Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
اے ایمان والو ! اپنے بچاؤ کا سامان اختیار کرلو پھر کوچ کرو جُدا جُدا گروہوں کی شکل میں یا سب اکٹھے ہوکر
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لزوم کا بیان تھا۔ اور اسے کامیابی کا ذریعہ بتلایا گیا تھا ، پھر اس اطاعت کے فوائد گنوائے گئے کہ اطاعت گزاروں کو نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی معیت نصیب ہوگی جو کہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اس سے پیشر اطاعت ہی کے ضمن میں منافقین کا اعراض اور ان کی مذمت بیان ہوئی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتے لہٰذا وہ اپنے تنازعات کا رُخ رسول خدا کی بجائے طاغوت کی طرف موڑتے ہیں پھر یہ بھی بیان ہوا کہ منافقین کے ساتھ کیا روش اختیار کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا کیونکہ تقویٰ ہی مومنین کا مقصود ہے۔ اس ضمن میں حلال و حرام کا امتیاز واضح کیا گیا۔ محرکات نکاح کی وضاحت ہوئی۔ وراثت کے مسائل بیان ہوئے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تذکرہ ہوا اور خاص طور پر یتیموں کے حقوق کی حفاظت کی تاکید کی گئی۔ اہلِ کتاب کی قباحتوں کو بیان کر کے ان سے بچنے کی تلقین کی گئی ، یہ سب تقویٰ ہی کی جزیات ہیں پھر اسی ضمن میں دین کے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کا بیان ہے مخالفین کے ساتھ جہاد اور قتال بھی حصول تقویٰ ہی کا ذریعہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے اللہ کا حکم غالب آتا ہے ، لہٰذا آج کی آیات سے جہاد کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس کے مضامین اور متعلقات آئندہ تقریباً چھ رکوع تک بیان ہونگے۔ دفاع کے لیے تیاری ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اے صاحب ایمان لوگو ! خذوا حذرکم اپنے بچاؤ کا سامان کرلو۔ حذر کا معنی احتیاط ہوتا ہے ، یعنی اپنی حفاظت کا بندوبست کرلو کیونکہ اب دشمن سے ٹکر لینا ضروری ہوگیا ہے۔ بچاؤ یا دفاع کے سلسلے میں جن جن ہتھیاروں یا دیگر لوازمات کی ضرورت پیش آتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جمع کرنے اور اپنی قویٰ کو مجتمع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس ضمن میں مفصل احکامات سورة انفال اور توبہ میں بیان ہوئے ہیں کیونکہ ان سورتوں کا موضوع ہی ” اسلام کا قانونِ جنگ اور صلح “ ہے۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ نے یہی حکم ان الفاظ کے ساتھ دیا ہے۔ ” واعدوا لہم ما استطعت من قوۃٍ و من رباط الخیل “ یعنی اپنی پوری طاقت کے ساتھ دشمن سے مقابلے کے لیے تیر رہو۔ وہاں پر گھوڑوں کا خاص طور پر ذکر کیا کہ اس زمانے میں میدانِ جنگ میں سامان حرب کے علاوہ گھوڑوں کو بھی خاص اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اس زمانے میں تیر اندازی بھی نہایت ہی موثر طریقہ جنگ تھا۔ چناچہ تیر اندازی سیکھنا ضروری اور سیکھ کر بھلا دینا یعنی اس کی مشق ترک کردینا گناہ تھا۔ بہرحال من قوۃ میں حرب و ضرب کے تمام وہ ذرائع آجاتے ہیں جو جنگ کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں تلوار ، تیر ، نیزہ وغیرہ تھے۔ اب گردش زمانہ کے ساتھ ساتھ اوزارِ جنگ بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ تیر تلوار کے بعد آتشیں اسلحہ ایجاد ہوا ، بندوق آئی ، پھر توپ بنائی گئی۔ بم تیار ہوئے اور پھر انہیں پھینکنے کے لیے تیز رفتار ہوائی جہاز ایجاد ہوئے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر راکٹ اور میزائل بنائے گئے جن کے ذریعے گھر بیٹھے دشمن پر وار کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے جس جس زمانہ میں جس جس سامانِ دفاع کی ضرورت ہو ، وہ سب جمع کرلو اور اپنی تمام تر قوتیں اور وسائل اس کام پر لگادو۔ جدید ٹیکنالوجی جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت خذواحذرکم میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ہر زمانے میں کامیاب جنگ لڑنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی قوم دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس ضمن میں مسلم اقوام تقریباً گزشتہ چار سو سال سے انحطاط کا شکار ہیں۔ ترکوں نے بڑی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اب اس دور میں جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، روس اور امریکہ کے پاس ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش اور محنت سے جدید ٹیکنالوجی حاصل کی ہے اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خطرناک سے خطرناک اسلحہ تیار کر رہے ہیں۔ ایٹم بم پھینکنے کا واحد تجربہ امریکہ دوسری جنگ عظیم میں کرچکا ہے اب روس اور امریکہ کے درمیان دور مار میزائلوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اور دنیا میں یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اب اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو اس قسم کے خطرناک ہتھیار دنیا کو تباہی کے منہ میں دھکیل دیں گے۔ اس کے مقابلے میں مسلم ممالک کی حالت زار یہ ہے کہ بڑی طاقتوں سے بچے کھچے ہتھیاروں کی بھیک مانگ رہے ہیں اور انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں سامان جنگ دے دو ، کسی ضرورت کے وقت ہم بھی تمہارے ساتھ ہوں گے ، مگر غیر مسلم بڑی عالمی طاقتیں (Super Powers) جدید ترین اسلحہ ، مسلم ممالک کو دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتیں ، انہیں خطرہ ہے کہ یہ ہتھیار خود ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا کے پا س وسائل موجود ہیں۔ مگر ٹیکنالوجی نہیں ۔ وہ ذہنی طور پر مغلوب ہوچکے ہیں۔ بڑی طاقتوں نے انہیں غلام بنا رکھا ہے۔ ان کے دل و دماغ پر ایسا جادو کردیا ہے کہ ان میں حریت کا مادہ ہی ختم ہوچکا ہے۔ آج اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ سب مل کر اپنے وسائل جمع کرلیں اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کریں اس کے ذریعے سامانِ دفاع تیار کریں تاکہ بوقت ضرورت دشمن پر بھرپور وار کیا جاسکے۔ سلف کے کارنامے ہمارے اسلاف نے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے اور جان پر کھیل کر بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔ مصر کی فتح میں حضرت زبیر ؓ نے عظیم قربانی پیش کی۔ قلعہ مضبوط تھا اور سَر ہونے میں نہیں آتا تھا۔ آپ نے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے ٹوکرے میں ڈال کر قلعے کی دیوار سے کس طرح قلعے کے اندر پھینک دو کہ اب یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ کے ساتھیوں نے ایسا ہی کیا آپ نے قلعہ میں داخل ہوتے ہی اندھا دھند تلوار چلانی شروع کردی ہے مصری سمجھے کہ مسلمانوں کی پوری فوج قلعہ میں داخل ہوگئی ہے لہٰذا انہوں نے بھاگنے کے لیے قلعہ کے دروازے از خود کھول دیے۔ پروگرام کے مطابق مجاہدین قلعہ سے باہر منتظر تھے ، جونہی دروازہ کھلا انہوں نے یکبارگی حملہ کردیا اور اس طرح یہ مضبوط قلعہ فتح ہوا۔ یہی حضرت زبیر ؓ ہیں جنہوں نے شامیوں کے ساتھ جنگوں میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ایک ایک لاکھ دشمن کی صوفوں میں تن تنہا گھس جاتے تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انہوں نے اپنے بیٹے عروہ (رح) سے کہا بیٹے ! میرے جسم کی کوئی ایک انچ جگہ بھی زخم سے خالی نہیں۔ میں نے بڑی بڑی جنگیں لڑی ہیں ، مگر شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ موت تو آخر اپنے وقت پر ہی آئے گی۔ ایک موقع پر دشمن کا نیزہ آپ کے جسم سے آر پار ہوگیا ، اگرچہ زخم مندمل ہوگیا مگر وہاں پر ایک کڑا سا بن گیا تھا ، میں ہاتھ ڈا ل کر عروہ (رح) بچپن میں کھیلا کرتا تھا۔ جنگی حکمت عملی بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی قوت ، سرمائے اور دیگر وسائل کے ساتھ جنگ کی تیاری کرو۔ مسلمان مادی لحاظ سے اگرچہ کمزور ہیں تاہم اگر قوت ایمان بھی موجود ہو تو پھر بھی مسلمان ناقابل تسخیر ہوتا ہے مگر افسوس کہ مسلمان اس سے بھی محروم ہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ ایمان والو ! اپنے دفاع کے لیے ہر مطلوبہ سامان مہیا کرو ، جدید ترین آلات حرب سے لیس ہونے کی کوشش کرو اور پ ھر مناسب جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن پر حملہ آور ہو۔ اور اس سلسلہ میں فانفروا ثباتٍ او انفروا جمیعاً نکل کھڑے ہو گروہوں کی صور ت میں یا سب اکٹھے ہو کر۔ مقصد یہ ہے کہ موقع کی مناسبت سے خواہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں حملہ آور ہو یا یکدم پوری قوت اور لشکر جھونک دو ۔ جس طریقے سے کامیابی کا امکان ہو ، وہی طریقہ استعمال کرو۔ بعض اوقات کھلے عام ٹکر لینے کی بجائے گوریلا وار زیادہ مناسبِ حال ہوتی ہے ویٹ نامیوں نے امریکہ کے خلاف دس سال تک گوریلا جنگ لڑی جس میں تیس لاکھ آدمی ہلاک ہوئے اور بالآخر امریکہ کو ویت نام سے جانا ہی پڑا۔ بہرحال فرمایا کہ پوری تیاری کے بعد مناسب طریقہ سے جنگ کا آغاز کرو۔ منافقین کی روش جہاں اہل ایمان کو جنگ کی ترغیب دی جا رہی ہے وہاں منافقین کے نفاق کا پردہ بھی چاک کیا جا رہا ہے۔ و ان منکم لمن لیبطن اور تم میں سے بعض ایسے ہیں جو تاخیر کرتے ہیں۔ یعنی جب مجاہدین کی روانگی کا وقت آتا ہے تو منافق لوگ حیلے بہانے سے روانگی میں دیر کرتے ہیں تاکہ کسی طرح جنگ میں شریک ہونے سے بچ جائیں اور جنگ کے نتیجے میں ایسا بھی ہوتا ہے فان اصابتکم مصیبۃٌ اگر تم پر یعنی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے۔ شکست آجاتی ہے یا جانی اور مالی نقصان ہوجاتا ہے تو منافق کہتا ہے۔ قال قد انعم اللہ علی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ڑا حسان کیا ہے اذ لم اکن معہم شہیداً کہ میں ان مجاہدین کے ساتھ شامل نہیں تھا۔ اگر ان کے ساتھ جہاد میں شریک ہوجاتا تو مجھ پر بھی وہی آفت آتی جو ان پر آئی ہے۔ اور اگر اگر کے برخلاف و لئن اصابکم فضل من اللہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہوجائے فتح حاصل ہو یا مال غنیمت ہاتھ آئے تو منافق کی حالت یہ ہوتی ہے۔ لیقولن کان لم تکن لبینکم و بینہ مودۃٌ گویا تمہارے اور اس کے درمیان دوستی کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اسے تمہاری کامیابی پر قطعاً کوئی خوشی نہیں ہوتی اور پھر بالکل اجنبی بن کر کہتا ہے یلیتنی کنت معہم کاش کہ میں بھی مجاہدین کے ہمرکاب ہوتا فافوز فوزاً عظیماً تو مجھے بھی بہت بڑی کامیابی حاصل ہوتی اور میں بھی ایمان والوں کے برابر مفاد حاصل کرتا۔ مسلمان بحیثیت جماعت یہ تو منافق کا حال بیان کیا گیا ہے۔ مگر پکے سچے مسلمان کی حالت یہ ہے کہ شکست ہوجائے یا کوئی دیگر نقصان ہوجائے تو ہر مسلمان کو اس پر دلی افسوس ہوتا ہے اور اگر مسلمان کی جماعت کامران ہوجاتی ہے تو ہر مسلمانوں کو خوشی حاصل ہوتی ہے کہ الحمد للہ ہماری جماعت کو کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر منافق ہمیشہ اپنے ذاتی نفع و نقصان پر نظر رکھتا ہے۔ مفاد حاصل ہوگیا تو خوش ہوگیا ، ورنہ افسوس کرنے بیٹھ گیا۔ مسلمان اور منافق کے تقابل سے بتانا یہ مقصود ہے کہ مسلمان من حیث الجماعت ہی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ ید اللہ علی الجماعۃ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے ، اسے خداوند عالی کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور جب جماعت کی بجائے انفرادیت پیدا ہوگی تو پوری قوم خود غرضی کا شکار ہو جائیگی اور تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے گی۔ من شذ شذ فی النار جو جماعت سے علیحدہ ہوگیا وہ جہنم رسید ہوگیا۔ انفرادیت کی جڑ خود غرضی ہوتی ہے اور جب انفرادیت آتی ہے تو جماعت اور ملت خراب ہوجاتی ہے اور مسلمان بحیثیت قوم مغلوب ہوجاتا ہے۔ طبری نے لکھا ہے کہ قروان اولیٰ میں مسلمان ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے زندہ تھے۔ جب جنگ کے نتیجے میں قید ہونے والے قیدیوں کا تبادلہ کیا جاتا تھا تو انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ چاہیں تو کافروں کے ساتھ واپس چلے جائیں اور اگر وہ مسلمان ہو کر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہونا چاہیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائیگا کہتے ہیں کہ اس طریقے سے اگر کوئی کافر قیدی مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجاتا تھا تو مسلمانوں کو اس قدر خوشی حاصل ہوتی تھی۔ گویا انہیں دنیا ومافیہا کی ہر چیز میسر آگئی اور اگر کوئی ایک مسلمان بھی کفار کے ساتھ جا ملتا تھا تو مسلمانوں پر غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ ہماری ساری دنیا ہی لُٹ گئی ہے۔ مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں کتنے لوگ دائرہ اسلام سے نکل کر عیسائیت اور مرزائیت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج ایسے واقعات سے ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جب زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے تو اس سے بڑھ کر بدبختی کیا ہو سکتی ہے۔ کامیابی کی کلید مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کے لیے فرمایا فلیقاتل فی سبیل اللہ پس چاہیے کہ اللہ کے راستے میں لڑیں وہ لوگ الذین یشرون الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ جو بیچتے ہیں دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں۔ مقصد یہ کہ اہل ایمان محض اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جنگ میں کود جائیں۔ ان کا یہ جہاد ، دولت ، شہرت اور سلطنت کیل یے نہیں بلکہ اللہ کے دین کی بلندی کے لیے ہونا چاہئے۔ اس مضمون کو سورة توبہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ” ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ مومن مال اور جان کی بازی اس لیے لگاتا ہے کہ اسے ایمان میں کمال حاصل ہوجائے اور اس کی ذات میں قرآن کا اخلاق پیدا ہوجائے۔ وہ اس راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کرتا چلا جاتا ہے ، یہی ایک مومن کی شان ہے۔ وہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے عزت اور ابدی مقام جنت کا ٹکٹ حاصل کرتا ہے۔ اس راستے میں رکاوٹ ڈالنے والے یا تو ملوک ہوتے ہیں یا غلط قسم کے مولوی اور پیر یہی طاغوت ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک کی اصطلاح میں ہر وہ طاقت طاغوت ہے جو ایمانی اور قرآنی اخلاق کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اجرِ عظیم آگے فرمایا و من یقاتل فی سبیل اللہ جو کوئی اللہ کی راہ میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ فیقتل تو خواہ وہ قتل کردیا جائے یعنی شہید ہوجائے اویغلب یا دشمن پر غالب آجائے۔ اللہ تعالیٰ فتح عطا کر دے ، دونوں صورتوں میں فسوف نوتیہ اجراً عظیماً عنقریب ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ تکفل اللہ للمجاہدین اللہ تعالیٰ نے مجاہدوں کو ضمانت دے رکھی ہے کہ اگر شہید ہوگیا تو اسے اللہ تعالیٰ بلند ترین مرتبے تک پہنچائیں گے اور اگر غازی بن کر آیا تو دنیوی اعتبار سے بھی مستحق اجر ہوگا کہ اسے مال غنیمت سے حصہ ملے گا۔ جہاد اس قدر بلندمرتبہ چیز ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ذروۃ سنامہ الجہاد یعنی اسلام کی بلندی جہاد میں ہے حدو داللہ جہاد کے ذریعے ہی قائم ہو سکتے ہیں۔ جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد زندہ رہے گا ، وہ غالب رہیں گے۔ جب ضرورت پڑے گی میدانِ جنگ میں کودنے سے دریغ نہیں کریں گے اور خود اپنے دفاع کو مضبوط رکھیں گے۔ اسی عمل میں ان کے لیے دنیا کی عزت اور آخرت کی فلاح ہے۔
Top