Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
پس کیا ہوگیا ہے تمہیں (اے اہل ایمان) منافقوں کے بارے میں کہ تم دو گروہ ہوگئے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو الٹ دیا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کمائے ہیں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ راہ راست پر لاؤ ان کو جنہیں اللہ نے گمراہ کردیا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کر دے پس ہرگز نہ پائیگا تو اس کے لیے راستہ
منافقوں کی دو قسمیں منافقین کی مذمت کا سلسلہ پیچھے سے چلا آرہا ہے اور ان کو مختلف سازشوں کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر ضروری مسائل بھی بیان ہوچکے ہیں۔ آج کی آیات بھی منافقین ہی سے متعلق ہیں۔ ان میں اہل اسلام کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ منافقین کے بارے میں مختلف آراء سے پرہیز کرتے ہوئے کسی ایک رائے پر ہی متفق رہیں اور انہیں کوئی ایسا موقع نہ دیں کہ وہ الٹا تمہیں گمراہ کرسکیں ۔ مفسرین کرام نے منافقین کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ پہلی قسم اعتقادی منافقین کی ہے اور دوسری عملی منافقین کی۔ اعتقادی منافق وہ ہے جو بظاہر کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ مگر اس کا دل کفر پر جما رہتا ہے۔ نزولِ قرآن کے زمانہ میں مدینہ میں اکثر منافقین کا تعلق اس قسم کے ساتھ تھا۔ وہ حصول مقصد یا کسی ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے کلمہ شہادت زبان سے تو ادا کرلیتے تھے مگر ان کا باطن ایمان سے خالی ہوتا تھا۔ منافقین کی یہ بدترین قسم ہے ، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اسی سورة میں واضح فرما دیا ہے ” ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار “ منافقین جہنم کے زیریں ترین اور بدترین حصے میں ہوں گے۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں اکثر منافقین یہودیوں میں سی تھے۔ منافقین کا تذکرہ قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں موجود ہے۔ سورۃ بقرہ ، آل عمران اور اسی سورة نساء میں ان کے قبیح خصائل کا تذکرہ ہے منافقین کے نام سے مکمل سورة بھی موجود ہے۔ سورة توبہ میں بھی ان کے متعلق بہت کچھ آیا ہے مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان ان بدبختوں کی سازشوں سے ہوشیار رہیں اور ان کے دام فریب میں نہ پھنس جائیں۔ منافقوں کی دوسری قسم عملی منافق ہیں۔ ایسے منافقین کا ذکر احادیث میں کثرت سے آیا ہے۔ ان کو اخلاقی منافق بھی کہہ سکتی ہیں کہ دل میں نور ایمان موجود ہے ، توحید کی تصدیق بھی کرتے ہیں مگر عمل اور اخلاق اس کے خلاف ہے حضور ﷺ نے ایسے منافق کی نشانیاں یہ بتائیں اذا حدث کذب جب بات کرے جھوٹ بولے اذا وعد اخلف جب وعدہ کرے تو خلاف کرے واذا او تمن خان اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ یہ عملی منافق ہیں۔ آپ کے زمانے کے بعد اور ہر زمانہ میں عملی منافق کثرت سے موجود رہے ہیں۔ آج بھی دیکھ لیں کہ زبانی عقیدہ تو درست ہے مگر قول و فعل میں تضاد ہے نماز کو فرض مانتا ہے مگر نہیں پڑھتا۔ جانتا ہے کہ روزہ فرض ہے مگر نہیں رکھتا چوری ، خ ، یانت ، جھوٹ ، حرام ہیں مگر کیے چلا جارہا ہے، یہی عملی منافقت ہے اور اس قسم کے منافقین سے دنیا بھری پڑی ہے۔ اس آیت میں مذکورہ منافقین آج کی آیت میں جن منافقین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کا تعلق کس گروہ کے ساتھ ہے۔ کیا ان سے مراد اعتقادی منافق ہیں یا عملی منافق۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے وہ اعتقادی منافق مراد ہیں جو احد کے موقع پر عبداللہ بن ابی کی قیادت میں راستے ہی سے واپس چلے گئے تھے اور اس جنگ میں مسلمانوں کو کافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ان منافقوں کے متعلق اہل ایمان کی دورائیں ہوگئی تھیں۔ بعض کہتے تھے کہ ان کے ساتھ بالکل کافروں جیسا سلوک ہونا چاہیے اور بعض دوسرے ان کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ تفسیر روح المعانی میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اس آیت میں مذکور منافقین سے وہ کفار مراد ہیں جو مکہ سے مدینے آئے ، اسلام کے ساتھ اظہار ہمدردی بھی کیا اور پھر تجارت کے بہانے سے واپس مکہ چلے گئے۔ دراصل ان لوگوں کو اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا ، بلکہ یہ لوگ جاسوسی کی غرض یا کسی دیگر سازش کے تحت مدینہ آئے تھے اور پھر واپس چلے گئے ان کے متعلق بھی اہل ایمان دو مختلف رائیں رکھتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ ایمان لا چکے ہیں مگر کسی مجبوری کی وجہ سے واپس نہیں آسکے جب کہ دوسرے لوگوں کا خیال تھا ، کہ یہ کافر تھے اور کفر پر ہی واپس چلے گئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس پورے رکوع میں جن منافقین کا ذکر ہے ان سے مراد دراصل کافر ہیں اور منافق کا لقب انہیں محض لغوی اعتبار سے دیا گیا ہے ، کیونکہ منافق ذی وجہین یعنی دو رخہ ہوتا ہے۔ اِدھر کچھ بات کی اور ادھر کچھ اور سکیم بنائی۔ بہرحال شاہ صاحب کی تحقیق بھی یہ ہے کہ یہ آیات مکہ کے ان کافروں کے متعلق ہیں جو مدینے آ کر واپس چلے گئے تھے ، نہ کہ مدینہ کے اعتقادی منافق۔ چونکہ اہل ایمان ان کے متعلق دو مختلف رائے رکھتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اسے ناپسند فرمایا اور کہا فما لکم فی المنفقین فئتین تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں تم دو گروہ ہوگئے ہو۔ واللہ ارکسہم بما کسبوا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں الٹ دیا ہے ان کی کمائی کی وجہ سے۔ لہٰذا تمہیں ان کے متعلق مختلف رائیں نہیں رکھنی چاہئیں۔ بلکہ ایک بات پر متفق ہوجانا چاہئے کہ یہ کافر ہیں اور بہت بُرے لوگ ہیں۔ ان کی کرتوتوں کی وجہ سے اللہ نے انہیں ذلیل و خوار کردیا ہے لہٰذا ان کے متعلق کوئی اچھا گمان نہ رکھو۔ اللہ نے اگلی آیت میں انکے خلوص کا معیار بھی مقرر کردیا ہے۔ ” حتی یھاجروا فی سبیل اللہ “ جب تک یہ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ نہ آجائیں یہ قابل اعتماد لوگ نہیں ہیں۔ لہٰذا انہیں اس وقت تک کافر ہی تصور کیا جائے۔ ہجرت کی تین قسمیں ہجرت تین اقسام سے ہے اس کی پہلی قسم تو فرض ہے۔ قرآن پاک میں موجود ہے کہ جب کسی علاقے میں کفار کا اس قدر غلبہ ہو کہ اہل ایمان شعار اسلام اور شعار ایمان ادا نہ کرسکیں تو وہاں سے ہجرت فرض ہوجاتی ہے۔ چناچہ ابتدائے اسلام میں جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو ان کے لیے ہجرت واجب ہوگئی چناچہ مسلمانوں نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور تیسری دفعہ مدینہ میں آکر قیام پذیر ہوگئے اس وقت ایمان کا معیار ہی یہ تھا کہ کفار کے زیر تسلط رہنے والا مسلمان جب تک ہجرت نہیں کرتا اس کے ایمان کا کچھ اعتبار نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص کسی بھی وقت کفار کے غلبہ سے مغلوب ہو کر ایمان کا دامن چھوڑ سکتا ہے۔ چناچہ اس سورة میں بھی اور دیگر سورتوں میں بھی اس معاملہ میں سخت وعید آئی ہے اسی سورة میں پہلے گزر چکا ہے کہ کچھ کمزور مرد ، عورتیں اور بچے مکہ میں رہ گئے تھے۔ کفار کے مظالم برداشت کرتے تھے مگر ہجرت کے لیے طاقت نہیں رکھتے تھے ، بیچارے مجبور تھے۔ ایسے لوگوں کو تو معذور سمجھا جاسکتا ہے ، مگر کوئی صحت مند جوان اور ہجرت کی استطاعت رکھنے ولا ا شخص اگر ہجرت نہیں کرتا ، تو اس کے ایمان کا کچھ اعتبار نہیں کیا جاتا تھا ، ہجرت بہرصورت ایک مشکل کام ہے اور اس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے ان شان الہجرۃ لشدیدٌ ہجرت کا معاملہ بڑا دشوار ہے۔ بہرحال یہ ہجرت ابتدائے اسلام کے زمانہ سے فتح مکہ تک فرض تھی جب مکہ فتح ہوگیا تو حضور ﷺ نے فرمایا لاہجرۃ بعد الفتح یعنی فتح کے بعد ہجرت کی ضرورت نہیں ! ہاں ! اگر پھر کسی جگہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں جیسے مکہ میں تھے۔ کفار کے غلبہ کی وجہ سے اہل ایمان اپنے ایمان کو قائم نہ رکھ سکتے ہوں ، تو ان پر وہاں سے ہجرت فرض ہو جائیگی۔ یہاں پر مسئلہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو شخص ایک دفعہ دارالکفر سے ہجرت کر کے دارالالسلام آ گیا اور دوبارہ دارالکفر میں چلا گیا ، اس کی ہجرت باطل ہوجائے گی۔ اسی لیے حضور ﷺ صحابہ کرام کے متعلق دعا کیا کرتے تھے اللہم امض لاصحابی ہجرتہم اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو جاری فرما۔ کسی کی ہجرت باطل نہ ہو۔ مگر حضرت سعد ابن خولہ ؓ کی ہجرت باقی نہ رہی کیونکہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹنی سے گر کر شہید ہوگئے تھے۔ حضور نے ان کی وفات پر اظہار افسوس کیا کہ وہ جہاں سے ہجرت کر گئے تھے ان کی موت اسی جگہ واقع ہوئی۔ بہرحال ہجرت کا معاملہ بڑا دشوار ہے۔ کیونکہ اس میں گھر بار ، خاندان ، قبیلہ ، مکان ، زمین اور ہر قسم کی جائیداد کی قربانی دینی پڑتی ہے تاہم جہاد کی طرح یہ بھی ضروری ہے اور کوتاہی کرنے والے کے لیے جہنم کی وعید آئی ہے۔ ہجرت کی دوسری قسم یہ ہے کہ آدمی پیغمبر (علیہ السلام) کے ساتھ جہاد میں شریک ہوے جائے۔ منافقیں مدینہ کے لیے یہ بڑی دشوار تھی۔ وہ حیلے بہانے سے جہاد سے گریز کرتے تھے ، پیچھے رہ جاتے تھے۔ چناچہ احد کے موقع پر ایسا ہوا کہ عبداللہ بن ابی تین سو آدمیوں کی جماعت کے ساتھ اس لیے واپس آ گیا کہ ان کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا تھا۔ وہ مدینہ میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے جب کہ صحابہ کی اکثریت باہر میدان میں نکل کر لڑائی کرنا چاہتی تھی۔ ان منافقین کے متعلق بھی بعض مسلمان اچھاخیال رکھتے تھے کہ یہ کلمہ گو ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں ، ہر مجلس میں شامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کے متعلق بدگمانی نہیں ہونی چاہئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تک یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوں۔ ان کا کچھ اعتبار نہیں۔ لہٰذا ان کی ہجرت یہ تھی کہ وہ جہاد میں شامل ہوجائیں۔ ہجرت کی تیسری قسم کے متعلق حضور ﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن وامان سے وقت گزارے ، ان کو تکلیف نہ پہنچائے اور مسلمان وہ شخص ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ پھر فرمایا والمھاجر من ہجر مانھی اللہ عنہ مہاجر وہ ہے جو ہر اس چیزکو چھوڑ دے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ حقیقی مہاجر وہ ہے جو گناہ سے بچ جائے۔ گھر بار اور وطن چھوڑنے کے باوجود اگر اسلام کے باقی احکام پورے نہیں کرتا ، اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب نہیں کرتا۔ تو وہ حقیقی مہاجر نہیں ہے۔ مرکزیت کا فقدان الغرض ! فرمایا کہ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ان کافروں کے متعلق دورائیں رکھتے ہو۔ تمہاری اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ ایک رائے پر متفق ہوجایا کرو۔ دشمنانِ دین کے متعلق تمہیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے امریکہ ہو یا روس یہود ہوں یا ہنود اسلام دشمن میں یہ سب متفق ہیں۔ مگر مسلمانوں کی اجتماعیت کا شیراہ بکھر چکا ہے ، یہ اپنوں کی بجائے غیروں سے دوستانہ رکھتے ہیں ، ان سے غلط توقعات وابستہ کرتے ہیں اور پھر نقصان اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک بتلا رہا ہے کہ مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع ہونا چاہئے ، ان سب کی ایک رائے ہونی چاہئے۔ مگر اجتماعیت کے فقدان نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ آج کسی ملک یا کسی علاقے میں کسی مسلمان پر افتاد آجائے تو کوئی دوسرا مسلمان اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ آج مسلمان اغیار کے دام فریب میں گرفتار ہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ آج کون ہے جو فلسطین ، افغانستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کو پہنچے۔ ہماری حکومتیں بڑی طاقتوں سے اس قدر مرعوب ہیں کہ وہ کسی کو مسلمانوں کی امداد کے لیے جانے کی اجازت بھی نہیں دے سکتیں۔ وجہ یہی ہے کہ آج ہم مرکزیت کو بھول چکے ہیں۔ دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں مگر ہر ایک کی رائے جدا جدا ہے ، نہ کوئی مرکز ہے اور نہ اس کے تحت مسلمان کوئی مفاد حاصل کر رہے ہیں۔ حضور ﷺ کا اپنا زمانہء مبارک اور خلفائے راشدین کا زمانہ مرکزیت کا زمانہ تھا ، اس وقت تمام دنیائے اسلام ایک مرکزی حکم کی پابندی تھی ، سب ایک رائے پر متفق تھے ، مگر آج یہ چیز ختم ہوچکی ہے اس لیے مسلمان طرح طرح کے مصائب کا شکار ہیں۔ باطل نظام ہائے معیشت اس وقت دنیا میں دو بڑے نظام ہائے معیشت جاری ہیں ایک انگریز کا نظام سرمایہ داری اور دوسرا سوشلسٹ ملکوں کا اشتراکی نظام مگر یہ دونوں باطل ہیں۔ انگریز سے دوستانے اور سرمایہ دارانہ نظام نے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ سرمایہ داری نظام محض مفاد پرستی پر مبنی ہے اس میں حلال حرام کی کوئی تمیز نہیں دولت جس راستے سے چاہو کماؤ اور جس راستے میں چاہو خرچ کرو۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں مقررہ ٹیکس اداکر کے گورنمنٹ سے لائسنس حاصل کرلو اور پھر چاہے سینما جاری کرلو ، شراب کی دکان کھول لو یا قحبہ خانہ چلا لو ، ہوٹل قائم کرلو جہاں پر شراب اور خنزیر کا گوشت کھلاؤ ، کون پوچھتا ہے۔ اشتراکی نظام کی اپنی قباحتیں ہیں۔ وہاں انسان اور حیوان میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا ، انسان کو کو لہو کے بیل کی طرح چلایا جاتا ہے اور پھر اس کی جائز ضروریات بھی پوری نہیں کی جاتیں۔ یہ دونوں نظام ہائے معیشت باطل ہیں۔ قرآن پاک کا اپنا نظام معیشت ہے جس کی بنیاد اللہ کی توحید اور قیامت کے تصور پر ہے یہ نظام اللہ تعالیٰ کی حدود پر قائم ہوتا ہے۔ حرام حلال کی تمیز سکھاتا ہے۔ نہ ناجائز ذرائع سے طلب زر کی اجازت دیتا ہے اور نہ ناجائز امور پر خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ” لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ کسی کا مال ناحق مت کھاؤ ۔ اللہ کا یہ بھیحکم ہے لاتسرفوا اگر مال آ گیا ہے تو اسے ضائع نہ کرو۔ ولاتبذروا فضول خرچی نہ کرو۔ اسے جائز امور پر خرچ کرو۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسراف و تبذیر کی کون جرأت کرسکتا تھا ، وہ کمائی پر قدغن لگاتے تھے اور اخراجات کو بھی کنٹرول کرتے تھے ، مگر آج فضول خرچی کو کون روک سکتا ہے ہمارے ملک میں اتنی بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں جن کی نقشہ نویشی پر ہی لاکھوں روپیہ لگ جاتا ہے۔ ذرا اندازہ فرمائیں کہ ایسی عمارتوں کی کل لاگت کیا ہوگی۔ یہ سی فضول خرچی اور عیاشی ہے جو کہ مرکزیت سے عدم تعلقی کی وجہ سے ہے۔ ہدایت بدست خدا آگے اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم کفار سے دوستانہ اس لیے کرتے ہو کہ شاید وہ راہ راست پر آجائیں ، اتریدون ان تھدوا من اضل اللہ کیا تم ان لوگوں کو ہدایت یافتہ بناناچاہتے ہو ، جنہیں اللہ نے گمراہ کردیا ہے۔ فرمایا یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ وہ من یظل اللہ فلن تجدلہ سبیلاً جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے ، اسے کون راہ راست پر لاسکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے بما کسبوا ان کی اپنی کمائی کی وجہ سے۔ جب وہ حق کی مخالفت پر تُل جاتے ہیں تو پھر اللہ انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیتا ہے دوسرے مقام پر فرمایا ” واللہ لا یھدی القوا الظلمین “ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جب تک ظالم اپنے ظلم سے باز نہ آجائے اور سچی توبہ نہ کرلے اس وقت تک اسے ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ فرمایا کفار و منافقین کی بری کمائی کی وجہ سے اللہ نے انہیں الٹا دیا ہے تم انہیں کیسے ہدایت کی راہ پر چلا سکتے ہو۔ اغیار کی دلی خواہش فرمایا اسلام دشمن طاقتوں کی خواہش یہ ہے۔ ودوا لو تکفرون کما کفروا وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح کفر کا راستہ پکڑلو جس طرح وہ خود کفر کیے بیٹھے ہیں ساری دنیا کے کفار کی یہی تمنا ہے۔ یہودی ہوں یا عیسائی ، ہندو ہوں یا کوئی اور سب چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کو اپنے دین میں داخل کرلیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح تم بھی شتر بےمہار ہوجاؤ ، نہ حلال حرام کی تمیز اور نہ جائز ناجائز کی فکر۔ جس طرح چاہو کماؤ اور جیسے چاہو خرچ کرو۔ پہلے دو سو سال تک برطانیہ کا طوطی بولتا تھا ، وہ من مانی کرواتار ہا۔ اب اس کی جگہ امریکہ آ گیا ہے اس کی خواہش بھی یہی ہے کہ ساری دنیا اسی کے پیچھے لگ جائے۔ یہ سب طاغوت ہیں اور لوگوں سے اپنا اتباع کرانا چاہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اغیار کی خواہش پر انہی کا طریقہ اختیار کرلینے سے ان کی مراد یہ ہے فتکونون سوائً تاکہ سب برابر ہوجائیں ، کوئی کسی کو کہنے ولا ا نہ ہو۔ مگر اللہ نے اسلام کے متبعین کو فرمایا فلا تتخذوا منہم اولیاء ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ ۔ یہ سب تمہارے دشمن ہیں۔ دوستی کی آڑ میں تمہارے ساتھ دھوکا کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ان سے بچ کر رہو۔ جب تک یہ لوگ اپنی روش ترک نہ کریں اور دارالکفر کو چھوڑ کر دارالاسلام میں نہ آجائیں اور پھر تمہارے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوجائیں حتیٰ یھاجروا فی سبیل اللہ یعنی ہجرت جیسا اہم فریضہ پورا نہ کریں ، اس وقت تک ان کا کچھ اعتبار نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی دوستی سے منع فرما دیا۔ اُن کے لیے حکم فرمایا فان تولوا اگر وہ روگردانی کریں۔ تمہارے ساتھ شامل نہ ہوں ، کفار کی چاپلوسی ترک نہ کریں تو پھر سمجھ لو کہ یہ پکے کافر ہیں۔ پھر ان کا علاج یہ ہے فخذوہ ان کو پکڑ لو واقتلواہم حیث وجدتموہم انہیں جہاں بھی پاؤ مارو۔ ولاتتخذوا منہم ولیاً ولانصیراً اور نہ بناؤ ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار ، حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کے اس حصہ سے و اضح ہے کہ ان لوگوں سے مراد مکہ کے کافر ہیں کیونکہ اعتقادی منافقوں کو مارنے کا حکم نہیں تھا۔ عبداللہ بن ابی اور دوسرے منافقین کے بعض نفاق جب ظاہر ہوتے تھے تو صحابہ انہیں قتل کردینے کی اجازت طلب کرتے تھے ، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلّم اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ اگر منافقین کو قتل کرنا شروع کردیا گیا تو ان الناس یتحدثون ان محمداً یقتل اصحابہ لوگ باتیں بنانے لگیں گے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگے ہیں۔ اور اس طرح دین کی تبلیغ میں رکاوٹ پڑے گی۔ لہٰذا حضور ﷺ منافقین کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ البتہ ان پر زبانی کلامی سختی کا حکم دیتے تھے۔ گویا کافروں کے ساتھ عملی سختی کا حکم تھا اور منافق کے ساتھ زبانی سختی روا تھی۔ بہرحال اس آیت میں مذکورہ وہ لوگ ہیں۔ جو دراصل کافر ہی تھے۔ مگر چاپلوسی کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتیت ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کا راز فاش کردیا اور ان کے ساتھ مقاتلہ کی اجازت دیدی بلکہ حکم صادر فرما دیا۔ البتہ جن لوگوں سے لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی ، ان کا ذکر اگلی آیت میں آئے گا۔ یہ بعض قسم کے منافقین ہیں جنہیں مخصوص حالات میں لڑائی سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئیگی۔
Top