Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو)
خُذُوْا
: لے لو
حِذْرَكُمْ
: اپنے بچاؤ (ہتھیار)
فَانْفِرُوْا
: پھر نکلو
ثُبَاتٍ
: جدا جدا
اَوِ
: یا
انْفِرُوْا
: نکلو (کوچ کرو)
جَمِيْعًا
: سب
اے ایمان والو ! اپنے بچاؤ کا سامان اختیار کرلو پھر کوچ کرو جُدا جُدا گروہوں کی شکل میں یا سب اکٹھے ہوکر
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لزوم کا بیان تھا۔ اور اسے کامیابی کا ذریعہ بتلایا گیا تھا ، پھر اس اطاعت کے فوائد گنوائے گئے کہ اطاعت گزاروں کو نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی معیت نصیب ہوگی جو کہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اس سے پیشر اطاعت ہی کے ضمن میں منافقین کا اعراض اور ان کی مذمت بیان ہوئی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتے لہٰذا وہ اپنے تنازعات کا رُخ رسول خدا کی بجائے طاغوت کی طرف موڑتے ہیں پھر یہ بھی بیان ہوا کہ منافقین کے ساتھ کیا روش اختیار کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا کیونکہ تقویٰ ہی مومنین کا مقصود ہے۔ اس ضمن میں حلال و حرام کا امتیاز واضح کیا گیا۔ محرکات نکاح کی وضاحت ہوئی۔ وراثت کے مسائل بیان ہوئے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تذکرہ ہوا اور خاص طور پر یتیموں کے حقوق کی حفاظت کی تاکید کی گئی۔ اہلِ کتاب کی قباحتوں کو بیان کر کے ان سے بچنے کی تلقین کی گئی ، یہ سب تقویٰ ہی کی جزیات ہیں پھر اسی ضمن میں دین کے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کا بیان ہے مخالفین کے ساتھ جہاد اور قتال بھی حصول تقویٰ ہی کا ذریعہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے اللہ کا حکم غالب آتا ہے ، لہٰذا آج کی آیات سے جہاد کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس کے مضامین اور متعلقات آئندہ تقریباً چھ رکوع تک بیان ہونگے۔ دفاع کے لیے تیاری ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اے صاحب ایمان لوگو ! خذوا حذرکم اپنے بچاؤ کا سامان کرلو۔ حذر کا معنی احتیاط ہوتا ہے ، یعنی اپنی حفاظت کا بندوبست کرلو کیونکہ اب دشمن سے ٹکر لینا ضروری ہوگیا ہے۔ بچاؤ یا دفاع کے سلسلے میں جن جن ہتھیاروں یا دیگر لوازمات کی ضرورت پیش آتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جمع کرنے اور اپنی قویٰ کو مجتمع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس ضمن میں مفصل احکامات سورة انفال اور توبہ میں بیان ہوئے ہیں کیونکہ ان سورتوں کا موضوع ہی ” اسلام کا قانونِ جنگ اور صلح “ ہے۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ نے یہی حکم ان الفاظ کے ساتھ دیا ہے۔ ” واعدوا لہم ما استطعت من قوۃٍ و من رباط الخیل “ یعنی اپنی پوری طاقت کے ساتھ دشمن سے مقابلے کے لیے تیر رہو۔ وہاں پر گھوڑوں کا خاص طور پر ذکر کیا کہ اس زمانے میں میدانِ جنگ میں سامان حرب کے علاوہ گھوڑوں کو بھی خاص اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اس زمانے میں تیر اندازی بھی نہایت ہی موثر طریقہ جنگ تھا۔ چناچہ تیر اندازی سیکھنا ضروری اور سیکھ کر بھلا دینا یعنی اس کی مشق ترک کردینا گناہ تھا۔ بہرحال من قوۃ میں حرب و ضرب کے تمام وہ ذرائع آجاتے ہیں جو جنگ کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں تلوار ، تیر ، نیزہ وغیرہ تھے۔ اب گردش زمانہ کے ساتھ ساتھ اوزارِ جنگ بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ تیر تلوار کے بعد آتشیں اسلحہ ایجاد ہوا ، بندوق آئی ، پھر توپ بنائی گئی۔ بم تیار ہوئے اور پھر انہیں پھینکنے کے لیے تیز رفتار ہوائی جہاز ایجاد ہوئے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر راکٹ اور میزائل بنائے گئے جن کے ذریعے گھر بیٹھے دشمن پر وار کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے جس جس زمانہ میں جس جس سامانِ دفاع کی ضرورت ہو ، وہ سب جمع کرلو اور اپنی تمام تر قوتیں اور وسائل اس کام پر لگادو۔ جدید ٹیکنالوجی جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت خذواحذرکم میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ہر زمانے میں کامیاب جنگ لڑنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی قوم دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس ضمن میں مسلم اقوام تقریباً گزشتہ چار سو سال سے انحطاط کا شکار ہیں۔ ترکوں نے بڑی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اب اس دور میں جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، روس اور امریکہ کے پاس ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش اور محنت سے جدید ٹیکنالوجی حاصل کی ہے اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خطرناک سے خطرناک اسلحہ تیار کر رہے ہیں۔ ایٹم بم پھینکنے کا واحد تجربہ امریکہ دوسری جنگ عظیم میں کرچکا ہے اب روس اور امریکہ کے درمیان دور مار میزائلوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اور دنیا میں یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اب اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو اس قسم کے خطرناک ہتھیار دنیا کو تباہی کے منہ میں دھکیل دیں گے۔ اس کے مقابلے میں مسلم ممالک کی حالت زار یہ ہے کہ بڑی طاقتوں سے بچے کھچے ہتھیاروں کی بھیک مانگ رہے ہیں اور انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں سامان جنگ دے دو ، کسی ضرورت کے وقت ہم بھی تمہارے ساتھ ہوں گے ، مگر غیر مسلم بڑی عالمی طاقتیں (Super Powers) جدید ترین اسلحہ ، مسلم ممالک کو دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتیں ، انہیں خطرہ ہے کہ یہ ہتھیار خود ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا کے پا س وسائل موجود ہیں۔ مگر ٹیکنالوجی نہیں ۔ وہ ذہنی طور پر مغلوب ہوچکے ہیں۔ بڑی طاقتوں نے انہیں غلام بنا رکھا ہے۔ ان کے دل و دماغ پر ایسا جادو کردیا ہے کہ ان میں حریت کا مادہ ہی ختم ہوچکا ہے۔ آج اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ سب مل کر اپنے وسائل جمع کرلیں اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کریں اس کے ذریعے سامانِ دفاع تیار کریں تاکہ بوقت ضرورت دشمن پر بھرپور وار کیا جاسکے۔ سلف کے کارنامے ہمارے اسلاف نے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے اور جان پر کھیل کر بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔ مصر کی فتح میں حضرت زبیر ؓ نے عظیم قربانی پیش کی۔ قلعہ مضبوط تھا اور سَر ہونے میں نہیں آتا تھا۔ آپ نے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے ٹوکرے میں ڈال کر قلعے کی دیوار سے کس طرح قلعے کے اندر پھینک دو کہ اب یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ کے ساتھیوں نے ایسا ہی کیا آپ نے قلعہ میں داخل ہوتے ہی اندھا دھند تلوار چلانی شروع کردی ہے مصری سمجھے کہ مسلمانوں کی پوری فوج قلعہ میں داخل ہوگئی ہے لہٰذا انہوں نے بھاگنے کے لیے قلعہ کے دروازے از خود کھول دیے۔ پروگرام کے مطابق مجاہدین قلعہ سے باہر منتظر تھے ، جونہی دروازہ کھلا انہوں نے یکبارگی حملہ کردیا اور اس طرح یہ مضبوط قلعہ فتح ہوا۔ یہی حضرت زبیر ؓ ہیں جنہوں نے شامیوں کے ساتھ جنگوں میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ایک ایک لاکھ دشمن کی صوفوں میں تن تنہا گھس جاتے تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انہوں نے اپنے بیٹے عروہ (رح) سے کہا بیٹے ! میرے جسم کی کوئی ایک انچ جگہ بھی زخم سے خالی نہیں۔ میں نے بڑی بڑی جنگیں لڑی ہیں ، مگر شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ موت تو آخر اپنے وقت پر ہی آئے گی۔ ایک موقع پر دشمن کا نیزہ آپ کے جسم سے آر پار ہوگیا ، اگرچہ زخم مندمل ہوگیا مگر وہاں پر ایک کڑا سا بن گیا تھا ، میں ہاتھ ڈا ل کر عروہ (رح) بچپن میں کھیلا کرتا تھا۔ جنگی حکمت عملی بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی قوت ، سرمائے اور دیگر وسائل کے ساتھ جنگ کی تیاری کرو۔ مسلمان مادی لحاظ سے اگرچہ کمزور ہیں تاہم اگر قوت ایمان بھی موجود ہو تو پھر بھی مسلمان ناقابل تسخیر ہوتا ہے مگر افسوس کہ مسلمان اس سے بھی محروم ہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ ایمان والو ! اپنے دفاع کے لیے ہر مطلوبہ سامان مہیا کرو ، جدید ترین آلات حرب سے لیس ہونے کی کوشش کرو اور پ ھر مناسب جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن پر حملہ آور ہو۔ اور اس سلسلہ میں فانفروا ثباتٍ او انفروا جمیعاً نکل کھڑے ہو گروہوں کی صور ت میں یا سب اکٹھے ہو کر۔ مقصد یہ ہے کہ موقع کی مناسبت سے خواہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں حملہ آور ہو یا یکدم پوری قوت اور لشکر جھونک دو ۔ جس طریقے سے کامیابی کا امکان ہو ، وہی طریقہ استعمال کرو۔ بعض اوقات کھلے عام ٹکر لینے کی بجائے گوریلا وار زیادہ مناسبِ حال ہوتی ہے ویٹ نامیوں نے امریکہ کے خلاف دس سال تک گوریلا جنگ لڑی جس میں تیس لاکھ آدمی ہلاک ہوئے اور بالآخر امریکہ کو ویت نام سے جانا ہی پڑا۔ بہرحال فرمایا کہ پوری تیاری کے بعد مناسب طریقہ سے جنگ کا آغاز کرو۔ منافقین کی روش جہاں اہل ایمان کو جنگ کی ترغیب دی جا رہی ہے وہاں منافقین کے نفاق کا پردہ بھی چاک کیا جا رہا ہے۔ و ان منکم لمن لیبطن اور تم میں سے بعض ایسے ہیں جو تاخیر کرتے ہیں۔ یعنی جب مجاہدین کی روانگی کا وقت آتا ہے تو منافق لوگ حیلے بہانے سے روانگی میں دیر کرتے ہیں تاکہ کسی طرح جنگ میں شریک ہونے سے بچ جائیں اور جنگ کے نتیجے میں ایسا بھی ہوتا ہے فان اصابتکم مصیبۃٌ اگر تم پر یعنی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے۔ شکست آجاتی ہے یا جانی اور مالی نقصان ہوجاتا ہے تو منافق کہتا ہے۔ قال قد انعم اللہ علی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ڑا حسان کیا ہے اذ لم اکن معہم شہیداً کہ میں ان مجاہدین کے ساتھ شامل نہیں تھا۔ اگر ان کے ساتھ جہاد میں شریک ہوجاتا تو مجھ پر بھی وہی آفت آتی جو ان پر آئی ہے۔ اور اگر اگر کے برخلاف و لئن اصابکم فضل من اللہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہوجائے فتح حاصل ہو یا مال غنیمت ہاتھ آئے تو منافق کی حالت یہ ہوتی ہے۔ لیقولن کان لم تکن لبینکم و بینہ مودۃٌ گویا تمہارے اور اس کے درمیان دوستی کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اسے تمہاری کامیابی پر قطعاً کوئی خوشی نہیں ہوتی اور پھر بالکل اجنبی بن کر کہتا ہے یلیتنی کنت معہم کاش کہ میں بھی مجاہدین کے ہمرکاب ہوتا فافوز فوزاً عظیماً تو مجھے بھی بہت بڑی کامیابی حاصل ہوتی اور میں بھی ایمان والوں کے برابر مفاد حاصل کرتا۔ مسلمان بحیثیت جماعت یہ تو منافق کا حال بیان کیا گیا ہے۔ مگر پکے سچے مسلمان کی حالت یہ ہے کہ شکست ہوجائے یا کوئی دیگر نقصان ہوجائے تو ہر مسلمان کو اس پر دلی افسوس ہوتا ہے اور اگر مسلمان کی جماعت کامران ہوجاتی ہے تو ہر مسلمانوں کو خوشی حاصل ہوتی ہے کہ الحمد للہ ہماری جماعت کو کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر منافق ہمیشہ اپنے ذاتی نفع و نقصان پر نظر رکھتا ہے۔ مفاد حاصل ہوگیا تو خوش ہوگیا ، ورنہ افسوس کرنے بیٹھ گیا۔ مسلمان اور منافق کے تقابل سے بتانا یہ مقصود ہے کہ مسلمان من حیث الجماعت ہی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ ید اللہ علی الجماعۃ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے ، اسے خداوند عالی کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور جب جماعت کی بجائے انفرادیت پیدا ہوگی تو پوری قوم خود غرضی کا شکار ہو جائیگی اور تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے گی۔ من شذ شذ فی النار جو جماعت سے علیحدہ ہوگیا وہ جہنم رسید ہوگیا۔ انفرادیت کی جڑ خود غرضی ہوتی ہے اور جب انفرادیت آتی ہے تو جماعت اور ملت خراب ہوجاتی ہے اور مسلمان بحیثیت قوم مغلوب ہوجاتا ہے۔ طبری نے لکھا ہے کہ قروان اولیٰ میں مسلمان ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے زندہ تھے۔ جب جنگ کے نتیجے میں قید ہونے والے قیدیوں کا تبادلہ کیا جاتا تھا تو انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ چاہیں تو کافروں کے ساتھ واپس چلے جائیں اور اگر وہ مسلمان ہو کر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہونا چاہیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائیگا کہتے ہیں کہ اس طریقے سے اگر کوئی کافر قیدی مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجاتا تھا تو مسلمانوں کو اس قدر خوشی حاصل ہوتی تھی۔ گویا انہیں دنیا ومافیہا کی ہر چیز میسر آگئی اور اگر کوئی ایک مسلمان بھی کفار کے ساتھ جا ملتا تھا تو مسلمانوں پر غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ ہماری ساری دنیا ہی لُٹ گئی ہے۔ مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں کتنے لوگ دائرہ اسلام سے نکل کر عیسائیت اور مرزائیت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج ایسے واقعات سے ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جب زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے تو اس سے بڑھ کر بدبختی کیا ہو سکتی ہے۔ کامیابی کی کلید مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کے لیے فرمایا فلیقاتل فی سبیل اللہ پس چاہیے کہ اللہ کے راستے میں لڑیں وہ لوگ الذین یشرون الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ جو بیچتے ہیں دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں۔ مقصد یہ کہ اہل ایمان محض اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جنگ میں کود جائیں۔ ان کا یہ جہاد ، دولت ، شہرت اور سلطنت کیل یے نہیں بلکہ اللہ کے دین کی بلندی کے لیے ہونا چاہئے۔ اس مضمون کو سورة توبہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ” ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ مومن مال اور جان کی بازی اس لیے لگاتا ہے کہ اسے ایمان میں کمال حاصل ہوجائے اور اس کی ذات میں قرآن کا اخلاق پیدا ہوجائے۔ وہ اس راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کرتا چلا جاتا ہے ، یہی ایک مومن کی شان ہے۔ وہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے عزت اور ابدی مقام جنت کا ٹکٹ حاصل کرتا ہے۔ اس راستے میں رکاوٹ ڈالنے والے یا تو ملوک ہوتے ہیں یا غلط قسم کے مولوی اور پیر یہی طاغوت ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک کی اصطلاح میں ہر وہ طاقت طاغوت ہے جو ایمانی اور قرآنی اخلاق کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اجرِ عظیم آگے فرمایا و من یقاتل فی سبیل اللہ جو کوئی اللہ کی راہ میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ فیقتل تو خواہ وہ قتل کردیا جائے یعنی شہید ہوجائے اویغلب یا دشمن پر غالب آجائے۔ اللہ تعالیٰ فتح عطا کر دے ، دونوں صورتوں میں فسوف نوتیہ اجراً عظیماً عنقریب ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ تکفل اللہ للمجاہدین اللہ تعالیٰ نے مجاہدوں کو ضمانت دے رکھی ہے کہ اگر شہید ہوگیا تو اسے اللہ تعالیٰ بلند ترین مرتبے تک پہنچائیں گے اور اگر غازی بن کر آیا تو دنیوی اعتبار سے بھی مستحق اجر ہوگا کہ اسے مال غنیمت سے حصہ ملے گا۔ جہاد اس قدر بلندمرتبہ چیز ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ذروۃ سنامہ الجہاد یعنی اسلام کی بلندی جہاد میں ہے حدو داللہ جہاد کے ذریعے ہی قائم ہو سکتے ہیں۔ جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد زندہ رہے گا ، وہ غالب رہیں گے۔ جب ضرورت پڑے گی میدانِ جنگ میں کودنے سے دریغ نہیں کریں گے اور خود اپنے دفاع کو مضبوط رکھیں گے۔ اسی عمل میں ان کے لیے دنیا کی عزت اور آخرت کی فلاح ہے۔
Top