Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 136
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والو)
اٰمِنُوْا
: ایمان لاؤ
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
الَّذِيْ نَزَّلَ
: جو اس نے نازل کی
عَلٰي رَسُوْلِهٖ
: اپنے رسول پر
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
الَّذِيْٓ اَنْزَلَ
: جو اس نے نازل کی
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
وَمَنْ
: اور جو
يَّكْفُرْ
: انکار کرے
بِاللّٰهِ
: اللہ کا
وَمَلٰٓئِكَتِهٖ
: اور اس کے فرشتوں
وَكُتُبِهٖ
: اور اس کی کتابوں
وَرُسُلِهٖ
: اسکے رسولوں
وَالْيَوْمِ
: اور روز
الْاٰخِرِ
: آخرت
فَقَدْ ضَلَّ
: تو وہ بھٹک گیا
ضَلٰلًۢا
: گمراہی
بَعِيْدًا
: دور
اے ایمان والو ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ اور اس کتاب پر جس کو اس نے نازل کیا ہے اپنے رسول پر اور ہر اس کتاب پر جس کو نازل کیا ہے اس نے اس سے پہلے۔ اور جو شخص کفر کریگا اللہ کے ساتھ ، اس کے فرشتوں کے ساتھ۔ اس کی کتابوں کے ساتھ ، اس کے رسولوں کے ساتھ۔ اور قیامت کے دن کے ساتھ ، پس بیشک وہ گمراہ ہوا ، اور گمراہی میں دور جا پڑا
ربط آیات گزشتہ درس میں ان صاف پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی تھی کیونکہ یہ ایک اہم اصول ہی پھر اللہ نے فرمایا کہ گواہی اللہ کیلئے دو خواہ وہ خود تمہاری ذات کے خلاف ہو یا تمہارے والدین یا اقربا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ اپنی خواہش کی پیروی نہ کرو اور زبان کو توڑ موڑ کر شہادت کو بگاڑنے کی کوشش نہ کرو اور نہ ہی گواہی دینے سے اعراض کرو ، بلکہ ہر حالت میں عدل و انصاف کو قائم رکھو۔ انصاف کے بغیر دنیا میں امن و چین نصیب نہیں ہوسکتا۔ اگر عدل نہیں ہوگا تو ظلم و زیادتی کی حکمرانی ہوگی اور انسان خرابی اور بربادی میں مبتلا رہیں گے۔ انصاف ایک بنیادی اصول ہے جسے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ اب آج کی آیات میں وہ اصل الاصول بیان کیے گئے ہیں جن پر دین ، شریعت اور اخلاق کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان بنیادی اصولوں پرکاربند ہونے کی تلقین کی ہے۔ مومنین سے خطاب ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا امنوا باللہ اے ایمان والو اللہ پر ایمان لاؤ ۔ یہاں پر امنوا اور امنوا دو لفظ اکٹھے ہیں اور یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایمان والوں کو خطاب کر کے پھر انہی سے ایمان لانے کا مطالبہ کیے جا رہا ہے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ امنوا سے عام مومنین مراد ہیں ، خواہ وہ مخلص ہوں یا غیر مخلص اور امنوا کا حکم صرف غیر مخلص مومنوں سے ہے جو ابھی تک اپنے ایمان میں خلوص پیدا نہیں کرسکے بلکہ ڈانوں ڈول ہیں ۔ کبھی ایمان کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کبھی کفر کی طرف۔ منافقین جو محض زبان سے ایمان کے دعویدار ہیں اور دل میں ایمان کیخلاف بغاوت ہے اور جس کے نتیجے میں اسلام کے خلاف ظاہری اور باطنی تدبیریں کرتے رہتے ہیں ، وہ بھی اس خطاب کے مخاطبین ہیں اور انہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ گومگو کی کیفیت کو چھوڑ کر ایمان کو مکمل طور پر اختیار کرلو۔ اور اس خطاب کی دوسری توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ خطاب عہد الست کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ازل میں پورے عالم ارواح سے دریافت کیا تھا ” الست بربکم “ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ تو سب نے بیک زبان جواب دیا تھا ” قالوا بلیٰ “ مولا کریم ! کیوں نہیں ، تو ہی ہمارا رب ہے۔ تو اب اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو یہ عہد یاد دلایا ہے کہ جب ازل میں تم مجھ پر ایمان لا چکے ہو تو اب اس مادی جہاں میں پہنچ کر بھی مجھ پر دل و جان سے ایمان لاؤ تاکہ اس ایمان کا صحیح نتیجہ مرتب ہو سکے۔ ایمان پر مداومت تاہم عام مفسرین کا خیال یہ ہے کہ اس خطاب کے مخاطبین میں تمام اہل ایمان شامل ہیں اور امنوا کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لاچکے ہو ، اس ایمان پر مداومت اختیار کر۔ اور اس میں کسی قسم کا خلل نہ آنے دو ۔ ظاہر ہے کہ ایمان لانے کے بعد جب کوئی شخص ، کفر ، شرک ، نفاق یا الحاد کی کوئی بات کرتا ہے تو اس کے ایمان میں خلل آتا ہے۔ اسی خلل کو دور کرنے کے سلسلہ میں حضور ﷺ کا امت کے نام فرمان ہے جددوا ایمانکم بقول لا الہ الا اللہ یعنی کلمہ طیبہ کا اعادہ کر کے اپنے ایمان کی تجدید کرلیا کرو۔ اسی کلمہ کو حضور ﷺ نے افضل الذکر بھی فرمایا ہے کہ یہ تجدید ایمان کا ذریعہ ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص غیر اللہ کے نام کی قسم اٹھائے فلیقل لا الہ الا اللہ اسے فوراً لا الہ الا اللہ کہہ کر اپنی غلطی کا تدارک اور ایمان کی تجدید کر لینی چاہئے۔ ایمان میں اکثر خرابی آتی رہتی ہے کافر ، مشرک تو ویسے ہی ایمان سے خالی ہیں ، مگر ایمان کے دعویداروں میں سے بھی ایک قلیل تعداد ایسی ہے جو ایمان کے ساتھ صحیح طور پر متصف ہے ، وگرنہ اکثریت کے ایمان میں خلل موجود ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تاکیداً فرمایا کہ اے ایمان والو ، ایمان لاؤ یعنی اپنے ایمان میں اخلاص پیدا کرو اس سے خلل کو دور کرو اور اس پر مداومت اختیار کرو۔ ایمان باللہ انسانوں کی اصلاح کے بنیادی اصولوں میں سے سب سے اہم اصول ایمان ہے اور پھر ایمان کی جزئیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی تشریح بیان کی ہے۔ سب سے پہلے فرمایا امنوا باللہ ایمان پر ایمان لاؤ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لاؤ ۔ اور ذات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی صفات بھی ہیں۔ صفات پر ایمان لانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ذات پر ایمان لانا چناچہ ایمان کے متعلق بچوں بڑوں سب کو پڑھایا جاتا ہے امنت باللہ کما ھو باسمائہ وصفاتہ یعنی میں ایمان لایا اللہ کے ساتھ جیسا کہ اس کے اسمائے پاک ہیں اور جن صفات کے ساتھ وہ متصف ہے ، میں ان سب پر ایمان لایا۔ اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب شیطان تمہارے دل میں وسوسہ اندازی کرے اور تمہارے ایمان میں خلل اندازی کا خطرہ ہو تو فوراً کہہ دیا کرو امنت باللہ یعنی میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کو تو مانتا ہے مگر اسے صفات سے عاری تسلیم کرتا ہے جیسے فرقہ معتزلہ میں سے معطلہ فرقہ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا منکر بھی اسی طرح کافر ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر۔ اللہ تعالیٰ کمال صفات کا مالک ہے ، وہ تمام صفات حسنہ کے ساتھ متصف ہے۔ اللہ کا ذاتی نام تو ایک ہی ہے اور رحمان ، رحیم کریم ، قدوس ، جبار ، وہاب وغیرہ اس کے صفاتی نام ہیں جو اس کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ہر صفت کسی نہ کسی تجلی کی مظہر ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کی صفات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ ایمان بالرسول فرمایا ایمان لاؤ اللہ پر ورسولہ اور اس کے رسول پر علم عقاید میں رسول کی تعریف یہ کی گئی ہے بعثہ اللہ لتبلیغ الاحکام الی الناس یعنی رسول وہ انسان ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ شریعت کے احکام پہنچانے کے لیے لوگوں کی طرف مبعوث کرتا ہے۔ رسول ایک لحاظ سے عام ہے اور ایک لحاظ سے خاص۔ عام اس طرح کہ انسانوں کے علاوہ فرشتے بھی رسول ہوتے ہیں جیسے فرمایا ” اللہ یصطفی من الملکۃ رسلاً و من الناس “ (سورۃ حج) اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول منتخب فرماتا ہے۔ رسول کی خصوصیت اس لحاظ سے ہے کہ وہ نبی کے مقابلہ میں خاص ہوتا ہے۔ ہر انسان جس پر اللہ کی جانب سے وحی نازل ہوتی ہے ، وہ نبی ہوتا ہے اور معصوم ہوتا ہے۔ البتہ رسول وہ ہوتا ہے جس پر وحی تو بہرحال نازل ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ اسے کتاب یا مستقل شریعت بھی دی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت اگرچہ کچھ کمزور ہے تاہم قابل لحاظ ہے آپ نے حضور نبی کریم (علیہ السلام) سے پوچھا ، حضور ! پہلا نبی کون تھا تو آپ نے فرمایا پہلے نبی آدم (علیہ السلام) تھے۔ پھر عرض کیا ، کیا آدم (علیہ السلام) نبی تھے ، آپ نے فرمایا نبی مکلم ہاں نبی تھے۔ اللہ نے ان سے کلام کیا ، ان پر وحی نازل فرمائی اور سب سے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں جن کے متعلق فرمایا ولکن رسول اللہ و خاتم النبین یعنی آپ اللہ کے رسول اور سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ کم و بیش ایک لاکھ چونتیس ہزار نبی اور رسول دنیا میں آئے ، جن میں سے تین سو پندرہ رسول اور باقی سب نبی تھے۔ جیسا کہ عرض کیا نبی کے لیے مستقل شریعت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ وہ پہلے سے نازل شدہ شریعت کی ہی تبلیغ کرتا ہے۔ انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہزاروں ایسے گزرے ہیں جو صرف تورات کی تبلیغ کرتے رہے ، وہ کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے۔ جسے نئی شریعت کتاب یا صحیفہ ملتا ہے ، وہ رسول کہلاتا ہے۔ ایمان بالکتاب فرمایا ایمان لاؤ اللہ پر ، اس کے رسول پر والکتب الذی نزل علی رسولہ اور اس کتاب پر بھی ایمان لاؤ جسے اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا۔ الکتب سے مراد جنسِ کتاب ہے اور مقصد یہ ہے کہ جتنی بھی کتابیں نازل ہوئی ہیں سب پر ایمان لاؤ ۔ مفسرین کرام امام شافعی (رح) کا قول نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے جن میں سے چار عظیم کتابیں تورات ، زبور ، انجیل اور قرآن ہیں اور باقی صحیفے ہیں ، ان میں سے اتنالیس صحیفے موجودہ بائبل میں شامل ہیں۔ بہرحال صحائف میں حضرت یونس (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وغیرہم کے صحیفے ہیں۔ جن میں کچھ صحیح اور کچھ غلط ہیں کیونکہ اہل کتاب کہلانے والوں نے ان میں تغیر و تبدل کردیا ہے۔ غرضیکہ کتاب پر ایمان لانے سے مراد تمام کتب سماویہ پر ایمان لانا ہے۔ والکتب الذی انزل من قبل سے مراد قرآن پاک سے پہلے نازل ہونے والی تمام کتب اور صحائف ہیں۔ کفر اور اس کا صلہ اب آگے ایمان کے مقابلہ میں کفر کی جزئیات اور اس کے صلہ کا ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ومن یکفر باللہ جو انکار کرتا ہے اللہ کا۔ یعنی جو شخص اللہ کی ذات اور اس کی صفات پر ایمان نہیں لاتا اس کا صلہ اور نتیجہ آخر میں بیان ہوگا۔ اللہ کی صفت میں اس کی مقرر کی ہوئی تقدیر بھی ہے۔ ” الذی خلق فسوی والذی قدر فہدی “ تقدیر کو مقدر کرنے والاخود اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوچکا ہے ہو رہا ہے اور آئندہ ہوگا ، سب اللہ تعالیٰ کے حکم ، ارادے اور مشیت سے ہو رہا ہے۔ جو تقدیر کا منکر ہے وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ پرویز جیسا منکر تقدیر ایمان سے خالی ہے کیونکہ اس نے اللہ کی صفت کا انکار کیا ہے۔ انکار ملائکہ فرمایا جو انکار کرتا ہے اللہ کا و ملئکتہ اور اس کے فرشتوں کا فرشتوں کا انکار کرنا بھی ایمان کے منافی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کی پیدائش سے لاکھوں ، کروڑوں سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو پیدا کیا۔ یہ ایک لطیف مخلوق ہے اور بنی نوع انسان کی مصلحت فرشتوں پر موقوف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات حد درجہ بلند وبالا ہے اس نے اپنا فیض انسانوں تک پہنچانے کے لیے فرشتوں کو مقرر کیا ہے۔ اللہ کا پیغام فرشتے ہی بنی نوع انسان تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ جو شخص فرشتوں کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ وہ بھی ایماندار نہیں۔ پرویز اور مشرقی وغیرہ منکرینِ ملائکہ میں سے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ انسان کی اچھی صفت کا نام ملائکہ اور غضبی قوت کا نام شیطان ہے۔ اس قسم کی ملحدانہ تاویلیں انکار ملائکہ پر مبنی ہیں اور ایسے شخص کے کفر پر دلالت کرتی ہیں۔ فرشتے اللہ کی لطیف مخلوق ہیں ، ان کے اجسام ہیں جن میں روحیں ہیں ، ان میں ادراک کا مادہ پایا جاتا ہے۔ اور ان کو بالفعل کمال حاصل ہے۔ اسی طرح شیطان کا بھی وجود ہے ان میں سے ہر ایک کا جسم اور روح ہے ، وہ بھی ادراک و شعور رکھتے ہیں۔ ان کا ذکر قرآن پاک میں صراحتاً موجود ہے۔ لہٰذا ان کے انکار پر مبنی تاویلیں کرنے والا ملحد اور کافر شمار ہوگا۔ انکارِ کتب فرمایا جو انکار کرتا ہے اللہ کا ، اس کے فرشتوں کا وکتبہ اور اس کی کتابوں کا۔ ایمان کے سلسلے میں کتاب واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا تھا ، آب کتب میں جمع کا صیغہ ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے ، سورة بقرہ میں آ چکا ہے ” وما اوتی النبیون من ربہم “ اس کتاب پر ایمان لانا ضروری ہے جو نبی آخر الزمان پر نازل ہوئی اور جو اس سے پہلے دیگر انبیائے کرام لے کر آئے تمام کتاب سماویہ برحق ہیں ، اللہ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے نازل فرمائیں اور ہمارا ان سب پر ایمان ہے اور ایمان صرف اس چیز پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اور انجیل کی صورت میں نازل فرمایا یا دوسرے انبیا پر جو کچھ نازل کیا۔ بعد میں اہل کتاب نے جو تحریف کردی ہے ، اس پر ہمارا ایمان نہیں۔ تحریف کو خود عیسائیوں نے ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ انجیل میں ہزاروں غلطیاں موجود ہیں۔ انہوں نے قرآن پاک کا انکار کرکے کفر کا ارتکاب کیا بعض کافر اور مشرک بھی کہتے تھے ” ما انزل اللہ علی بشرٍ من شیئٍ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔ وہ لوگ تمام کتب سماویہ کا انکار کرتے تھے ، تو فرمایا جس نے کتابوں کا انکار کیا۔ انکار رُسل فرمایا ورسلہ جس نے اللہ کے رسولوں کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ انبیا اور رسل کو انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مبعوث فرماتا ہے۔ ان کی تصدیق کرنا اور ان پر ایمان ضروری ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ان میں سے کسی ایک رسول کا انکار تمام کے انکار کے برابر ہے۔ اللہ کے نبی اور رسول اس کے منتخب اور برگزیدہ انسان ہیں۔ اس نے وحی نازل فرمائی اور انہیں انسانوں کی راہنمائی پر مامور کیا۔ ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ نصاریٰ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت و رسالت کا انکار کر کے کافر ہوئے اور یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہوئے۔ وہ تو صرف ان انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں۔ جن کا ذکر تورات میں موجود ہے ، لہٰذا وہ بھی منکرین کی صف میں شامل ہوئے ۔ انکار قیامت پانچویں نمبر پر فرمایا والیوم الاخر جس نے آخرت کے دن یعنی قیامت کا انکار کیا ، وہ بھی منکرین کے گروہ میں شامل ہوگیا آخرت پر ایمان لانا بھی جزو ایمان ہے۔ اس کے بغیر انسان مومن نہیں ہو سکتا بلکہ کافر ہی رہے گا اگرچہ وہ باقی چیزوں پر ایمان لے آئے۔ قیامت کا دن جزائے عمل کا دن ہے۔ اس دنیا میں کیے گئے ہر کام کی جزا یا سزا کے لیے ایک دن مقرر ہے۔ اگر اس کا انکار کردیا جائے تو دین کی ساری عمارت ہی منہدم ہوجاتی ہے۔ جزا و سزا کا تصور ہی انسان کو احکام الٰہی پر عمل کی ترغیب دیتا ہے جب اسی پر ایمان ختم ہوگیا تو اوامرو نواہی کا تمام تصور ختم ہوگیا ، لہٰذا قیامت پر ایمان لانا بھی ضروری ٹھہرا۔ الغرض ! یہاں پر تمام اجزائے ایمان کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا جس نے کفر کیا اللہ کے ساتھ ، اس کے فرشتوں کے ساتھ اس کی کتابوں اور رسولوں کے ساتھ اور جس نے قیامت کے دن کا انکار کیا فقد ضل ضلا ابعیدا وہ شخص گمراہ ہوگیا اور گمراہی میں دور جا پڑا۔ مطلب یہ کہ ایمانیات کا انکار کرنے والے کا صلہ یہ نکلا کہ وہ اصل راستے سے بھٹک کر دور چلا گیا۔ مرتدین کا کردار اگلی آیت میں بار بار ایمان لانے اور بار بار کفر کرنے کا بیان ہے۔ بغض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت اعتقادی منافقوں کے متعلق ہے اور بعض دوسرے فرماتے ہیں کہ یہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی تاہم بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت عام ہے اور اس مرتد پر صادق آتی ہے جو ایک دفعہ ایمان لانے کے بعد ہمیشہ کے لیے مرتد ہوجائے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ان الذین امنوا بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے ثم کفروا پھر انہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ، جیسا کہ منافقین یا اہل کتاب کاشیوہ ہے۔ اہل کتاب حضرات عیسیٰ اور موسیٰ (علیہم السلام) لائے مگر جب حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) کا زمانہ پایا تو صاف انکار کر گئے۔ یہ لوگ کافر ہی رہیں گے فرمایا ثم امنوا پھر ایمان لائے ثم کفروا پھر انکار کر گئے یعنی ایک دفعہ ایمان لانے کے بعد کسی نے کفر کیا مگر پھر ایمان لے آیا تو اس کی توبہ قبول ہے لیکن جو مستقل طور پر مرتد ہوگیا ثم اندادوا کفراً پھر وہ کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ وہ خذلان کا شکار ہوگئے۔ ایسے لوگ ایمان سے کھیلتے رہتے ہیں اور آخر کار ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا لم یکن اللہ لیغفرلہم اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو معاف نہیں فرماتا کیونکہ وہ کفر پر پختہ ہوجاتے ہیں۔ توبۃ العبد مالم یغرغر سچی تو بہت نزع کی حالت سے پہلے پہلے قبول ہے ، اور معاف فرما دیتا ہے۔ مگر جو لوگ کفر میں اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ، ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی معافی کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ولا لیھدیہم سبیلاً اور نہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے وہ ہدایت کے طالب ہی نہیں ہوتے۔ وہ کسی خود غرضی یا کسی کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ایمان لاتے ہیں مگر جب اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر کفر کا راستہ پکڑ لیتے ہیں اور اس طرح دائمی محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں اب اگلی آیت میں اعتقادی منافقوں کے متعلق بعض تفصیلات بیان ہوں گی۔
Top