بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک ہم نے فتح دی ہے آپ کو کھلی فتح
نام اور کوائف اس سورة کا نام سورة الفتح ہے جو کہ اس کی پہلی اور اٹھارہویں آیت میں آمدہ لفظ فتح سے مآخوذ ہے۔ یہ سورة مدینہ منورہ میں نازل ہوئی بلکہ 6؁ھ میں حدیبیہ سے واپسی پر راستے میں نازل ہوئی ، چونکہ یہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے ، اس لیے مدنی سورة کہلاتی ہے۔ اس کی انتیس آیتیں اور چار رکوع ہیں اور یہ سورة 560 الفاظ اور 2400 حروف پر مشتمل ہے۔ تاریخی پس منظر ہجرت کا چھٹا سال جا رہا تھا۔ 5؁ھ میں غزوہ احزاب پیش آ چکا تھا۔ اس سے پہلے بدر اور احد کی جنگیں ہوچکی تھیں ۔ اس کے علاوہ بھی چھوٹی موٹی جھڑپیں واقع ہوچکی تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی تھی فریقین کو ہر قت کسی مزی جنگ کا خطرہ در پیش رہتا تھا مکہ کے مسلمان بھاگ بھاگ کر مدینہ طیبہ آ رہے تھے مگر قریش حتی الامکان ان کو روک رہے تھے اس دوران میں حضور ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ بمع صحابہ ؓ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر کا خواب تو وحی الٰہی کی ایک قسم ہے اور یہ سچا ہوتا ہے اور پھر آگے آیت 370 میں اس کی توثیق بھی آ رہی ہے۔ حضور ﷺ نے اس خواب سے یہ اخذ کیا کہ انہیں عمرہ کی سعادت اسی سال نصیب ہو رہی ہے ، لہٰذا آپ نے صحابہ ؓ میں عمرہ کے لیے تیاری کا اعلان فرما دیا اور آس پاس کے قبائل میں پیغام بھیج دیا کہ ہم عمرہ کے لیے جا رہے ہیں ، جو کوئی جانا چاہے ہمارے ساتھ جاسکتا ہے۔ ذی قعدہ کے آغاز میں تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد پر مشتمل یہ قافلہ عمرہ کے لیے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوا ۔ ہدی کے اونٹ ہمراہ لیے ۔ ذوالحلیفہ سے احرام باندھا اور لبیک لبیک پکارتے ہوئے سفر شروع کردیا ۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کا یہ دستور تھا کہ وہ حج وعمرہ کے لیے آنے والے کسی شخص کو نہیں روکتے تھے ۔ خواہ وہ ان کا کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو ۔ اس کے باوجود حضور ﷺ نے مکہ میں اپنا ایک قاصد روانہ فرمایا تا کہ قریش کو بتلا دیا جائے کہ ہم لوگ عمرہ ادا کرنے کے لیے آ رہے ہیں ، ہمارا نہ کوئی سیاسی مقصد ہے اور نہ ہی ہم لڑائی کی نیت سے چلے ہیں ہم نے احرام باندھ رکھے ہیں اور قربانی کے جانور ساتھ ہیں ، لہٰذا ہمارے راستے میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہونی چاہئے۔ جب یہ خبر قریش مکہ کو پہنچی تو وہ سخت سٹ پٹائے۔ دستور کے مطابق وہ روک بھی نہیں سکتے تھے ، مگر وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتے تھے کہ مسلمان عمرہ ادا کریں۔ مسلمانوں کی یہ جماعت جب مکہ معظمہ سے دس بارہ میل کے فاصلے پر حدیبیہ کے مقام پر پہنچی جسے آج کل شمییہ بھی کہتے ہیں تو مشرکین کی طرف سے اطلاع ملی کہ وہ مسلمانوں کو عمرہ ادا کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں اور اگر مسلمان بضد ہوئے تو وہ جنگ کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا تا کہ وہ قریش مکہ کو باور کرا سکیں کہ ہم صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں ۔ جس کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ لہٰذا وہ ہمارے راستے میں مزاحم نہ ہوں ۔ مشرکین یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو پیش کش کی کہ اگر وہ چاہیں تو عمرہ ادا کرسکتے ہیں مگر باقی مسلمانوں کو یہاں نہیں آنے دیں گے ۔ حضرت عثمان ؓ نے ان کے کی یہ پیش کش قبو ل نہ کی اور فرمایا کہ جب تک حضور ﷺ اور باقی مسلمان عمرہ اد انہیں کریں گے ، وہ بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ اس دوران میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ مشرکین نے حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا ہے یہ خبر ملنے پر حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اگر یہ خبر درست ہے تو پھر ہم حضرت عثمان ؓ کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ اگرچہ ہم جنگ کے لیے نہیں آئے اور نہ ہمارے پاس سامان ضرب و حرب ہے ، مگر ہم اس قتل کو برداشت نہیں کرسکتے ، خواہ ہم سارے کے سارے شہید ہوجائیں ۔ چناچہ اس مقصد کے لیے ایک درخت کے نیچے آپ نے بیعت لی ۔ جو بیت رضوان کے نام سے مشہور ہے اور جس کا ذکر اس سورة میں بھی آ رہا ہے ۔ اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر غلط ثابت ہوئی اور قریش مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کی پیش کش کی جس کے لیے انہوں نے بڑی کڑی شرائط رکھیں جن کا ذکر احادیث میں موجود ہے اور وہ یہ تھیں ۔ (1) یہ صلح دس سال تک نافذ العمل رہے گی اور اس دوران فریقین ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا اعلانیہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ (2) اس دوران اگر قریش کا کوئی آدمی بھاگ کر مدینہ چلا جائے گا ۔ تو اسے واپس کردیا جائے گا ۔ اگر حضور کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص قریش کے پاس آ جائیگاتو اسے واپس نہیں کیا جائے گا ۔ (3) عرب قبائل میں سے جو جس فریق کا حلیف بننا چاہئے اسے اختیار ہوگا ۔ (4) مسلمان اس سال عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال صرف تین دن ٹھہر کر عمرہ ادا کرسکیں گے۔ مسلمانوں کو یہ شرائط بالکل پسند نہیں تھیں مگر حضور ﷺ نے ان کو منظور کرلیا ۔ اس دوران کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جن سے حضور ﷺ کے فیصلے کی تائید ہوتی تھی ۔ مثلاً حدیبیہ کے مقام پر آ کر حضور ﷺ کی اونٹنی خود بخود رک گئی اور کوشش کے باوجود آگے چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی ۔ آپ نے فرمایا حیسھا حابس الفیل اس اونٹنی کو اسی ذات نے یہاں روک دیا ہے۔ جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو منیٰ کے قریب روک دیا تھا اور انہوں نے مکہ پر چڑھائی سے انکار کردیا تھا۔ اور پھر چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اللہ نے حملہ آور لوگوں کو تہس نہس کردیا ۔ بہر حال صلح کا یہ معاہدہ طے پا گیا ۔ حضور ﷺ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ قربانی کے جو جانور ساتھ لائے ہیں۔ وہ اسی مقام پر ذبح کر کے احرام کھول دیے جائیں ۔ صحابہ ؓ نے تعمیل حکم کی اور اس کے بعد قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ راستے میں یہ سورة فتح نازل ہوئی ۔ جس میں اللہ نے فتح کی بشارت سنائی۔ آپ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ آج رات مجھ پر ایک سورة نازل ہوئی ہے احب الی من الدنیا وما فیھا جو مجھے دنیا اور مافیہا سے زیادہ پیاری ہے۔ آپ نے یہ سورة تلاوت فرمائی تو صحابہ ؓ کا غم دور ہوگیا اور وہ سمجھ گئے کہ اگرچہ معاہدہ حدیبیہ بظاہر مسلمانوں کے خلاف جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسی میں اہل ایمان کی بہتری رکھ دی ہے۔ یہ ذیقعد ہ 6؁ھ کا واقعہ ہے ۔ اس کے تین ماہ بعد یعنی 7؁ھ کے آغاز میں اللہ نے مسلمانوں کو خیبر فتح کرایا ۔ جس کی وجہ سے وہاں کی ساری زمین ، باغات اور مال و دولت مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔ بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پہلا انعام تھا جس سے مسلمان خوشحال ہوگئے پھر اسی سال حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ نے عمرہ قضا ادا کیا ۔ آپ ذی قعدہ کے مہینہ میں انہی صحابہ ؓ کو ہمراہ لے کر مکہ پہنچے جو بیعت رصوان میں شامل تھے۔ شرائط صلح کے مطابق مسلمانوں نے مکہ میں تین دن قیام کیا اور پھر واپس مدینہ چلے گئے ، یہ عمرۃ القضاء کہلاتا ہے۔ مضامین سورة مذکور ہ پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں پیش آنے والے دس واقعات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ واقعہ حدیبیہ کے ضمن میں بیعت رضوان کا ذکر اور پھر معاہدہ صلح کا تذکرہ بھی آیا ہے۔ حضور ﷺ کو آنے والے خواب کا ذکر ہے اور ساتھ صحابہ کرام ؓ کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ منافقین کا تعاقب اس سورة مبارکہ میں بھی کیا گیا ہے۔ ان کی سازشوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے اور پھر ان کو سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔ حدیبیہ کی طرف روانگی کے وقت آپ نے بعض دیہاتی منافقوں کو بھی چلنے کی دعوت دی تھی مگر وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان دشمن کے گھر میں خود چل کر جا رہے ہیں ۔ یہ زندہ واپس نہیں آئیں گے ۔ لہٰذا انہوں نے عمرہ کی ادائیگی کے لیے جانے سے انکار کردیا ۔ پھر جب آپ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں مسلمانوں کی فتح کا یقین تھا۔ لہٰذا مال حاصل کرنے کا لالچ میں انہوں نے ساتھ چلنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر حضور ﷺ نے منع فرمایا اور کہا کہ ہمارے ساتھ وہی لوگ جائیں گے جو واقعہ حدیبیہ کے وقت گئے تھے ، اس طرح یہ منافق خیبر کے مال سے مستفید نہ ہو سکے ، یہ واقعات بھی اس سورة میں اشارۃ ً مذکور ہیں۔ اس سورة مبارکہ میں اصلاح کے پہلو پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ انفرادی طور پر اصلاح کا آغاز عقیدے سے ہوتا ہے۔ پہلے انسان کے عقیدے کی اصلاح ہو ، پھر عمل کی اور پھر اخلاق کی ۔ اس کے بعد اجتماعی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر جو لوگ اصلاحی پروگرام کو قبول نہیں کرتے ، ان کے ساتھ جنگ کرنا پڑتی ہے ذاتی اصلاح کے بعد قریبی رشتہ داروں کی اصلاح درکار ہوتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو حکم دیا وانذر عشیرتک الاقربین ( الشعرائ : 214) آپ اپنی قریبی رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں تا کہ ان کی اصلاح ہوجائے۔ اس کے بعد پھر پوری قوم کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (یوسف : 2) ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا تا کہ تم سمجھ جائو ۔ اللہ کے پیغمبر کی زبان عربی ، آپ کی قوم کی زبان عربی ، لہٰذا اللہ نے قرآن کو بھی عربی زبان میں نازل فرمایا تا کہ اس کے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے اور مسلمانوں کی ایک اولین جماعت تیار ہوجائے جو اس قرآن کے پروگرام کو لے کر دنیا میں پھیل جائے ، تا کہ ساری دنیا کی اصلاح ہوجائے ، غرضیکہ سورة ہذا میں یہ ساری باتیں آگئی ہیں۔ فتح مبین ارشاد ہوتا ہے انا فتحنالک فتحا مبیناً بیشک ہم نے آپ کو ( اے پیغمبر ! ) کھلی فتح سے نوازا ہے ، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ معاہدہ حدیبیہ دس سال کے لیے کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے تو اس معاہدہ کی پوری پوری پاسداری کی مگر خود مشرکین جن کی شرائط پر معاہدہ ہوا تھا اسے قائم نہ رکھ سکے اور انہوں نے خود ہی اس کو توڑ دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 8؁ھ میں اللہ نے مکہ کو فتح کرا دیا ۔ چناچہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مذکورہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے۔ جس کی بشارت اللہ تعالیٰ نے سنا دی تھی ، مگر یہ درست نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ لوگ فتح مکہ کو فتح مبین سمجھتے ہیں ۔ مگر ہم صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس صلح کی وجہ سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا ، راستے کھل گئے ۔ جس کی وجہ سے جب لوگوں نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کے حالات دیکھے تو انہیں اسلام کی سچائی پر یقین آ گیا اور وہ دھڑا دھڑا اسلام میں داخل ہونے لگے ، صلح حدیبیہ دراصل اسلام کے لیے ایک پھاٹک کا کھلنا تھا کہ لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل ہوئی معاہدہ حدیبیہ دراصل پوری ملت اسلامیہ کے لیے فتح کی نوید تھی ۔ اس کے بعد خیبر فتح ہوا ۔ مکہ فتح ہوا اور پھر سارا عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔ بعض قبائل نے تھوڑی بہت مزاحمت کی جو جلد ہی ختم ہوگئی اور عربوں کی اکثریت اسلام لے آئی ، لہٰذا اس کو فتح مبین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عام معافی کی بشارت معاہدہ حدیبیہ کو فتح مبین قرار دینے کے ساتھ ساتھ اللہ نے فرمایا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر اے پیغمبر ! اللہ نے آپ کی تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں جو پہلے ہو چکیں اور جو بعد میں ہوں گی ۔ ذنب کا عام فہم معنی گناہ ہوتا ہے موٹی لغزشیں ہیں جو کبھی کبھار ہوجاتی ہیں ۔ اللہ نے ایسی معمولی خطائوں سے بھی در گزر فرمادیا ہے ، چونکہ یہ خطاب حضور ﷺ کو ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ! آپ کو یہ عافی مبارک ہو مگر ہمارے لیے اللہ کا کیا حکم ہے ؟ چناگنچہ آگے چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے بھی ایسی ہی بشارت سنا دی ۔ اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جن لوگوں نے واقعہ حدیبیہ میں حصہ لیا ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ۔ ان میں سے صرف ایک شخص کو مستثنیٰ کیا گیا ۔ جو سرخ اونٹ والا تھا ، یہ در حقیقت منافق تھا اور اس نے بیعت بھی نہیں کی تھی ۔ جن لغزشوں کی معافی کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے امام شاہ ولی اللہ (رح) اس کی توجیہہ اس طرح فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی دو حیثیتیں ہیں ۔ ایک حیثیت سے آپ اللہ کے نبی ہیں اور اس حیثیت میں آپ کی اطاعت تمام اہل ایمان پر فرض ہے ۔ آپ کی دوسری حیثیت امیر جماعت کی ہے ۔ آپ خدا کی خلیفہ بھی ہیں اور جماعت المسلمین کے امیر بھی ۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جماعت کی غلطیوں میں ان کا امیر بھی شریک سمجھا جاتا ہے۔ جماعت کو نفع ہو یا نقصان ، فتح ہو یا شکست امیر جماعت پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو اس لحاظ سے جماعت کی غلطیوں میں چونکہ امیر جماعت بھی شامل ہوتا ہے ۔ لہٰذا ایسی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ اس نے آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف فرما دی ہیں۔ اتمام نعمت اس معافی کے علاوہ اللہ نے دوسری بات یہ فرمائی ویتم نعمتہ علیک اور تا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے ۔ اس نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو نہ صرف منصب نبوت پر سرفراز فرمایا بلکہ آپ پر سلسلہ نبوت کو ختم کردیا ۔ پھر آپ کی بعثت کسی ایک قوم یا کسی خاص خطہ کی طرف نہیں بلکہ اللہ نے فرمایا وما ارسلنک الا کافۃ للناس ( سبا : 28) آپ کی بعثت تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ آپ کو اللہ نے غلبہ عامہ اور تامہ عطا فرمایا اور یہ غلبہ آپ کی امت کو بھی حاصل ہوا ۔ آپ کا لایا ہوا دین ساری دنیا میں پھیلا اور قیامت تک قائم رہے گا ۔ یہ سب انعامات ہیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ اس نے اپنی نعمت آپ پر پوری کردی ۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا ویھدیک صراط مستقیما ًاور آپ کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کی یعنی آپ اس صراط مستقیم پر قائم و دائم ہیں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ اس کے علاوہ وینصرک اللہ نصراً عزیزا ً اللہ نے آپ کی زبردست مدد فرمائی ۔ واقعہ حدیبیہ میں ہی حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی افواہ اڑ گئی مگر آپ ؓ کو اللہ نے سلامت رکھا۔ آپ ؓ بعد میں شہید ہوئے مگر اس وقت تک مسلمان قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ چکے تھے اور نصف دنیا اسلام کے زیر نگیں آچکی تھی۔ اس سے بڑی نصرت الٰہی کیا ہو سکتی ہے ؟ اللہ نے عرب کے بےسرو سامان لوگوں کو جو محض قبائلی زندگی سے واقف تھے بڑی منظم اور عظیم سلطنتوں کا مالک بنا دیا کافر و مشرک مغلوب ہوئے اور دین اسلام دنیا بھر میں پھیل گیا ۔ الغرض ! آج کے درس میں چار باتوں کا ذکر آ گیا ہے یعنی تقصیروں کی عام معافی نعمت کا اتمام ، راہ راست پر استقامت اور زبردست نصرت الٰہی ۔ اب اگلی آیات میں صحابہ کرام ؓ کو دی گئی تسلی اور ان سے کیے گئے وعدوں کا ذکر آ رہا ہے بیعت رضوان کا ذکر اس سے اگلے درس میں آگے گا ۔
Top