Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اور اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے بنائے ہیں تمہارے لیے چوپائے تاکہ تم سواری کرو ، اور ان میں سے بعض پر اور ان میں سے بعض سے تم کھاتے بھی ہو ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی تردید فرمائی اور ساتھ ساتھ پیغمبر ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی بھی دی کہ پہلی قوموں نے بھی اپنے انبیاء کرام کی تکذیب کی ان کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں مگر بالاخر کامیابی اللہ کے نبیوں کو ہوئی اور مکذبین دنیا وآخرت دونوں جگہ ناکام اور دائمی عذاب کے مستحق ٹھہرے اب آج کی آیات میں پہلے کچھ دلائل توحید بیان ہوئے ہیں اور پھر کفار و مشرکین کی توجہ سابقہ اقوام کی طرف دلائی گئی ہے جو ان سے زیادہ تعداد میں اور زیادہ طاقتور تھے مگر وہ اپنے غرور وتکبر کی وجہ سے مبتلائے عذاب ہوئے اس وقت انہوں نے توبہ کی مگر اس بےوقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ حاصل نہ کرسکے ۔ (مویشی بطور نشانات قدرت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اللہ الذی جعل لکم الانعام “۔ خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہارے لیے مویشی پیدا کیے ہیں ان جانوروں کو تخلیق اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی واحدانیت سمجھ میں آتی ہے ، یہ جانور انسان کی نسبت جسامت اور قوت میں بہت بڑے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت و حکمت سے انہیں انسان کے تابع کردیا ہے اور وہ ان سے بڑے بڑے کام لیتے ہیں ۔ انعام کا لفظ مویشیوں میں سے خاص طور پر اونٹ کے لیے بولا جاتا ہے اور سورة الانعام میں مذکور بہیمۃ الانعام سے انسان کے خدمتگار آٹھ قسم کے نرومادہ مویشی مراد ہیں جن میں اونٹ گائے بھینس ، بھیڑ اور بکری شامل ہیں یہ وہ جانور ہیں جن کو انسان گھروں میں پالتے ہیں اور یہ انسان سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کر کے انسان کی خدمت پر مامور کردیا ہے اور لوگ ان سے سواری اور باربرداری کا کام لینے کے علاوہ ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں اور ان کی کھالیں بال چربی اور ہڈیاں بھی استعمال میں لاتے ہیں ان جانوروں کے علاوہ بعض دیگر جانور بھی انسان کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتے ہیں جن کے متعلق سورة النحل میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” والخیل والبغال والحمیرلترکبوھا وزینۃ “۔ (آیت : 80) یہ گھوڑے خچر اور گدھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے سواری اور باربرداری ، نیز زینت کے لیے پیدا فرمائے ہیں یہ جانور بہیمۃ الانعام کے علاوہ ہیں ، صرف سواری اور باربرداری کے کام آتے ہیں مگر ان کا گوشت حلال نہیں ہے ۔ (جانوروں کے فوائد) بہرحال اللہ تعالیٰ نے انعام یعنی مویشیوں کا ذکر کرکے ان سے حاصل ہونے والے فوائد کے متعلق فرمایا (آیت) ” لترکبوا منھا “۔ تاکہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرو مذکورہ آٹھ قسم کے حلال جانوروں میں سے سواری کے لیے اونٹ سب سے زیادہ کار آمد ہے آج تو سواری اور باربرداری کے لیے بڑی بڑی گاڑیاں ، ٹرک ، بحری اور ہوائی جہاز معرض وجود میں آچکے ہیں مگر پرانے زمانے میں اونٹ ہی ایک ایسا جانور تھا جو سواری اور باربرداری کے لیے زیادہ استعمال ہوتا تھا ریگستانی علاقوں میں اسے صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے اور یہ تپتی ریت پر کئی کئی دن تک بھوکا پیاسا سفر کرسکتا ہے ، آج بھی جن صحراؤں میں جدید ذرائع نقل وحمل میسر نہیں وہاں اونٹ ہی کام دیتا ہے ، اونٹ کے علاوہ بیل بھی کسی حد تک سواری اور باربرداری کا کام دیتا تھا ، مگر اس لحاظ سے اس کی افادیت تقریبا معدوم ہوچکی ہے بقیہ یہ جانور ہل یا خراس میں جوتا جاتا ہے ، باقی دو حلال جانور بھیڑ اور بکری ہیں جب کہ سورة الانعام میں ” فراشا “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی یہ پست قد جانور ہیں اور سواری کے قابل نہیں ہے بلکہ ان کا گوشت کھایا جاتا ہے اور بال اور کھالیں استعمال ہوتی ہیں ، ان کی سواری کے علاوہ فرمایا (آیت) ” ومنھا تاکلون “۔ تم ان میں سے کھاتے ہو یہ حلال جانور ہیں جن کا گوشت کھایا جاتا ہے اور قربانی کے لیے بھی یہ آٹھ قسم کے جانور مخصوص ہیں ۔ بہیمۃ الانعام کے علاوہ باقی جانوروں میں سے گھوڑا سواری کے لیے بڑا کارآمد جانور ہے پرانے زمانے میں یہ جنگوں میں خاص طور پر استعمال ہوتا تھا ، حضور ﷺ نے گھوڑے کی بڑی تعریف فرمائی ہے کہ قیامت تک کیلئے یہ ایک مفید جانور ہے جس کی پیشانی پر اللہ نے خیر کو باندھ دیا ہے ، اس زمانہ میں جدید آلات حرب وضرب کی وجہ سے اگرچہ گھوڑے کی جنگی اہمیت بہت حد تک کم ہوچکی ہے ، مگر پھر بھی یہ معدوم نہیں ہوئی اور آج بھی دنیا کی کوئی فوج گھوڑا سواروں کے ایک حصہ سے خالی نہیں ، پہاڑی علاقوں میں جہاں مشینی ذرائع سے سامان اور خوراک پہنچانا ممکن نہیں ہوتا ، وہاں آج بھی گھوڑے ، خچر اور گدھے ہی کام دیتے ہیں ۔ سورة النمل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اسوقت تو تمہاری سواری کے لیے اونٹ ، خچر اور گدھے موجود ہیں مگر آئندہ زمانے میں (آیت) ” ویخلق مالاتعلمون “۔ (آیت : 8) وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کر دیگا جنہیں آج تم نہیں جانتے ، چناچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سواری اور بار برداری کے لیے بہت سے جدید ترین ذرائع بھی پیدا کردیے ہیں ، آج کے سائنسی دور میں نقل وحمل کے لیے مشینی ذرائع ایجاد ہوچکے ہیں جن میں موٹر گاڑیوں سے لے کر ہوائی اور بحری جہاز تک شامل ہیں جو انسانوں کی روز افزوں آبادی کے استعمال میں آ رہے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ولکم فیھا منافع “۔ تمہارے لیے مویشیوں میں مزید کئی فوائد بھی ہیں سواری کرنے اور گوشت کھانے کے علاوہ لوگ ان کا دودھ بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ انسان کی بہترین اور مقوی غذا ہے بھیڑ بکری اور اونٹوں کے بالوں سے طرح طرح کے کام لیے جاتے ہیں ان سے گرم کپڑے اور قالیں بنائے جاتے ہیں ان کی کھالیں جوتے بنانے کے کام آتی ہیں اور ہڈیاں مصنوعی کھاد میں استعمال ہوتی ہیں ، غرضیکہ ان جانوروں کے جسم کا کوئی حصہ بھی فائدے سے خالی نہیں ، اسی لیے فرمایا کہ اس میں تمہارے لیے بہت سے فوائد ہیں اور یہ بھی (آیت) ” ولتبلغوا علیھا حاجۃ فی صدورکم “۔ کہ تمہارے دلوں میں جو کام ہیں ان تک تم ان جانوروں پر سوار ہو کر پہنچ سکو معاشرے میں ہر شخص کو دوسرے سے کام پڑتا ہے اور اس کے لیے جانا پڑتا ہے تجارت اور حصول علم کے لیے دورا دراز کا سفر بھی اختیار کرنا پڑتا ہے ، غرضیکہ تمہارے دل میں جو بھی حاجت ہے اس کے حصول میں یہ جانور معاون بنتے ہیں۔ (ذرائع نقل وحمل) فرمایا وعلیھا وعلی الفلک تحملون “۔ تمہیں ان چوپائیوں کی سواری بھی مہیا کی جاتی ہے اور کشتیوں پر بھی سوار کیا جاتا ہے خشکی میں جانوروں کے علاوہ مشینی گاڑیاں میں اور بحری سفر کے لیے چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے لے کر بڑے بڑے جہاز مہیا کیے گئے ہیں چناچہ آج کے اس جدید دور میں بھاری سامان کی نقل و حرکت بحری راستوں سے ہوتی ہے جو کہ خشکی اور ہوائی راستوں کی نسبت سستی پڑتی ہے خشکی پر سفر کے لیے بسیں ، ویگنیں ، ائرکنڈینشڈگاڑیاں معرض وجود میں آچکی ہیں بڑے بڑے ٹرک اور ٹریلر بار برداری کے لیے مصروف عمل ہیں ، اب ہوائی جہاز جیسی تیز ترین سواری بھی دستیاب ہے جس کے ذریعے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہایت قلیل قوت میں بڑا آرام دہ سفر کیا جاسکتا ہے اور سامان کی ترسیل ہو سکتی ہے ، ہوائی جہاز کی ایجاد کے لیے گذشتہ آٹھ صدیوں سے تگ ودو ہو رہی تھی بڑے بڑے انجینئر اور سائنسدان چاہتے تھے کہ کوئی ایسی سواری ہونی چاہئے جس کے ذریعے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ سکیں ، لوگ آٹھ سو سال تک تجربات کرتے رہے حتی کہ 1904 ء میں ہوائی جہاز کی پہلی اڑان معرض وجود میں آئی اب یہ صنعت اتنی ترقی کرچکی ہے کہ لوگ فضائی سیاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں اب تک جو کچھ سواریاں ایجاد ہوچکی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں اب آگے آگے پتہ نہیں کیا کچھ ایجاد ہونے والا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان سواریوں کی بنیاد کا ذکر کرکے ان کی افادیت کا احسان جتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کس قدر آسانیاں پیدا کردی ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ویریکم ایتہ “۔ ایسی چیزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرو (آیت) ” فای آیت اللہ تنکرون “۔ مگر تم اللہ کی کس کس نشانی کا انکار کرو گے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو بنی نوع انسان کی مصلحت کی لی کے ایسی ایسی چیزیں پیدا کیں مگر یہ حضرت انسان ہے کہ اپنے اور ان چیزوں کے خالق کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اغیار کے دروازے پر جا کر انکی نذر ونیاز پیش کرتا ہے اور اس طرح گویا اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی مرتکب ہوتا ہے ۔ ّ (نافرمان قوموں کا انجام) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کی سرکشی اور ان کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” افلم یسروا فی الارض “۔ کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ؟ (آیت) ” فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم “۔ تاکہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیا انجام ہوا ، فرمایا یہ تو ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں (آیت) ” کانوا اکثر منھم “۔ پہلے لوگ تعداد میں بھی زیادہ تھے (آیت) ” واشد قوۃ “۔ اور طاقت میں بھی بڑھے ہوئے تھے (آیت) ” واثار فی الارض “۔ اور زمین میں اپنے نشانات چھوڑنے کے اعتبار سے بھی وہ لوگ ان سے بہت آگے تھے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں پرانے مصریوں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ قدیم ہندوستانیوں ، فارسی ، رومی ، اور یونانیوں وغیرہ کا حال بیان کیا ہے عاد اور ثمود کی قوم کا ذکر ہے ، قوم لوط اور قوم صالح نے حالات مذکورہ میں یہ لوگ نزول قرآن کے زمانے کے عربوں سے بہت کثیر تعداد میں اور بڑے طاقتور تھے ان میں بڑے بڑے کاریگر اور صناع تھے جو پہاڑوں کو تراش تراش کو ان میں گھر بنالیتے تھے اور اہرام مصر جیسی بڑی بڑی عمارات تعمیر کرتے تھے فرمایا جب ہماری گرفت آئی (آیت) ” فما اغنی عنھم ما کانوا یکسبون “۔ تو ان کی اس جملہ کمائی نے کچھ فائدہ نہ دیا بلکہ اللہ نے ان قوموں کو ان کی سرکشی اور بغاوت کی وجہ سے صفحہ ہستی سے ناپید کردیا ۔ (علم وہنر پر غرور) فرمایا ان لوگوں کا حال یہ تھا (آیت) ” فلما جآء تھم رسلھم بالبینت “۔ جب ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے (آیت) ” فرحوا بما عندھم من العلم “۔ تو وہ اس علم کی بناء پر اترا گئے جو ان کے پاس تھا ، اسی غرور وتکبر کی بناء پر انہوں نے اللہ کے نبیوں ان کے دن شریعت اور کتابوں کو تسلیم نہ کیا امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس علم معاش یعنی دنیا کی زندگی گزارنے کا علم تو تھا ، مگر ان کے پاس علم معاد نہیں تھا جس کو بروئے کار لا کر وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب ہو سکتے تھے ، بلکہ آخرت کی دائمی زندگی کو بھی بہتر بنا سکتے تھے ان کے پاس دین کا علم نہیں تھا جس کے ذریعے وہ عقیدہ ، اعمال اور اخلاق کو درست کرسکتے ۔ محض معاش کا علم تو آج بھی دنیا میں بہت زیادہ ہے آج سائنس اور ٹیکنا لوجی کا زمانہ ہے ، علم طب وجراحت اپنے عروج پر ہے ، صنعت وحرفت کی بدولت نئی نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں ، مگر وہ علم نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر بذریعہ وحی نازل ہوا ، موجودہ زمانے میں امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی وغیرہ اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ سمجھتے ہیں مگر ان کا سارا علم وہنر معیشت کے گرد گھومتا ہے اور وہ اسی کو علم کل سمجھتے ہیں اور اصل علم کی طرف نہیں آتے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں کسی نے ایک بہت بڑے فلسفی سے کہا کہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کر ان سے اکتساب فیض کریں اور ان کی دعوت کو قبول کریں ، تو وہ شخص کہنے لگا کہ ہم تو خود عالم فاضل اور مہذب آدمی ہیں ، ہمیں موسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع کی کوئی ضرورت نہیں نبیوں کی تعلیم وتربیت تو جاہل لوگوں کے لیے ہوا کرتی ہے وہ ان کی راہنمائی کرتے ہیں ، ہمیں تو ضرورت نہیں ۔ ایرانیوں میں ۔۔۔۔۔۔۔ کے متعلق اس قسم کا غرور اور تعصب پایا جاتا تھا وہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس دانشور لوگ موجود ہیں ، ہم تعلیم یافتہ ہیں ہماری سلطنت قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہے ان گوہ کھانے والے عرب شتر بانوں کو کس چیز کا علم ہے یہ ان پڑھ لوگ ہیں ہم ان سے کی سیکھیں گے ؟ وہ گویا عربوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے شاہنامہ فردوسی میں بھی قسم کا تاثر ملتا ہے کہ یہ عرب کے صحرائی لوگ ہیں انہیں کس چیز کا علم ہے ؟ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ کسی افلاطون یا کسی دوسرے بڑے فلاسفر سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق دریافت کیا تو اس فلسفی نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا امتحان لینا چاہا کہتے ہیں کہ اس نے آپ سے سوال کیا کہ اگر زمین وآسمان ایک کمان کی شکل اختیار کرلیں اور دنیا میں ظاہر ہونے والے تمام حوادثات کو تیر تصور کرلیا جائے اور اس تیر کمان کو چلانے والا خود خدا ہو تو پھر اس تیر کمان کے حملے سے بچاؤ کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہی ایک صورت ہے کہ دوڑ کر خدا تعالیٰ کے دامن میں پناہ حاصل کرلی جائے ، قرآن پاک میں موجود ہے (آیت) ” ففروا الی اللہ “۔ اللہ کی طرف دوڑ کر جاؤ تو ہر شر سے پناہ حاصل ہوجائے گی تو اس شخص نے یہ جواب سن کر اقرار کیا کہ ایسے مشکل سوال کا جواب نبی کے بغیر کوئی نہیں دے سکتا ، یہ واقعی اللہ کے نبی ہیں مگر ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہم خود مہذب لوگ ہیں نبی تو جاہلوں کی تربیت کے لیے آتے ہیں ، اس طرح وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کو ٹھکرا دیتے تھے اور اپنے فلسفہ کو ہی برتر سمجھتے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا (آیت) ” وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزئون “۔ کہ انہیں اسی چیز نے گھیر لیا جس کو وہ انبیاء کے استہزاء کا ذریعہ بناتے تھے ان کے خود ساختہ فلسفے اور ان کا علم وہنر ہی ان کی ہلاکت کا باعث بن گیا ۔ (بےوقت ایمان غیر مفید ہے ) پھر کیا ہوا ؟ (آیت) ” فلما راوا باسنا “۔ جب انہوں نے ہمارے عذاب کو اپنی آنکھوں سے آتا ہوا دیکھ لیا (آیت) ” قالوا امنا باللہ وحدہ “۔ کہنے لگے ، کہ ہم ایمان لے آئے یعنی ایک خدا کی وحدانیت کو تسلیم کیا ، اللہ تعالیٰ کے انبیاء ، معجزات اور کتابوں پر ایمان لائے (آیت) ” وکفرنا بما کنابہ مشرکین “۔ اور جن چیزوں کو ہم خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے رہے ، اب ان کا انکار کرتے ہیں فرمایا (آیت) ” فلم یک ینفعھم ایمانھم لما راوا باسنا “۔ مگر ہمارا عذاب دیکھنے کے بعد ان کا ایمان لانا ان کے لیے کچھ مفید نہ ہوا ، حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ انسان کا ایمان اس وقت غیر مفید ہوجاتا ہے جب اس پر غرغرے کی حالت طاری ہوجائے یعنی وہ قریب المرگ ہوجائے غیب کے پردے اٹھ جائیں اور موت کے فرشتے نظر آنے لگیں دوسری غیر مفید صورت وہ ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے آثار نظر آنے لگیں پوری تاریخ انسانی میں صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہے کہ عذاب کے آثار شروع ہوگئے تو انہوں نے توبہ کی ، گڑگڑائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرکے عذاب کو ٹال دیا ، بعض مفسرین کہتے ہیں کہ قوم یونس (علیہ السلام) پر ابھی عذاب آیا نہیں تھا صرف بعض نشانیاں ہی ظاہر ہوئی تھیں ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا وہاں جب خدا کا عذاب پورے طریقے سے نظر آنے لگے تو اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے فرعون نے بھی غرقابی کے وقت کہا تھا (آیت) ” قال امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوآء یل “۔ (یونس ، 9) میں بنواسرائیل کے خدا پر ایمان لایا جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، مگر اللہ نے اس وقت کا ایمان لانا قبول نہ کیا اور فرمایا (آیت) ” آلئن وقد عصیت قبل “۔ (یونس : 91) اب ایمان لاتے ہو جب جان حلق تک پہنچ چکی ہے حالانکہ اس سے پہلے غنڈہ گردی کرتے رہے بہرحال فرمایا کہ سابقہ نافرمان قوموں نے بھی عذاب کو دیکھ کر توحید کا اقرار اور شرک کا انکار کیا مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” سنت اللہ التی قد خلت فی عبادہ “۔ یہ اللہ کا اس کے بندوں میں دستور ہے جو پہلے گزر چکے ہیں ، کہ جب وہ عذاب کو دیکھ کر غلطی کا اقرار کرتے ہیں تو پھر ان کا ایمان اور اعتراف مفید نہیں ہوتا (آیت) ” وخسرھنالک الکفرون “۔ چناچہ ایسے مواقع پر کافروں نے ہمیشہ نقصان بھی اٹھایا ، ان کی توبہ قبول نہ ہوئی اور وہ ہمیشہ کے لیے خسارے میں پڑگئے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس خسارے سے محفوظ رکھے ۔
Top