Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 95
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
لَا يَسْتَوِي
: برابر نہیں
الْقٰعِدُوْنَ
: بیٹھ رہنے والے
مِنَ
: سے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (مسلمان)
غَيْرُ
: بغیر
اُولِي الضَّرَرِ
: عذر والے (معذور)
وَ
: اور
الْمُجٰهِدُوْنَ
: مجاہد (جمع)
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
بِاَمْوَالِهِمْ
: اپنے مالوں سے
وَاَنْفُسِهِمْ
: اور اپنی جانیں
فَضَّلَ اللّٰهُ
: اللہ نے فضیلت دی
الْمُجٰهِدِيْنَ
: جہاد کرنے والے
بِاَمْوَالِهِمْ
: اپنے مالوں سے
وَاَنْفُسِهِمْ
: اور اپنی جانیں
عَلَي
: پر
الْقٰعِدِيْنَ
: بیٹھ رہنے والے
دَرَجَةً
: درجے
وَكُلًّا
: اور ہر ایک
وَّعَدَ
: وعدہ دیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْحُسْنٰي
: اچھا
وَ
: اور
فَضَّلَ
: فضیلت دی
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُجٰهِدِيْنَ
: مجاہدین
عَلَي
: پر
الْقٰعِدِيْنَ
: بیٹھ رہنے والے
اَجْرًا عَظِيْمًا
: اجر عظیم
نہیں برابر وہ لوگ جو پیچھے بیٹھنے والے ہیں ایمانداروں میں سے جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ جو جہاد کرتے ہیں اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ سوائے ان لوگوں کے جو عذر والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے جہاد کرنے والوں کو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ بیٹھنے والوں کے مقابلہ میں درجے کے اعتبار سے اور ہر ایک سے وعدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں کے مقابلے میں بہت بڑے اجر کی
ربط آیات گزشتہ درس میں مسلمانوں کی حفاظتِ جان کا قانون بتلایا گیا تھا اور اس امر کی تنبیہ کی گئی تھی کہ بےاحتیاطی کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان ضائع نہ ہونے پائے۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں جب لوگ جہاد کے لیے جاتے تھے تو بسا اوقات غلط فہمی کی بناپ ر مسلمان کے ہاتھوں مسلمان قتل ہوجاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ اس تنبیہ کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں لوگ جہاد میں شرکت سے محض اس لیی اعراض نہ کرنے لگیں کہ کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان ناحق تلف ہوجائے۔ اس خدشے کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں اور واضح فرما دیا کہ جہاد میں حصہ لنیے ولاے گھر بیٹھ رہنیوالوں سے بہرصورت اولیٰ اور افضل ہیں خواہ ان کا پیچھے رہ جانا کسی بھی وجہ سے ہو۔ قاعدین اور مجاہدین کا تقابل ارشاد ہوتا ہے لایستوی القعدون من المومنین غیر اولی الضرر والمجہدون فی سبیل اللہ بیٹھ رہنے والے مومن جن کو کوئی عذر نہیں اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہد برابر نہیں ہیں اور مجاہدین بھی ایسے جو جہاد کرتے ہیں باموالہم وانفسہم اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ۔ یعنی جب اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں تو پھر اپنا مال اور جان دونوں اثاثے اللہ کی راہ میں پیش کردیتے ہیں۔ قعدون جمع ہے قاعد کی جس کا لغوی منیٰ بیٹھنے والے ہیں اور مراد وہ لوگ ہیں جن کی ضرورت بوجوہ محاذ جنگ پر نہیں ہوتی اور وہ پیچھے بیٹھے رہتے ہیں۔ تاہم حسب ضرورت جاہد میں بالفعل شمولیت کے لیے بھی ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ آج کی اصطلاح میں انہیں ریزرو فورس (R RESERVE FORCE) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا کہ پیچھے بیٹھنے والے مومن اور آگے لڑنے والے مجاہد برابر نہیں ہیں۔ البتہ درمیان میں غیر اولی الضرر کے الفاظ لا کر معذور لوگوں کو مستثنا کردیا کہ ان پر کچھ الزام نہیں اور مطلب یہ ہوا کہ بغیر عذر پیچھے بیٹھنے والے مومنین اور میدان جنگ میں جانے والے مجاہدین برابر نہیں ہیں بلکہ مجاہدین کو قاعدین پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔ شان نزول اس آیت کی شان نزول کے متعلق احادیث اور تفاسیر میں مذکور ہے کہ اولاً آیت کا یہ حصہ نازل ہوا لایستوی القعدون من المومنین والمجہدون فی سبیل اللہ اس پر حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کو تشویش لاحق ہوئی آپ نابینا تھے مگر قدیم الاسلام صحابی اور مؤذن بھی تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ معذور ہونے کی وجہ سے وہ جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے اور پیچھے بیٹھے رہتے ہیں جب کہ مجاہدین جہاد میں بالفعل شریک ہو کر فضیلت میں بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا حضور ! میں معذور ہوں ، اگر بینا ہوتا تو ضرور… جہاد میں شریک ہوتا۔ آپ کی اس خواہش اور حسرت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے غیر اولی الضرر کے الفاظ نازل فرمائے۔ حضرت زید ؓ فرماتے ہیں کہ جس مجلس میں یہ وحی نازل ہوئی ، میں اس مجلس میں موجود تھا اور حضور ﷺ کی ران مبارک میری ران پر تھی۔ جب وحی نازل ہوئی تو میری ران پر اس قدر بوجھ پڑا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میری ران ٹوٹ رہی ہے یہ وحی کا بوجھ تھا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے جہاد میں عملی شرکت نہ کرنے والوں میں سے معذور افراد مثلاً لنگڑا ، اندھا ، اپاہج وغیرہ کو عذر کی بنا پر مستثنا قرار دے دیا۔ اور اعلان فرما دیا کہ بلاعذر پیچھے بیٹھنے والے اور جہاذد میں بالفعل شریک ہونے والے برابر نہیں بلکہ موخر الذکر لوگ اول الذکر لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ معذوروں کے لیے رعایت معذوروں کا یہ استثناء ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے جس کا ذکر سورة توبہ میں آتا ہے ” اذا نصحوا للہ ورسولہ “ یعنی ان کا عذر اس صورت میں قابل قبول ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیرخواہ ہوں اور پیچھے بیٹھ کر مسلمانوں کی خیرخواہی کی باتیں کریں نہ کہ کوئی ایسا غلط پراپیگنڈا کریں جس سے دشمن کو تقویت حاصل ہوتی جو جنگی چالوں میں سے پراپیگنڈا بھی ایک موثر ہتھیار ہے اور ہر فریق اسے دشمن کے خلاف استعمال کرتا ہے تاکہ اس کے اعصاب کمزور ہوں تو اس شرط کا مطلب یہ ہے کہ معذور لوگ دشمن کے پراپیگنڈا کا شکار ہو کر کوئی جھوٹی موٹی خبریں نہ پھیلانا شروع کردیں جس سے عوام میں بددلی پیدا ہوتی ہو۔ یہ رعایت انہی معذوروں کو حاصل ہوگی جو اہل ایمان کے خیرخواہ ہوں گے اور کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جس سے جماعت المسلمین میں ضعف پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ اہل اسلام کے بدخواہوں کو یہ رعایت حاصل نہیں ہوگی بلکہ وہ عنداللہ معتوب ہوں گے تو فرمایا پیچھے رہ جانے والے جہاد کرنے ولاے برابر نہیں ہیں ، سوائے معذوروں کے۔ درجہ کے اعتبار سے فضیلت فرمایا فضل اللہ المجھدین باموالہم و انفسہم علی القعدین درجۃً اللہ تعالیٰ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنیوالوں کو بیٹھنے والوں پر فضیلت بخشی ہے ایک درجہ کے اعتبار سے یعنی پیچھے رہنے والوں کو وہ درجہ کہاں حال ہو سکتا ہے جو مال و جان کی بازی لگانیوالوں کو اللہ کے ہاں حاصل ہے۔ البتہ وکلاً وعداللہ الحسنی اللہ نے سب کے ساتھ بھلائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ مقصد یہ کہ درجات میں تو دونوں گروہ برابر نہیں مگر بھلائی اور نیکی دونوں گروہوں کو حاصل ہوگی بشرطیکہ گھر بیٹھنے والے اسلام کے باقی احکام نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ پر عمل پیرا ہوں۔ ان لوگوں کو بھی نجات نصیب ہوگی ، اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بھی جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ تاہم وہ مجاہدین کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنی سب سے قیمتی متاع بھی اللہ کے حضور پیش کردی ہے۔ جہاد فرض کفایہ ہے آیت کے اس حصہ کلاً وعداللہ الحسنی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جہاد میں حصے لینے اور نہ لینے والوں سب کے ساتھ بھلائی کا وعدہ ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد ہر کس و ناکس کے لیے فرض عین نہیں ہے لہٰذا جماعت المسلمین میں سے کچھ لوگ جہاد میں حصہ لے لیں تو پوری ملت اس فرض سے سبکدوش سمجھی جائے گی اور اگر کوئی شخص بھی یہ انتظام نہ کرے تو سارے کے سارے بستی والے گنہگار ہوں گے نماز جنازہ بھی فرضِ کفایہ ہے۔ البتہ بعض غیر معمولی حالات (A BNORMAL) میں جہاد فرض عین بھی ہوجاتا ہے۔ اگر دشمن مسلمانوں کی جماعت پر حملہ کردے ، تو اس وقت ہر عاقل بالغ ، مرد اور عورت پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ ملکی دفاع کے لیے ہر مسملان کو اپنا حصہ ادا کرنا پڑیگا۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس قسم کے حالات میں عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر دشمن کے خلاف تدبیر کے لیے جاسکتی ہے۔ اسی طرح غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہوسکتا ہے۔ چار گروہ قانونِ جہاد کی رو سے اب لوگ چار گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں پہلا گروہ منافقین کا ہے۔ ان کے متعلق لیبطئن آ چکا ہے کہ وہ جان بوجھ کر بلاعذر جہاد سے گریز کرتے ہیں اور گھر بیٹھ رہتے ہیں دوسرا قاعدین کا ہے جس کا ذکر آج کے درس میں آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بالفعل جہاد میں شریک نہیں ہوتے مگر ضرورت پڑنے پر محاذ جنگ پر جانے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ تیسرا گروہ مجاہدین کا ہے جو بالفعل جہاد میں شریک ہو کر ما ل و جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور چوتھا گروہ معذوروں کا ہے جو کسی عذر کی وجہ سے شریک جہاد نہیں ہو سکتے۔ مگر اہل ایمان کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ان چاروں گروہوں میں سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کی مذمت بیان کی ہے ، قاعدین سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے ، مجاہدین کو بلند درجات کی خوشخبری سنائی ہے اور معذورین کو مستثنیٰ کیا ہے۔ جہاد باللسان اس آیت کریمہ میں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کا ذکر ہے۔ تاہم ابوداؤد شریف اور ترمذی شریف کی روایت میں جہاد باللسان کا ذکر بھی آتا ہے اور جہاد بالسنان کا بھی۔ یعنی جہاد زبان کے ساتھ بھی ہے اور اسلحہ کے ساتھ بھی ہے۔ ابو داؤد شریف کی روایت میں اس طرح آتا ہے جاہدوا الکفار والمشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم یعنی کفار و مشرکین سے جہاد کرو ، اپنے مالوں ، جانوں اور زبانوں کے ساتھ تو گویا بوقت ضرورت لسانی جہاد بھی فرض ہوجاتا ہے۔ دین اسلام کی تبلیغ یعنی اللہ کے احکام کو دوسروں تک پہنچانا لسانی جہاد ہے۔ تقریر وبیان کے ذریعے اسلام کی تبلیغ یا اسلام کے متعلق کسی فرد یا جماعت کے شکوک و شبہات دور کرنا بھی زبانی جہاد کا حصہ ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم ، اس کی اشاعت اور تبلیغ جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے فرماتے ہیں کہ اللہ تعلایٰ نے مجھے اسی شعبے میں لگایا ہوا ہے اور میں اپنا فرض انجام دے رہا ہوں۔ آپ نے بارہ سال تک دہلی میں تعلیم دی ، پھر حج کے لیے گئے۔ وہاں سے استفادہ حاصل کیا اور پھر واپس آ کر ساری عمر تبلیغ کے شعبے میں لگے رہے۔ آپ بالفعل تو جہاد میں شریک نہیں ہو سکے تاہم آپ نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لیے اپنا فرض احسن طریقے سے پورا کیا۔ جہاد بذریعہ تصنیف تبلیغ اسلام کے لیے تصنیف و تالیف بھی جاہد میں داخل ہے میرے سامنے جو قرآن پاک ہے اس کا ترجمہ اور کچھ حاشیہ شیخ الہند (رح) کا ہے اور یہ آپ نے مالٹا میں اسیری کے دوران لکھا تھا۔ اور بقیہ حاشیہ آپ کے شاگرد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی (رح) نے مکمل کیا تھا۔ یہ بہترین ، مستند اور مختصر حاشیہ ہے۔ آپ کے پاس جو قرآن کریم ہے اس کا ترجمہ اور مختصر حاشیہ حضرت مولانا احمد علی لاہوری (رح) کا ہے ۔ بڑا آسان اور عام فہم ترجمہ ہے۔ یہ بھی ایک عظیم جہاد ہے تصنیف و تالیف کے ذریعے جہالت کو مٹانا ، علم کو پھیلانا ، عدل و انصاف کو قائم کرنا ایمان اور توحید کو دنیا میں غالب کرنا ، معاصی اور فسق و فجور کا قلع قمع جہادہی کا حصہ ہے بلکہ یہ جہاد کبیر ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ یؤزن مداد العلماء بدم الشہداء قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تصنیف و تالیف کرنے والے علما کی سیاہی کو شہیدوں کے خون کا درجہ عطا فرمائیں گے۔ تصنیف و تالیف کی اتنی بڑی فضیلت آئی ہے۔ گویا جہاد کی یہ چار شکلیں واضح ہوگئیں یعنی تصنیف و تالیف ، تبلیغ ، تعلیم اور جہاد بالفعل۔ جہاد بالمال جن لوگوں کو اللہ نے توفیق بخشی ہے وہ اللہ کی راہ میں مال بھی لگاتے ہیں اور جان بھی پیش کردیتے ہیں۔ تاہم بعض لوگ جسمانی لحاظ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ جنگ میں بنفس نفیس شامل ہو سکیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ نے توفیق دی ہے تو وہ جہاد بالمال میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ کے دین کے قیام اور غلبہ اسلام کے لیے جو مال خرچ کیا جائے اس کا درجہ عام صدقات و خیرات سے بہت بلند ہے۔ جہاد کا موقع تھا۔ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں ایک اونٹنی لایا ، اس پر کجاوہ اور پالان کسا ہا تھا۔ عرض کیا ، حضور ! یہ اونٹنی پوری طرح تیار ہے ، اسے کسی مجاہد کے سپرد فرما دیجیے۔ آپ نے فرمایا تم نے بہت اچھا کام کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح کی سات اونٹنیاں عطا فرمائیگا۔ گویا جہاد کے لیے ایک پیسہ خرچ کرنے کا ادنیٰ درجہ سات سو گنا ہے۔ سورة انعام میں عام نیکی کا صلہ تو دس گنا بتایا ہے ” من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا “ مگر جہاد کے لیے اجر وثواب سات سو گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ذروۃ سنامہ الجہاد یعنی اسلام کی کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ ہاد کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ حدود اللہ جاری ہوتی ہیں ، برائی کا خاتمہ ہوتا ہے ، کفر کا غلبہ ٹوٹتا ہے اور زمین میں خلافت کا نظام قائم ہوتا ہے۔ ترکِ جہاد کا وبال ایک عرصہ ہوا ملت اسلامیہ سے جہاد کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ کفار نے اس جذبہ کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ ہندوستان میں مرزا قادیانی کو کھڑا کیا جس نے اعلن کیا اب جہاد منسوخ ہوچکا ہے۔ ایسا ہی کچھ پراپیگنڈا سرسید سے کروایا گیا۔ ایران میں یہ کام بہاء اللہ سے کروایا کہ نئی شریعت آگئی ہے لہٰذا اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب انگریز کی خباثت ہے جس نے مسلمانوں میں بزدلی پیدا کرنے کے لیے جہاد سے پیچھے ہٹایا خلافت کو ختم کر کے انگریز نے ملت اسلامیہ کی مرکزیت کو ختم کردیا۔ اسلامی خلافت اور یکجہتی کی وجہ سے انگریز اور جرمن وغیرہ مسلمانوں سے خوفزدہ تھے چناچہ انہوں نے ملی بھگت سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ ان کی اجتماعیت ختم ہو اور کسی مشکل کے وقت یہ ایک دوسرے کی مدد بھی نہ کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں مسلمانوں کو کہیں بھی عزت کی زندگی نصیب نہیں۔ فلسطین اور افغانستان کے مسلمان بےیارو مددگار ہیں۔ ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ انگریز نے ایسی پابندیاں لگا دی ہیں کہ چاہنے کے باوجود کوئی مسلمان اپنے بھائیوں کی مدد کو نہیں پہنچ سکتا۔ یہ سب غیر اقوام کی سازش کا نتیجہ ہے۔ فضول خرچی اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ ہے کہ اپنا مال جہاد میں لگاؤ مگر آج مسلمانوں کا مال تعیش کے کاموں میں صرف ہو رہا ہے آج مسلمانوں کی دولت کا رخ کھیل تماشے ، عیاشی ، فحاشی ، مشرکانہ رسومات اور بدعات کی طرف ہے۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کتنا روپیہ صرف ہو رہا ہے۔ عالی شان عمارتیں ضرور بن رہی ہیں مگر دین کی تبلیغ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ ہر شخص راتوں رات دنیا بھر کے خزانوں کا مالک بن جانا چاہتا ہے اور اسے اس بات کی کچھ پروا نہیں کہ ذرائع آمدن حلال ہیں یا حرام حالانکہ حکم یہ ہے اجملوا فی الطلب جائز ذرائع سے کماؤ اور جائز امور پر خرچ کرو۔ جو کوئی حرام کاموں پر مال خرچ کریگا۔ عنداللہ ماخوذ ہوگا۔ آج صرف دس فیصدی لوگ دولتمند ہیں اور باقی نوے فیصدی سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔ آج کون ہے جو غریبوں کو بھی اپنا بھائی سمجھ کر انکے دکھ درد میں شریک ہو۔ آج کس کو احساس ہے کہ سب مسلمان بھئای بھائی ہیں۔ سب کا نظریہ حیات (idology) ایک ہے لہٰذا ایک بھائی کو دوسرے بھائی کی ضروریات کا بھی خیال ہونا چاہئے۔ ملی جذبہ وہ لوگ کہاں گئے جن کے دلوں میں ملی جذبہ موجود تھا اور وہ اپنے بھائیوں کے لیے جذبہ ہمدردی رکھتے تھے۔ خواجہ نظام الدین اولیا (رح) سحری کے وقت کھانا نہیں کھاتے تھے۔ لوگوں نے کہا آپ جسمانی طور پر کمزور ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں ، کچھ کھا پی لیا کریں۔ فرمایا مجھے ان غریب مسلمانوں کا خیال آجاتا ہے ، جن کے پاس سحری کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ جب ان کا تصور آتا ہے تو حلق سے لقمہ نیچے نہیں جاتا۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر مغرب میں کوئی مسلمان عورت اغوا ہوجائے تو مشرق کے مسلمانوں پر اس کی امداد فرض ہوجاتی ہے فرماتے ہیں اگر مشرق کے رہنے والے کسی مومن کے پاؤں میں کانٹا چبھتا ہے تو مغرب والے مسلمان اس کی چبھن محسوس کرتے ہیں۔ یہ تھا وہ جذبہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو دنیا میں عزت نصیب تھی اور اغیار ان سے دہشت کھاتے تھے۔ اجرِ عظیم فرمایا و فضل اللہ المجھدین علی القعدین اجراً عظیماً اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو فضیلت بخشی ہے پیچھے بیٹھنے والوں پر اور اجرِ عظیم بھی ، فرمایا درجتٍ منہ یہ درجے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لیی جنت میں سو درجے تیار کر رکھے ہیں اور ہر درجے میں اتنا فرق ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان۔ فرمایا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ومغفرۃً بخشش بھی ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔ جہاد میں بعض کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ کوئی مسلمان غلطی سے مارا جاتا ہے تو اس قسم کی لغزشوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل ہوگی و رحمۃً اور اللہ تعالیٰ مجاہدین کو اپنی آغوش رحمت میں جگہ دے گا۔ اس کی مہربانی شامل حال ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت یہ ہے وکان اللہ غفوراً رحیماً ۔ وہ بخشنے والا ہے۔ انسان کا اعتقاد صحیح ہو ، جذبہ اور طلب صادق ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے۔ وہ ضرور معاف کردے گا اور رحیم ہے ، اس کی مہربانی بڑی وسیع ہے جب کوئی شخص اللہ کے دین ، اس کی کتاب اور نبی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے مال و جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بخشش و رحمت جوش میں آ کر اس کی تمام کوتاہیاں معاف فرما دیتی ہے۔
Top