Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 81
وَ یَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ١٘ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَیَّتَ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ١ۚ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں طَاعَةٌ : (ہم نے) حکم مانا فَاِذَا : پھر جب بَرَزُوْا : باہر جاتے ہیں مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کے پاس بَيَّتَ : رات کو مشورہ کرتا ہے طَآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْھُمْ : ان سے غَيْرَ الَّذِيْ : اس کے خلاف جو تَقُوْلُ : کہتے ہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ يَكْتُبُ : لکھ لیتا ہے مَا يُبَيِّتُوْنَ : جو وہ رات کو مشورے کرتے ہیں فَاَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْھُمْ : ان سے وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور کہتے ہیں یہ لوگ کہ ہمارا معاملہ اطاعت کا ہے پھر جب وہ نکلتے ہیں آپ کے پاس سے تو رات کے وقت ان میں سے ایک گروہ مشورہ کرتا ہے اس کے خلاف جو آپ کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ لکھتا ہے جو کچھ وہ مشورہ کرتے ہیں۔ پس آپ ان سے اعراض کریں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پرک بھروسہ کریں۔ اور کافی ہے اللہ تعالیٰ کام بنانیوالا
ربط آیات گزشتہ درس میں منافقین اور یہود کا یہ رویہ بیان ہوا کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا الزام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات پر لگاتے ہیں کہ آپ کی بےتدبیری کی وجہ سے ایسا ہوا ہے یا پھر بُرا شگون لیتے ہیں کہ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کی مدینے آمد کی وجہ سے ان پر نحوست پڑی ہے (العیاذ باللہ) اللہ نے فرمایا یہ دونوں باتیں غلط ہیں شگون لینا تو ویسے ہی شرک ہے کسی کے آنے یا جانے سے نفع یا نقصان نہیں ہوتا کیونکہ ہر چیز کا خالق اور موجد تو اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ انسانوں کو یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ جب انہیں کوئی راحت پہنچے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے اور جب کوئی تکلیف پہنچے تو اسے اپنی کوتاہی پر محمول کرنا چاہئے۔ پھر فرمایا ان منافقین کو کیا ہوگیا ہے لا یکادون یفقہون حدیثاً یہ بات کو سمجھتے ہی نہیں۔ ویسے ہی الٹی سیدھی ہانکتے جاتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ کو سمجھتے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتے تو اللہ کے رسول پر الزام تراشی نہ کرتے۔ مگر منافق ہمیشہ بےعقل ہوتا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا خصلتان لا یجتمعان فی منافقٍ دو خصلتیں منافق ہیں جمع نہیں ہو سکتیں فرمایا حسن خلقٍ ولافقہ فی الدین یعنی حسن اخلاق اور دین کی سمجھ۔ منافق ان چیزوں سے خالی ہوتا ہے اسی لیے پیغمبر کی ذات پر اعتراض کرتا ہے۔ گزشتہ درس میں یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت بیعنہٖ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے کیونکہ اللہ کا رسول آمر نہیں ہے۔ آمر تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے ، رسول تو مبلغ ہوتا ہے۔ جو اللہ کا پیغام ، دین اور شریعت لوگوں تک پہنچاتا ہے اور خود بھی اس پر عمل کر کے نمونہ پیش کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ان حقائق کے باوجود منافقین آپ سے اعراض کریں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ، کیوں کہ آپ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ان کے اس بغض ، عناد اور ہٹ دھرمی کے متعلق اللہ تعالیٰ خود ان سے باز پرس کرے گا۔ قول و فعل کا تضاد اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ایک اور بری خصلت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اور آپ کو تسلی دی ہے کہ آپ فکرمند نہ ہوں بلکہ ان سے اعراض کریں ارشاد ہوتا ہے ویقولون طاعۃٌ ان منافقوں کا حال یہ ہے کہ جب آپ کی مجلس میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارا مطالبہ تو اطاعت کا ہے ، آپ جو کچھ فرما دیں ہم اس کی اطاعت کریں گے۔ مگر فاذا برزوا من عندک جب آپ سے نکل کر چلے جاتے ہیں بیت طائفۃٌ منہم غیرالذی تقول ان میں سے ایک گروہ رات کو مشورہ کرتا ہے ، اس کے خلاف جو بات آپ نے کہی۔ بیت کا معنی گھر ہوتا ہے۔ بیتوتت رات گزارنے کو کہتے ہیں کیونکہ رات عموماً گھر میں گزاری جاتی ہے اور تبییت رات کے وقت مشورہ کرنے کو کہتے ہیں۔ منافقین کی یہ روش بیان کی جا رہی ہے۔ کہ جب تک آپ کے ہاں بیٹھے رہتے ہیں ، آپ کی فرمانبرداری کا اقرار کرتے ہیں۔ پھر جب اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ تو رات کو علیحدگی میں آپ کے مشن کے خلاف مشورہ اور منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ اسلام اور اہل اسلام کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے۔ اپنی انہی سازشوں کی وجہ سے منافقین اسلام کے خلاف خطرناک ترین گروہ تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشوں کو وقتاً فوقتاً بےنقاب کیا اور انہیں سخت سزا کی وعید سنائی۔ مذکورہ سازش کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا واللہ یکتب مایبیتون منافقین جو کچھ مشورہ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کو لکھتا ہے۔ یعنی اس کے فرشتے ان کی ہر ہر حرکت کو نوٹ کر رہے ہیں۔ پھر قیامت کے دن یہی نوشتہ ان کے سامنے کردیا جائیگا۔ اس دن تمام راز فاش ہوجائیں گے اور منافقین سخت سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ کراماً کاتبین تو ہر شخص کا ہر قول و فعل متواتر نوٹ کر رہے ہیں اور ان میں منافقوں کی سازشیں بھی شامل ہیں۔ پھر یہی نوشتہ اعمال نامہ کی صور ت میں ان کے گلے میں لٹکا دیاجائے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ان لوگوں کی تمام تر کرتوتوں کے باوجود فاعرض عنہم آپ ان سے اعراض کریں ، ان کی طرف توجہ نہ کریں۔ اور یہاں اشارتاً یہ بھی سمجھا دیا کہ منافقین یہ نہ سمجھیں کہ ان کا راز فاش نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو بوقت ضرورت آگاہ کرتا رہتا ہے پیغمبر خود تو عالم الغیب نہیں مگر اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے۔ اپنے نبی کو غیب پر مطلع کردیتا ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر موجود ہے کہ اللہ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعے بہت سی باتیں بتلا دیں۔ تو یہاں بھی مقصود یہی ہے کہ آپ فکر نہ کریں۔ ہم وقت مقرر پر ضروران کو پکڑ لیں گے اور پھر انہیں اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ توکل بر خدا فرمایا آپ منافقین کی طرف توجہ نہ فرمائیں بلکہ وہ توکل علی اللہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھیں۔ کیونکہ مومن کی شان یہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا ” علیہ فلیتوکل المتوکلون “ یعنی بھروسہ رکھنے والے فقط خداوند تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ نیز یہ بھی متعدد مقامات پر آیا ہے ” وعلی اللہ فلیتوکل المومنون “ یعنی اہل ایمان ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یہاں بھی پیغمبر (علیہ السلام) کو یہی نصیحت کی جا رہی ہے کہ آپ منافقین کی سازشوں سے پریشان نہ ہوں بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھیں وکفی باللہ وکیلاً کارساز اللہ ہی کافی ہے۔ وکیل کا معنی کام بنانے والا ہوتا ہے۔ ہر چیز تو قبضہ قدرت میں ہے لہٰذا منافقوں کی سکی میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ضرور غالب کریگا۔ اس پر پختہ یقین ہونا چاہئے۔ سورة مزمل میں بھی اسی طرح فرمایا ” لا الہ الا ہو فاتخذہ وکیلاً “ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، لہٰذا کارساز بھی اسی کو پکڑو۔ کام بنانے والا وہی ہے۔ منافقوں کی چالوں کو وہی ناکام بنائے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے منافقین کی سازشوں کا علاج یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھیں اور اپنا کام کرتے جائیں۔ تدبیر فی القرآن آگے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ منافقین کی یہ تمام قبیح حرکات قرآن پاک میں غورو فکر کے فقدان کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ اللہ کے پاک کلام قرآن پاک کو پڑھتے ، اسے سمجھتے اور پھر اس پر عمل کرتے تو نبی کی ذات کے متعلق شکوک و شبہات میں نہ پڑتے۔ اسی لیے فرمایا افلا یتدبرون القران یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اللہ کا رسول دین کا پروگرام تو قرآن پاک کی شکل میں پیش کرتا ہے ، پھر اس کی تشریح اور وضاحت بھی کرتا ہے ، اس پر عمل کر کے خود نمونہ بھی بنتا ہے۔ اگر یہ قرآن میں غور کرتے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات اور دین کے پروگرام کے متعلق ان کے تمام شبہات دور ہوجاتے۔ انہیں قرآن کی حقانیت کا یقین آجاتا ، وہ جان لیتے یہ اللہ کا کلام اور اس کی پاک صفت ہے ، یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ اس میں پیش کردہ نظام تمام عیوب سے پاک ہے۔ یہ چیزیں قرآن میں غور و تدبر کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ مگر یہ لوگ قرآن پاک کی طرف متوجہ ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دیدہ و دانستہ اللہ کے دین سے اعراض کر رہے ہیں۔ اگر ایسا کسی غلطی سے ہوتا تو علیحدہ بات ہے ، انسان کی غلط فہمی کبھی نہ کبھی دور ہوجاتی ہے۔ مگر یہ تو ازلی ابدی عنادی ہیں۔ ان کا منتہائے مقصود مخالفت برائے مخالفت ہے ، لہٰذا پیغمبر (علیہ السلام) کو درگزر کر نیکی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں غورو فکر ہر انسان کے لیے اپنے اپنے درجے میں ضروری ہے مجتہدین اور علمائے کرام بھی اس میں تدبر کرتے ہیں۔ مجتہدین ایک ایک آیت سے ہزاروں مسائل استنباط کرتے ہیں اور علماء ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے فہم میں بھی اضافہ ہوتا ہے البتہ عوام کا تدبر اتنا ہی ہے کہ وہ قرآن پاک کے معانی ہی سمجھ لیں۔ اس سے ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت پیدا ہوگی۔ جو ایمان کی جڑ ہے تو گویا ہر ایک کے لیے قرآن میں غورو فکر کرنا ضروری ہے۔ اس کو سمجھے گا تو علم حاصل ہوگا اور پھر اس پر عمل کی نوبت بھی آئیگی۔ علم کے بغیر عمل کا درست ہونا ممکن نہیں اور نہ ہی اعتقاد صحیح ہو سکتا ہے۔ لہٰذا قرآن پاک کا کم از کم تدبر یہ ہے کہ اس کے معانی یہ سمجھ لیے جائیں۔ یہی دانائی کی بات ہے۔ قرآن تضاد سے پاک ہے آگے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حقانیت کی دلیل کے طور پر فرمایا ولوکان من عند غیر اللہ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا لوجدوا فیہ ختلافاً کثیراً تو وہ اس میں بہت بڑا اختلاف پاتے۔ قرآن پاک منجانب اللہ ہونے کی یہ واضح دلیل ہے کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا اس کو ہر بات محکم اور اس کا ہر اصول مضبوط ہے۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کا کلام ہوتا تو اس میں جگہ جگہ تضاد پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ جس ذات پاک کا یہ کلام ہے وہ علم محیط کی مالک اور ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک ہے۔ لہٰذا اس کی ہر بات پکی ہے۔ مخلوق میں سے ان صفات کی حامل کوئی ہستی نہیں۔ اس لیے اگر یہ غیر اللہ کا کلام ہوتا تو اس میں ضرور نقوص و عیوب اور تضاد ہوتا۔ قرآن پاک کی تمام آیات حدِ اعجاز میں داخل ہیں ، یہ معجز ہیں اور مخلوق میں سے کوئی بھی اس کا معارضہ نہیں کرسکتا۔ نہ ایسا فصیح وبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے۔ اس میں ماضی اور مستقبل کی بیشمار غیب کی باتیں موجود ہیں مگر کہیں ذرہ بھر بھی تفاوت نہیں پایا جاتا ، اسی لیے فرمایا کہ یہ کلام اختلاف سے پاک ہے۔ قرآن معجزہ ہے قرآن پاک نے جو نظام پیش کیا ہے۔ ایسا مربوط نظام پیش کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں۔ نہ کوئی فرد واحد ایسا کرسکتا ہے اور کوئی جماعت ، قوم ، اسمبلی بلکہ تمام انسان اور جن مل کر بھی قرآن پاک کی نظیر پیش نہیں کرسکتے۔ خود قرآن پاک کا چینلج ہے ” ولوکان بعضہم لبعضٍ ظہیراً “ اگرچہ وہ سب ایک دوسرے کے ممدو معاون ہی کیوں نہ بن جائیں ، قرآن پاک کی ایک آیت کا معارضہ بھی محال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک آیت میں اپنی مصلحت رکھی ہے۔ اس لیے قرآن کا نظام بھی معجز ہے اور اس کی تعلیم بھی معجز ہے۔ اس کی صداقت کی یہ بھی ایک بین دلیل ہے کہ اس نے جو جماعت پیدا کی ہے اور جس نے اس پر عمل کیا ہے اس پر اعتقاد رکھا ہے ، وہ دنیا میں بےنظیر جماعت ہے۔ یہ صحابہ کرام کی جماعت ہے ، جنہوں نے قرآن میں تدبر کیا اور اس پر حقیقتاً عمل کیا۔ انسانیت کی پوری تاریخ صحابہ کی مثال پیش نہیں کرسکتی ، یہ خود قرآن پاک کا معجزہ ہے۔ یہ ساری چیزیں غور و فکر کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں۔ اسی لیے قرآن پاک غور و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ قرآن پاک میں تدبر کا نتیجہ تھا کہ عربوں جیسی جاہل قوم نے دنیا بھر کی قیادت سنبھال لی۔ یہ اسی قرآن کا اعجاز تھا کہ اخلاقی طور پر انتہائی گری ہوئی قوم اخلاق کی بلندیوں تک پہنچ گئی اور نادان اور بےسمجھ لوگ علم و حکمت کے دریا بہانے لگے۔ یہ سب قرآن پاک کی برکات اور اس کا اعجاز تھا۔ ” ذلک الکتب لاریب فیہ “ یہ شک و شبہ سے بالا کتاب ہے اس میں جن لوگوں نے شک و شبہ کا اظہار کیا وہ ان کی اپنی کج فہمی کا نتیجہ تھا۔ بھینگے آدمی کو ایک چیز دو نظر آتی ہیں۔ یرقان کے مریض کو ہر چیز زرد نظر آتی ہے یہ ان کے دماغ و نظر کی خرابی ہوتی ہے مگر درحقیقت ہر چیز اپنی اصل حالت پر ہی قائم ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن پاک میں شک کرنے والوں کی اپنی عقل و فکر صحیح نہیں ہوتی ، ورنہ وہ کلام پر اعتراض کی جرأت نہ کریں۔ کوئی بھی صاحب علم و عقل اس میں غور کرے گا تو اسے کوئی تفاوت نظر نہیں آئے گا ، جس طرح قرآن کے الفاظ فصاحت و بلاغت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اس طرح اس کا نظام بھی بےمثال ہے اس کی حکمت و دانائی کا کوئی مقابل نہیں۔ یہ سب باتیں تدبر سے سمجھ میں آتے ہیں مگر منافقین اس کے لیے تیار نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کی حقانیت پر انہیں یقین نہیں آتا اور وہ اللہ کے رسول کی مخالفت پر کمربستہ رہتے ہیں۔
Top