Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جو شخص سفارش کریگا اچھی سفارش ، اس کے لیے ہوگا اس میں سے حصہ ، اور جو شخص سفارش کریگا بری سفارش تو ہوگا اس کے لیے بوجھ اس سے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
ربط آیات گزشتہ درس میں جہاد کے سلسلہ میں منافقین کی مذمت بیان کی گئی تھی ، اور اس بات کا تذکرہ تھا کہ امن و جنگ کے زمانہ میں غلط بات کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے منافقین کا طریقہ تھا کہ وہ ہر ایسی بات کو عام کردیتے تھے جس سے اہل اسلام کو نقصان پہنچنے کی امید ہو اور پھر ان کے ساتھ کمزور دل مسلمان بھی شامل ہوجاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ، نیز یہ فرمایا کہ جب کوئی ایسی بات پہنچے تو اسے بلاتحقیق آگے چلانے کی بجائے رسولِ خدا کے سامنے پیش کر دو یا پھر حاکم وقت کے نوٹس میں لاؤ ، جو پوری تحقیق و تجسس کے بعد فیصلہ کریگا کہ آئندہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ پھر اسی ضمن میں علماء فقہاء کا ذکر بھی آیا کہ انتظامی امور بلاشبہ انتظامی حکام کے سامنے ہی پیش کرنے چاہئیں۔ تاہم شرعی معاملات علماء و فقہا کے پاس لیجانے چاہئیں۔ پھر تحقیق کے بعد جو وہ فیصلہ کریں اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے احسان جتلایا کہ اس نے اپنے فضل سے تمہیں برائی سے بچنے کے تمام سامان مہیا کردیے ، ورنہ تم میں سے اکثر لوگ شیطان کا اتباع کرتے۔ پھر ترغیب جہاد ہی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو خطاب فرمایا کہ آپ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہیں۔ آپ سے صرف آپ کی ذات کے متعلق ہی مؤاخذہ ہوگا۔ دوسروں کے متعلق آپ سے باز پرس نہیں ہوگی۔ نیز فرمایا کہ آپ اہل ایمان کو جہاد کی ترغیب دیتے رہیں اور دشمن کے خلاف ہمیشہ مستعد رہیں ، امید ہے کہ اس سے دشمن پر رعب طاری ہوگا اور وہ اسلام کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے رُک جائیگا۔ البتہ یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی سخت گرفت کرے گا اور پھر اس کی سزا بھی بڑی سخت ہے۔ اچھی اور بُری سفارش اب آج کے درس کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اچھی اور بُری سفارش اور پھر اس کے نتائج کا تذکرہ کیا ہے۔ گزشتہ درس میں جہاد پر برانگیختہ کرنے کا ذکر تھا اور یہ بھی ایک اچھی سفارش ہے تو اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اچھی اور بری سفارش کی وضاحت فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے۔ من یشفع شفاعۃً حسنۃً جو شخص سفارش کریگا کوئی اچھی سفارش یکن لہ نصیبٌ منھا تو اس کو اس میں سے حصہ ملیگا۔ یعنی اچھی سفارش کرنے اور پھر اس پر عملدرآمد سے جو اچھے نتائج مرتب ہوں گے ، ان کے اجر وثواب میں سے سفارش کنندہ یعنی اچھے کام کی ترغیب دینے والے کا بھی حصہ ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ الدال علیالخیر کفاعلہ یعنی نیکی کی دعوت دینے والا ایسا ہی ہے جیسے ان نیکی کو انجام دینے والا۔ اسی طرح غلط کام کی ترغیب کے متعلق فرمایا و من شفع شفاعۃً سیئۃً جو کوئی بری سفارش کریگا یکن لہ کفلٌ منھا تو اس میں سے اس سفارش کنندہ کے لیے بھی بوجھ ہوگا۔ یعنی بُرے کام پر اکسانے اور پھر اس پر عمل درآمد سے جو بُرے نتائج مرتب ہوں گے ، ایسا سفارشی بھی اس گناہ میں شریک سمجھا جائیگا ، وہ بھی مجرم تصور ہوگا اور مستوجب سزا بھی اور ایسا مؤاخذہ کرنا اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے کیونکہ و کان اللہ علی کلِ شیئٍ مقیتاً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ کوئی چیز اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔ لہٰذا اچھے اور برے کام پر ابھارنے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جائینگی اور بلکہ حسب حال ان پر اچھی یا بری جزا ضرور مرتب ہوگی۔ منجملہ بری سفارشات کے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کو جہاد میں شمولیت سے ڈرایا جائے۔ اور اس قسم کا پراپیگنڈا کیا جائے۔ جس سے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا ہو اور وہ جہاد کے معاملہ میں کمزور پڑجائیں۔ جائز سفارش پر ثواب کسی مومن بھائی کے لیے اس کی پس پشت دعا کرنا بھی اچھی اور جائز سفارش میں شامل ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ دعوۃ المر المسلمہ الاخیلہ بظہر الغیب مستجابۃٌ کسی مومن کی اپنے بھائی کے لیے پس پشت دعا قبول ہوتی ہی یہ بھی ایک سفارش ہے کہ اللہ… میرے بھائی کی فلاں مشکل آسان کر دے یا اس کی فلاں جائز ضرورت پوری فرما دے۔ اس کے علاوہ ہر جائز کام میں کسی کی مدد کرنا نیکی کا کام ہے اور جس قدر ثواب اس کام کے انجام دینے والے کو ہوگا ، اس میں سے سفارش کرنے والے کا بھی حصہ ہوگا اور وہ بھی محروم نہیں رہیگا۔ نبی ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے اشفعوا ولتوجرو اجائز امور میں سفارش کیا کرو ، تمہیں اجر ملیگا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ویقضی اللہ علی لسان نبیہ ماشاء اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرتا ہے۔ لہٰذا اچھی بات کی ہمیشہ ترغیب دینی چہئے اور اس کی انجام دہی کے لیے سفارش کرنی چاہیے۔ اگر کام نہ بھی ہو ، تو سفارش کرنے والے کو بہرحال اچھی سفارش کا اجر مل جائیگا۔ ناجائز سفارش پر عتاب جائز سفارش اجر وثواب کا موجب ہے تو ناجائز سفارش معصیت میں شامل ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جائز یا ناجائز سفارش کی اجرت لینا حرام ہے۔ جائز میں اس لیے کہ یہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور عبادت کی اجرت لینا حرام ہے اور ناجائز سفارش کی اجرت اس لیے حرام ہے کہ وہ بذات خود معصیت ہے۔ مگر مقام افسوس ہے کہ آج کے دور میں لوگ جائز و ناجائز کی حدود کو قائم نہیں رکھتے۔ اس زمانہ میں اکثر سفارشات ناجائز ہوتی ہیں ایک شخص کسی عہدہ کا اہل نہیں مگر وہ عہدہ اسے سفارش کے ذریعے دلایا جاتا ہے ، یہ کیسے درست ہو سکتا ہے۔ آج ہمارے گردو پیش میں کتنے معاملات ہیں جن میں سو فیصد غلط کام کی سفارش کی جاتی ہے اس کا لازماً مؤاخذہ ہوگا۔ آج کے دور میں حکومت کے اکثر محکمے رشوت اور سفارش کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ رشتہ داری ، دوست نوازی اور اقربا پروری کی بنیاد پر غلط ملط کام کی سفارش کی جاتی ہے۔ سفارش کے ذریعے صریح مجرم کو بچایا جاتا ہے اور بےگناہ کو سزا دلوائی جاتی ہے آخر اس ظلم کا وبال ضرور پڑے گا۔ یہ چیزیں تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے والی ہیں۔ جب حالات ایسے ہوجائیں تو پورے معاشرے کا امن و سکون تباہ ہوجاتا ہے اور ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس “ والا ماحول جنم لیتا ہے۔ لعن اللہ۔۔ من اویٰ محدثاً مجرم کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ جو شخص حقیقی چور کے ہاتھ نہ کاٹنے کی سفارش کرتا ہے ظاہر ہے کہ وہ بھی اس جرم میں شریک ہے اور اس برائی میں سے اسے بھی اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ سلام مکارم اخلاق معاشرتی معاملات میں مکارمِ اخلاق کو اعلیٰ حیثیت حاصل ہے اور سلام مکارم اخلاق ہی کا حصہ ہے۔ سلام کرنا ایک دوسرے کے حق میں سلامتی کی دعا ہے اور اس لحاظ سے یہ بھی ایک اچھی اور جائز سفارش ہے کہ کسی بھائی کو ایمان اور نہ ہر لحاظ سے سلامتی نصیب ہو۔ تو اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کو سلام کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے واذا حییتم تجیۃٍ جب تمہیں دعا دی جائے ، سلام کے ساتھ فحیوا باحسن منھا تو تم اس سے بہتر دعا دو اور دوھا یا کم از کم اسی کو لوٹا دو ۔ یہ تحیہ اور حیہ زندگی کے لیے دعا کو کہا جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ یوں کہا کرتے تھے حیاک اللہ یا حییت یعنی تم دیر تک زندہ رہو تمہیں اللہ سلامتی کے ساتھ زندہ رکھے۔ اس زمانے میں انعم صباحاً (تمہاری صبح خوشگوار) کے الفاظ بھی بولے جاتے تھے۔ آج کل بھی Good Morning (صبح بخیر) جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم اسلام نے یہ طریقہ جاری کیا۔ کہ جب تمہیں کوئی سلام کہے تو اس اس سے بہتر سلام کہو یا کم از کم اسی کو لوٹا دو صرف لوٹانا یہ ہے کہ جب کوئی السلام علیکم کہے تو تم جواب میں وعلیکم السلام کہ دو ۔ اور بہتر سلام یہ ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ کہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص صرف علیکم السلام کہتا ہے تو اسے دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں اور اگر کوئی اس کے ساتھ رحمۃ اللہ بھی کہ دے تو بیس نیکیوں کا حقدار بن جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اگر کوئی وبرکاتہ کا لفظ بڑھا دے تو تیس نیکیاں اور ومغفرتہ ، کا اضافہ کرنے سے اس کے نامہ اعمال میں چالیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں تو گویا بہتر سلام یہ ہوا وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، و مغفرتہ ، تاہم سلام کا کم ازکم جواب وعلیکم السلام ہے۔ صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ سلام کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے جاری فرمایا۔ آپ کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہشت میں فرشتوں کی ایک جماعت ہے ، اس کو جا کر سلام کرو۔ جو جواب وہ دیں گے وہی جواب تمہارے لیے اور تمہاری اولاد کے لیے ہوگا۔ چناچہ آدم (علیہ السلام) نے فرشتوں کے پاس جاکر السلام علیکم کہا ، تو انہوں نے جواب میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا۔ چناچہ سلام کا یہی طریقہ بنی آدم میں رائج ہوگیا۔ سلام کی تشہیر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سلام کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ جو شخص سلام میں پہل کرتا ہے۔ اس کو زیادہ اجر ملتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ راستوں پر نہ بیٹھا کرو ، اگر بیٹھنا ہے تو راستے کا حق بھی ادا کیا کرو۔ اور راستے کا حق یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرو ، بھٹکے ہوئے آدمی کو راہ دکھاؤ اور آنے جانے والوں کو سلام کہو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر عمل کر کے تم آپس میں محبت کرنے لگو اور آپس میں محبت کرو گے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت عطا کریں گے۔ فرمایا وہ چیز ہے افشو السلام بینکم یعنی آپس میں سلام پھیلاؤ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہا کرو۔ علی من عرفت و من لم تعرف جس کے ساتھ جان پہچان ہے اسے بھی سلام کہو اور جس کے ساتھ تعارف نہیں ہے ، اس کو بھی سلام کرو۔ یہ پیار و محبت کا بہترین نسخہ ہے۔ کفار اور سلام مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کے مخاطبین اہل اسلام ہیں اور سلام کرنے کا حکم انہی کے لیے ہے کہ جب آپس میں ملو تو ایک دوسرے کو سلام کیا کرو اور اس کا بہتر جواب دیا کرو۔ یہ حکم کافروں کے لیے نہیں ہے۔ لہٰذا حتی الامکان کفار کے ساتھ سلام میں ابتداء نہ کرو لا تبدوا الیھود والنصریٰ بالسلام۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کفار کے ملک میں ان کے زیر اثر رہتا ہے اور سلام نہ کرنے سے اسے نقصان اٹھانے کا خطرہ ہے تو اسے سلام کرنا مباح ہوگا ، گنہگار نہیں ہوگا۔ مگر عام حالات میں ابتداء نہیں کرنی چاہئے اور اگر کوئی غیر مسلم خود سلام میں ابتداء کرے تو اس کے جواب میں وعلیکم کہ دنیا کافی ہے۔ اس سے زیادہ نہ کہے اگر کسی مجلس میں مومن اور کافر ملے جلے ہوں تو سلام کرتے وقت مومنوں کے حق میں نیت کرو یا فرشتوں کا تصور کر کے السلام علیکم کہو۔ آدابِ سلام یاد رہے کہ بعض حالتوں میں سلام کرنا مکروہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً بول و براز کی حالت میں سلام نہیں کرنا چاہئے۔ اذان ، نماز ، تلاوت یا دیگر علمی مشاغل کے دوران سلام مکروہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی معصیت کا کام مثلاً کبوتر بازی ، پتنگ بازی بٹیر بازی ، گانے بجانے کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے۔ آدابِ سلام کے سلسلے میں حضور ﷺ نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے ، سوار پیدل کو سلام کرے ، چلنے ولا ا بیٹھنے والے کو سلام کرے۔ یہ مکارم اخلاق کی تعلیم ہے تاکہ لوگوں میں تکبر پیدا نہ ہو۔ کسی شخص کو لائق نہیں کہ وہ دوسرے شخص کے سلام کامنتظر رہے۔ بلکہ ہر شخص کو سلام میں ابتداء کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ آپ سلام میں پہل فرماتے تھے ، جب آپ کا بچوں پر گزر ہوا۔ تو سلام کیا ، عورتوں کے پاس گزرے تو وہاں بھی سلام کیا۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عورتیں اپنی اعزہ و اقارب میں سے ہوں یا عمر رسیدہ ہوں تو ان کو سلام کیا جاسکتا ہے۔ نوجوان عورتوں کو اجنبی نوجوان کا سلام فتنہ کا باعث ہو سکتا ہے لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ حضور ﷺ نے بھی یہ فرمایا کہ جب اپنے گھر جاؤ تو بیوی بچوں کو سلام کرو اس میں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خیرو برکت ڈال دے گا۔ اگر کسی خالی گھر میں جاؤ تو وہاں بھی سلام کرو اور یوں کہو السلام علینا و علی عباد اللہ الصلحین ہم پر سلام ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔ فرمایا وہاں اللہ کی کوئی دیگر مخلوق فرشتے وغیرہ ہوں گے تو وہ بھی اس سلام میں شامل ہوجائیں گے۔ یہ تمام باتیں احادیث میں آتی ہیں اور فقہائے کرام نے ان کی تشریح بیان کردی ہے یہ مکارمِ اخلاق کا حصہ ہے۔ سلام کی تکمیل مصافحہ تمام التحیہ یعنی سلام کی تکمیل مصافحہ سے ہوتی ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ مصافحہ کرنے والوں کے گناہوں کو گراتا ہے۔ مصافحہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے ملانے کو کہا جاتا ہے اور یہ مسنون ہے۔ البتہ مصافحہ کی تیمم دونوں ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ بعض لوگ دونوں ہاتھ بلانے سے گریز کرتے ہیں یہ ٹھیک نہیں مصافحہ کی تکمیل دونوں ہاتھوں سے ہے تاہم یہ ضروری بھی نہیں۔ اس کے علاوہ معانقہ کی بھی اجازت ہے۔ حضور ﷺ نے بعض موقع پر اپنے صحبہ سے معانقہ بھی کیا یعنی گلے ملے۔ یہ انتہائی محبت و الفت کی علامت ہے۔ بشرطیکہ کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ بہرحال فرمایا کہ جب تمہیں سلام کے ساتھ دعا دی جائے تو اس سے بہتر جواب دو یا کم از کم اسی کو لوٹا دو ۔ ان اللہ کان علی کل شیء حسیباً بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں کریگا۔ اور خلوص و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام کہنے پر جنت نصیب فرمادیگا۔ اسلام کی بنیاد توحید فرمایا اللہ لا الہ الا ہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں یہ اسلام کی بنیاد ہے اور ہمیشہ مدنظر رہنی چاہئے۔ اگر بنیاد درست ہوگی تو تمام معالات درست ہوں گے اگر بنیاد ہی غلط ہوگئی ، تو اس پر تعمیر ہونے والی پوری عمارت خراب ہوگئی۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے ، اسی پر تمام اعمال کا دارو مدار ہے۔ تمہاری عبادات ، جہاد ، سلام ، ملاقاتیں سب اس بنیادی عقیدہ کے تابع ہیں۔ یہی تمہارا نظریہ (Ideology) اور جب اس پر یقین مکمل ہوجائے تو یاد رکھو لیجمعنکم لای یوم القیمۃ اللہ تعالیٰ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا ، وہاں محاسبہ ہوگا ، لہٰذا اپنے بچاؤ کا سامان کرلو۔ ایسا نہ ہو کہ وہاں تمہارے نامہ اعمال میں کچھ نہ نکلے ، وہاں کے محاسبے کیل یے ابھی سے تیاری شروع کردو۔ اور وہ قیامت اور محاسبے کا دن ایسا ہے ” لاریب فیہ “ جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، وہ بہرصورت آ کر رہے گا ، اللہ تعالیٰ نے یہ سب باتیں واضح کردیں۔ حاصل کلام فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں کھول کھول کر بیان کردی ہے و من اصدق من اللہ حدیثاً اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے۔ وہ اصدق القائلین ہے۔ اس کے تمام احکام اور فرامین برحق ہیں لہٰذا ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ بلاچون و چرا ان پر عمل پیرا ہو اور اس سلسلہ کسی شک و شبہ کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کے بعد سفارش کا مسئلہ اور پھر سلام و دعا کی تفصیل سے بھی آگاہ کردیا۔ مکارم اخلاق کی تربیت بھی دے دی۔ اب آئندہ جہاد کا وہی سلسلہ آگے چلے گا جو گزشتہ رکوع سے بیان ہو رہا ہے اور ساتھ ساتھ منافقین کی مذمت کا پہلو بھی ہے یہ سلسلہ آگے دور تک چلا جائے گا۔
Top