Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 66
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّا كَتَبْنَا : ہم لکھ دیتے (حکم کرتے) عَلَيْهِمْ : ان پر اَنِ : کہ اقْتُلُوْٓا : قتل کرو تم اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ اَوِ اخْرُجُوْا : یا نکل جاؤ مِنْ : سے دِيَارِكُمْ : اپنے گھر مَّا فَعَلُوْهُ : وہ یہ نہ کرتے اِلَّا : سوائے قَلِيْلٌ : چند ایک مِّنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ فَعَلُوْا : کرتے مَا : جو يُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس کی لَكَانَ : البتہ ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَشَدَّ : اور زیادہ تَثْبِيْتًا : ثابت رکھنے والا
اور اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنی جانوں کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ ، تو یہ لوگ ایسا نہ کرتے مگر ان میں سے بہت تھوڑے۔ اور اگر یہ لوگ کرتے اس چیز کو جس کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو البتہ یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوتی اور زیادہ ثابت رکھنے والی ہوتی
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں منافقین کی مذمت بیان ہوئی تھی کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت ، دین اور کتاب کی طرف آؤ اور اس کے رسول سے اپنے تنازعات کا تصفیہ کراؤ تو وہ اعراض کرتے ہیں۔ فرمایا یہ لوگ جھوٹے بہانے کرتے ہیں قسمیں اٹھاتے ہیں مگر یہ چیزیں انجام کے اعتبار سے ان کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ اس کے بعد گزشتہ درس میں رسول خدا کی اطاعتِ کی فرضیت کا تذکرہ تھا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات معلوم کرنے کا واحد ذریعہ اللہ کے نبی اور رسول ہوتے ہیں ، لہٰذا ان کا اتباع ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ خدا کی رضا حاصل ہو سکتی ہے اور نہ انسان کامیاب ہو سکتا ہے۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کے فوائد بیان ہور ہے۔ اور ساتھ ساتھ منافقین کے غلط رویے کی مذمت بھی ہے۔ ابتلامن اللہ ارشاد ہوتا ہے ولوانا کتبنا علیہم اور اگر ہم لکھ دیتے یعنی ان منافقین پر فرض کردیتے۔ کتب کا لغوی معنی لکھنا ہوتا ہے مگر مطلب یہ ہے کہ فرض قرار دیتے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا کتب علیکم القتال تم پر لڑائی فرض کی گئی ہے۔ یا کتب علیکم الصیام تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اسی طرح فرمایا کہ اگر ان پر فرض کردیا جاتا ان اقتلوا انفسکم کہ اپنے آپ کو قتل کرو۔ یعنی خودکشی کرلو۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا جب انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ تو مسویٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ، لہٰذا اب اس کا ازالہ یہ ہے کہ اپنے رب سے توبہ کرو اور ” فاقتملوا انفسکم “ یعنی اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔ تو فرمایا اگر ہم تم پر بھی خودکشی فرض کردیتے اواخراجوا من دیارکم یا اپنے گھروں سے نکل جانے کو ضروری قرار دیتے۔ مافعلوہ الا قلیلٌ منہم تو وہ ایسا نہ کرتے مگر ان میں سے بہت تھوڑے لوگ۔ بنی اسرائیل کو خودکشی کا حکم ہوا اور انہوں نے لیت و لعل کرنے کے بعد حکم کی تعمیل بھی کی۔ مگر ہماری شریعت میں خودکشی حرام ہے حضور ﷺ نے فرمایا جو کوئی خودکشی کریگا اسے برزخ اور آخرت میں وہی سزا ملیگی جو طریقہ اس نے خودکشی کے لیے اختیار کیا۔ مثلاً کسی نے زہر کھالیا یا کسی تیز دھار آلے سے یا گولی مار کر خودکشی کی ، کسی بلند مقام سے چھلانگ لگائی ، پانی میں ڈوب مرا ، تو فرمایا آخرت میں اسے اسی قسم کی سزا دی جائیگی اور وہ اسی طرح خودکشی کرتا رہے گا۔ قربانی کا حکم تو فرمایا آخرت میں اسے اسی قسم کی سزا دی جائیگی اور وہ اسی طرح خودکشی کرتا رہیگا اپنے آپ کی قربانی پیش کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا حکم نہیں دیا اور اگر دے دیتا تو بہت تھوڑے لوگ اس کی تعمیل پر تیار ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے ” لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا کہ وہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھواتا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جانی قربانی پیش کرنے کا حکم نہیں دیا۔ صاحبروح المعانی اور دوسرے مفسرین کرام حضرت عمر ؓ کا قول نقل کرتے ہیں۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے آپ کو اس کی راہ میں قربانکر دیں تو ہم یقینا ایسا کر گزرتے مگر الحمد للہ اللہ نے ایسا حکم نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے بھی اس قسم کا جواب منقول ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ حکم دیتا تو میں اپنی اور اپنے بال بچوں کی جانیں اللہ کی راہ میں قربان کردیتا ۔ حضور ﷺ نے صدیق اکبر ؓ کا یہ جذبہ سنا تو فرمایا صدقت یا ابابکرٍ اے ابوبکر ! تو نے سچ کہا ، تمہارا ایمان واقعی اتنے اعلیٰ درجے کا ہے۔ عبداللہ بن رواحہ ؓ انصار کے خاندان کے اکابر صحابہ میں سے ہیں ، اپنے قبیلہ کے سردار اور شاعر بھی تھے۔ ان کے متعلق بھی اسی قسم کی بات منقول ہے۔ حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ قربانی پیش کرنے کا حکم دیتا تو عبداللہ بن رواحہ اس قلیل تعداد میں شامل ہوتے ، ج و اس حکم کی تعمیل کر گزرتی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق بھی آتا ہے کہ وہ بھی اس قسم کے حکم کی تعمیل کرتے الحمد للہ مالک الملک نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا وگرنہ لوگ سخت آزمائش میں مبتلا ہوجاتے اور بہت کم لوگ اس حکم کی تعمیل کر پاتے مگر اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی ہے کہ جانی قربانی کا حکم نہیں دیا بلکہ جو کوئی شخص سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کر کے معافی مانگ لے تو اللہ تعالیٰ صرف توبہ کرنے سے معافی دے دیتا ہے۔ مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان اقتلوا انفسکم سے مراد جہاد ہے اور اواخرجوا من دیارکم سے مراد ہجرت ہے۔ مگر یہ دونوں چیزیں منافقین کے لیے بھاری ہیں۔ وہ تو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں وہ جہاد اور ہجرت جیسے مشکل امور کیسے انجام دینگے ، حالانکہ اسلام نے انہیں فرض قرار دیا ہے اسی لیے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان دو باتوں کا حکم دیتا ہے تو اس پر بہت قلیل تعداد عمل پیرا ہوتی۔ ہجرت اور جہاد کی اہمیت ہجرت کی اہمیت کے متعلق آتا ہے ان شان الہجرۃ لشدید یعنی ہجرت کا معاملہ بڑا شدید ہوتا ہے جب کسی علاقے میں کفار کو غلبہ حاصل ہوجائے اور اہل ایمان کے لیے شریعت پر عمل کرنا ممکن نہ رہے تو اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کی خاطر وہاں سے ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے ایسے حالات میں جو شخص ہجرت کے لیے تیار نہ ہو ، وہ سخت گنہگار ہے اور اس کے لیے جہنم کی وعید آئی ہے۔ اسی طرح اللہ کے دین کی اقامت کے لیے جہاد بھی فرض ہے۔ جہاد میں قتال بھی شامل ہے جیسے سورة بقرہ میں آ چکا ہے کتب علیکم القتال وہوکرہ لکم پر لڑائی فرض قرار دی گئی ہے اگرچہ وہ تمہیں ناپسند ہو۔ اس میں جان کا خطرہ ضرور ہے مگر انجام کے اعتبار سے اس میں تمہارے لیے بہتری ہے۔ جہاد کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے ذروۃ سنام الاسلام الجہاد یعنی اسلام کی کوہان (بلندی) جہاد ہے۔ جس طرح اونٹ کی شان اس کے کوہان سے ظاہر ہوتی ہے اسی طرح اسلام کی رفعت جہاد سے ہے۔ جہاد کے بغیر نہ حدود اللہ قائم ہو سکتی ہیں اور نہ امن قائم ہو سکتا ہے۔ گویا دشمن کو مغلوب کرنے اور شریعت کے اجرا کے لیے جہاد ضروری ہے۔ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے اگر مسلمانوں کی ایک جماعت اس فریضہ کو ادا کر رہی ہے تو یہ تمام اہل اسلام کی طرف سے ادا تصور ہوگا ، اور اگر قوم کا کوئی فرد بھی جہاد کے لیے تیار نہیں تو پوری کی پوری مسلمان قوم و ملت گنہگار ہوگی۔ قتال کے علاوہ دین اسلام کی تعلیم و تبلیغ ، اشاعت اور تقریر و تحریر بھی جہاد ہی کا ایک حصہ ہے۔ قتال کی طرح یہ فریضہ بھی فرض کفایہ ہی ہے۔ اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو یہ فریضہ ہمیشہ ادا کرتے رہنا چاہیے ، اگر اسلام کی تبلیغ بالکل رک گئی تو پھر بھی ساری قوم گنہگار ہوگی۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ہم جہاد اور ہجرت ان لوگوں پر فرض قرار دیتے تو اس حکم کی تعمیل کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس قلیل تعداد میں صحابہ کرام ؓ تو سب کے سب داخل ہیں کیونکہ وہ ہر حکم کی تعمیل کے لیے ہمیشہ تیار رہے ، البتہ کمزور ایمان والے اور منافق لوگوں کے لیے یہ دونوں چیزیں بہت مشکل ہیں۔ وہ خود غرضی اور آرام طلبی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ مشکل کام ان کے بس کا روگ نہیں رہتے۔ تعمیل حکم منافقین کی اس کمزوری کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولو انہم فعلوا ما یوعظون بہ اگر یہ لوگ ہمارے حکم کی تعمیل کرلیتے ہیں یعنی جس بات کی نصیحت کی جا رہی ہے۔ اسے کر گزرتے ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ، اپنے تمام معاملات رسول خدا کے پاس لاتے ، قرآن و سنت کو اپنی آخری پناہ گاہ بنا لیتے ، تو فرمایا لکان خیراً لہم یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہوجاتے دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوتی اور آخرت کی فلاح تو بہرحال یقینی ہے واشد تثبیتاً اور حکم دین کی تعمیل پر پختگی کی دلیل ہوتا۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ دین پر پختگی کسی شخص کے اعتقاد اور ایمان کی پختگی کی علامت ہوتی ہے دین کے احکام پر جس قدر عمل ہوگا اسی قدر اعتقاد اور ایمان میں مضبوطی آئیگی۔ اور عمل میں جس قدر کمزوری آئیگی ، اعتقاد اور ایمان بھی اسی قدر کمزور ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر ایمان میں پختگی آئیگی تو انسان جہاد اور ہجرت کے لیے تیار ہوجائے گا۔ پھر اس کے لیے کوئی کام دشوار نہیں رہے گا۔ ایمان کی پختگی روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بعض لوگوں کے ایمان زمین میں گڑھے ہوئے پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں آپ نے کامل الایمان لوگوں کی مثال پہاڑوں کے ساتھ دی۔ ایک شاعر نے کہا ہے۔ تزول الجبال الرسیت و قلبنا علی العھد لایلوی ولاتیغیر مطلب یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ اس قدر مضبوط ہونا چاہیے کہ مضبوط پہاڑ تو اپنی جگہ سے ٹل جائیں مگر ہمارا عہدو پیمان اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ علامہ اقبال مرحوم نے بھی یہی بات یوں بیان کی ہے : بخود خزیدہ و محکم چوں کو ہساراں زی چوں خس مزی کہہ وا تندو شعلہ بیباک است یعنی مستقل مزاج بن کر پہاڑوں کی طرح زندہ رہو ، تنکوں کی طرح زندگی مت گزارو کہ ہوا تیز ہے اور شعلہ بیباک ، مطلب یہ کہ اگر حقیر تنکے بن جاؤ گے تو پھر نہ ہوا کے سامنے ٹھہر سکو گے اور نہ آگ سے بچ سکو گے اگز عزت و ناموس کی زندگی گزارنا ہے ، تو پہاڑوں اور چٹانوں کی طرح مضبوط بن جاؤ ۔ آج کی سوسائٹی میں لوگ ڈانواں ڈول پھر رہے ہیں۔ چاروں طرف گمراہی اور اس کے اسباب پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ایمان کی پختگی باقی نہیں رہی لوگ معمولی سی آزمائش پر بھی پورا نہیں اترتے بلکہ قدم قدم پر پھسل جاتے ہیں۔ رسم و رواج اور بدعات میں غرق ہوچکے ہیں۔ مشرک ، کافر ، اور دہریہ اقوام نے دنیا میں ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ لوگ گمراہی کی طرف فوراً راغب ہوجاتے ہیں لہو و لعب ، کھیل تماشہ ، عریانی ، فحاشی اور بےحیائی کے کاموں پر فوراً تیار ہوجاتے ہیں ، ایمان بالکل کمزور ہوچکا ہے ان حالات کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے الصابر علی الدین کالقابض علی البحمد یعنی دین پر ثابت قدم رہنا اتنا مشکل ہوجائیگا جیسے جلتے ہوئے کوئلے کو ہاتھ میں پکڑنا مشکل ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پورے کا پورا ماحول اور برادری بگڑ چکے ہیں۔ سب کے سب رسومات اور بدعات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، ایسے وقت میں ایک صحیح مومن کے لیے گزر اوقات کس قدر مشکل ہوگی۔ دنیا و آخرت کی کامیابی فرمایا اگر یہ لوگ احکام خداوندی پر عمل پیرا ہوجائیں واذاً لاتینہم من لدنا اجراً عظیماً تو ہم انہیں اجر عظیم عطا کرتے۔ یعنی اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تابعداری کرتے ، تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ، ہر معاملہ میں شریعت سے راہنمائی حاصل کرتے اور تمام معاملات میں دین ہی کو مقدم رکھتے تو آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں بہت بڑا صلہ عنیات فرماتے ولھدینہم صراطاً مستقماً اور انہیں دنیا میں صراط مستقیم کی طرف راہنمائی بھی حاصل ہوتی۔ مقصد یہ کہ تعمیل حکم کی صورت میں انہیں دنیا میں صراط مستقیم حاصل ہوجاتا ، جس پر چل کر وہ کامیاب زندگی گزار سکتے ، اور پھر آخرت میں اجر عظیم کے مستحق ہوتے۔ اس طرح دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر کامیاب و کامرانہوتے دوسرے مقام پر فرمایا ” والذین اھتدوا زادہم ہدیً “ جو کوئی ہدایت کے راستے پر چل نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہدایت میں اضافہ فرما دیتا ہے۔ صراط مستقیم ہر مومن کا مطلوب و مقصود ہے جس کے حصول کے لیے ہر نماز میں دعا کی جاتی ہے ” اہدنا الصراط المستقیم “ اے اللہ ! ہمیں صراط مستقیم پر چلا۔ جسے یہ چیز حاصل ہوجائے اس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صراط مستقیم اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اس کے احکام پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔
Top