Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ : اطاعت کرے اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ مَعَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے ساتھ اَنْعَمَ : انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ : سے (یعنی) النَّبِيّٖنَ : انبیا وَالصِّدِّيْقِيْنَ : اور صدیق وَالشُّهَدَآءِ : اور شہدا وَالصّٰلِحِيْنَ : اور صالحین وَحَسُنَ : اور اچھے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ رَفِيْقًا : ساتھی
اور جو شخص اطاعت کریگا اللہ کی اور رسول کی پس یہی لوگ ہیں ان کے ساتھ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے ، انبیائ ، صدیق ، شہداء اور صالحین میں سے اور بہت ہی اچھی ہے ان لوگوں کی رفاقت
ربط آیات گزشتہ آیات میں منافقین کی مذمت بیان کی گئی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتے اور اپنے معاملات کو طاغوت کے پاس لے جانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے ارشاد فرمایا کہ انسانوں کی فلاح کا دارو مدار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے ، جب تک وہ اللہ کے رسول کو اپنا حکم مقرر نہ کریں۔ وہ کامل الایمان نہیں ہو سکتے ، پھر فرمایا ، اگر اللہ تعالیٰ ان پر کوئی مشکل احکام نازل فرما دیتا جیسا کہ بنی اسرائیل کی توبہ کو ان کی جانوں کے قتل کے ساتھ مشروط کردیا تھا۔ تو لوگوں کے لیے بڑی دشواری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی مہربانی فرمائی کہ کوئی ایسا حکم نہیں دیا جو تکلیف مالایطاق میں داخل ہو ، لہٰذا ان لوگوں کی بہتری اسی چیز میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی نصیحت پر عمل پیرا ہوجائیں۔ ایسا کریں گے تو انہیں بہتری ، ایمان میں پختگی ، اجر عظیم اور صراط مستقیم نصیب ہوجائیگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان چار انعامات کا تذکرہ فرمایا۔ ہر نیکی کنندہ کے لیے آخرت میں اجر عظیم تو بلاشبہ ہے ، اسے دنیا میں وہ صراط مستقیم نصیب ہوجائیاگ۔ جس کی دعا ہر مومن ہر نماز میں کرتا ہے۔ انعام یافتہ لوگ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کرنیوالوں کے لیے پانچویں انعام کا ذکر کیا ہے۔ یہ بلند ترین لوگوں کی ریافت ہے جو کہ بڑی ہی فضیلت والی چیز ہے۔ فرمایا و من یطع اللہ والرسول جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریگا۔ اللہ تعالیٰ تو مطاع مطلق بالذات ہے تاہم رسول کی اطاعت بالذات تو نہیں مگر وہ بھی رسالت کی وجہ سے مطلقاً فرض ہے۔ ایسے لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے۔ فاولیک مع الذین انعم اللہ علیہم ان لوگوں کو اللہ کے ان کاملین کی معیت نصیب ہوگی جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے اور یہ انعام یافتہ گروہ چار ہیں من النبین والصدیقین والشھداء والصلحین یعنی ا نبی ائ ، صدیق ، شہدا اور صالحین ہیں۔ یہ انہی لوگوں کی رفاقت کا تذکرہ ہے۔ جن کے متعلق ہر نمازی سورة فاتحہ میں دعا کرتا ہے ” اہدنا الصراط المستقیم اے اللہ ! ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ صراط الذین انعمت علیہم اور وہ سیدھا راستہ ان لوگوں کا ہے جن پر تو نے انعام کیا سورة فاتحہ میں تو انعام یافتہ لوگوں کی تشریح بیان نہیں کی گئی ، ان کا تذکرہ اب اس آیت کریمہ میں ہو رہا ہے۔ منعم علیہم مذکورہ چار معیاری گروہ ہیں۔ ان کے علاوہ باقی لوگ ان سے کم تر درجہ میں ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) انعامات دو قسم کے ہیں یعنی مادی اور روحانی۔ اس دنیا میں مادی انعامات میں تو مومن اور کافر وغیرہ سب شریک ہیں۔ البتہ روحانی نعمتیں اللہ کے مقبول بندوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اور ان میں سرفہرست انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت ہے۔ علم العقائد ایک مستقل فن ہے جس کے ذریعے اچھے اور برے عقائد کی تشریح کی جاتی ہے تو اس فن کے ماہرین نے عقائد کی کتابوں میں بنی کی تعریف یوں کی ہے کہ بنی انسان ہوتا ہے ، جسے اللہ تعالیٰ اپنے احکام پہنچانے کے لیے بنی نوع انسان کی طرف مبعوث فرماتا ہے۔ انسانوں کے علاوہ نبوت کا منصب کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں ہوا ، فرشتوں یا جنات میں سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا ، البتہ اپنے پیغام پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ رسالت کا فریضہ انسانوں کے علاوہ فرشتوں کے سپرد بھی کردیتے ہیں۔ جیسا سورة حج میں فرمایا ” اللہ یطفی من الملیکۃ رسلاً و من الناس “ اللہ تعالیٰ فرشتوں اور لوگوں میں سے رسول منتخب فرما لیتا ہے۔ انسان کی تعریف اہل منطق نے انسان کی تعریف بھی ہے کہ انسان کیا ہے۔ پرانے زمانے کے یونانی کہتے تھے کہ انسان حیوانِ ناطق ہے۔ یعنی ایسا جاندار ہے جو بولتا ہے اور ادراک رکھتا ہے۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) کے سلسلہ کو ماننے والے انسان کی تعریف یوں کرتے ہیں مایتفکر وینع بالا لات یعنی جو غور و فکر کرتا ہے اور آلات کو استعمال کرتا ہے۔ یہ بہترین تعریف ہے جو شاہ رفیع الدین (رح) فرزند شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی منطق کی کتاب میں کی ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے۔ ” خلق الانسان میں علقٍ “ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا اگر اس میں علم و شعور اور دین اور ایمان ہوگا تو وہ صحیح معنوں میں انسان ہے ، ورنہ وہ لوتھڑا ہی ہے جس سے اس کی پیدائش عمل میں آئی ہے۔ نبی انسان ہوتا ہے تو مقصد یہ ہوا کہ نبی انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف شرعی احکام کی تبلیغ کے لیے مبعوث فرماتا ہے۔ اہل بدعت نبی کو انسان ماننے کے لیے تیار نہیں حالانکہ نبی کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ انسان ہوتا ہے۔ اس بات کی وضاحت قرآن پاک میں بار بار کی گئی ہے خود حضور خاتم النبیین اور آپ سے پہلے آنے ولاے رسول انسان ہی تھے۔ سورة انبیاء میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان موجود ہے ” و ما ارسلنا قبلک الا رجالاً نوحی الیہم یعنی پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ سے پہلے ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے سب مرد تھے رجل مرد انسان یا بشر کو کہتے ہیں انسان یا بشر ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اس بات کا اظہار اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے کیا تھا ” انی خالقٌ بشرا من طینٍ “ میں گارے سے بشر کو پیدا کرنے والا ہوں بشر تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہے۔ اسے اللہ نے اپنی تمام مخلوق میں زیادہ پیچیدہ ، غامض اور جامع الصفات پیدا کیا ہے۔ انسان جیسا شرف کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں۔ نبی معصوم ہوتا ہے۔ بہرحال نبی کو منعم علیہم میں سے پہلا درجہ حاصل ہے اور یہ معصوم ہوتا ہے نبی کی معصومیت اس کی خصوصیات میں داخل ہے اس کو گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ اس سے گناہ نہیں سرزد ہونے دیا جائیگا۔ اشرف المخلوقات میں سے یہ شرف کسی دوسری ہستی کو حاصل نہیں۔ ملائکہ بھی معصوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” لایعصون اللہ ما امرہم “ مگر فرشتے انسان کی طرح مادی مخلوق نہیں بلکہ وہ لطیف اور نورانی مخلوق ہے۔ تاہم انسانوں میں سے صرف انبیاء کی جماعت ہی معصوم ہے۔ ان سے جو تھوڑی بہت کوتاہی ہوتی ہے وہ لغزش کہلاتی ہے۔ یہمعمولی چیزیں زلات میں آتی ہیں ، مگر بعض اوقات معمولی سی لغزش پر بھی بہت بڑی گرفت ہوجاتی ہے ، حالانکہ ایسی کوتاہی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کی تعریف میں نہیں آتی۔ اہل سنتہ والجماعتہ کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ نبوت ملنے سے پہلے اور بعد اللہ تعالیٰ انبیاء کو معصیت سے محفوظ رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کی اطاعت مطلقہ فرض ہوتی ہے اور نبی کا ہر فیصلہ قابل عمل ہے لہٰذا نبی سے کوئی غلط بات سرزد نہیں ہوتی۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ کوئی جج یا قاضی غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے کیونکہ اس حالت میں غلطی کا امکان ہے۔ اسی طرح اگر کوئی قاضی کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے تو اس کا فیصلہ درست تسلیم نہیں ہوگا۔ یہ صرف اللہ کے نبی کو شرف حاصل ہے کہ اس کے فرمودات غصے اور مزاج کی حالت میں ہو مومن اور کافر سب شریک ہیں۔ البتہ روحانی نعمتیں اللہ کے نیک بندوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اور ان میں سرفہرست انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت ہے۔ علم العقائد ایک مستقل فن ہے جس کے ذریعے اچھے اور برے عقائد میں بھی برحق ہیں۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا ، حضور ! بعض اوقات آپ ہمارے ساتھ مزاج فرماتے ہیں۔ فرمایا انی لا اقول الا الحق ایسی حالت میں بھی حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ اسی طرح اگر آپ نے کوئی فیصلہ غصے کی حالت میں بھی کیا ہے تو بھی برحق اور قابل تعمیل ہوگا۔ یہ نبی کی خصوصیت ہے کہ اگر اس نے کوئی لغزش ہوجائے تو اسے خبردار کردیا جاتا ہے مگر ایک عام انسان کے لیے یہ ضروری نہیں بہرحال نبی معصوم عن الخطا ہوتا ہے اور اس کی اطاعتِ مطلقہ فرض ہے۔ مفسر قرآن امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ پہلا درجہ انبیاء کا ہے۔ وہ تقدس کے بلند ترین مقام پر ہوتے ہیں۔ وہ حد کمال سے بڑھ کر حد تکمیل تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں ، ان میں ہر خوبی بذاتہٖ موجود ہوتی ہے۔ تمام اوصاف حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے رفعت تقدس کے پیش نظر ہم یوں کرسکتے ہیں کہ وہ تمام حقائق ایمانیہ ، صفات ربانیہ ، ملاء اعلیٰ یا ملکوت و جبروت کا قریب سے مشاہدہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ صدیق کی تعریف صدیق راست باز اور سچے انسان کو کہتے ہیں۔ مسلم شریف ، ترمذی اور دوسری کتب احادیث میں آتا ہے لا یزال العبد یتحری الصدق حتیٰ یکتب عنداللہ الصدیق مومن قول ، فعل ، وعدہ غرضیکہ ہر بات می سچائی کی کوشش کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صدیق لکھ دیاجاتا ہے۔ اسی طرح جھوٹے آدمی کے متعلق بھی آتا ہے لایزال الرجل یتحری الکذب حتیٰ یکتب عنداللہ الکذاب کوئی شخص مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ بہرحال انبیاء (علیہم السلام) سب کے سب صدیق ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں کئی انبیاء کے علاوہ دیگر مومن لوگ بھی صدیق ہوتے ہیں۔ مگر وہ دوسرے درجے میں آتے ہیں ان میں مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ یہ فضیلت کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔ صدیق ظاہراً اور باطناً کمال درجے کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔ وہ اپنے قول ، فعل اور عقیدے میں ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ شہید اور شہادت شہید کا معنی گواہ ہے اور کسی معاملہ میں گواہی عموماً مشاہدہ کی بنا پر ہوتی ہے مگر کبھی علم کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے ۔ اسلام میں قانون شہادت بڑا اہم قانون ہے۔ گواہی کے متعلق قرآن پاک میں متعدد مقامات پر آیا ” اقیموا الشہادۃ للہ “ یعنی اللہ کے لیے بلاکم وکاست گواہی دو ۔ انگریز نے تو قانون شہادت کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت عدالتوں میں گواہی دی نہیں جاتی بلکہ پڑھاتی جاتی ہے۔ پولیس اور وکیل گواہوں کو اچھی طرح سکھاتے ہیں کہ یوں گواہی دینا ورنہ کیس خراب ہوجائے گا۔ یہ کیسی گواہی ہے۔ صحیح گواہی تو یہ ہے کہ اولاً گواہ مومن ، شریف اور عقل مند ہو ، فاسق فاجر یا پاگل آدمی کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی اور پھر یہ ہے کہ جو چھ اس نے دیکھا صاف صاف عدالت میں بیان کر دے۔ مقدمات کا صحیح فیصلہ اس قسم کی گواہی پر ہی ہو سکتا ہے۔ اگر انگریزی قانونِ شہادت کے مطابق کرائے کے گواہ ہی گواہی دیتے رہے تو کبھی درست فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ بہرحال یہاں پر شہید سے مراد نبی اور صدیق کے بعد تیسرے درجے کے وہ مومنین ہیں جو حق و صداقت اور ایمان کی خاطر اپنی جان کی بازی بھی لگا دیں۔ انہیں حقائق کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی عزیز ترین متاع جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان میں صدیقین جیسی علمی قوت تو نہیں ہوتی مگر ان کی عملی قوت کامل درجے کی ہوتی ہے جو کہ انبیاء کی قوت عملیہ کا عکس ہوتی ہے۔ یہ تیسرے درجے کے منعم علیہ ہوتے ہیں۔ صالحین انعام یافتہ لوگوں کا چوتھا گروہ صالحین کا ہے۔ یہ صلاحیت اور نیکی کے حامل لوت ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اتباع میں کامل ہوتے ہیں۔ انہیں نہ تو شہیدوں جیسا مشاہدہ حاصل ہوتا ہے اور نہ صدیقوں جیسا کمال علم۔ یہ دوسروں سے بات سن کر یقین قلب کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں ، ان کا ذہن شک و تردد سے پاک ہوتا ہے اور وہ عمر بھر کمال درجے کی نیکی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ یہ صالحین کا گروہ ہے جو چوتھے درجے میں آتا ہے۔ قرآن و سنت کی اصطلاح میں صالح شخص وہ ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو ادا کرے۔ حقوق سے روگردانی کرنے والا شخص صالح نہیں ہو سکتا۔ اچھے اور نیک لوگ ان چار گروہوں کے علاوہ بھی ہیں مگر وہ ان سے کم تر درجہ میں ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ گروہ یہ چار ہی ہیں۔ یہی لوگ صراط مستقیم کے راہی ہیں ، وہ صراط مستقیم جس پر چلنے کی ہر مومن دعا کرتا ہے۔ منعم علیہم کی جامع تعریف شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ نبی پر وحی نازل ہوتی ہے اور اسے حد درجے کا قرب حاصل ہوتا ہے لہٰذا وہ عالم بالا کی چیزوں کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ صدیق میں غایت درجے کی قلبی صفائی ہوتی ہے ، اس میں فضائل کی بہتات ہوتی ہے اور رذائل اس سے دور ہوتے ہیں نبی پر جو وحی نازل ہوتی ہے ، صدیق شہادت قلبی سے اس کی تصدیق کرتا ہے ، اس کے لیے اسے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے واقعات میں موجود ہے۔ غرضیکہ نبی کا مشاہدہ قریب سے ہوتا ہے اور صدیق کا مشاہدہ دور سے۔ اس کے بعد شہید کا درجہ ہے اسے یہ درجہ دلائل وبراہین کے ساتھ ریاضت اور عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور صالح وہ ہے جس کے قلب میں قرینے کے ساتھ اطمینان پیدا ہوتا ہے ، جس کے ذریعے وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ امام بیضاوی (رح) نے یوں بھی تاویل کی ہے۔ منعم علیہم کی رفاقت فرمایا جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اسے انعام یافتہ لوگوں کی رفاقت نصیب ہوگی وحسن اولیک رفیقاً اور ان لوگوں کی رفاقت نہایت ہی اچھی ہے ، جسے نصیب ہوجائے اس رفاقت کی تشریح حدیث شریف میں موجود ہے اور وہ اس طرح کہ بلند درجے والے اور نچلے درجے والے جنتیوں کی آپس میں ملاقاتیں ہونگی ، ایک دوسرے کی مصاحبت حاصل ہوگی اور آپس میں گفتگو ہوگی۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ہفتہ میں ایک دن یعنی جمعہ کے روز اطاعت گزار لوگ انعام یافتہ لوگوں سے ملاقات کیا کریں گے۔ اس ملاقات سے نچلے درجے والا جنتی بھی اس قدرمطمئن ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ درجے والے منعم علیہ کا ہم اعزاز ہی سمجھے گا۔ ان پر ایسی کیفیت طاری ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو کمتر خیال نہیں کریں گے حالانکہ ان کے درجات میں اس قدر تفاوت ہوگا جتنا زمین اور بلند تر ستارے کے درمیان فرق ہے۔ بہرحال کمال درجے کی اطاعت کرنے والوں کو منعم علیہم کی معیت نصیب ہوگی اور اچھی سوسائٹی کامل جانا بذات خود بہت بڑی سعادت ہے۔ دنیا میں اچھی سوسائٹی کامل جانا بھی کوئی کم نعمت نہیں مگر آخرت کی یہ پاکیزہ سوسائٹی تو جنت ، علین ، خطیرۃ القدس اور ملاء اعلیٰ میں نصیب ہوگی۔ اس دنیا میں تو اس انعام کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے تو انبیاء نے بھی دعا کی ” توفنی مسلماً والحقنی بالصلحین “ الٰہی مجھے اسلام پر موت اور صالحین کی رفاقت نصیب فرما۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ قادیانیوں نے اس آیت کریمہ سے غلط استدلال کیا ہے یہ لوگ کافر اور مرتد ہیں اور یہ ملعون فرقہ ہے۔ انہوں نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ جو کوئی اللہ اور رسول کی اطاعت کریگا وہ نبی ، صدیق ، شہید یا صالح بن جائیگا۔ اس طرح وہ مرزا غلام احمد کی نبوت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آیت کریم کا مطلب واضح ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے اطاعت گزاروں کو ان چار انعام یافتہ گروہوں کی رفاقت نصیب ہو جائیگی۔ شانِ نزول حضرت ثوبان ؓ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دفعہ سخت بےچینی کی حالت میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے اضطرار کی وجہ دریافت کی تو عرض کیا ، حضور ! جب میں اس دنیا میں اپنے گھر پر ہوتا ہوں اور بےچین ہوجاتا ہوں تو آپ کی زیارت کر کے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ اگلے جہاں میں نامعلوم کیا صورت حال ہوگی۔ اول تو میرا جنت میں جانا قطعی معلوم نہیں اور اگر میں خدا کے فضل سے وہاں پہنچ بھی گیا تو میں تو کسی ادنیٰ درجے میں ہوں گا جب کہ آپ عزت کے بلند ترین مقام میں ہوں گے ، تو وہاں آپ کی زیارت سے اپنی آنکھیں کیسے ٹھنڈی کرسکو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ حضور ﷺ کے خادم تھے۔ سفرو حضر میں آپ کی خدمت انجام دیتے تھے۔ ایک رات حضور ﷺ نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ پھر ربیعہ ؓ سے فرمایا ، کوئی خواہش ہے تو بیان کرو۔ عرض کیا ، حضور ! میری تمنا یہ ہے کہ جنت میں آپ کی معیت حاصل ہوجائے۔ آپ نے پھر فرمایا۔ او غیر ذلک اس کے علاوہ کچھ مطلوب ہو۔ پھر عرض کیا میری خواہش صرف یہ ہے کہ آپ کی رفاقت حاصل ہوجائے۔ اس پر آپ نے فرمایا اعنی و علی نفسک بکترۃ السجود اپنے نفس کے خلاف سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری مدد کرو۔ یعنی کثرت سے نمازیں پڑھا کرو۔ تاکہ تمہارے اندر لطافت پیدا ہوجائے ، تزکیہ نفس ہوجائے اور پھر میں بھی دعا کروں گا تو اللہ تعالیٰ تمہیں میری رفاقت نصیب کردیں گے۔ بہرحال اس قسم کے بعض دیگر واقعات بھی اس آیت کریمہ کے شان نزول میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل فرمایا ذلک الفضل من اللہ انبیائ ، اصدقا ، شہدا اور صالحین کی معیت حاصل ہوجانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل ہے ، جسے نصیب ہوجائے یہ اس کی خاص مہربانی اور انعام ہے وکفی باللہ علیماً اور کافی ہے اللہ تعالیٰ جاننے والا۔ یہ چیز رب العزت کے علم میں ہے کہ کون شخص کتنے خلوص کا حامل ہے اس میں ایمان اور تقویٰ کی کتنی مقدار ہے لہٰذا یہ شخص کو اس کی حیثیت کے مطابق ثمرہ ادا کیا جائے گا۔ علیم کل فقط ذات خداوندی ہے۔
Top