Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 78
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ١ؕ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ١ؕ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا
اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يُدْرِكْكُّمُ : تمہیں پالے گی الْمَوْتُ : موت وَلَوْ كُنْتُمْ : اور اگرچہ تم ہو فِيْ بُرُوْجٍ : برجوں میں مُّشَيَّدَةٍ : مضبوط وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کچھ برائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کی طرف سے قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : سب مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) فَمَالِ : تو کیا ہوا هٰٓؤُلَآءِ : اس الْقَوْمِ : قوم لَا يَكَادُوْنَ : نہیں لگتے يَفْقَهُوْنَ : کہ سمجھیں حَدِيْثًا : بات
جہاں بھی تم ہو گے پالے گی تم کو موت ، اگرچہ ہو تم مستحکم قلعوں میں اور اگر پہنچے ان کو بھلائی تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر پہنچے ان کو کچھ برائی تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے (تیری وجہ سے ہے) اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے ، سب اللہ کی جانب سے ہے پس کیا ہے ان لوگوں کو نہیں قریب کہ یہ سمجھیں کسی بات کو
ربط آیات گزشتہ رکوع میں منافقین کے متعلق یہ بیان ہوچکا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں لیمن لیبطئن جو جہاد میں شامل ہونے کے لیے تاخیر کرتے ہیں یا بالکل شریک نہیں ہوتے انہوں نے بظاہر اسلام قبول کر رکھا ہے مگر ان کے دل ایمان سے خالی ہیں۔ گزشتہ درس میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر ہوا تھا جو قتال کو ناپسند کرتے ہیں اور وہ لوگوں سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی زیادہ خوف کھاتے ہیں اس سلسلہ میں مفسرین کے دو قول ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہ آیت بھی منافقین کے بارے میں ہی ہے جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا ، وہ اس سے بچے ہوئے تھے مگر جب یہ فرض ہوگیا تو وہ گھبرانے لگے ، بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت منافقین کے متعلق نہیں بلکہ کمزور مسلمانوں کے متعلق آئی ہے۔ جہاد ایک مشقت طلب کام ہے اور اس کی ناپسندیدگی ایک طبعی امر ہے ، انسان عام طور پر کمزور واقع ہوا ہے اور اسی کمزوری کی وجہ سے جہاد سے ہچکچاتا ہے ، تاہم یہ لوگ ایماندار ہیں۔ بعض کمزور دلِ لوگوں کے دلوں میں بھی وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جنگ جیسے مشکل کام میں نہیں پڑنا چاہتے تو اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ دنیا کا سازو سامان تو بالکل تھوڑا ہے اور اس کے مقابلے میں متقین کے لیے آخرت بہت بہتر ہے۔ دنیا کی زندگی تو بالکل مختصر ہے ، اصل تیاری تو آخرت کی دائمی زندگی کے لیے ہونی چاہئے اور یہ زندگی اچھے اعمال سے ہوگی ، لہٰذا جہاد اور دیگر اعمال صالحہ سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ موت تو اپنے وقت پر بہر صورت آنی ہے تم اسے مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بھی نہیں ٹال سکتے ، لہٰذا بزدلی کا اظہار مفید نہیں ہے بلکہ آخرت کے حصول کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کرنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرما دی کہ اہل اسلام دین کے معاملہ میں کمزوری نہ دکھائیں۔ حسنہ اور سیئہ آج کی آیات میں بھی یہودیوں اور منافقین کے بعض قبیح نظریات کا رد کیا گیا ہے یہ لوگ خیر اور شر کو مختلف ذرائع کی طرف منسوب کرتے تھے اس آیت کریمہ میں حسنہ اور سیئہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو اسے اتفاقی قرار دیتے ہیں اور کسی تکلیف کی صورت میں اللہ کے نبی کو الزام دیتے ہیں۔ مفسر قرآن امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حسنہ اطاعت اور نیکی کو کہا جاتا ہے اور اس کا اطلاق اچھی حالت پر بھی ہوتا ہے اگر کسی کو نصیب ہوجائے۔ سرسبزی ، دولمندی ، صحت وغیرہ حسنہ میں شمار ہوتے ہیں قرآن کی زبان سے یہی دعا سکھلائی گئی ہے۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃً “ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں حسنہ بہتری یا بھلائی عطا فرما ، یعنی ایسی بہتر اور اچھی حالت عطا فرما جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو۔ برخلاف اس کے سیئہ سے مراد بری حالت ، تنگدستی ، پریشانی ، قحط سالی ، فقر و فاقہ ، بیماری اور شکست وغیرہ کی حالت ہے۔ ان دونوں حالتوں کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے اور اس ضمن میں منافقین اور یہود کے نظریہ باطل کا پردہ چاک کیا ہے۔ نبی پر الزام تراشی فرمایا و ان تصبہم حسنۃٌ اور اگر ان لوگوں یعنی یہود و منافقین کو کوئی بھلائی پہنچتی ہے۔ خوشحالی ، آسودگی یا فتح حاصل ہوتی ہے۔ یقولوا ہذہ من عنداللہ تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ منافقین اور یہود کا بھلائی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ پر ایمان و یقین کا مظہر نہیں بلکہ ایسی بات وہ محاورے کے طور پر کہتے تھے کہ یہ ایک اتفاقی بات ہے جو اللہ کی جانب سے ہوگئی ہے اور دوسری طرف و ان تصبہم سیئۃٌ اگر ان کو کوئی مشکل پیش آجاتی ہے قحط سالی کا شکار ہوجاتے ہیں یقولوا ہذہ من عندک تو پھر اللہ کے نبی کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تکلیف تمہاری طرف سے آئی ہے یعنی یہ تکلیف تمہاری بےتدبیری یا العیاذ باللہ نحوست کی وجہ سے پہنچی ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہود و منافقین برا شگون بھی لیتے تھے۔ قحط سالی واقع ہوگئی ، بارش رُک گئی ، پھل کم آیا تو کہتے تھے کہ یہ ان کی نحوست کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ پہلے ہم مدنیہ میں بڑے خوشحال تھے۔ جب سے مسلمان یہاں آئے ہیں ، ہم طرح طرح کے مصائب کا شکار ہوگئے۔ حضور ﷺ نے شگون کو ویسے بھی شرک سے تعبیر فرمایا ہے الطیرۃ من الشرک حالات کا اتار چڑھاؤ یا بناؤ بگاڑ تو اللہ کی مشیت اور ارادے سے ہوتا ہے۔ ان امور کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرنا شرک ہے۔ الغرض ! یہ لوگ اس قسم کے نظریات کا اظہار کر کے اپنی خباثت کا ثبوت فراہم کرتے تھے اور نبی پر الزام تراشی کرتے تھے۔ بھلائی منجانب اللہ ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے کہلوایا قل کل من عنداللہ آپ فرما دیجیے کہ ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے ، کیونکہ حقیقی موجد تو وہی ہے اور اس کی قدرت اور مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا آسودگی ہو یا بدحالی ، فتح ہو یا شکست ، صحت ہو یا بیماری ، ہر چیز کا خالق خدا تعالیٰ ہے ، لہٰذا سب کچھ اسی کی جانب سے آتا ہے۔ منکرین کی بدبختی فرمایا ان حقائق کے باوجود فمال ہولاء القوم ان لوگوں کیا ہوگیا ہے لا یکادون یفقہون حدیثاً یہ کوئی بات سمجھتے ہی نہیں۔ اس طرح یہود و منافقین کی مذمت بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ کیسی الٹی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی راحت پہنچے تو اسے اتفاقی امر کہتے ہیں اور تکلیف کا سامنا ہو تو اللہ کے رسول پر الزام دیتے ہیں۔ حالانکہ میدانِ احد میں جو نقصان اٹھانا پڑا ، وہ اللہ کے رسول کی بےتدبیری کی وجہ سے نہ تھا۔ آپ نے تو بہترین جنگی منصوبہ بندی کی تھی ، مگر بعض مجاہدین سے کوتاہی ہوگئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔ لہٰذا اللہ کے نبی پر الزام نہیں لگانا چاہیے۔ یہ بڑی قبیح بات ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتراض منصب انسانیت کے خلاف ہے اسی طرح رسول خدا پر اتہام سخت گستاخی اور بےادبی ہے۔ یہ بات آیت کے اگلے حصے میں سمجھائی گئی ہے۔ تاہم انسانوں کی تادیب کے لیے فرمایا ما اصابک من حسنۃٍ فمن اللہ آپ کو جو بھی بھلائی پہنچے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے۔ کسی انسان کا اپنا کمال ہرگز نہیں۔ اگر خدا کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو نہ تم کو وجود ملتا اور نہ کوئی دوسری نعمت میسر آتی۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا ” واصبغ علیکم نعمہ ظاہرۃً و باطنۃً “ (سورۃ لقمان) اس نے تمہارے لیے ظاہری اور باطنی نعمتیں مکمل بنائی ہیں۔ ” ومابکم من نعمۃٍ فمن اللہ “ (سورۃ نحل) تمہیں جو بھی نعمت پہنچتی ہے ، سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ آرام و راحت ، آسودگی خوشحالی سب اللہ کا فضل ہے۔ برائی از نفسِ انسانی فرمایا و ما اصابک من سیئۃٍ فمن نفسک اور جو تم کو تکلیف یا برائی پہنچتی ہے تو انسان کا فرض ہے کہ وہ اسے اپنی کوتاہی پر محمول کرے کہ ضرور ہم سے کوئی لغزش ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے۔ کیونکہ ہر چیز کا خالق اور موجد تو اللہ ہے ، البتہ اس نے کسب کرنے کا اختیار انسان کو دیا ہے۔ اگر کوئی تکلیف پہنچے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور جب کوئی نعمت ملے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے وگرنہ ہم تو اس کے بالکل مستحق نہ تھے۔ انسان کا جسم اور اس کے فائدے کی تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحمت سے عطا کی ہیں اور اگر کوئی مشکل پیش آئے تو وہ انسان کی اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کو جو بھی برائی پہنچتی ہے ، وہ اس کی کسی لغزش ، کوتاہی یا گناہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کافر کے متعلق تو یہ بات واضح ہے کہ کفر اور نفاق بذاتہٖ بری چیز ہے۔ اس سے انسان کی عقل ، روح اور دلِ ناپاک ہوجاتے ہیں اور کافر پر اللہ کی لعنت برستی رہتی ہے ” لعنۃ اللہ علی الکفرین “ اسی طرح مشرکین بھی ملعون ہیں۔ استسقا والی روایت میں آتا ہے کہ جب مومنین بارش کے لیے دعا کی خاطر باہر نکلیں تو کسی کافر کو ساتھ نہ لے جائیں کہ وہ ملعون ہے اس پر خدا کی لعنت برستی ہے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے لوگوں کا ہمراہ ہونا درست نہیں۔ بہرحال فرمایا کہ کافر کو جو مشکل پیش آتی ہے وہ لازماً اس کی کوتاہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ابرار کے لیے درجات عالیہ البتہ نیک لوگوں پر مصیبت کا آنا ، ان کے گناہوں کی وجہ سے نہیں ہوتا ، بلکہ یہ ایک نعمت ہوتی ہے جو ان کی بلندیِ درجات کا ذریعہ بنتی ہے انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق تو یہ بالکل واضح ہے کہ نہ ان سے حقیقی گناہ سرزد ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں حقیقی سزا ملتی ہے۔ انہیں تکلیف ضرور پہنچتی ہے مگر وہ ان کے رفعتِ درجات کے لیے ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ان کی تربیت مقصود ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کی معمولی سے معمولی لغزش پر بھی گرفت آجاتی ہے تو یہاں پر یہی بات سمجھائی گئی ہے اگر تمہیں بھلائی پہنچے تو اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھو۔ اور اگر کوئی تکلیف آجائے تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اپنی ذاتی کوتاہی پر محمول کرو۔ و ارسلنک للناسرسولاً ہم نے آپ کو تمام انسانوں (اور جنات) کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ کا رسول حقیقت میں اپنی اطاعت نہیں کراتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کراتا ہے۔ رسول تو اللہ کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچاتا ہے اور خو د بھی اس پر عمل کرتا ہے تاہم آمر تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھا دیا کہ کسی شخص کے لیے روا نہیں کہ وہ خدا کے نبی کا معارضہ کرے یا اس پر الزام لگائے ، انسانیت اور شرافت کا تقاضا ہے کہ انسان ہر مشکل کو اپنی کوتاہی پر محمول کرے۔ خود احتسابی گزشتہ سورة میں بھی یہ بات سمجھائی گئی تھی کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو خود احتسابی کے عمل کے ذریعے اس کی وجوہات تلاش کرے تاکہ کسی کردہ کوتاہی اور لغزش کا ازالہ کیا جاسکے۔ اس عمل کی واضح مثال جنگ قادسیہ کے موقع پر سامنے آئی تھی۔ جب بعض محاذات پر مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا تو سالار لشکر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے مجاہدین کو جمع فرمایا اور کہا کہ لوگو ! ہمیں بعض محاذوں پر شکست کا سامنا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض آدمیوں کے دلوں میں خود غرضی پیدا ہوگئی ہے ، وہ مفاد پرستی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو اللہ تعالیٰ کے روبرو توبہ کرو۔ اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اپنے دلوں سے تمام کدورتیں صاف کردیں۔ پھر تین دن رات متواتر جنگ ہوئی اور اللہ کی مدد سے یہ عظیم معرکہ سر ہوا اور ایران فتح ہوگیا۔ تفقہ فی الدین بہرحال ان تمام حقائق کو بےنقاب کرنے کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ بات کو نہیں سمجھتے۔ یہاں پر یفقھون کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی سمجھ ، بوجھ اور فقاہت ہے۔ یہ لفظ متعدد احادیث میں بھی آتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے حق میں دعا فرمائی 1 ؎ اللہم علمہ الکتب وفقہہ فی الدین اے اللہ ! اس بچے کو قرآن پاک کا علم اور دین میں سمجھ عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور حضرت عبداللہ کو قرآن کا وسیع علیم اور فقاہت فی الدین عطا فرمائی۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو قرآن پاک کی تعلیم دی۔ بخاری شریف کی روایت 2 ؎ میں آتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا من یرد اللہ بہ خیراً یفقہہ فی الدین اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ، اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہوتی ہے۔ مسند احمد شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا تو ہر شخص کو دیتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے یا ناپسند کرتا ہے مگر یوتی الدین من احب دین کی سمجھ اسی کو عطا کرتا جسے وہ محبوب سمجھتا ہے۔ علم فقہ اور فقہائے کرام قرآن و سنت میں تحقیق کا نام فقہ ہے یہ ایک بلند پایہ چیز ہے جس میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں اور ا س سے مراد دین کی سمجھ ہے۔ جس طرح لوگ سائنس اور دیگر علوم میں ریسرچ کر کے اس علم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و سنت میں ریسرچ کر کے اس علم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و سنت میں ریسرچ کا نام فقہ ہے۔ تحقیق کنندگان (Research Workers) اس کے ذریعے قرآن و سنت سے استنباط کر کے نئے نئے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں اور نئی نسلوں کے لیے دین کی سمجھ کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے قرآن و سنت میں تحقیق کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ان میں امام بخاری (رح) اور امام سفیان ثوری (رح) بھی شامل ہیں مگر ان کی فقہ امام ابوحنیفہ (رح) کے مقابلے میں کمزور تھی کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ امام سفیان ثوری (رح) بڑے فقیہ ہیں یا امام ابوحنیفہ (رح) تو جواب دینے والے نے کہا کہ سفیان ثوری (رح) متفقہ ہیں ، یعنی آپ بہ تکلف فقیہ ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ (رح) حقیقی فقیہہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طبیعت میں فقاہت کا ایسا وافر مادہ رکھ دیا ، جو کسی دوسرے کے حصے میں نہ آسکا۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں۔ الناس عیالٌ علی ابی حنیفۃ یعنی فقہ کے معاملہ میں باقی سب لوگ امام ابوحنیفہ کے بچے ہیں۔ ان سب نے امام صاحب سے ہی فقہ کا علم سیکھا۔ بعض لوگ نارانی یا تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ (رح) حدیث کو نہیں مانتے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ قرآن و سنت ہی فقہ کے اصل ماخذ ہیں اور ان کے بغیر تو اجتہاد ممکن نہیں۔ لہٰذا حدیث کو ترک کرکے کوئی شخص فقیہہ کے منصب پر کیسے فائز ہو سکتا ہے۔ آپ کو ہزارہا احادیث یاد تھیں۔ قرآن ان کا اوڑھنا بچھونا تھا جن کی بناء پر وہ اجتہاد کرتے تھے آپ کے شاگردوں نے بھی یہ فریضہ انجام دیا اور فقہ حنفی کے بارہ لاکھ مسائل مدون کئے اگر آپ کے بیان کردہ بعض مسائل درست نہیں ہیں تو انہیں چھوڑ دیاجائے گا ، ان پر عمل نہیں کیا جائیگا بعض غلط باتیں تو حدیث کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ لہٰذا امام صاحب کی بعض اغلاط کو بنیاد بنا کر فقہ کا انکار کرنا درست نہیں۔ غلطی سے پاک تو صرف نبی کی ذات ہے۔ کوئی انسان سے محفوظ نہیں لہٰذا انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر درست بات کو تسلیم کرلیا جائے اور نادرست کو ترک کر دیاجائے۔ بہرحال امام ابوحنیفہ (رح) کو اللہ تعالیٰ نے بلند فہم عطا کیا تھا۔ عبادت و ریاضت میں بھی آپ کا کوئی مقابلہ نہیں آپ نے اپنی تحقیق کے ذریعے قرآن و سنت کے سمجھنے میں آسانی پیدا کی۔ حضور ﷺ کی احادیث مبارکہ کو فقہ کی صور ت میں سہل کیا جس کو لوگوں نے دستور العمل بنا لیا۔ الغرض فرمایا کہ ان منافقین اور یہودیوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ حقیقت کو سمجھنے کی بجائے نبی کی ذات پر الزام تراشی کرتے ہیں اور اپنی کوتاہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ فرمایا ہم نے آپ کو رسول بنا کر سب لوگوں کی طرف بھیجا ہے۔ انہیں آپ کی اتباع کرنی چاہیے اور اگر یہ اپنی ہٹ دھرمی پر مصر ہیں تو فرمایا وکفیٰ باللہ شہیداً اللہ تعالیٰ کافی گواہ ہے وہ سب حالات کو دیکھ رہا ہے اور ان منکرین سے خود ہی نپٹ لیگا۔ رسول کی فرمانبرداری فرمایا من یطع الرسول فقد اطاع اللہ جس نے رسول کی فرمانبرداری کی ، حقیقت میں اس نے اللہ ہی کی فرمانبرداری کی کیونکہ رسول خود آمر نہیں ہوتا بلکہ اس کا کام احکام الٰہی لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ وہ مبلغ ہوتا ہے۔ وہ الہل کے اوامر پہنچانے کا قطعی ذریعہ ہوتا ہے۔ اس واسطے اس کی اطاعت ضروری ہوتی ہے اور اس سے جھگڑا کرنا اور اس پر الزام لگانا قبیح فعل ہے۔ فرمایا و من تولی جس نے رسول کی اطاعت سے روگردانی کی۔ فما ارسلنک علیہم حفیظاً ہم نے آپ کو ان پر کوئی نگہبان یا داروغہ بنا کر تو نہیں بھیجا۔ آپ کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے ان کو پکڑ پکڑ کر راہ راست پر لانا آپ کا کام نہیں ہے انما علیک البلاغ باقی ان لوگوں کی گرفت کرنا اور انہیں سزا دینا ہمارا کام ہے۔ ہم انہیں مقررہ وقت پر پکڑ لیں گے۔ کیونکہ وکفی باللہ شہیداً سب کچھ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہے۔ شہید کا معنی گواہی ا دیکھنے والا ہوتا ہے۔ کسی جگہ وکیل کا لفظ آیا ہے۔ کہیں ولی فرمایا ہے کہ سب اللہ کی صفات ہیں۔ آپ ان پر دراوغہ نہیں ہیں۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات کو پہنچانے والے ہیں۔ روگردانی کرنیوالوں سے اللہ تعالیٰ خود نپٹ لے گا۔
Top