کے علاوہ نہ کوئی حاجت روا ہے اور نہ مشکل کشا۔ مخلوق کی تبدیلی اللہ تعالیٰ نے اپنی مذکورہ صفات کے اظہار کے بعد فرمایا کہ جو ذات خالق ، مالک اور مختار کل ہے ان یشا یذہبکم ایھا الناس اگر وہ چاہے تو نہیں لے جائے ، اٹھا لے ، اس دنیا سے نیست ونابود کر دے ویات باخرین اور دوسروں کو لے آئے۔ اگر سب لوگ اس وحدہ لاشریک ہستی کا انکار کرنے لگیں تو اس کو اختیار حاصل ہے کہ اس مخلوق کو صفحہ ہستی سے مٹاکر کوئی دوسری مخلوق لے آئے یا کسی خاص علاقے کے منکرین کی جگہ متبعین کو کھڑا کر دے۔ چناچہ جب عربوں نے نبی آخر الزمان کا انکار کیا تو اللہ نے ان کی جگہ عجمی ایمان والوں کو لاکھڑا کیا۔ اور جب مشرکینِ مکہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کو آپ پر ایمان لانے والے بنا دیا۔ جب عباسیوں نے انکار کیا تو اللہ نے ان کی جگہ مغلوں کو کھڑا کردیا کہ دین کے پاسبان تم بن جاؤ ۔ اگر پاکستانی دین پر عمل پیرا نہیں ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کی جگہ کسی دوسری مخلوق کو لے آئے گا اور موقع ملنے کے باوجود اور وسائل کے ہوتے ہوئے دین سے اعراض کی وجہ سے یہ لوگ لعنت کے مستحق بن جائیں گے۔ وکان اللہ علی ذلک قدیراً اور خدا تعالیٰ ایسا کرنے پر قدرت رکھتا ہے وہ قادر مطلق ہے ، جو چاہے سو کرے ، اس کی مشیت کے سامنے سب عاجز ہیں۔ لہٰذا اگر اہل وطن ملک و ملت کی کوئی خدمت کرسکیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے توفیق بخشی اور اگر اس کی نافرمانی کریں گے تو وہ بےنیاز ہے ، اسے کسی کی کچھ پروا نہیں ، وہ جب چاہے ایک جماعت کی جگہ دوسری جماعت کو لے آئے۔ طلبِ دنیا آگے اللہ تعالیٰ نے مخصوص انداز میں دنیا اور آخرت کا موازنہ کیا ہے اور اشارتاً یہ بات سمجھائی ہے کہ اس دنیا کی زندگی محدود ہے اور اصل دائمی زندگی آخرت کی زندگی ہے ، لہٰذا اس دنیا کی بجائے آخرت کی بہتری کے لیے کوشش اور محنت کرنی چاہئے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ من کان یرید ثواب الدنیا جو لوگ دنیا کی زندگی پسند کرتے ہیں اور اس عارضی زندگی کی نعمتوں تک ہی محدود رہنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ، وہ دنیا کی ہر نعمت عطا کرنے پر قادر ہے۔ مگر یاد رکھو ! فعند اللہ ثواب الدنیا والاخرۃِ اللہ کے پاس تو دنیا و آخرت دونوں جگہ کی نعمتیں موجود ہیں۔ ہر طالبکو اس کی مطلوبہ چیز ہی ملتی ہے۔ سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ” ربنا اتنا فی الدنیا “ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس دنیا میں ہی عطا کر دے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہوگا۔ پھر دوسرے گروہ کا تذکرہ فرمایا جو کہتے ہیں ” ربنا اتینا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃً وقنا عذاب النار “ اے مولاکریم ! ہمیں اس دنیا میں بھی بہتری عطا فرما اور آخرت میں بھی اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا حصہ ان کی طلب کے مطابق ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة دہر میں فرمایا کہ انسان جلد باز ہے ، وہ اسی دنیا میں سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے ” ان ہولاء یحبون العاجلۃ ویذرون ورائہم یوماً ثقیلاً “ اور قیامت کے بھاری دن کو پیچھے چھوڑ دیتے یعنی اس کی کچھ فکر نہیں کرتے جو لوگ اس دنیا کے مال و اسباب ، عیش و راحت کے طلبگار ہوتے ہیں وہ اگلی دنیا میں کچھ حصہ نہیں پاتے۔ اور جو لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ بہتری چاہتے ہیں۔ انہیں دونوں جگہوں کے انعامات سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یقینا ان کی سعی کا بدلہ ملیگا۔ دنیا اور عاقبت کے لیے دو مختلف قانون ہیں۔ یہاں پر صرف اتنی بات سمجھا دی ہے کہ اللہ کے پاس دنیا کی زندگی کا بدلہ بھی ہے اور آخرت کی زندگی کا بھی۔ لہٰذا صرف دنیا کے مال و اسباب میں الجھ کر نہ رہ جاؤ بلکہ آخرت کی دائمی زندگی کا بھی سامان پیدا کرو۔ ظاہر ہے کہ ایمان ، تقویٰ اور نیکی کا اصل ثمرہ اور محل آخرت ہے لہٰذا دائمی چیز کو چھوڑ کر عارضی چیز کے پیچھے نہ پڑو یہ عقلمندی کی بات نہیں۔ یہ ترغیب بھی ہوگئی اور ترہیب بھی۔ وکان اللہ سمیعاً بصیراً اور بیشک اللہ تعالیٰ ہر دعا کو سنتا ہے اور تمہاری حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا تقویٰ کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ کفر ، شرک اور معاصی سے بچنا چاہئے اور اسی سے امید وابستہ رکھنی چاہئے۔
Top