Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اور ٹھہرایا ہے انہوں نے اس ( اللہ) کے لیے اس کے بندوں میں سے حصہ ، بیشک انسان البتہ کھلا ناشکرا گزار ہے
ربط آیات سورۃ کے آغاز میں قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہوا اور اس کے وحی الٰہی ہونے کا بیان ہوا ، پھر اللہ نے رسالت کے ضمن میں فرمایا کہ ہر رسول کے ساتھ ٹھٹا کیا گیا ، لہٰذا اس بات سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اللہ نے اپنی قدرت تامہ کے دلائل بیان فرمائے جن سے اس کی توحید بھی بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے۔ پھر اللہ نے مخلوق پر کیے جانے والے انعامات کا تذکرہ کیا اور خاص طور پر انسانوں کے لیے سواریوں کا ذکر فرمایا اور ان پر سوار ہوتے وقت کی خصوصی دعا سکھائی ۔ اب آج کی آیات میں توحید کا اثبات اور شرک کا رد ہے اور اس سلسلے میں عقیدہ اولاد کا ذکر کیا گیا ہے کہ مشرک لوگ خدا کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں اور خاص طور پر فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں ، پھر اللہ نے مشرکین کی اندھی تقلید کو بیان کر کے ان کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ خدا کے لیے اولاد کا عقیدہ مشرکین کے شرک کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد مانتے تھے۔ اللہ نے فرمایا وجعلوا لہ من عبادہ جزء انہوں نے اللہ کے بندوں میں سے اس کے لیے ایک حصہ ٹھہرا لیا ہے۔ مرد اور عورتیں سب اللہ کے بندے ہیں ، مگر مشرکوں نے ان بندوں میں سے ایک حصہ یعنی عورتوں کو خدا تعالیٰ کی اولاد تسلیم کرلیا ہے اور اس طرح وہ کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ادھر بعض دوسرے گروہوں نے مردوں کو خدا کا جزو تسلیم کرلیا ہے ، چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَقَالَتِ الْیَھُودُ عُزَیْرُ نِابْنُ اللہ ِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیحُ ابْنُ اللہ ِ (التوبۃ : 30) یہودی کہتے ہیں کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں ۔ اسی طرح بعض دیگر مشرکین بھی مخلوق میں سے کسی نہ کسی کو خدا کی اولاد تسلیم کرتے ہیں ۔ فرمایا یہ بڑی بےادبی اور گستاخی کی بات ہے کہ خدا کی مخلوق میں سے اس کے لیے ایک حصہ تجویز کیا جائے۔ صاحب اولاد ہونا تو مخلوق کی صفت ہے ، جو چیز اجزاء سے مرکب ہوتی ہے۔ وہ حادث ہوتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ کی ذات قدیم ہے۔ وہ بسیط ہے ، نہ کہ مرکب مرکب اور حادث ہونا تو عیب اور نقص کی نشانی ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ وہ حادث نہیں بلکہ قدیم ہے ، لہٰذا اس کے لیے اولاد کا عقیدہ رکھنا کسی طرح بھی اس کی شان رفیع کے لائق نہیں۔ وہ ازلی اور ابدی اور بنسیت سے پاک ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان صرف خالق اور مخلوق ہونے کا تعلق ہے۔ والدیت اور مولودیت کا کوئی تعلق نہیں ۔ عقیدہ اولاد کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل ، سورة الصافات اور یہاں اگلی آیت میں بھی مشرکین کے اس عقیدے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں مانتے تھے ، حالانکہ فطرتا ً بیٹیاں بیٹوں سے کمزور ہوتی ہیں اور ان بد بختوں نے کمزور مخلوق کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے اور اعلیٰ مخلوق یعنی بیٹوں کو اپنے لیے پسند کیا ہے۔ فرمایا ان الانسان لکفور مبین انسان کس قدر کھلانا ناشکر گزار ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کی تقسیم اسی جنس تقسیم کے متعلق اللہ نے یہاں ارشاد فرمایا ہے ام اتخذ ممایخلق بنت کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں ٹھہرالی ہیں واصفکم بالبنین اور تم کو بیٹیوں کے ساتھ چن لیا ہے ؟ اللہ نے استفامیہ انداز میں فرمایا ہے کہ تمہارے زعم کے مطابق کیا اللہ نے اپنے لیے کمزور مخلوق کو منتخب فرمایا ہے اور تمہیں تمہاری پسند کے مطاقبق بیٹوں کے لیے چن لیا ہے۔ یہ کس قدر بیوقوفی کی بات ہے۔ فرمایا ان کی پسند اور ناپسند کی حالت تو یہ ہے واذا بشر احدھم بما ضرب للرحمن مثلاً اور جب ان مشرکوں میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جس کی انہوں نے خدائے رحمان کے ساتھ مثال بیان کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مشرک خود اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اسی بیٹی کی پیدائش کی خبر جب ان میں سے کسی شخص کو دی جاتی ہے ، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ظلل رجھہ مسود تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے۔ اسے اس قدر تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ اپنے لیے کسی بھی صورت میں بیٹی کو پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا چناچہ وھو کظیم اور وہ غم واندوہ کی وجہ سے پیچ و تاب کھانے لگتا ہے اور اس کا جی گھٹ رہا ہوتا ہے۔ بعض مشرکین کی اس حالت کو اللہ نے سورة النحل میں بھی بیان فرمایا ہے وہاں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان میں سے جب کسی شخص کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور اس کا جی غم کی وجہ سے گھٹنے لگتا ہے۔ پھر وہ اس خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور دل میں سوچتا ہے۔ ایمس کہ علی ھون امریدسۃ فی التراب ( النحل : 59) کہ آیا وہ ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا اسے زمین میں زندہ گاڑھ دے ۔ یہ انسان کی کس قدر کم ظرفی اور حماقت ہے کہ جس چیز کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے۔ وہ خدا کے لیے تجویز کرنے سے نہیں شرماتا بعض مشرکین کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر گھر سے ہی بھاگ جاتے تھے چناچہ اس قسم کا ایک واقعہ امام جافظ نے اپنی کتاب البیان والبیین میں بھی نقل کیا ہے۔ جب کسی عورت کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی اور اس کا خاوند گھر چھوڑ کر بھاگ گیا تو وہ کہنے لگی۔ مالا بی حمزۃ لا یا تینا نبی ت فی بیت التی تلینا نضبان ان لا نلد البنینا تا الہ ما ذلک بانید ینا نحن کزرع لما قد زرعوا فینا ابی حمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ گھر نہیں آتا بلکہ اپنے پڑوسی کے ہاں راتیں بسر کرتا ہے۔ وہ اس بات سے ناراض ہے کہ ہم بیٹے نہیں جنتیں ۔ اللہ کی قسم یہ تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے ہماری مثال تو ایک کھیتی کی ہے کہ اس جیسا بیج ڈالا جاتا ہے ویسی اس کی پیداوار ہوجاتی ہے۔ اللہ نے فرمایا اومن ینشوء ا فی الحلیم بھلا وہ مخلوق ( یعنی بیٹی) جس کو زیور میں نشونما دی جاتی ہے۔ وھو فی الخصام غیر مبین اور وہ جھگڑے (یعنی بات چیت) میں بھی غیر واضح ہوتی ہے۔ اللہ نے عورت کے متعلق فرمایا ہے کہ عام طور پر لڑکیوں کی پرورش زیورات میں ہوتی ہے یعنی ان کو سونے چاندی کے زیورات پہنائے جاتے ہیں ۔ جو ان کے لیے حلال اور لڑکوں کے لیے حرام ہیں اور لڑکیاں بات چیت کرنے میں بھی عام طور پر لڑکوں کی نسبت کمزور واقع ہوتی ہیں ۔ اگرچہ استثنائی طور پر بعض لڑکیاں بھی گفت و شنید میں تیز طرز ہوتی ہیں مگر عام طور پر ان کی حالت یہی ہے کہ وہ نہ تو مشقت کے کام انجام دے سکتی ہیں اور نہ بات چیت میں زیادہ چالاک ہوتی ہیں بلکہ وہ بعض اوقات اعصابی دبائو کا شکار ہو کر بات چیت میں صریح نہیں رہتیں کیونکہ ان کا نروس سسٹم کمزور ہوتا ہے۔ نئے نئے کپڑے ، زیورات اور بنائو سنگھارعورتیں فطری طور پر پسند کرتی ہیں ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو زخم آ گیا ۔ حضور ﷺ نے خود زخم صاف کیا اور فرمایا کہ اگر یہ بیٹی ہوتی تو ہم اس کو زیور پہناتے ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے زیور پہننا جائز ہے۔ تا ہم عورتوں کا فیشن اور بنائو سنگھار میں زیادہ انہماک تباہ کن ہے۔ صدر ایوب مرحوم کے زمانہ میں اسمبلی کی ایک خاتون ممبر کے متعلق اخبارات میں آتا تھا کہ وہ تیس دن کے اسمبلی سیشن میں ہر روز نیا لباس پہن کر شامل ہوتی رہی ۔ گویا اس کو کوئی دوسرا کام ہی نہیں تھا ، بہر حال عورتوں کی اس کمزوری کا ذکر اللہ نے کیا ہے کہ ایک تو وہ زیورات کی دلدادہ ہوتی ہیں اور دوسرے مرد کی نسبت صریح گفتگو بھی نہیں کرسکتیں ۔ مگر مشرکوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایسی کمزور مخلوق کی نسبت تو اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں اور خود اپنے لیے لڑکے پسند کرتے ہیں۔ فرشتوں کے متعلق غلط عقیدہ اللہ نے فرمایا کہ مشرکوں نے فرشتوں کے متعلق بھی کتنا غلط عقیدہ بنا رکھا ہے وجعلوا الملکئۃ الذین ھم عبد الرحمن ناتا ان بدبختوں نے اللہ کے بندوں فرشتوں کو عورتیں بنا رکھا ہے ۔ کہتے ہیں الملئکۃ بنات اللہ یعنی فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ، حالانکہ وہ تو اللہ کے مقرب بندے ہیں ۔ رفشتے میں تذکیرہ و تانیث والی کوئی بات نہیں تا ہم انہیں احتراما ًتصور کیا جاتا ہے۔ ان کو عورت کہنے میں تو بڑی گستاخی ہے۔ فرمایا یہ فرشتوں کو عورتیں سمجھتے ہیں ۔ اشھدوا خلقنھم کیا یہ لوگ فرشتوں کی تخلیق کے وقت موجود تھے جو یہ تذکیر و تانیث کا علم رکھتے ہیں ۔ فرمایا ستکتب شھادتھم ویسئلون ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور پھر ان سے باز پرس بھی ہوگی کہ انہوں نے ایسا غلط دعویٰ کیا اور خدا تعالیٰ کے لیے اولاد کیوں تجویز کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نہ تو کوئی حقیقی اولاد ہے نہ ہی مجازی کہ جس کو اس نے اختیار دے دیا ہو کہ لوگوں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتے پھریں ، عیسائیوں کا ابن اللہ والا عقیدہ بھی باطل ہے اور مشرکوں کا خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرنا بھی سخت گستاخی ہے۔ عبادت بغیر اللہ کی غلط تاویل اگلی آیت کریمہ میں اللہ نے مشرکوں کی ایک بیہودہ دلیل کا رد فرمایا ہے۔ وقالو لو شاء الرحمن ما عبد نھم انہوں نے کہا کہ اگر خدا نے رحمان چاہتا تو ہم ان معبود ان باطلہ کی عبادت نہ کرتے ، گویا وہ خدا کے کہنے پر ایسا کر رہے ہیں ۔ دراصل ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر غیر اللہ کی نذر و نیاز ، ان کی حددرجہ تعظیم یا ان کے سامنے سجدہ ریزی اتنی ہی معیوب ہے تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں اس کام سے زبردستی روک کیوں نہیں دیتا اگر وہ روکتان ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اچھا کام ہے۔ فرمایا ان کے اس زعم باطل کے متعلقمالھم بذلک من علم انہیں کچھ بھی علم نہیں ۔ ان ھم الایخرضون ان کی یہ ساری دلیل بازی محض اٹکل پچو باتیں ہیں ، ان میں کوئی صداقت نہیں بلکہ یہ خود اللہ تعالیٰ پر اتہام کے مترادف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو برائی سے زبردستی نہیں روکتا کیونکہ زبردستی روکنا اس کے بنیادی اصول کے خلاف ہے ۔ اس نے دنیا میں انسانوں کو بھیج کر ان کے سامنے نیکی اور برائی کے راستے انبیاء اور کتابوں کے ذریعے واضح کردیے اور پھر انسانوں کو اختیار دے دیا ۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر ( الکہف : 29) اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے۔ انسان اپنے لیے جو بھی راستہ پسند کریگا ۔ نولہ ما تولی ونصلہ جنت ( النسائ : 115) پھر اگر وہ برائی کے راستے پر چل نکلے گا تو ہم اسی طرف کی توفیقدے دیں گے اور آگے اس کے لیے جہنم بھی تیار ہے جو کہ بہت براٹھکانہ ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ مشرکین نے غیر اللہ کی عبادت کا وطیرہ بنا رکھا ہے اور پھر یہ باطل تاویل بھی پیش کرتے ہیں کہ اللہ کی رضا اسی میں ہے ورنہ وہ ہمیں ایسا کرنے سے روک دیتا ۔ فرمایا ان کی اس باطل تاویل کے لیے ان کے پاس کیا دلیل ہے ؟ ام تینھم کتبا من قبلہ کیا اس سے پہلے ہم نے انہیں کوئی کتاب عطا کی تھی جس میں غیر اللہ کی عبادت کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ فھم بہ متمکون اور وہ اسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں ۔ مقصد یہ کہ ہم نے تو ان کے پاس ایسی کوئی کتاب یا حکم نہیں بھیجا جس میں غیروں کی عبادت کو جائز قرار دیا گیا ہو ۔ یہ ان کا اپنا ہی زعم باطل ہے۔ ابائو اجداد کی اندھی تقلید فرمایا ان کے مشرکانہ عقائد و اعمال کی کوئی معقول دلیل تو نہیں ہے سوائے اس کے بل قالوا انا فجدنا اباء نا علی امتروانا علی اتابھم مھتدون کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو ایک طریقے پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر راہ پانے والے ہیں ۔ جس قسم کے عقائد وہ رکھتے تھے اور جونسی رسوم وہ ادا کرتے تھے۔ ہم بھی اس طرح کر رہے ہیں ۔ یہی اندھی تقلید ہے کہ بغیر سوچے سمجھے باپ دادا کے دین کو اختیار کیا جائے ۔ جس کی قرآن نے بار بار تردید کی ہے۔ حتیٰ کہ فرمایا اولو کان ابائو ھم لا یعقلون شیئا ً ولا یھتدون ( البقرہ : 170) اگرچہ ان کے آبائو اجداد عقل سے بےبہرہ اور غیر ہدایت یافتہ ہوں تو پھر یہ انہی کے نقش قدم پرچلیں گے ؟ یہ تو سخت حماقت کی بات ہے ۔ ہاں اگر آبائو اجدا راست پر ہوں تو پھر ان کی تقلید قابل فخر بات ہے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تھا۔ اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآئِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ (یوسف : 37 ، 38) میں نے اس قوم کے طریقے کو ترک کردیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کی بجائے انکار کرتے ہیں اور میں نے اپنے آبائو اجداد حضرت ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کی ملت ، دین یا طریقے کا اتباع کیا ہے۔ فرمایا وکذلک ما ارسلنا من قبلک فی قریۃ من نذیر اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈر سنانے والا نہیں بھیجا الا قال مترفوھا مگر یہ کہ اس بستی کے آسودہ حال لوگوں نے یہی کہا انا وجدنا اباء نا علی امۃ کہ ہم نے اپنے آبائواجداد کو ایک طریقے پر پایا وانا علی اثارھم مقتدون اور ہم تو انہی کے نقش قدم پر اقتدا کرنے والے ہیں ہم تو انہی قدیم رسم و رواج پر ہی کار بند رہیں گے ہم کسی نئے دین کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ مشرکین کی اس ہٹ دھرمی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے کہلوایا قل اولو جئتکم باھدی مما وجدتم علیہ ابائو کم کیا اگر میں اس سے زیادہ ہدایت والی چیز تمہارے لیے آئوں جس پر تم نے اپنے ابائو اجداد کو پایا ہے ، تو کیا پھر بھی تم لکیر کے فقیر ہی رہو گے اور اپنے گمراہ باپ دادا کے دین پر ہی چلتے رہو گے ؟ اس کے جواب میں قالوا انا بما ارسلتم بہ کفرون مشرک کہنے لگے کہ ہم تو تمہاری لائی ہوئی چیز یعنی دین کو ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کا صریح انکار کرتے ہیں ۔ ہم تو اپنے آبائواجداد کے نقش قدم پر ہی چلتے رہیں گے۔ انجام کار اللہ نے فرمایا کہ جب کفار و مشرکین کی سر کشی حد سے بڑھ گئی فانتقمنا منھم پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا ۔ انتقام کی مختلف صورتیں رہی ہیں کبھی اللہ نے انبیاء کو جہاد کا حکم دے کر کفار و مشرکین کی بیخ کنی کی اور کبھی کوئی آسمانی آفت از قسم سیلاب ، طوفان ، مسخ چیخ یا خسف کے ذریعے ایسی نافرمان قوموں کو ہلاک کیا اللہ تعالیٰ کسی سر کش کو انتقال لیے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ انہیں دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اور پھر برزخ اور آخرت کا عذاب تو بہر حال ان کے مقدر میں ہے ۔ فرمایا پھر ہم نے ان سے انتقام لیا فانظر کیف کان عاقبۃ المکذبین پھر دیکھو ان جھٹلانے والوں کا کیا عبرتناک انجام ہوا۔ ایسے ناہنجار لوگ ذلت ناک سزائوں میں مبتلا ہو کر صفحہ ہستی سے ناپید ہوگئے ۔ اللہ نے جستہ جستہ ایسی قوموں کا حال قرآن میں بھی بیان کردیا ہے اور بہت سے واقعات تاریخ کے اوراق میں بھی محفوظ ہیں۔
Top