Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 95
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
لَا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْقٰعِدُوْنَ : بیٹھ رہنے والے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (مسلمان) غَيْرُ : بغیر اُولِي الضَّرَرِ : عذر والے (معذور) وَ : اور الْمُجٰهِدُوْنَ : مجاہد (جمع) فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فَضَّلَ اللّٰهُ : اللہ نے فضیلت دی الْمُجٰهِدِيْنَ : جہاد کرنے والے بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے دَرَجَةً : درجے وَكُلًّا : اور ہر ایک وَّعَدَ : وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ الْحُسْنٰي : اچھا وَ : اور فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ الْمُجٰهِدِيْنَ : مجاہدین عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
نہیں برابر وہ لوگ جو پیچھے بیٹھنے والے ہیں ایمانداروں میں سے جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ جو جہاد کرتے ہیں اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ سوائے ان لوگوں کے جو عذر والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے جہاد کرنے والوں کو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ بیٹھنے والوں کے مقابلہ میں درجے کے اعتبار سے اور ہر ایک سے وعدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں کے مقابلے میں بہت بڑے اجر کی
ربط آیات گزشتہ درس میں مسلمانوں کی حفاظتِ جان کا قانون بتلایا گیا تھا اور اس امر کی تنبیہ کی گئی تھی کہ بےاحتیاطی کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان ضائع نہ ہونے پائے۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں جب لوگ جہاد کے لیے جاتے تھے تو بسا اوقات غلط فہمی کی بناپ ر مسلمان کے ہاتھوں مسلمان قتل ہوجاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ اس تنبیہ کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں لوگ جہاد میں شرکت سے محض اس لیی اعراض نہ کرنے لگیں کہ کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان ناحق تلف ہوجائے۔ اس خدشے کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں اور واضح فرما دیا کہ جہاد میں حصہ لنیے ولاے گھر بیٹھ رہنیوالوں سے بہرصورت اولیٰ اور افضل ہیں خواہ ان کا پیچھے رہ جانا کسی بھی وجہ سے ہو۔ قاعدین اور مجاہدین کا تقابل ارشاد ہوتا ہے لایستوی القعدون من المومنین غیر اولی الضرر والمجہدون فی سبیل اللہ بیٹھ رہنے والے مومن جن کو کوئی عذر نہیں اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہد برابر نہیں ہیں اور مجاہدین بھی ایسے جو جہاد کرتے ہیں باموالہم وانفسہم اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ۔ یعنی جب اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں تو پھر اپنا مال اور جان دونوں اثاثے اللہ کی راہ میں پیش کردیتے ہیں۔ قعدون جمع ہے قاعد کی جس کا لغوی منیٰ بیٹھنے والے ہیں اور مراد وہ لوگ ہیں جن کی ضرورت بوجوہ محاذ جنگ پر نہیں ہوتی اور وہ پیچھے بیٹھے رہتے ہیں۔ تاہم حسب ضرورت جاہد میں بالفعل شمولیت کے لیے بھی ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ آج کی اصطلاح میں انہیں ریزرو فورس (R RESERVE FORCE) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا کہ پیچھے بیٹھنے والے مومن اور آگے لڑنے والے مجاہد برابر نہیں ہیں۔ البتہ درمیان میں غیر اولی الضرر کے الفاظ لا کر معذور لوگوں کو مستثنا کردیا کہ ان پر کچھ الزام نہیں اور مطلب یہ ہوا کہ بغیر عذر پیچھے بیٹھنے والے مومنین اور میدان جنگ میں جانے والے مجاہدین برابر نہیں ہیں بلکہ مجاہدین کو قاعدین پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔ شان نزول اس آیت کی شان نزول کے متعلق احادیث اور تفاسیر میں مذکور ہے کہ اولاً آیت کا یہ حصہ نازل ہوا لایستوی القعدون من المومنین والمجہدون فی سبیل اللہ اس پر حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کو تشویش لاحق ہوئی آپ نابینا تھے مگر قدیم الاسلام صحابی اور مؤذن بھی تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ معذور ہونے کی وجہ سے وہ جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے اور پیچھے بیٹھے رہتے ہیں جب کہ مجاہدین جہاد میں بالفعل شریک ہو کر فضیلت میں بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا حضور ! میں معذور ہوں ، اگر بینا ہوتا تو ضرور… جہاد میں شریک ہوتا۔ آپ کی اس خواہش اور حسرت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے غیر اولی الضرر کے الفاظ نازل فرمائے۔ حضرت زید ؓ فرماتے ہیں کہ جس مجلس میں یہ وحی نازل ہوئی ، میں اس مجلس میں موجود تھا اور حضور ﷺ کی ران مبارک میری ران پر تھی۔ جب وحی نازل ہوئی تو میری ران پر اس قدر بوجھ پڑا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میری ران ٹوٹ رہی ہے یہ وحی کا بوجھ تھا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے جہاد میں عملی شرکت نہ کرنے والوں میں سے معذور افراد مثلاً لنگڑا ، اندھا ، اپاہج وغیرہ کو عذر کی بنا پر مستثنا قرار دے دیا۔ اور اعلان فرما دیا کہ بلاعذر پیچھے بیٹھنے والے اور جہاذد میں بالفعل شریک ہونے والے برابر نہیں بلکہ موخر الذکر لوگ اول الذکر لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ معذوروں کے لیے رعایت معذوروں کا یہ استثناء ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے جس کا ذکر سورة توبہ میں آتا ہے ” اذا نصحوا للہ ورسولہ “ یعنی ان کا عذر اس صورت میں قابل قبول ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیرخواہ ہوں اور پیچھے بیٹھ کر مسلمانوں کی خیرخواہی کی باتیں کریں نہ کہ کوئی ایسا غلط پراپیگنڈا کریں جس سے دشمن کو تقویت حاصل ہوتی جو جنگی چالوں میں سے پراپیگنڈا بھی ایک موثر ہتھیار ہے اور ہر فریق اسے دشمن کے خلاف استعمال کرتا ہے تاکہ اس کے اعصاب کمزور ہوں تو اس شرط کا مطلب یہ ہے کہ معذور لوگ دشمن کے پراپیگنڈا کا شکار ہو کر کوئی جھوٹی موٹی خبریں نہ پھیلانا شروع کردیں جس سے عوام میں بددلی پیدا ہوتی ہو۔ یہ رعایت انہی معذوروں کو حاصل ہوگی جو اہل ایمان کے خیرخواہ ہوں گے اور کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جس سے جماعت المسلمین میں ضعف پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ اہل اسلام کے بدخواہوں کو یہ رعایت حاصل نہیں ہوگی بلکہ وہ عنداللہ معتوب ہوں گے تو فرمایا پیچھے رہ جانے والے جہاد کرنے ولاے برابر نہیں ہیں ، سوائے معذوروں کے۔ درجہ کے اعتبار سے فضیلت فرمایا فضل اللہ المجھدین باموالہم و انفسہم علی القعدین درجۃً اللہ تعالیٰ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنیوالوں کو بیٹھنے والوں پر فضیلت بخشی ہے ایک درجہ کے اعتبار سے یعنی پیچھے رہنے والوں کو وہ درجہ کہاں حال ہو سکتا ہے جو مال و جان کی بازی لگانیوالوں کو اللہ کے ہاں حاصل ہے۔ البتہ وکلاً وعداللہ الحسنی اللہ نے سب کے ساتھ بھلائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ مقصد یہ کہ درجات میں تو دونوں گروہ برابر نہیں مگر بھلائی اور نیکی دونوں گروہوں کو حاصل ہوگی بشرطیکہ گھر بیٹھنے والے اسلام کے باقی احکام نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ پر عمل پیرا ہوں۔ ان لوگوں کو بھی نجات نصیب ہوگی ، اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بھی جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ تاہم وہ مجاہدین کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنی سب سے قیمتی متاع بھی اللہ کے حضور پیش کردی ہے۔ جہاد فرض کفایہ ہے آیت کے اس حصہ کلاً وعداللہ الحسنی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جہاد میں حصے لینے اور نہ لینے والوں سب کے ساتھ بھلائی کا وعدہ ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد ہر کس و ناکس کے لیے فرض عین نہیں ہے لہٰذا جماعت المسلمین میں سے کچھ لوگ جہاد میں حصہ لے لیں تو پوری ملت اس فرض سے سبکدوش سمجھی جائے گی اور اگر کوئی شخص بھی یہ انتظام نہ کرے تو سارے کے سارے بستی والے گنہگار ہوں گے نماز جنازہ بھی فرضِ کفایہ ہے۔ البتہ بعض غیر معمولی حالات (A BNORMAL) میں جہاد فرض عین بھی ہوجاتا ہے۔ اگر دشمن مسلمانوں کی جماعت پر حملہ کردے ، تو اس وقت ہر عاقل بالغ ، مرد اور عورت پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ ملکی دفاع کے لیے ہر مسملان کو اپنا حصہ ادا کرنا پڑیگا۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس قسم کے حالات میں عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر دشمن کے خلاف تدبیر کے لیے جاسکتی ہے۔ اسی طرح غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہوسکتا ہے۔ چار گروہ قانونِ جہاد کی رو سے اب لوگ چار گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں پہلا گروہ منافقین کا ہے۔ ان کے متعلق لیبطئن آ چکا ہے کہ وہ جان بوجھ کر بلاعذر جہاد سے گریز کرتے ہیں اور گھر بیٹھ رہتے ہیں دوسرا قاعدین کا ہے جس کا ذکر آج کے درس میں آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بالفعل جہاد میں شریک نہیں ہوتے مگر ضرورت پڑنے پر محاذ جنگ پر جانے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ تیسرا گروہ مجاہدین کا ہے جو بالفعل جہاد میں شریک ہو کر ما ل و جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور چوتھا گروہ معذوروں کا ہے جو کسی عذر کی وجہ سے شریک جہاد نہیں ہو سکتے۔ مگر اہل ایمان کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ان چاروں گروہوں میں سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کی مذمت بیان کی ہے ، قاعدین سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے ، مجاہدین کو بلند درجات کی خوشخبری سنائی ہے اور معذورین کو مستثنیٰ کیا ہے۔ جہاد باللسان اس آیت کریمہ میں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کا ذکر ہے۔ تاہم ابوداؤد شریف اور ترمذی شریف کی روایت میں جہاد باللسان کا ذکر بھی آتا ہے اور جہاد بالسنان کا بھی۔ یعنی جہاد زبان کے ساتھ بھی ہے اور اسلحہ کے ساتھ بھی ہے۔ ابو داؤد شریف کی روایت میں اس طرح آتا ہے جاہدوا الکفار والمشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم یعنی کفار و مشرکین سے جہاد کرو ، اپنے مالوں ، جانوں اور زبانوں کے ساتھ تو گویا بوقت ضرورت لسانی جہاد بھی فرض ہوجاتا ہے۔ دین اسلام کی تبلیغ یعنی اللہ کے احکام کو دوسروں تک پہنچانا لسانی جہاد ہے۔ تقریر وبیان کے ذریعے اسلام کی تبلیغ یا اسلام کے متعلق کسی فرد یا جماعت کے شکوک و شبہات دور کرنا بھی زبانی جہاد کا حصہ ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم ، اس کی اشاعت اور تبلیغ جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے فرماتے ہیں کہ اللہ تعلایٰ نے مجھے اسی شعبے میں لگایا ہوا ہے اور میں اپنا فرض انجام دے رہا ہوں۔ آپ نے بارہ سال تک دہلی میں تعلیم دی ، پھر حج کے لیے گئے۔ وہاں سے استفادہ حاصل کیا اور پھر واپس آ کر ساری عمر تبلیغ کے شعبے میں لگے رہے۔ آپ بالفعل تو جہاد میں شریک نہیں ہو سکے تاہم آپ نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لیے اپنا فرض احسن طریقے سے پورا کیا۔ جہاد بذریعہ تصنیف تبلیغ اسلام کے لیے تصنیف و تالیف بھی جاہد میں داخل ہے میرے سامنے جو قرآن پاک ہے اس کا ترجمہ اور کچھ حاشیہ شیخ الہند (رح) کا ہے اور یہ آپ نے مالٹا میں اسیری کے دوران لکھا تھا۔ اور بقیہ حاشیہ آپ کے شاگرد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی (رح) نے مکمل کیا تھا۔ یہ بہترین ، مستند اور مختصر حاشیہ ہے۔ آپ کے پاس جو قرآن کریم ہے اس کا ترجمہ اور مختصر حاشیہ حضرت مولانا احمد علی لاہوری (رح) کا ہے ۔ بڑا آسان اور عام فہم ترجمہ ہے۔ یہ بھی ایک عظیم جہاد ہے تصنیف و تالیف کے ذریعے جہالت کو مٹانا ، علم کو پھیلانا ، عدل و انصاف کو قائم کرنا ایمان اور توحید کو دنیا میں غالب کرنا ، معاصی اور فسق و فجور کا قلع قمع جہادہی کا حصہ ہے بلکہ یہ جہاد کبیر ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ یؤزن مداد العلماء بدم الشہداء قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تصنیف و تالیف کرنے والے علما کی سیاہی کو شہیدوں کے خون کا درجہ عطا فرمائیں گے۔ تصنیف و تالیف کی اتنی بڑی فضیلت آئی ہے۔ گویا جہاد کی یہ چار شکلیں واضح ہوگئیں یعنی تصنیف و تالیف ، تبلیغ ، تعلیم اور جہاد بالفعل۔ جہاد بالمال جن لوگوں کو اللہ نے توفیق بخشی ہے وہ اللہ کی راہ میں مال بھی لگاتے ہیں اور جان بھی پیش کردیتے ہیں۔ تاہم بعض لوگ جسمانی لحاظ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ جنگ میں بنفس نفیس شامل ہو سکیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ نے توفیق دی ہے تو وہ جہاد بالمال میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ کے دین کے قیام اور غلبہ اسلام کے لیے جو مال خرچ کیا جائے اس کا درجہ عام صدقات و خیرات سے بہت بلند ہے۔ جہاد کا موقع تھا۔ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں ایک اونٹنی لایا ، اس پر کجاوہ اور پالان کسا ہا تھا۔ عرض کیا ، حضور ! یہ اونٹنی پوری طرح تیار ہے ، اسے کسی مجاہد کے سپرد فرما دیجیے۔ آپ نے فرمایا تم نے بہت اچھا کام کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح کی سات اونٹنیاں عطا فرمائیگا۔ گویا جہاد کے لیے ایک پیسہ خرچ کرنے کا ادنیٰ درجہ سات سو گنا ہے۔ سورة انعام میں عام نیکی کا صلہ تو دس گنا بتایا ہے ” من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا “ مگر جہاد کے لیے اجر وثواب سات سو گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ذروۃ سنامہ الجہاد یعنی اسلام کی کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ ہاد کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ حدود اللہ جاری ہوتی ہیں ، برائی کا خاتمہ ہوتا ہے ، کفر کا غلبہ ٹوٹتا ہے اور زمین میں خلافت کا نظام قائم ہوتا ہے۔ ترکِ جہاد کا وبال ایک عرصہ ہوا ملت اسلامیہ سے جہاد کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ کفار نے اس جذبہ کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ ہندوستان میں مرزا قادیانی کو کھڑا کیا جس نے اعلن کیا اب جہاد منسوخ ہوچکا ہے۔ ایسا ہی کچھ پراپیگنڈا سرسید سے کروایا گیا۔ ایران میں یہ کام بہاء اللہ سے کروایا کہ نئی شریعت آگئی ہے لہٰذا اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب انگریز کی خباثت ہے جس نے مسلمانوں میں بزدلی پیدا کرنے کے لیے جہاد سے پیچھے ہٹایا خلافت کو ختم کر کے انگریز نے ملت اسلامیہ کی مرکزیت کو ختم کردیا۔ اسلامی خلافت اور یکجہتی کی وجہ سے انگریز اور جرمن وغیرہ مسلمانوں سے خوفزدہ تھے چناچہ انہوں نے ملی بھگت سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ ان کی اجتماعیت ختم ہو اور کسی مشکل کے وقت یہ ایک دوسرے کی مدد بھی نہ کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں مسلمانوں کو کہیں بھی عزت کی زندگی نصیب نہیں۔ فلسطین اور افغانستان کے مسلمان بےیارو مددگار ہیں۔ ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ انگریز نے ایسی پابندیاں لگا دی ہیں کہ چاہنے کے باوجود کوئی مسلمان اپنے بھائیوں کی مدد کو نہیں پہنچ سکتا۔ یہ سب غیر اقوام کی سازش کا نتیجہ ہے۔ فضول خرچی اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ ہے کہ اپنا مال جہاد میں لگاؤ مگر آج مسلمانوں کا مال تعیش کے کاموں میں صرف ہو رہا ہے آج مسلمانوں کی دولت کا رخ کھیل تماشے ، عیاشی ، فحاشی ، مشرکانہ رسومات اور بدعات کی طرف ہے۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کتنا روپیہ صرف ہو رہا ہے۔ عالی شان عمارتیں ضرور بن رہی ہیں مگر دین کی تبلیغ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ ہر شخص راتوں رات دنیا بھر کے خزانوں کا مالک بن جانا چاہتا ہے اور اسے اس بات کی کچھ پروا نہیں کہ ذرائع آمدن حلال ہیں یا حرام حالانکہ حکم یہ ہے اجملوا فی الطلب جائز ذرائع سے کماؤ اور جائز امور پر خرچ کرو۔ جو کوئی حرام کاموں پر مال خرچ کریگا۔ عنداللہ ماخوذ ہوگا۔ آج صرف دس فیصدی لوگ دولتمند ہیں اور باقی نوے فیصدی سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔ آج کون ہے جو غریبوں کو بھی اپنا بھائی سمجھ کر انکے دکھ درد میں شریک ہو۔ آج کس کو احساس ہے کہ سب مسلمان بھئای بھائی ہیں۔ سب کا نظریہ حیات (idology) ایک ہے لہٰذا ایک بھائی کو دوسرے بھائی کی ضروریات کا بھی خیال ہونا چاہئے۔ ملی جذبہ وہ لوگ کہاں گئے جن کے دلوں میں ملی جذبہ موجود تھا اور وہ اپنے بھائیوں کے لیے جذبہ ہمدردی رکھتے تھے۔ خواجہ نظام الدین اولیا (رح) سحری کے وقت کھانا نہیں کھاتے تھے۔ لوگوں نے کہا آپ جسمانی طور پر کمزور ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں ، کچھ کھا پی لیا کریں۔ فرمایا مجھے ان غریب مسلمانوں کا خیال آجاتا ہے ، جن کے پاس سحری کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ جب ان کا تصور آتا ہے تو حلق سے لقمہ نیچے نہیں جاتا۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر مغرب میں کوئی مسلمان عورت اغوا ہوجائے تو مشرق کے مسلمانوں پر اس کی امداد فرض ہوجاتی ہے فرماتے ہیں اگر مشرق کے رہنے والے کسی مومن کے پاؤں میں کانٹا چبھتا ہے تو مغرب والے مسلمان اس کی چبھن محسوس کرتے ہیں۔ یہ تھا وہ جذبہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو دنیا میں عزت نصیب تھی اور اغیار ان سے دہشت کھاتے تھے۔ اجرِ عظیم فرمایا و فضل اللہ المجھدین علی القعدین اجراً عظیماً اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو فضیلت بخشی ہے پیچھے بیٹھنے والوں پر اور اجرِ عظیم بھی ، فرمایا درجتٍ منہ یہ درجے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لیی جنت میں سو درجے تیار کر رکھے ہیں اور ہر درجے میں اتنا فرق ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان۔ فرمایا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ومغفرۃً بخشش بھی ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔ جہاد میں بعض کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ کوئی مسلمان غلطی سے مارا جاتا ہے تو اس قسم کی لغزشوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل ہوگی و رحمۃً اور اللہ تعالیٰ مجاہدین کو اپنی آغوش رحمت میں جگہ دے گا۔ اس کی مہربانی شامل حال ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت یہ ہے وکان اللہ غفوراً رحیماً ۔ وہ بخشنے والا ہے۔ انسان کا اعتقاد صحیح ہو ، جذبہ اور طلب صادق ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے۔ وہ ضرور معاف کردے گا اور رحیم ہے ، اس کی مہربانی بڑی وسیع ہے جب کوئی شخص اللہ کے دین ، اس کی کتاب اور نبی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے مال و جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بخشش و رحمت جوش میں آ کر اس کی تمام کوتاہیاں معاف فرما دیتی ہے۔
Top