Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا
: بیشک ہم نے فتح دی
لَكَ
: آپ کو
فَتْحًا
: فتح
مُّبِيْنًا
: کھلی
بیشک ہم نے فتح دی ہے آپ کو کھلی فتح
نام اور کوائف اس سورة کا نام سورة الفتح ہے جو کہ اس کی پہلی اور اٹھارہویں آیت میں آمدہ لفظ فتح سے مآخوذ ہے۔ یہ سورة مدینہ منورہ میں نازل ہوئی بلکہ 6ھ میں حدیبیہ سے واپسی پر راستے میں نازل ہوئی ، چونکہ یہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے ، اس لیے مدنی سورة کہلاتی ہے۔ اس کی انتیس آیتیں اور چار رکوع ہیں اور یہ سورة 560 الفاظ اور 2400 حروف پر مشتمل ہے۔ تاریخی پس منظر ہجرت کا چھٹا سال جا رہا تھا۔ 5ھ میں غزوہ احزاب پیش آ چکا تھا۔ اس سے پہلے بدر اور احد کی جنگیں ہوچکی تھیں ۔ اس کے علاوہ بھی چھوٹی موٹی جھڑپیں واقع ہوچکی تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی تھی فریقین کو ہر قت کسی مزی جنگ کا خطرہ در پیش رہتا تھا مکہ کے مسلمان بھاگ بھاگ کر مدینہ طیبہ آ رہے تھے مگر قریش حتی الامکان ان کو روک رہے تھے اس دوران میں حضور ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ بمع صحابہ ؓ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر کا خواب تو وحی الٰہی کی ایک قسم ہے اور یہ سچا ہوتا ہے اور پھر آگے آیت 370 میں اس کی توثیق بھی آ رہی ہے۔ حضور ﷺ نے اس خواب سے یہ اخذ کیا کہ انہیں عمرہ کی سعادت اسی سال نصیب ہو رہی ہے ، لہٰذا آپ نے صحابہ ؓ میں عمرہ کے لیے تیاری کا اعلان فرما دیا اور آس پاس کے قبائل میں پیغام بھیج دیا کہ ہم عمرہ کے لیے جا رہے ہیں ، جو کوئی جانا چاہے ہمارے ساتھ جاسکتا ہے۔ ذی قعدہ کے آغاز میں تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد پر مشتمل یہ قافلہ عمرہ کے لیے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوا ۔ ہدی کے اونٹ ہمراہ لیے ۔ ذوالحلیفہ سے احرام باندھا اور لبیک لبیک پکارتے ہوئے سفر شروع کردیا ۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کا یہ دستور تھا کہ وہ حج وعمرہ کے لیے آنے والے کسی شخص کو نہیں روکتے تھے ۔ خواہ وہ ان کا کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو ۔ اس کے باوجود حضور ﷺ نے مکہ میں اپنا ایک قاصد روانہ فرمایا تا کہ قریش کو بتلا دیا جائے کہ ہم لوگ عمرہ ادا کرنے کے لیے آ رہے ہیں ، ہمارا نہ کوئی سیاسی مقصد ہے اور نہ ہی ہم لڑائی کی نیت سے چلے ہیں ہم نے احرام باندھ رکھے ہیں اور قربانی کے جانور ساتھ ہیں ، لہٰذا ہمارے راستے میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہونی چاہئے۔ جب یہ خبر قریش مکہ کو پہنچی تو وہ سخت سٹ پٹائے۔ دستور کے مطابق وہ روک بھی نہیں سکتے تھے ، مگر وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتے تھے کہ مسلمان عمرہ ادا کریں۔ مسلمانوں کی یہ جماعت جب مکہ معظمہ سے دس بارہ میل کے فاصلے پر حدیبیہ کے مقام پر پہنچی جسے آج کل شمییہ بھی کہتے ہیں تو مشرکین کی طرف سے اطلاع ملی کہ وہ مسلمانوں کو عمرہ ادا کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں اور اگر مسلمان بضد ہوئے تو وہ جنگ کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا تا کہ وہ قریش مکہ کو باور کرا سکیں کہ ہم صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں ۔ جس کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ لہٰذا وہ ہمارے راستے میں مزاحم نہ ہوں ۔ مشرکین یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو پیش کش کی کہ اگر وہ چاہیں تو عمرہ ادا کرسکتے ہیں مگر باقی مسلمانوں کو یہاں نہیں آنے دیں گے ۔ حضرت عثمان ؓ نے ان کے کی یہ پیش کش قبو ل نہ کی اور فرمایا کہ جب تک حضور ﷺ اور باقی مسلمان عمرہ اد انہیں کریں گے ، وہ بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ اس دوران میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ مشرکین نے حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا ہے یہ خبر ملنے پر حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اگر یہ خبر درست ہے تو پھر ہم حضرت عثمان ؓ کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ اگرچہ ہم جنگ کے لیے نہیں آئے اور نہ ہمارے پاس سامان ضرب و حرب ہے ، مگر ہم اس قتل کو برداشت نہیں کرسکتے ، خواہ ہم سارے کے سارے شہید ہوجائیں ۔ چناچہ اس مقصد کے لیے ایک درخت کے نیچے آپ نے بیعت لی ۔ جو بیت رضوان کے نام سے مشہور ہے اور جس کا ذکر اس سورة میں بھی آ رہا ہے ۔ اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر غلط ثابت ہوئی اور قریش مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کی پیش کش کی جس کے لیے انہوں نے بڑی کڑی شرائط رکھیں جن کا ذکر احادیث میں موجود ہے اور وہ یہ تھیں ۔ (1) یہ صلح دس سال تک نافذ العمل رہے گی اور اس دوران فریقین ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا اعلانیہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ (2) اس دوران اگر قریش کا کوئی آدمی بھاگ کر مدینہ چلا جائے گا ۔ تو اسے واپس کردیا جائے گا ۔ اگر حضور کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص قریش کے پاس آ جائیگاتو اسے واپس نہیں کیا جائے گا ۔ (3) عرب قبائل میں سے جو جس فریق کا حلیف بننا چاہئے اسے اختیار ہوگا ۔ (4) مسلمان اس سال عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال صرف تین دن ٹھہر کر عمرہ ادا کرسکیں گے۔ مسلمانوں کو یہ شرائط بالکل پسند نہیں تھیں مگر حضور ﷺ نے ان کو منظور کرلیا ۔ اس دوران کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جن سے حضور ﷺ کے فیصلے کی تائید ہوتی تھی ۔ مثلاً حدیبیہ کے مقام پر آ کر حضور ﷺ کی اونٹنی خود بخود رک گئی اور کوشش کے باوجود آگے چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی ۔ آپ نے فرمایا حیسھا حابس الفیل اس اونٹنی کو اسی ذات نے یہاں روک دیا ہے۔ جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو منیٰ کے قریب روک دیا تھا اور انہوں نے مکہ پر چڑھائی سے انکار کردیا تھا۔ اور پھر چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اللہ نے حملہ آور لوگوں کو تہس نہس کردیا ۔ بہر حال صلح کا یہ معاہدہ طے پا گیا ۔ حضور ﷺ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ قربانی کے جو جانور ساتھ لائے ہیں۔ وہ اسی مقام پر ذبح کر کے احرام کھول دیے جائیں ۔ صحابہ ؓ نے تعمیل حکم کی اور اس کے بعد قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ راستے میں یہ سورة فتح نازل ہوئی ۔ جس میں اللہ نے فتح کی بشارت سنائی۔ آپ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ آج رات مجھ پر ایک سورة نازل ہوئی ہے احب الی من الدنیا وما فیھا جو مجھے دنیا اور مافیہا سے زیادہ پیاری ہے۔ آپ نے یہ سورة تلاوت فرمائی تو صحابہ ؓ کا غم دور ہوگیا اور وہ سمجھ گئے کہ اگرچہ معاہدہ حدیبیہ بظاہر مسلمانوں کے خلاف جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسی میں اہل ایمان کی بہتری رکھ دی ہے۔ یہ ذیقعد ہ 6ھ کا واقعہ ہے ۔ اس کے تین ماہ بعد یعنی 7ھ کے آغاز میں اللہ نے مسلمانوں کو خیبر فتح کرایا ۔ جس کی وجہ سے وہاں کی ساری زمین ، باغات اور مال و دولت مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔ بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پہلا انعام تھا جس سے مسلمان خوشحال ہوگئے پھر اسی سال حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ نے عمرہ قضا ادا کیا ۔ آپ ذی قعدہ کے مہینہ میں انہی صحابہ ؓ کو ہمراہ لے کر مکہ پہنچے جو بیعت رصوان میں شامل تھے۔ شرائط صلح کے مطابق مسلمانوں نے مکہ میں تین دن قیام کیا اور پھر واپس مدینہ چلے گئے ، یہ عمرۃ القضاء کہلاتا ہے۔ مضامین سورة مذکور ہ پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں پیش آنے والے دس واقعات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ واقعہ حدیبیہ کے ضمن میں بیعت رضوان کا ذکر اور پھر معاہدہ صلح کا تذکرہ بھی آیا ہے۔ حضور ﷺ کو آنے والے خواب کا ذکر ہے اور ساتھ صحابہ کرام ؓ کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ منافقین کا تعاقب اس سورة مبارکہ میں بھی کیا گیا ہے۔ ان کی سازشوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے اور پھر ان کو سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔ حدیبیہ کی طرف روانگی کے وقت آپ نے بعض دیہاتی منافقوں کو بھی چلنے کی دعوت دی تھی مگر وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان دشمن کے گھر میں خود چل کر جا رہے ہیں ۔ یہ زندہ واپس نہیں آئیں گے ۔ لہٰذا انہوں نے عمرہ کی ادائیگی کے لیے جانے سے انکار کردیا ۔ پھر جب آپ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں مسلمانوں کی فتح کا یقین تھا۔ لہٰذا مال حاصل کرنے کا لالچ میں انہوں نے ساتھ چلنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر حضور ﷺ نے منع فرمایا اور کہا کہ ہمارے ساتھ وہی لوگ جائیں گے جو واقعہ حدیبیہ کے وقت گئے تھے ، اس طرح یہ منافق خیبر کے مال سے مستفید نہ ہو سکے ، یہ واقعات بھی اس سورة میں اشارۃ ً مذکور ہیں۔ اس سورة مبارکہ میں اصلاح کے پہلو پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ انفرادی طور پر اصلاح کا آغاز عقیدے سے ہوتا ہے۔ پہلے انسان کے عقیدے کی اصلاح ہو ، پھر عمل کی اور پھر اخلاق کی ۔ اس کے بعد اجتماعی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر جو لوگ اصلاحی پروگرام کو قبول نہیں کرتے ، ان کے ساتھ جنگ کرنا پڑتی ہے ذاتی اصلاح کے بعد قریبی رشتہ داروں کی اصلاح درکار ہوتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو حکم دیا وانذر عشیرتک الاقربین ( الشعرائ : 214) آپ اپنی قریبی رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں تا کہ ان کی اصلاح ہوجائے۔ اس کے بعد پھر پوری قوم کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (یوسف : 2) ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا تا کہ تم سمجھ جائو ۔ اللہ کے پیغمبر کی زبان عربی ، آپ کی قوم کی زبان عربی ، لہٰذا اللہ نے قرآن کو بھی عربی زبان میں نازل فرمایا تا کہ اس کے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے اور مسلمانوں کی ایک اولین جماعت تیار ہوجائے جو اس قرآن کے پروگرام کو لے کر دنیا میں پھیل جائے ، تا کہ ساری دنیا کی اصلاح ہوجائے ، غرضیکہ سورة ہذا میں یہ ساری باتیں آگئی ہیں۔ فتح مبین ارشاد ہوتا ہے انا فتحنالک فتحا مبیناً بیشک ہم نے آپ کو ( اے پیغمبر ! ) کھلی فتح سے نوازا ہے ، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ معاہدہ حدیبیہ دس سال کے لیے کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے تو اس معاہدہ کی پوری پوری پاسداری کی مگر خود مشرکین جن کی شرائط پر معاہدہ ہوا تھا اسے قائم نہ رکھ سکے اور انہوں نے خود ہی اس کو توڑ دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 8ھ میں اللہ نے مکہ کو فتح کرا دیا ۔ چناچہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مذکورہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے۔ جس کی بشارت اللہ تعالیٰ نے سنا دی تھی ، مگر یہ درست نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ لوگ فتح مکہ کو فتح مبین سمجھتے ہیں ۔ مگر ہم صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس صلح کی وجہ سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا ، راستے کھل گئے ۔ جس کی وجہ سے جب لوگوں نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کے حالات دیکھے تو انہیں اسلام کی سچائی پر یقین آ گیا اور وہ دھڑا دھڑا اسلام میں داخل ہونے لگے ، صلح حدیبیہ دراصل اسلام کے لیے ایک پھاٹک کا کھلنا تھا کہ لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل ہوئی معاہدہ حدیبیہ دراصل پوری ملت اسلامیہ کے لیے فتح کی نوید تھی ۔ اس کے بعد خیبر فتح ہوا ۔ مکہ فتح ہوا اور پھر سارا عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔ بعض قبائل نے تھوڑی بہت مزاحمت کی جو جلد ہی ختم ہوگئی اور عربوں کی اکثریت اسلام لے آئی ، لہٰذا اس کو فتح مبین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عام معافی کی بشارت معاہدہ حدیبیہ کو فتح مبین قرار دینے کے ساتھ ساتھ اللہ نے فرمایا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر اے پیغمبر ! اللہ نے آپ کی تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں جو پہلے ہو چکیں اور جو بعد میں ہوں گی ۔ ذنب کا عام فہم معنی گناہ ہوتا ہے موٹی لغزشیں ہیں جو کبھی کبھار ہوجاتی ہیں ۔ اللہ نے ایسی معمولی خطائوں سے بھی در گزر فرمادیا ہے ، چونکہ یہ خطاب حضور ﷺ کو ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ! آپ کو یہ عافی مبارک ہو مگر ہمارے لیے اللہ کا کیا حکم ہے ؟ چناگنچہ آگے چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے بھی ایسی ہی بشارت سنا دی ۔ اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جن لوگوں نے واقعہ حدیبیہ میں حصہ لیا ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ۔ ان میں سے صرف ایک شخص کو مستثنیٰ کیا گیا ۔ جو سرخ اونٹ والا تھا ، یہ در حقیقت منافق تھا اور اس نے بیعت بھی نہیں کی تھی ۔ جن لغزشوں کی معافی کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے امام شاہ ولی اللہ (رح) اس کی توجیہہ اس طرح فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی دو حیثیتیں ہیں ۔ ایک حیثیت سے آپ اللہ کے نبی ہیں اور اس حیثیت میں آپ کی اطاعت تمام اہل ایمان پر فرض ہے ۔ آپ کی دوسری حیثیت امیر جماعت کی ہے ۔ آپ خدا کی خلیفہ بھی ہیں اور جماعت المسلمین کے امیر بھی ۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جماعت کی غلطیوں میں ان کا امیر بھی شریک سمجھا جاتا ہے۔ جماعت کو نفع ہو یا نقصان ، فتح ہو یا شکست امیر جماعت پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو اس لحاظ سے جماعت کی غلطیوں میں چونکہ امیر جماعت بھی شامل ہوتا ہے ۔ لہٰذا ایسی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ اس نے آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف فرما دی ہیں۔ اتمام نعمت اس معافی کے علاوہ اللہ نے دوسری بات یہ فرمائی ویتم نعمتہ علیک اور تا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے ۔ اس نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو نہ صرف منصب نبوت پر سرفراز فرمایا بلکہ آپ پر سلسلہ نبوت کو ختم کردیا ۔ پھر آپ کی بعثت کسی ایک قوم یا کسی خاص خطہ کی طرف نہیں بلکہ اللہ نے فرمایا وما ارسلنک الا کافۃ للناس ( سبا : 28) آپ کی بعثت تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ آپ کو اللہ نے غلبہ عامہ اور تامہ عطا فرمایا اور یہ غلبہ آپ کی امت کو بھی حاصل ہوا ۔ آپ کا لایا ہوا دین ساری دنیا میں پھیلا اور قیامت تک قائم رہے گا ۔ یہ سب انعامات ہیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ اس نے اپنی نعمت آپ پر پوری کردی ۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا ویھدیک صراط مستقیما ًاور آپ کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کی یعنی آپ اس صراط مستقیم پر قائم و دائم ہیں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ اس کے علاوہ وینصرک اللہ نصراً عزیزا ً اللہ نے آپ کی زبردست مدد فرمائی ۔ واقعہ حدیبیہ میں ہی حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی افواہ اڑ گئی مگر آپ ؓ کو اللہ نے سلامت رکھا۔ آپ ؓ بعد میں شہید ہوئے مگر اس وقت تک مسلمان قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ چکے تھے اور نصف دنیا اسلام کے زیر نگیں آچکی تھی۔ اس سے بڑی نصرت الٰہی کیا ہو سکتی ہے ؟ اللہ نے عرب کے بےسرو سامان لوگوں کو جو محض قبائلی زندگی سے واقف تھے بڑی منظم اور عظیم سلطنتوں کا مالک بنا دیا کافر و مشرک مغلوب ہوئے اور دین اسلام دنیا بھر میں پھیل گیا ۔ الغرض ! آج کے درس میں چار باتوں کا ذکر آ گیا ہے یعنی تقصیروں کی عام معافی نعمت کا اتمام ، راہ راست پر استقامت اور زبردست نصرت الٰہی ۔ اب اگلی آیات میں صحابہ کرام ؓ کو دی گئی تسلی اور ان سے کیے گئے وعدوں کا ذکر آ رہا ہے بیعت رضوان کا ذکر اس سے اگلے درس میں آگے گا ۔
Top