Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 142
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : بیشک منافق يُخٰدِعُوْنَ : دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَھُوَ : اور وہ خَادِعُھُمْ : انہیں دھوکہ دے گا وَاِذَا : اور جب قَامُوْٓا : کھڑے ہوں اِلَى : طرف (کو) الصَّلٰوةِ : نماز قَامُوْا كُسَالٰى : کھڑے ہوں سستی سے يُرَآءُوْنَ : وہ دکھاتے ہیں النَّاسَ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے اللّٰهَ : اللہ اِلَّا قَلِيْلًا : مگر بہت کم
بیشک منافق دغابازی کرتے ہیں اللہ کے ساتھ اور وہ ان کو ان کی دغابازی کا بدلہ دیتا ہے اور جب یہ منافق کھڑے ہوتے ہیں نماز کی طرف ، تو کھڑے ہوتے ہیں سست دکھاوا کرتے ہیں لوگوں کے سامنے ، اور نہیں یاد کرتے اللہ تعالیٰ کو مگر بہت تھوڑا
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی سزا کا ذکر کیا تھا کہ کافروں اور منافقوں سب کو جہنم میں اکٹھا کیا جائے گا ، منافق لوگ کافروں کے ساتھ تعلق جوڑتے ہیں اور ان کو اپنا دوست اور رفیق بناتے ہیں ان کے ہاں عزت تلاش کرتے ہیں تاکہ گردش آنے کی صورت میں ذلیل نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی رد فرمایا ، اور صاف حکم دیا کہ جب اللہ کی آیتوں کے ساتھ ٹھٹا کیا جارہا ہو ، تو ایسی مجلس میں کسی مومن کو بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ ان منافقوں کا حال یہ ہے کہ کافروں کی مجلس میں جاکر ان کی خوشامد کرتے ہیں اور مومنوں کے پاس آکر ان کی چاپلوسی کرتے ہیں تاکہ ان دونوں گروہوں میں سے جن کا پہلو غالب ہو ، اسی کے ساتھ ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دوغلی پالیسی کی مذمت بیان فرمائی۔ اب آج کے درس میں منافقین کی مزید کارگزاریوں اور ان کے انجام کا ذکر فرمایا ہے۔ دھوکہ دہی ارشاد ہوتا ہے ان المنفقین یخدعون اللہ بیشک منافق لوگ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کیسے دھوکہ دیا جاسکتا ہے جب کہ وہ ہر چیز سے واقف ہے۔ دھوکہ تو ناواقف آدمی کھاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات تو اعلیٰ وارفع اور ان چیزوں سے پاک ہے ، پھر اللہ کو دھوکہ دہی کا کیا مطلب ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے ایسا معاملہ کرتے ہیں جیسا کہ کوئی دھوکے باز کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ہیرا پھیری کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بظاہر اسلام ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ، کلمہ پڑھتے ہیں ، نمازیں ادا کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں مگر دل میں کفر بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس دوغلی پالیسی سے وہ اہل ایمان اور خود اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں مگر وہ فرماتا ہے وھو خادعھم کہ اللہ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے جیسا وہ اللہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس مقام پر خادعھم مثاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ کہ جس طرح وہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ بھی ان کو ویسا ہی بدلہ دیتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ منافقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نفاق کو ظاہر فرما دیتا ہے اور وہ خود بھی اپنے اعمال سے اس کا ثبوت پیش کردیتے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ کفار کا سا سلوک کرنے کا حکم نہیں۔ کفار کے ساتھ ہمیشہ حالت جنگ کا معاملہ ہوتا ہے ، مگر منافقوں کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔ جس طرح مخلص مسلمانوں کی مال ، جان ، عزت ، آبرو محفوظ ہوتی ہے ، اسی طرح منافقوں کو بھی امان حاصل ہوتی ہے تو ان کو ان کے نفاق کے حال پر ہی چھوڑ دینا ان کے ساتھ دھوکہ ہے کہ وہ اس خیال میں رہتے ہیں کہ مسلمان ان کے اصل حال سے واقف نہیں اور وہ کفار کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ناکام و نامراد ہیں اور یہی ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہے جسے وہ سمجھنے سے عاری ہیں۔ نماز میں سستی آگے منافقوں کی کچھ غلط کارگزاری بیان ہورہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کی حالت یہ ہے واذا قاموا الی الصلوٰۃ قاموا کسالی جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو بددلی اور سستی کے ساتھ۔ وجہ ظاہر ہے کہ نہ ان کا ایمان پختہ ہے اور نہ انہیں نماز کی افادیت پر یقین ہے وہ تو محض مسلمانوں کو دکھانے کے لئے مسجد میں آجاتے ہیں ، تاکہ ان کا نفاق نہ ظاہر ہونے پائے۔ حضور ﷺ نے منافق کی نماز کے متعلق فرمایا کے انتظار کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب مکروہ وقت آجاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگے مار لیتا ہے ، فرمایا تلک صلوٰۃ المنافق یہ ہے منافق کی نماز۔ ایک مخلص مومن کے لئے نماز اہم ترین عبادت اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ سے مناجات کی جاتی ہے ، یہ گناہوں کو مٹانے والی چیز ہے مگر منافق اپنی بدعقیدگی کی وجہ سے اسے ضائع کردیتا ہے۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جن منافقین کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ اعتقادی منافق ہیں اور نماز میں سستی کرتے ہیں۔ وگرنہ سستی تو بعض اوقات مخلص مومن سے بھی ہوجاتی ہے کوئی بیمار ہو یا بھاری جسم والا آدمی ہو تو اسے اٹھنے بیٹھنے میں دقت پیش آتی ہے ، فرمایا یہاں پر ایسا شخص مراد نہیں بلکہ وہ اعتقادی منافق مراد ہے جو دیدہ دانستہ نماز میں سستی کا اظہار کرتا ہے۔ فرمایا منافق کی نماز محض یہ ہے کہ یرآء ون الناس وہ لوگوں کے سامنے دکھلاوا کرتے ہیں کہ دیکھ لو ہم نمازی ہیں لہذا ہمارے ایمان پر شبہ نہ کیا جائے۔ حالانکہ نماز جیسی عظیم عبادت پر تو ان کا اعتقاد ہی نہیں ہے یہ تو ان پر بوجھ ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ریاکاری کی مذمت بھی بیان فرما دی اور ساتھ یہ بھی اشارہ رفما دیا کہ ایک مومن کے لئے ذکر الٰہی کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اقم الصلوٰۃ لذکری “ میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو مگر منافقین کا حال یہ ہے ولا یذکرون اللہ الا قلیلاً اور نہیں ذکر کرتے اللہ کا مگر بہت تھوڑا ، برائے نام ، بات وہی ہے کہ محض ریاکاری کے لئے نماز پڑھتے ہیں تاکہ لوگ انہیں مومن سمجھیں اور ان کی مال و جان مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ رہے۔ قرآن و سنت میں ذکر الٰہی کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے۔ گزشتہ آیات میں بھی گزرچکا ہے۔ فاذکروا اللہ قیماً وقعودا وعلی جنوبکم یعنی اللہ کا ذکر کرو قیام کی حالت میں ، بیٹھے ہوئے اور لیٹے ہوئے ، اللہ نے یہ بھی فرمایا واذکرو اللہ ذکر کثیرا لعلکم تفلحون اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پاجائو۔ بہرحال فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کو یاد بھی کرتے ہیں تو برائے نام ، ان میں خلوص و محبت کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتا۔ تذبذب کی حالت فرمایا ان منافقین کا حال یہ ہے مذبذبین بین ذلک اس کے درمیان متردو ہیں۔ کبھی ان کا جھکائو مومنوں کی طرف ہوتا ہے اور کبھی کافروں کی طرف ، جونسا پلہ بھاری نظر آتا ہے فوراً ادھر ہوجاتے ہیں۔ یہ بدبخت اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ دونوں گروہوں میں یکساں مقبول ہیں اور بوقت ضرورت دونوں طرف سے مفاد حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لا الی ھولآء الی ھولآء درحقیقت یہ لوگ نہ اس طرف ہیں اور نہ اس طرف اور دونوں اطراف سے محروم ہیں ، یہ ان کی مزید بدقسمتی ہے ، کہ بوقت ضرورت انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے متعلق فرمایا۔ یعبد واللہ علی حرف (سورۃ حج) یعنی ایک کنارے پر عبادت کرتے ہیں۔ اگر کہیں سے مفاد حاصل ہوگیا تو وہاں ٹک گئے ورنہ دوسری طرف چلے گئے۔ اس لئے منافق کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے یاتی ھولآء بوجہ وھولآء بوجہٍ یعنی یہ دو رخی پالیسی اختیار کرنے والے لوگ ہیں۔ کبھی ان کا رخ ایک طرف ہوتا ہے اور کبھی دوسری طرف۔ فرمایا ومن یضلل اللہ فلن تجدلہ سبیلاً جس کو خدا تعالیٰ گمراہ کردے تم اس کے لئے ہرگز کوئی راہ نہیں پائو گے۔ جب کوئی شخص کفر کا راستہ یا نفاق کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے اسی راستہ پر قائم رہنے کی توفیق دے دیتا ہے۔ جیسے پہلے گزرچکا ہے نولہ ماتولی ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جس طرف وہ جانا چاہتا ہے۔ جب کفر پر جم گیا تو اللہ نے کہا ، اچھا ایسا ہی کرتے رہو۔ تو فرمایا جسے اللہ گمراہ کردے پھر کون اسے راہ راست پر لاسکتا ہے اور اللہ کے گمراہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی کو بلاوجہ گمراہی کے لئے راستہ پر چلنے کی توفیق دیتا ہے بلکہ وہ تو علیم کل ہے۔ ہر ایک کی باطنی کیفیت سے واقف ہے وہ ہر شخص کی صلاحیت اور فساد کو بھی جانتا ہے اس لئے وہ ہر شخص کی اصلیت کے مطابق اس کا اپنے پسندیدہ راستہ پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو جبراً گمراہی کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ وہ خود اس طرف رخ کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے غلط راستہ پر پختہ ہونے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اغیار سے دوستی منافقین کی مذمت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں۔ فرمایا یا ایھا الذین امنو لا تسخذوا الکفرین اولیآء من دون المومنین اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائو ، منافق تو مفاد حاصل کرنے کے لئے کفار سے دوستی کرتے ہیں تاکہ انہیں عزت حاصل ہوسکے مگر تم ان کے ساتھ بالکل دوستی نہ کرو۔ کافروں کے ساتھ دوستی سے تمہارا کیا مقصد ہے اتریدون ان تجعلوا للہ علیکم سلطناً مبیناً کیا تم خود پر اللہ کا صریح الزام ثابت کرنا چاہتے ہو اگر تم بھی منافقوں کی طرح کافروں کو دوست بنائوگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر حجت قائم ہوجائے گی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کے مجرم ٹھہروگے لہذا کافروں کے ساتھ دلی دوستانہ ہرگز نہ رکھو۔ منافقین کا ٹھکانا آگے پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین کی سزا کا ذکر کیا ہے۔ ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار۔ بیشک اعتقادی منافق دوزخ کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔ جہنم کے سات طبقات میں سے سب سے نچلا گڑھا اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے لئے مقرر کررکھا ہے۔ یہ لوگ کفار سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جو خفیہ طور پر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سزا بھی سخت مقرر کی ہے اور پھر ان کا قید خانہ بھی ایسا ہے۔ ولن تجدلھم نصیراً ۔ تو ان کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہیں پائیگا۔ وہاں سے رہائی کی کوئی صورت نہیں وہگی۔ جس قدر ان کا جرم بڑا ہے ان کے لئے سزا بھی سخت مقرر کی گئی ہے۔ مومنین کیلئے بشارت فرمایا الا الذین تابوا مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی۔ نفاق کو چھوڑ کر ایمان اختیار کرلیا واصلحوا اور پھر اپنی اصلاح بھی کرلی ، ریاکاری سے باز آگئے کافروں کی دوستی کو ترک کردیا۔ واعتصموا باللہ اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا یعنی اللہ کی کتاب اور شریعت پر جم گئے۔ دوسری جگہ فرمایا ” ان تنصروا اللہ ینصرکم “ اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کریگا یہاں بھی اللہ کی مدد کرنے سے مراد اس کے دین کی مدد ہے۔ اگر اللہ کی مدد کروگے ” ویتبت اقدامکم “ وہ تمہارے قدم مضبوط کردے گا۔ اعتصام باللہ کا بھی یہی معنی ہے کہ جو لوگ ایمان اور توحید پر ثابت قدم ہوگئے واخلصوا دیھم للہ اور انہوں نے اللہ کے لئے اپنے دین کو خالص بنالیا۔ کفر ، شرک ، نفاق اور ریاکاری سے پاک ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آئے۔ اخلاص فی الدین کے متعلق ابن ابی شیبہ کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے آپ سے پوچھا من المخلص حضرت یہ بتائیں کہ مخلص کون ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا مخلص وہ شخص ہے جو نیکی کا کام کرتا ہے مگر اس پر لوگوں سے تعریف کا طالب نہیں ہوتا۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی بھی ہے اخلص دینک یکفیک قلیل من العمل دین میں اخلاص پیدا کرلو تو تھوڑا عمل بھی کفایت کر جائیگا ، اخلاص اتنی اچھی چیز ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ اگر خلوص ہو تو سبق مائۃ درھم ایک درہم جو خرچ کیا جائے ایک سو درہم پر سبقت لے جاتا ہے۔ گویا خلوص کے ساتھ ایک درہم خرچ کرنا ریاکاری کے سو درہم سے بھاری ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اخلاص انسان کو برائی سے روکتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ جنہوں نے توبہ کرلی ، پھر اصلاح کی ، اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لیا اور پھر محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر دین میں اخلاص پیدا کیا۔ فائولئک مع المومنین ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے مطلب یہ ہے کہ جب نفاق سے تائب ہو کر اللہ کے دین پر خلوص نیت سے ثابت قدم ہوگئے تو پھر ان کا حشر مخلص مومنوں کے ساتھ ہوگا۔ انہیں کامل الایمان مومنین کی رفاقت نصیب ہوجائیگی۔ پہلے اسی سورة میں گزرچکا ہے کہ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ” فاولئک مع الدین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء والصلحین “ وہ اللہ کے انعام یافتہ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔ خود انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق قرآن پاک میں آتا ہے کہ وہ نیک لوگوں کی رفاقت کی دعا کرتے رہے ” توفنی مسلما والحقی بالصلحین “ اے اللہ ! ہمیں اسلام کی حالت میں موت آئے اور ہمارا حشر نیکوکاروں کے ساتھ ہو۔ فرمایا ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور مومنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے وسوف یوت اللہ المومنین اجراً عظیماً اللہ تعالیٰ انہیں بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان وہ گا کہ کسی کو مومنین کی معیت نصیب ہوجائے۔ ایسا شخص یقینا مقبول خدا اور عظیم اجر کا مستحق ہوگا۔ اعمال کا بدلہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی شخص کو جو سزا ملتی ہے وہ اس کی اپنی بدعملی کی وجہ سے ملتی ہے اگر انسان ایمان اور توحید پر قائم ہو اعمال صالحہ انجام دیتا ہو تو اللہ تعالیٰ کسی کو بلاوجہ عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔ ارشاد ہے۔ مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم۔ اگر تم نے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کیا اور اس پر خلوص نیت سے ایمان لائے تو اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے کر کیا کریگا۔ اپنے بندوں کو عذاب میں مبتلا کرکے اللہ کو خوشی نہیں ہوتی بلکہ وہ تو اپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ اگر بندے اس کی بغاوت نہ کریں تو وہ ان کے ساتھ نہایت ہی مہربان اور بخشنے والا ہے وہ جو بھی تمہیں سزا دیتا ہے وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانی فطرت اس طرح بنائی ہے کہ اعمال کا بیج اس کے اندر سے اٹھتا ہے اور پھر اعمال بھی پلٹ کر وہیں جاتے ہیں اور روح کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور پھر جزائے عمل کا سلسلہ قائم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس پر شریعت کا قانون نافذ ہو اور اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کرے تو سزا کا مستوجب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ملکیت اور زیمیت دونوں چیزیں رکھی ہیں اور دونوں کی آپس میں کش مکش جاری رہتی ہے۔ لہذا اس کشمکش کا تقاضا ہے کہ انسان کے لئے جزائے عمل واقع ہو۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نماز کیوں فرض ہے اور زنا کیوں حرام ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ درندے کے لئے گوشت کھانا کیوں ضروری اور گائے بکری کے لئے گھاس چرنا کیسے لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی فطرت علیحدہ علیحدہ بنائی ہے جس کے مطابق وہ اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں اگر بکری گوشت کھانے لگے تو وہ درندہ بن جائیگی۔ اسی طرح اللہ نے انسان میں خیر و شر کی دونوں قوتیں رکھی ہیں ، جب وہ حدود وقیود کو توڑتا ہے تو سزا کا مستحق ہوجاتا ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ کو بلاوجہ سزا دینے میں کیا فائدہ ہے ؟ فرمایا اگر تم شکرگزاری کروگے اور ایمان لائوگے تو اللہ تعالیٰ یقینا اچھا بدلہ دیگا۔ وکان اللہ شاکرا علیما اللہ تعالیٰ شکرگزاری کرنیوالا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ شکرگزاری کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کا معنی قدردانی ہوتا ہے اور اگر اس کی نسبت بندے کی طرف ہو تو معنی یہ ہوگا کہ انسان اللہ کے احسان کو یاد کرکے دل میں اس کی قدر کرتا ہے اور زبان سے اس کی تعریف کرتا ہے وہ اپنے اعضاء اور جوارح سے ایسا عمل بجا لاتا ہے جس سے اس کا منعم راضی ہوجائے۔ پھر جب بندہ اپنے آپ کو خالصتا اللہ کے سپرد کردیتا ہے اس کا ہر حکم بجا لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اس پر راضی ہوتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے ان تشکر وا یرضہ لکم اگر تم ایمان لائوگے تو خدا راضی ہوگا والا یرضی لعبادہ والکفر اور کافروں سے راضی نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ وہ ہر حالت میں تعریفوں کا مستحق ہے۔ اگر تم اس کا شکر کروگے اور ایمان لائوگے تو وہ قدردان ہے وہ اور زیادہ انعام عطا فرمائے گا۔ وہ ہرچیز کو جانتا ہے۔ ہر شخص کی نیکی اور برائی اور ان کے درجات تک سے واقف ہے اور اس کے مطابق جزا یا سزا کا سلوک کرتا ہے۔
Top