Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ جَعَلَ
: وہ جس نے بنائے
لَكُمُ
: تمہارے لئے
الْاَنْعَامَ
: چوپائے
لِتَرْكَبُوْا
: تاکہ تم سوار ہو
مِنْهَا
: ان سے
وَمِنْهَا
: اور ان سے
تَاْكُلُوْنَ
: تم کھاتے ہو
اور اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے بنائے ہیں تمہارے لیے چوپائے تاکہ تم سواری کرو ، اور ان میں سے بعض پر اور ان میں سے بعض سے تم کھاتے بھی ہو ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی تردید فرمائی اور ساتھ ساتھ پیغمبر ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی بھی دی کہ پہلی قوموں نے بھی اپنے انبیاء کرام کی تکذیب کی ان کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں مگر بالاخر کامیابی اللہ کے نبیوں کو ہوئی اور مکذبین دنیا وآخرت دونوں جگہ ناکام اور دائمی عذاب کے مستحق ٹھہرے اب آج کی آیات میں پہلے کچھ دلائل توحید بیان ہوئے ہیں اور پھر کفار و مشرکین کی توجہ سابقہ اقوام کی طرف دلائی گئی ہے جو ان سے زیادہ تعداد میں اور زیادہ طاقتور تھے مگر وہ اپنے غرور وتکبر کی وجہ سے مبتلائے عذاب ہوئے اس وقت انہوں نے توبہ کی مگر اس بےوقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ حاصل نہ کرسکے ۔ (مویشی بطور نشانات قدرت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اللہ الذی جعل لکم الانعام “۔ خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہارے لیے مویشی پیدا کیے ہیں ان جانوروں کو تخلیق اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی واحدانیت سمجھ میں آتی ہے ، یہ جانور انسان کی نسبت جسامت اور قوت میں بہت بڑے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت و حکمت سے انہیں انسان کے تابع کردیا ہے اور وہ ان سے بڑے بڑے کام لیتے ہیں ۔ انعام کا لفظ مویشیوں میں سے خاص طور پر اونٹ کے لیے بولا جاتا ہے اور سورة الانعام میں مذکور بہیمۃ الانعام سے انسان کے خدمتگار آٹھ قسم کے نرومادہ مویشی مراد ہیں جن میں اونٹ گائے بھینس ، بھیڑ اور بکری شامل ہیں یہ وہ جانور ہیں جن کو انسان گھروں میں پالتے ہیں اور یہ انسان سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کر کے انسان کی خدمت پر مامور کردیا ہے اور لوگ ان سے سواری اور باربرداری کا کام لینے کے علاوہ ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں اور ان کی کھالیں بال چربی اور ہڈیاں بھی استعمال میں لاتے ہیں ان جانوروں کے علاوہ بعض دیگر جانور بھی انسان کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتے ہیں جن کے متعلق سورة النحل میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” والخیل والبغال والحمیرلترکبوھا وزینۃ “۔ (آیت : 80) یہ گھوڑے خچر اور گدھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے سواری اور باربرداری ، نیز زینت کے لیے پیدا فرمائے ہیں یہ جانور بہیمۃ الانعام کے علاوہ ہیں ، صرف سواری اور باربرداری کے کام آتے ہیں مگر ان کا گوشت حلال نہیں ہے ۔ (جانوروں کے فوائد) بہرحال اللہ تعالیٰ نے انعام یعنی مویشیوں کا ذکر کرکے ان سے حاصل ہونے والے فوائد کے متعلق فرمایا (آیت) ” لترکبوا منھا “۔ تاکہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرو مذکورہ آٹھ قسم کے حلال جانوروں میں سے سواری کے لیے اونٹ سب سے زیادہ کار آمد ہے آج تو سواری اور باربرداری کے لیے بڑی بڑی گاڑیاں ، ٹرک ، بحری اور ہوائی جہاز معرض وجود میں آچکے ہیں مگر پرانے زمانے میں اونٹ ہی ایک ایسا جانور تھا جو سواری اور باربرداری کے لیے زیادہ استعمال ہوتا تھا ریگستانی علاقوں میں اسے صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے اور یہ تپتی ریت پر کئی کئی دن تک بھوکا پیاسا سفر کرسکتا ہے ، آج بھی جن صحراؤں میں جدید ذرائع نقل وحمل میسر نہیں وہاں اونٹ ہی کام دیتا ہے ، اونٹ کے علاوہ بیل بھی کسی حد تک سواری اور باربرداری کا کام دیتا تھا ، مگر اس لحاظ سے اس کی افادیت تقریبا معدوم ہوچکی ہے بقیہ یہ جانور ہل یا خراس میں جوتا جاتا ہے ، باقی دو حلال جانور بھیڑ اور بکری ہیں جب کہ سورة الانعام میں ” فراشا “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی یہ پست قد جانور ہیں اور سواری کے قابل نہیں ہے بلکہ ان کا گوشت کھایا جاتا ہے اور بال اور کھالیں استعمال ہوتی ہیں ، ان کی سواری کے علاوہ فرمایا (آیت) ” ومنھا تاکلون “۔ تم ان میں سے کھاتے ہو یہ حلال جانور ہیں جن کا گوشت کھایا جاتا ہے اور قربانی کے لیے بھی یہ آٹھ قسم کے جانور مخصوص ہیں ۔ بہیمۃ الانعام کے علاوہ باقی جانوروں میں سے گھوڑا سواری کے لیے بڑا کارآمد جانور ہے پرانے زمانے میں یہ جنگوں میں خاص طور پر استعمال ہوتا تھا ، حضور ﷺ نے گھوڑے کی بڑی تعریف فرمائی ہے کہ قیامت تک کیلئے یہ ایک مفید جانور ہے جس کی پیشانی پر اللہ نے خیر کو باندھ دیا ہے ، اس زمانہ میں جدید آلات حرب وضرب کی وجہ سے اگرچہ گھوڑے کی جنگی اہمیت بہت حد تک کم ہوچکی ہے ، مگر پھر بھی یہ معدوم نہیں ہوئی اور آج بھی دنیا کی کوئی فوج گھوڑا سواروں کے ایک حصہ سے خالی نہیں ، پہاڑی علاقوں میں جہاں مشینی ذرائع سے سامان اور خوراک پہنچانا ممکن نہیں ہوتا ، وہاں آج بھی گھوڑے ، خچر اور گدھے ہی کام دیتے ہیں ۔ سورة النمل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اسوقت تو تمہاری سواری کے لیے اونٹ ، خچر اور گدھے موجود ہیں مگر آئندہ زمانے میں (آیت) ” ویخلق مالاتعلمون “۔ (آیت : 8) وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کر دیگا جنہیں آج تم نہیں جانتے ، چناچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سواری اور بار برداری کے لیے بہت سے جدید ترین ذرائع بھی پیدا کردیے ہیں ، آج کے سائنسی دور میں نقل وحمل کے لیے مشینی ذرائع ایجاد ہوچکے ہیں جن میں موٹر گاڑیوں سے لے کر ہوائی اور بحری جہاز تک شامل ہیں جو انسانوں کی روز افزوں آبادی کے استعمال میں آ رہے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ولکم فیھا منافع “۔ تمہارے لیے مویشیوں میں مزید کئی فوائد بھی ہیں سواری کرنے اور گوشت کھانے کے علاوہ لوگ ان کا دودھ بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ انسان کی بہترین اور مقوی غذا ہے بھیڑ بکری اور اونٹوں کے بالوں سے طرح طرح کے کام لیے جاتے ہیں ان سے گرم کپڑے اور قالیں بنائے جاتے ہیں ان کی کھالیں جوتے بنانے کے کام آتی ہیں اور ہڈیاں مصنوعی کھاد میں استعمال ہوتی ہیں ، غرضیکہ ان جانوروں کے جسم کا کوئی حصہ بھی فائدے سے خالی نہیں ، اسی لیے فرمایا کہ اس میں تمہارے لیے بہت سے فوائد ہیں اور یہ بھی (آیت) ” ولتبلغوا علیھا حاجۃ فی صدورکم “۔ کہ تمہارے دلوں میں جو کام ہیں ان تک تم ان جانوروں پر سوار ہو کر پہنچ سکو معاشرے میں ہر شخص کو دوسرے سے کام پڑتا ہے اور اس کے لیے جانا پڑتا ہے تجارت اور حصول علم کے لیے دورا دراز کا سفر بھی اختیار کرنا پڑتا ہے ، غرضیکہ تمہارے دل میں جو بھی حاجت ہے اس کے حصول میں یہ جانور معاون بنتے ہیں۔ (ذرائع نقل وحمل) فرمایا وعلیھا وعلی الفلک تحملون “۔ تمہیں ان چوپائیوں کی سواری بھی مہیا کی جاتی ہے اور کشتیوں پر بھی سوار کیا جاتا ہے خشکی میں جانوروں کے علاوہ مشینی گاڑیاں میں اور بحری سفر کے لیے چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے لے کر بڑے بڑے جہاز مہیا کیے گئے ہیں چناچہ آج کے اس جدید دور میں بھاری سامان کی نقل و حرکت بحری راستوں سے ہوتی ہے جو کہ خشکی اور ہوائی راستوں کی نسبت سستی پڑتی ہے خشکی پر سفر کے لیے بسیں ، ویگنیں ، ائرکنڈینشڈگاڑیاں معرض وجود میں آچکی ہیں بڑے بڑے ٹرک اور ٹریلر بار برداری کے لیے مصروف عمل ہیں ، اب ہوائی جہاز جیسی تیز ترین سواری بھی دستیاب ہے جس کے ذریعے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہایت قلیل قوت میں بڑا آرام دہ سفر کیا جاسکتا ہے اور سامان کی ترسیل ہو سکتی ہے ، ہوائی جہاز کی ایجاد کے لیے گذشتہ آٹھ صدیوں سے تگ ودو ہو رہی تھی بڑے بڑے انجینئر اور سائنسدان چاہتے تھے کہ کوئی ایسی سواری ہونی چاہئے جس کے ذریعے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ سکیں ، لوگ آٹھ سو سال تک تجربات کرتے رہے حتی کہ 1904 ء میں ہوائی جہاز کی پہلی اڑان معرض وجود میں آئی اب یہ صنعت اتنی ترقی کرچکی ہے کہ لوگ فضائی سیاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں اب تک جو کچھ سواریاں ایجاد ہوچکی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں اب آگے آگے پتہ نہیں کیا کچھ ایجاد ہونے والا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان سواریوں کی بنیاد کا ذکر کرکے ان کی افادیت کا احسان جتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کس قدر آسانیاں پیدا کردی ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ویریکم ایتہ “۔ ایسی چیزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرو (آیت) ” فای آیت اللہ تنکرون “۔ مگر تم اللہ کی کس کس نشانی کا انکار کرو گے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو بنی نوع انسان کی مصلحت کی لی کے ایسی ایسی چیزیں پیدا کیں مگر یہ حضرت انسان ہے کہ اپنے اور ان چیزوں کے خالق کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اغیار کے دروازے پر جا کر انکی نذر ونیاز پیش کرتا ہے اور اس طرح گویا اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی مرتکب ہوتا ہے ۔ ّ (نافرمان قوموں کا انجام) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کی سرکشی اور ان کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” افلم یسروا فی الارض “۔ کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ؟ (آیت) ” فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم “۔ تاکہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیا انجام ہوا ، فرمایا یہ تو ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں (آیت) ” کانوا اکثر منھم “۔ پہلے لوگ تعداد میں بھی زیادہ تھے (آیت) ” واشد قوۃ “۔ اور طاقت میں بھی بڑھے ہوئے تھے (آیت) ” واثار فی الارض “۔ اور زمین میں اپنے نشانات چھوڑنے کے اعتبار سے بھی وہ لوگ ان سے بہت آگے تھے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں پرانے مصریوں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ قدیم ہندوستانیوں ، فارسی ، رومی ، اور یونانیوں وغیرہ کا حال بیان کیا ہے عاد اور ثمود کی قوم کا ذکر ہے ، قوم لوط اور قوم صالح نے حالات مذکورہ میں یہ لوگ نزول قرآن کے زمانے کے عربوں سے بہت کثیر تعداد میں اور بڑے طاقتور تھے ان میں بڑے بڑے کاریگر اور صناع تھے جو پہاڑوں کو تراش تراش کو ان میں گھر بنالیتے تھے اور اہرام مصر جیسی بڑی بڑی عمارات تعمیر کرتے تھے فرمایا جب ہماری گرفت آئی (آیت) ” فما اغنی عنھم ما کانوا یکسبون “۔ تو ان کی اس جملہ کمائی نے کچھ فائدہ نہ دیا بلکہ اللہ نے ان قوموں کو ان کی سرکشی اور بغاوت کی وجہ سے صفحہ ہستی سے ناپید کردیا ۔ (علم وہنر پر غرور) فرمایا ان لوگوں کا حال یہ تھا (آیت) ” فلما جآء تھم رسلھم بالبینت “۔ جب ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے (آیت) ” فرحوا بما عندھم من العلم “۔ تو وہ اس علم کی بناء پر اترا گئے جو ان کے پاس تھا ، اسی غرور وتکبر کی بناء پر انہوں نے اللہ کے نبیوں ان کے دن شریعت اور کتابوں کو تسلیم نہ کیا امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس علم معاش یعنی دنیا کی زندگی گزارنے کا علم تو تھا ، مگر ان کے پاس علم معاد نہیں تھا جس کو بروئے کار لا کر وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب ہو سکتے تھے ، بلکہ آخرت کی دائمی زندگی کو بھی بہتر بنا سکتے تھے ان کے پاس دین کا علم نہیں تھا جس کے ذریعے وہ عقیدہ ، اعمال اور اخلاق کو درست کرسکتے ۔ محض معاش کا علم تو آج بھی دنیا میں بہت زیادہ ہے آج سائنس اور ٹیکنا لوجی کا زمانہ ہے ، علم طب وجراحت اپنے عروج پر ہے ، صنعت وحرفت کی بدولت نئی نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں ، مگر وہ علم نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر بذریعہ وحی نازل ہوا ، موجودہ زمانے میں امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی وغیرہ اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ سمجھتے ہیں مگر ان کا سارا علم وہنر معیشت کے گرد گھومتا ہے اور وہ اسی کو علم کل سمجھتے ہیں اور اصل علم کی طرف نہیں آتے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں کسی نے ایک بہت بڑے فلسفی سے کہا کہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کر ان سے اکتساب فیض کریں اور ان کی دعوت کو قبول کریں ، تو وہ شخص کہنے لگا کہ ہم تو خود عالم فاضل اور مہذب آدمی ہیں ، ہمیں موسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع کی کوئی ضرورت نہیں نبیوں کی تعلیم وتربیت تو جاہل لوگوں کے لیے ہوا کرتی ہے وہ ان کی راہنمائی کرتے ہیں ، ہمیں تو ضرورت نہیں ۔ ایرانیوں میں ۔۔۔۔۔۔۔ کے متعلق اس قسم کا غرور اور تعصب پایا جاتا تھا وہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس دانشور لوگ موجود ہیں ، ہم تعلیم یافتہ ہیں ہماری سلطنت قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہے ان گوہ کھانے والے عرب شتر بانوں کو کس چیز کا علم ہے یہ ان پڑھ لوگ ہیں ہم ان سے کی سیکھیں گے ؟ وہ گویا عربوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے شاہنامہ فردوسی میں بھی قسم کا تاثر ملتا ہے کہ یہ عرب کے صحرائی لوگ ہیں انہیں کس چیز کا علم ہے ؟ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ کسی افلاطون یا کسی دوسرے بڑے فلاسفر سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق دریافت کیا تو اس فلسفی نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا امتحان لینا چاہا کہتے ہیں کہ اس نے آپ سے سوال کیا کہ اگر زمین وآسمان ایک کمان کی شکل اختیار کرلیں اور دنیا میں ظاہر ہونے والے تمام حوادثات کو تیر تصور کرلیا جائے اور اس تیر کمان کو چلانے والا خود خدا ہو تو پھر اس تیر کمان کے حملے سے بچاؤ کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہی ایک صورت ہے کہ دوڑ کر خدا تعالیٰ کے دامن میں پناہ حاصل کرلی جائے ، قرآن پاک میں موجود ہے (آیت) ” ففروا الی اللہ “۔ اللہ کی طرف دوڑ کر جاؤ تو ہر شر سے پناہ حاصل ہوجائے گی تو اس شخص نے یہ جواب سن کر اقرار کیا کہ ایسے مشکل سوال کا جواب نبی کے بغیر کوئی نہیں دے سکتا ، یہ واقعی اللہ کے نبی ہیں مگر ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہم خود مہذب لوگ ہیں نبی تو جاہلوں کی تربیت کے لیے آتے ہیں ، اس طرح وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کو ٹھکرا دیتے تھے اور اپنے فلسفہ کو ہی برتر سمجھتے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا (آیت) ” وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزئون “۔ کہ انہیں اسی چیز نے گھیر لیا جس کو وہ انبیاء کے استہزاء کا ذریعہ بناتے تھے ان کے خود ساختہ فلسفے اور ان کا علم وہنر ہی ان کی ہلاکت کا باعث بن گیا ۔ (بےوقت ایمان غیر مفید ہے ) پھر کیا ہوا ؟ (آیت) ” فلما راوا باسنا “۔ جب انہوں نے ہمارے عذاب کو اپنی آنکھوں سے آتا ہوا دیکھ لیا (آیت) ” قالوا امنا باللہ وحدہ “۔ کہنے لگے ، کہ ہم ایمان لے آئے یعنی ایک خدا کی وحدانیت کو تسلیم کیا ، اللہ تعالیٰ کے انبیاء ، معجزات اور کتابوں پر ایمان لائے (آیت) ” وکفرنا بما کنابہ مشرکین “۔ اور جن چیزوں کو ہم خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے رہے ، اب ان کا انکار کرتے ہیں فرمایا (آیت) ” فلم یک ینفعھم ایمانھم لما راوا باسنا “۔ مگر ہمارا عذاب دیکھنے کے بعد ان کا ایمان لانا ان کے لیے کچھ مفید نہ ہوا ، حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ انسان کا ایمان اس وقت غیر مفید ہوجاتا ہے جب اس پر غرغرے کی حالت طاری ہوجائے یعنی وہ قریب المرگ ہوجائے غیب کے پردے اٹھ جائیں اور موت کے فرشتے نظر آنے لگیں دوسری غیر مفید صورت وہ ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے آثار نظر آنے لگیں پوری تاریخ انسانی میں صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہے کہ عذاب کے آثار شروع ہوگئے تو انہوں نے توبہ کی ، گڑگڑائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرکے عذاب کو ٹال دیا ، بعض مفسرین کہتے ہیں کہ قوم یونس (علیہ السلام) پر ابھی عذاب آیا نہیں تھا صرف بعض نشانیاں ہی ظاہر ہوئی تھیں ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا وہاں جب خدا کا عذاب پورے طریقے سے نظر آنے لگے تو اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے فرعون نے بھی غرقابی کے وقت کہا تھا (آیت) ” قال امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوآء یل “۔ (یونس ، 9) میں بنواسرائیل کے خدا پر ایمان لایا جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، مگر اللہ نے اس وقت کا ایمان لانا قبول نہ کیا اور فرمایا (آیت) ” آلئن وقد عصیت قبل “۔ (یونس : 91) اب ایمان لاتے ہو جب جان حلق تک پہنچ چکی ہے حالانکہ اس سے پہلے غنڈہ گردی کرتے رہے بہرحال فرمایا کہ سابقہ نافرمان قوموں نے بھی عذاب کو دیکھ کر توحید کا اقرار اور شرک کا انکار کیا مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” سنت اللہ التی قد خلت فی عبادہ “۔ یہ اللہ کا اس کے بندوں میں دستور ہے جو پہلے گزر چکے ہیں ، کہ جب وہ عذاب کو دیکھ کر غلطی کا اقرار کرتے ہیں تو پھر ان کا ایمان اور اعتراف مفید نہیں ہوتا (آیت) ” وخسرھنالک الکفرون “۔ چناچہ ایسے مواقع پر کافروں نے ہمیشہ نقصان بھی اٹھایا ، ان کی توبہ قبول نہ ہوئی اور وہ ہمیشہ کے لیے خسارے میں پڑگئے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس خسارے سے محفوظ رکھے ۔
Top