Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 31
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور کہا ان لوگوں نے کہ کیوں نہیں اتارا گیا یہ قرآن کسی بڑے آدمی پر دو بستیوں میں سے
ربط آیات اسلام کے بنیادی عقائد توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن کی حقانیت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کفریہ اور شرکیہ رسوم کا رد فرمایا جو کافر اور مشرک اپنے آبائو اجداد کی اندھی تقلید میں انجام دیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ آبائواجداد کی تقلید ہی کرنی ہے تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ اختیار کرو جو تم سب کے جد امجد ہیں ۔ انہوں نے تو اپنے باپ اور قوم سے صاف کہہ دیا تھا کہ میں ان چیزوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں ۔ جن کی تم پوجا کرتے ہو ، سوائے اس ذات خداوندی کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری ہنمائی کرتا ہے اس کے علاوہ میں کسی ہستی کو معبودتسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، پھر اس کلمہ توحید اور برات کو انہوں نے اپنی اولاد میں بھی چھوڑا ، تا کہ وہ رجوع کرتے رہیں مگر ان لوگوں کی بد بختی کہ آہستہ آہستہ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو بھول کر کفر اور شرک میں مبتلا ہوگئے ، حتیٰ کہ جب اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ مبعوث ہوئے تو ان کا انکار کردیا چونکہ آپ کا لایا ہوا کلام ان پر اثر کرتا تھا لہٰذا انہوں نے اس کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے جادو کہہ کر ٹھکرا دیا ۔ نبوت و رسالت کا معیار کفار و مشرکین نے نبوت و رسالت کا ایک خود ساختہ معیار یہ قائم کر رکھا تھا کہ یہ منصب کسی ایسے شخص کو ملنا چاہئے جو دنیاوی لحاظ سے آسودہ حال ہو ، اس کے پاس مال و دولت ، کوٹھی ، باغات ، نوکر چاکر اور مال مویشی کی بہتات ہونی چاہئے ۔ وہ بہت بڑا آدمی ہو جسے معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو ، مگر جب حضور علیہ لصلوٰۃ والسلام جیسے دنیاوی لحاظ سے کمزور آدمی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھ پر یہ قرآن پاک نازل ہوتا ہے تو وہ لوگ کہنے لگے وقالوا لولا نزل ھذا القرآن علی رجلہ من القریتین عظیم یہ قرآن مکہ اور ظائف کی دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل ہوا ۔ بڑے آدمی سے ان کی مراد وہی دنیا کا جاہ و حشمت ، مال و دولت ، باغات و تجارت ، مویشی اور غلام تھے ۔ اس معیار کے لوگ مکہ میں ولید ابن مغیر ، عتبہ اور شیبہ وغیرہ تھے اور طائف میں ابن عبد یا لیل عروۃ ابن مسعود اور حبیب وغیرہ تھے جو بڑی حیثیت کے مالک سمجھے تھے جاتے تھے۔ کہنے لگے اگر قرآن نازل ہوتا تھا تو ان میں سے کسی سردار پر کیوں نہ نازل ہوا ، کیا اس کام کے لیے ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی رہ گیا تھا ؟ دنیا کے مترف یعنی آسودہ حال لوگوں کا ذہن اسی طرح کام کرتا رہا ہے اور انہوں نے ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کو حقیر سمجھ کر ہی ان کی نبوت کا انکار کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نبوت و رسالت کسی کو اس کی خواہش اور اختیار سے نہیں ملتی اور نہ ہی یہ عبادت و ریاضت سے حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ خالصتا ً اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کی منشاء سے عطا ہوتی ہے اور پھر جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب پڑتی ہے۔ وَ اِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ (ص : 47) اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں برگزیدہ اور منتخب لوگ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ انتخاب مال و دولت یا جاہ و حشمت کی بناء پر نہیں ہوتا ، بلکہ ذہن فکر ، قومی ، اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کے پاس وحی الٰہی کا قطعی اور یقینی علم ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ تما م علوم مخص تخمینی اور ظنی ہوتے ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی علم کی بنیاد عقل یا تجربہ پر تو ہو سکتی ہے مگر اسے یقینی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یقینی علم صرف وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے نبی معصوم عن الخطا ہوتے ہیں اور ان کی اطاعت بحیثیت رسول فرض عین ہوتی ہے اسی لیے اللہ کے ہر نبی اور رسول نے قوم سے کہا اِنِّیْ لَـکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ فَاتَّقُوا اللہ وَاَطِیْعُوْنِ (الشعرائ : 125 ، 146) اے لوگو ! میں تمہارے لیے امانت دار رسول بن کر آیا ہوں ، لہٰذا اللہ سے ڈر جائو اور میری اطاعت کرو ۔ انبیاء (علیہم السلام) کی تربیت عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ وہ امت کے لیے نمونہ ہوتے ہیں ۔ اگر ان سے کوئی لغزش سر زدہو جائے تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی اصلاح کردیتا ہے۔ ان کو خدا تعالیٰ کا تقریب حاصل ہوتا ہے کیونکہ نبوت سے بڑھ کر کوئی منصب نہیں ہے ، مگر کافر ، مشرک اور دنیا دار لوگ انہیں دنیا کے معیار پر پرکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ۔ معزز وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس دنیا کا مالک و زر زیادہ ہو حالانکہ اللہ کے ہاں عزت کا معیار ان اکرامکم عند اللہ انفسکم ( الحجرات : 13) ان کا تقویٰ ہے ۔ کفار و مشرکین نے اپنے اس غلط معیار کی بنیاد پر ہی اللہ کے نبیوں کو حقیر سمجھا ، جیسا کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مہین یعنی حقیر کہا ۔ اللہ نے فرمایا یہ لوگ ہمارے بر گزیدہ نبی اور رسول کی رسالت پر شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ منصب کسی بڑے آدمی کے حصے میں کیوں نہ آیا اھم یقسمون رحمت ربک کیا تیرے رب کی رحمت یعنی نبوت و رسالت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں کہ یہ منصب اس شخص کے حصے میں آئے جو ان کے مزعومہ معیار پر پورا اترتا ہو ؟ فرمایا ہرگز نہیں ، نبوت کا تاج اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق جس کو اہل سمجھتے ہیں اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں ۔ اس میں کسی مخلوق کا کوئی دخل نہیں ہوتا ، لہٰذا کفار و مشرکین کا یہ اعتراض باطل ہے کہ قرآن حکیم کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل ہوا۔ تقسیم معیشت اگلے حصہ میں آیت میں اللہ نے معیشت کی تقسیم کو نبوت و رسالت کی تقسیم کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ، فرمایا یہ لوگ تقسیم نبوت اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں حالانکہ نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوۃ الدنیا ان کے درمیان ہم نے دنیا کی معیشت بھی خود تقسیم کی ہے۔ ہم نے ہر شخص کو اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق رزق تقسیم کیا ہے اور سب کو یکساں نہیں رکھا بلکہ ورفعنا بعضھم فوق بعض درجیت ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے۔ نبوت کی تقسیم تو دور کی بات ہے اگر دنیا کی معیشت ہی ہم ان کے قبضہ میں دے دیتے تو یہ سب کچھ اپنے حواریوں اور اقربا میں تقسیم کردیتے اور کسی دوسرے آدمی کو پانی کا ایک گھونٹ تک نہ دیتے۔ اگرچہ آیت کا یہ ٹکڑا نبوت و رسالت کی دلیل کے طور پر نازل ہوا ہے تاہم اس سے دنیا کے اقتصادی یا معاشی نظام کے خدو خال بھی واضح ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام چل رہے ہیں ، ایک سرمایہ دارانہ نظام ہے جو امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور پاک و ہند وغیرہ میں رائج ہے اور دوسرا اشتراکی نظام ہے جو روس اور اس کے حواری ممالک میں چل رہا ہے۔ اسلام کے نزدیک یہ دونوں نظام ہائے معیشت باطل ہیں اور صحیح اور منصفانہ نظام وہی ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور جس پر عہد رسالت اور خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ میں عمل ہوتا رہا ہے۔ وسائل معیشت تین قسم کے ہیں یعنی (1) زمین (2) سرمایہ اور (3) محنت سرمایہ داروں کا نظریہ یہ ہے کہ اصل چیز سرمایہ ہے ۔ یہ ہوگا تو کارخانے لگیں گے مزدور کام کریں گے۔ تو روزی کا سامان مہیا ہوگا ۔ اس کے بر خلاف اشتراکی نظریات کے حاملین کہتے ہیں کہ اصل چیز محنت ہے ۔ محنت کے ذریعے ہی سرمایہ حاصل ہوتا ہے ، لہٰذا مزدور کو فوقیت حاصل ہونی چاہئے۔ سرمایہ دارانہ نظام حضرت نوح علیہ اللام کے زمانہ سے چلا آ رہا ہے اور ” زررازرمی کشد “ کے مقولے کے مطابق سرمایہ دار خوب سرمایہ کما رہے ہیں ، وہ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جب کہ غریب بیچارے پستے چلے جا رہے ہیں ۔ اس نظام میں سرمایہ کے کسب اور اس کے تصرف پر کوئی پابندی نہیں ، ہر شخص اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر ہر حلال و حرام ذرائع سے مال اکٹھا کرسکتا ہے اور پھر اسے اپنی خواہش کے مطابق ہر جائز و ناجائز کام میں صرف کرسکتا ہے ، گویا کسب اور انفاق میں اس پر کوئی پابندی نہیں۔ دوسری طرف اشتراکی نظام معیشت ہے جس کا آغاز پہلی جنت عظیم کے موقع پرہ ہوا ۔ اس وقت روس میں زار روس جیسے ظالم عیسائی حکمران تھے جو عوام کا خون چوس رہے تھے ، اس زمانے میں اشتراکی تحریک چلی جس کو لینن اور سٹالن نے آگے بڑھایا ۔ اس تحریک کی بنیاد دراصل جرمن کے یہودی کارل مارکس نے رکھی جو آخر میں انگلستان میں پناہ گزین رہا ۔ اس نے ” سرمایہ داری (Capitalism) نامی کتاب لکھ کر اس مسئلے کو چھیڑا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں گنوائیں اور لوگوں کو اشتراکیت کی طرف مائل کیا ۔ یہ نظریہ آگے چل کر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق ملک کی ہر چیز عوام کی مشترکہ ملکیت تصور کی جانی چاہئے اس ضمن میں ایران کا مزوک نامی دہریہ اس حد تک آگے چلا گیا کہ عورت بھی سب کی مشترکہ ملکیت ہونی چاہئے۔ یہ نظریہ فطرت کے صریحا ً خلاف تھا۔ لہٰذا ایران کے شہنشاہ نے اس شخص کو اور اس کے حامیوں کو کلیتا ً ختم کروا دیا ۔ اشتراکیت کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ وسائل روز گار کسی فرد واحد کی ملکیت میں نہیں ہونے چاہئیں بلکہ یہ سب حکومت کی ملکیت ہوں جو اسے مساویانہ طریقے سے عوام میں تقسیم کرے۔ آج کل یہ طریقہ اشتراکی ممالک میں رائج ہے۔ مگر اس میں قباحت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت پر چند ڈکٹیٹر قسم کے لوگ قابض ہو کر من مرضی کرنے لگتے ہیں ۔ کینہ پروری کرتے ہیں ۔ دوست نوازی ہوتی ہے اور عام لوگوں کی حیثیت جانوروں سے زیادہ نہیں ہوتی جو کام کرتے ہیں اور روٹی کھالیتے ہیں ، ان پر یہ نظام اس قدر شدت سے مسلط کردیا جاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھا سکتے اور جو ایسی کوشش کرتا ہوے اسے ہمیشہ کے لیے نابود کردیا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے یہ نہایت ہی ظالمانہ نظام ہے۔ اسلامی نظام معیشت مذکورہ دونوں نظام ہائے معیشت اسلامی نظریات کے خلاف ہیں ۔ اسلامی نظام کے خدو خال سابقہ انبیاء حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی تعلیمات میں بھی ملتے ہیں ۔ اسلامی نظام میں نہ تو سرمائے کو کلی حیثیت حاصل ہے اور نہ محنت کو ۔ سرمایہ بھی خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور محنت بھی اسی کی پیدا کردہ ہے۔ ہر چیز کا مالک حقیقی خدا تعالیٰ ہے زمین اور اس کی تمام اشیاء ، اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔ البتہ اس نے اپنے اختیار اور مرضی سے بعض چیزیں لوگوں کی عارضی ملکیت میں دے دی ہیں اور پھر ان مجازی مالکوں کو حقیقی مالک ہونے کی حیثیت سے ان پر قانون کی پابندی بھی لازمی قرار دی ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا سرمایہ دارانہ نظام کسب و تصرف میں کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کرتا ۔ جب کہ اسلام کسب و تصرف دونوں پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی حرام راستے سے اکتساب زر کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کا حکم ہے لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ( النسائ : 29) آپس کا مال باطل اور ناجائز طریقے سے مت کھائو یعنی اسلام ناجائز ذرائع مثلاً چوری ، ڈاکہ ، جوا ، سٹہ ، فراڈ ، سمگلنگ ، چور بازاری ، سود ، بےحیائی وغیرہ کے ذریعے مال کمانے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ کہتا ہے کلوا مما فی الارض حللاً طیبا ( البقرہ : 168) زمین میں سے صرف وہی چیزیں کھائو جو حلال اور پاک ہیں ۔ حرام اور نا پاک چیزوں کو استعمال نہ کرو ۔ جس طرح اسلام لوگوں کو جائز ذرائع سے آمدن حاصل کرنے کا پابند بناتا ہے اسی طرح وہ صرف جائز مقامات پر خرچ کرنے کی پابندی بھی عائد کرتا ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ خرچ کرنے کے معاملے میں تین طریقے رائج ہیں ۔ ایک کا نام رفاہیت بالغہ ہے کہ انسان لہو و لعب اور تعیش کے تمام ذرائع اختیار کرلے۔ اپنی ضروریات سے زیادہ وسیع مکان بنوائے جس کی زیب وزینت پر غیر معمولی طریقے سے رقم صرف کرے اور پھر اس میں عیش و عشرت کے لوازمات جمع کرنے پر لاکھوں روپے صرف کر دے۔ اسلام اپنی جائز صروریات کے مطابق مکان بنانے کی اجازت دیتا ہے ، مگر اس میں اسراف کو قطعاً ناپسند کرتا ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ زندگی بسر کرین کا دوسرا طریقہ تقشف کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سادھوئوں اور جوگیوں کی طرح دنیا سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر کے پہاڑوں اور جنگلوں میں چلا جائے ، نہ شادی کرے نہ بال بچے ہوں ، نہ کوئی ذمہ داری عائد ہو اور نہ اسے نبھانا پڑے ، اس کو رہبانیت کہا جاتا ہے ولا رھبانیۃ فی الاسلام جو کہ اسلام میں قطعاً روا نہیں ۔ البتہ اسلام جو نظریہ پیش کرتا ہے ، وہ ان دونوں حالتوں میں مختلف ہے اسلام نہ تو بلاجواز عیش و عشرت کی اجازت دیتا ہے اور نہ ترک دنیاکو پسند کرتا ہے ، بلکہ اس کا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر جائز ذرائع سے مالع کمائو ، خود بھی کھائو اور اس میں سے دوسروں کے حقوق بھی ادا کرو۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ابن آدم کے بعض بنیادی حقوق ہیں جن سے کوئی شخص محروم نہیں رہنا چاہئے ۔ ان میں پانی ، خوراک ، لباس ، رہائش ، صحت ، تعلیم چھی چیزیں شامل ہیں ۔ ہوا کے بعد پانی انسانی زندگی کے لیے سب سے ضروری چیز ہے لہٰذا یہ ہر شخص کو مفت مہیا ہونا چاہئے اور حکومت کو کم از کم پانی کی ترسیل پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کے بعد خوراک ہے جو زندگی کا سلسلہ قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے اگرچہ سوکھی روٹی ہو ۔ تن ڈھانپنپے کے لیے لباس بھی ہر شخص کو ملنا چاہئے خواہ کم قیمت اور سادہ ہو ۔ اسی طرح کچا یا پکا مکان ہونا چاہئے جس میں آدمی بال بچوں سمیت رہائش پذیر ہو سکے ۔ اس کے بعد صحت کا حق ہے ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ رعایا کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرے اور پھر ہر شخص مردو زن کے لیے کم از کم اتنی تعلیم کا ضرور انتظام ہونا چاہئے جس سے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچان سکے۔ آج کل ان بنیادی حقوق کا سرا اقوام متحدہ (UNO) والے اپنے سر باندھ رہے ہیں حالانکہ یہ تو اللہ کے قرآن اور حضور ﷺ کے فرمان میں چودہ صدیاں پہلے مقرر کردیئے گئے تھے۔ عدم مساوات ان تمام تر بنیادی حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اسلام معیشت میں مساوات کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک غیر فطری امر ہے۔ تمام انسان محنت کریں ، کمائیں ، کھائیں دوسروں کو کھلائیں مگر ان کے درجات میں فرق ضرور ہوگا ۔ اللہ نے یہاں فرمایا ہے کہ لوگوں کے درمیان معیشت کو ہم نے تقسیم کیا ہے لیکن درجات میں تفاوت رکھا ہے۔ تمام انسان علم ، عمل ، قوت ، ذہن میں برابر نہیں ہیں ۔ ایک شخص جسمانی لحاظ سے طاقتور ہے تو دوسرا ذہنی طور پر بہت آگے ہے۔ جو پروفیسر ، ڈاکٹر یا انجینئر اپنے دماغ سے ایک گھنٹہ میں کام لیتا ہے اور روزی کام سامان پیدا کرلیتا ہے اتنا معاوضہ ایک مزدور بارہ گھنٹے کام کر کے بھی نہیں حاصل کرسکتا ۔ جس شخص کا ذہن کسی علم یا ہنر کی طرف نہیں چلتا ۔ وہ مزدوری کے علاوہ کیا کے گا ؟ لہٰذا ہر عالم اور جاہل ، ہنر مند اور غیر ہنر مند برابر نہیں ہو سکتے ۔ جب ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت برابر نہیں تو ان کی باقی امور میں کیسے مساوات ہو سکتی ہے یہ تو بےعقلی کی بات ہے حقیقت یہ ہے کہ بنیادی حقوق سب کے لیے برابر ہیں ۔ ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے اور ہنر سیکھنے کا پورا پورا موقع ملنا چاہئے پھر جو شخص کامیاب ہوجاتا ہے اسے نا کام ہونے والے پر فوقیت حاصل ہوگی اور اسی لحاظ سے اسے درجہ بھی حاصل ہوگا ۔ ایسے میں ہر ایک کے لیے مساوات کا مطالبہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے ۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ معیشت کو ہم تقسیم کرتے ہیں ، اس میں کسی دوسرے کی مرضی نہیں چل سکتی۔ فرمایا ہم نے معیشت میں بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے لیتخذ بعضھم بعضا سخریا تا کہ ان میں سے بعض بعض کو خدمت گار بنا لیں اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا نظام اس طرح قائم کردیا ہے کہ کوئی شخص زندگی کے تمام امور انجام نہیں دے سکتا ۔ بلکہ کسی نہ کسی صورت میں دوسرے کی مدد لینا پڑے گی ۔ آجر اور مزدور دونوں کی مصلحت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے ، اگر کارخانہ دار کارخانہ قائم نہیں کریگا تو مزدور کو کام کہاں سے ملے گا ۔ اور اگر مزدور نہیں ہوگا تو کارخانہ نہیں چل سکے گا ۔ اسی طرح کھیتی باڑی ، تجارت ، نقل و حمل تمام امور میں ہر شخص کو دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہٰذا وہ حسب ضرورت دوسرے سے خدمت لے سکتا ۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے آزاد آدمی بھی خدمت لینا روا ہے۔ البتہ ہر آجر کو اپنے مزدور کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ اس سے نہ تو جانوروں کی طرح بےتحاشا کام لے اور نہ اس کی حق تلفی کرے۔ بلکہ اس کے حقوق پورے پورے ادا کرے۔ حقوق العباد کاروباری حقوق کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت پر بعض دوسرے حقوق بھی قائم کیے ہیں اور ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص صاحب نصاب ہے تو وہ اپنے مال سے مقرر زکوٰۃ ادا کرے۔ اس کے علاوہ صدقہ فطر ادا کرے۔ قربانی کرے ۔ اللہ کا فرمان ہے وفی موالھم حق للسائل والمحروم ( الذریت : 19) مال داروں کے مالوں میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے ، وہ بھی ادا کرے۔ اگر کوئی رشتہ اور غریب ہے ، تو امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک صاحب مال پر فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس غریب کے لئے روزگار کا بندوبست کرے قرابتداروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا خصوصی حکم ہے۔ وات ذالقربی جقہ والمسکین وابن السبیل (بنی اسرائیل 26- ) قرابتداروں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو۔ پڑوسیوں کی خبر گیری کرو ، کوئی بیمار ہے تو اس کا علاج کرو ، کسی کو تعلیم کی ضرورت ہے تو وہ پوری کرو ، خوراک ، لباس اور پانی کا بندوبست کرو۔ یہ تمام حقوق ادا کرنے کے بعد پھر دیکھو کہ عیش و عشرت کے لئے کچھ بچتا بھی ہے یا نہیں انہی حقوق کو غصب کر کے لوگ عیش کرتے ہیں اور رسومات باطلہ کو انجام دیتے ہیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک شخص بیماری میں ماں کو دوائی تو لا کر نہیں دے سکا۔ مگر اس کی فوتیدگی پر ہزاروں خرچ کر ڈالتا ہے جو بلاشبہ اسراف اور بدعات ہیں۔ فرمایا ورحمت ربک خیر مما یجمعون تیرے رب کی رحمت ان چیزوں سے بہتر ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔ اس سے نبوت و رسالت کی رحمت مراد ہے جس کا کفار و مشرکین انکار کرتے ہیں اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام 125) اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ رسالت کا کون مستحق ہے۔ کفار و مشرکین خواہ مخواہ اپنا معیار قائم کئے ہوئے ہیں جو ان کی بدبختی کی علامت ہے۔
Top