Mualim-ul-Irfan - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
اے لوگو ! بیشک ہم نے پیدا کیا تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے ، اور بنائے ہیں ہم نے تمہارے لیے شعوب اور قبیلے تا کہ تم آپس میں متعارف ہو سکو بیشک تم میں سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جانے والا ہے ، اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے
ربط آیات اب تک گیارہ اصول بیان ہوچکے ہیں جو انسانی معاشرہ کی درستگی کے لیے ضروری ہے۔ ان اصولوں پر عمل کرنے سے جھگڑے ، تنازعے اور اختلافات نہیں پیدا ہوتے اور جماعتی اور ملکی نظم و نسق خوش اسلوبی سے قائم رہتا ہے۔ یہ صوابط اس طرح بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو۔ (2) ہر حالت میں ڈرتے رہو۔ (3) پیغمبر اسلام کی آواز سے اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو (4) آوازوں کو پست رکھنا حصول تقویٰ کا ذریعہ ہے (5) ہر فاسق کی خبر کی تحقیق کرلیا کرو (6) مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان اگر تنازعہ ہوجائے تو صلح کرا دیا کرو (7) ایک دوسرے سے ہنسی مذاق نہ کیا کرو (8) ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور برے القاب سے ایک دوسرے کو نہ پکارو (9) بد گمانی سے بچتے رہو (10) تجسس نہ کرو (11) غیبت نہ کرو ، اب آج کی آیت میں بارہواں اصول یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ قبیلے ، خاندان ، برادری اور رنگ و نسل کی بناء پر ایک دوسرے پر فخر نہ کرو ۔ بلکہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ با عزت وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ نسل انسانی کی تخلیق ارشاد ہوتا ہے یا یھا الناس اے لوگو ! انا خلقنکم من ذکر و انثی بیشک ہم نے پیدا کیا ہے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے ۔ انسان خواہ کسی رنگ اور نسل کے ہوں ، کسی ملک کے رہنے والے ہوں ، یا کوئی زبان بولتے ہوں ، وہ سارے کے سارے ایک مرد اور ایک عورت یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کی اولاد ہیں ۔ سورة النساء کی ابتدائی آیت میں اللہ کا فرمان ہے کہ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرجائو الذی خلقکم من نفس واحدۃ جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا یعنی آدم (علیہ السلام) سے ، پہلے آدم (علیہ السلام) سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اس جوڑے سے ساری نسل انسانی کو تخلیق کیا ۔ یہ نسل آئندہ بھی تا قیام قیامت پھلیتی ہی رہیگی ۔ سورة الملک میں فرمایا ھو الذین ذراکم فی الارض والیہ تحشرون ( آیت : 24) خدا کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ، اور پھر تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جائو گے ۔ اب کوئی سید بنے یا پٹھان ، مغل بنے یا صدیقی فاروقی وغیرہ مگر حقیقت میں یہ سب ایک ہی جوڑے کی اولاد ہیں ۔ اس سے کئی باطل مذاہب کی تردید ہوتی ہے۔ مثلاً ہنود چار ذاتوں کے قائل ہیں جن میں بعض کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور بعض کو حقیر سمجھا جاتا ہے ان کے عقیدے کے مطابق برہمن برہماجی کے منہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ اس لیے وہ باعزت ہیں اور شودر اس کے پائوں سے پیدا ہوئے ہیں اس لیے حقیر ہیں ۔ اس طرح انہوں نے نسل انسانی کی چار ذاتوں یعنی برہمن ، کھتری ، ویش اور شودر میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ان کا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ انسان ایک ایک جوڑے سے ایک ایک کر کے پیدا نہیں ہوئے بلکہ جب سے کائنات پیدا ہوئی ہے ہر سر شتی ( دور ) میں اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو بیک وقت پیدا کرتا ہے اور پھر ان میں سے چار کو منتخب کر کے چار صحیفے دیتا ہے ۔ یہ نظریہ بھی غلط ہے ، اور صحیح بات وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں ڈارون کی تھیوری بھی غلط ہے ۔ پچھلی صدی کے اس سائنسدان نے یہ ثابت کر نیکی کوشش کی تھی کہ انسان ابتداء میں بندر تھے۔ پھر ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے ۔ اس نظریہ کی تردید یورپی سائنس دانوں نے بھی کی ہے۔ اسی ڈارون کے نظریہ کو پرویز نے بھی اختیار کیا ہے ، وہ بھی کہتا ہے کہ اولین انسان ایک نہیں تھا بلکہ سب سے پہلے پوری نوع انسانی پیدا ہوئی تھی۔ یہ شخص کوئی بلند پایہ آدمی نہیں تھا بلکہ محض قلم چلانے کا عادی تھا ، جو ذہن میں آیا لکھ دیا ۔ اس نے قرآن کی تفسیر کے نام پر بھی گمراہی کی بہت سی باتیں چلائی ہیں جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ۔ شعوب اور قبائل فرمایا لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا وجعلنکم شعوبا ً و قبائل اور پھر تمہارے شعوب اور قبائل یعنی چھوٹے اور بڑے قبیلے بنا دیے۔ شعوب شعب کی جمع ہے جس کا معنی بڑا قبیلہ ہے ، اور پھر اس کے نیچے بہت سی شاخیں نکلتی ہیں ۔ شعب کے نیچے قبیلہ آتا ہے ، پھر عمارہ ، پھر فخذ ، پھر بطن ، پھر فیصلہ ، پھر اسرۃ اور پھر عائلہ جس سے مراد ایک خاندان یا فیملی ہوتا ہے۔ فرمایا یہ خاندان اور قبیلے ہم نے اس لیے نہیں بنائے کہ تم اس قبیلے کی وجہ سے ایک دوسرے پر فخر کرو ۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ لتعارفوا تا کہ تم آپس میں متعارف رہو ایک دوسرے کو پہچان سکو کہ یہ فلاں قبیلے کا آدمی ہے اور یہ فلاں خاندان کا فرد ہے ، جب لوگ قبیلے کی بناء پر اپنے آپ کو بعض دوسروں پر فوقیت دینے لگتے ہیں ، تو دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں ۔ ان سے طعن تشنیع کرتے ہیں ، عیب جوئی کرتے ہیں اور پھر لڑائیاں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ ہم نے یہ تقسیم قبائل محض تعارف کے لیے بنائی ہے۔ اس سے غلط مطلب نہیں لینا چاہئے۔ بعض خاندانوں کو اللہ نے ان کے بعض خصائل کی وجہ سے خود شرف بخشا ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اولاد کو منتخب فرمایا ۔ پھر اس میں سے قریش کو اور پھر قریش میں بنو ہاشم کو منتخب کر کے اس میں سے مجھے منتخب فرمایا ۔ اس انتخاب کی وجہ سے وہ خاص خصوصیات ہیں جو دوسرے خاندانوں میں نہیں پائی جاتیں ۔ سیرت نگاہ اور مؤرخین لکھتے ہیں اور یہ چیز احادیث سے بھی ثابت ہے کہ حضور ﷺ سے لیکر حضرت آدم (علیہ السلام) تک پورا خاندانی نسب بالکل پاک صاف ہے اور اس میں بد کاری کی کوئی آلائش نہیں ہے یہی خصوصیت ہے جسکی وجہ سے آپ کے خاندان کو دیگر خاندانوں پر شرف حاصل ہے ، مگر اس شرف کا حاصل یہ ہونا چاہئے کہ اس خاندان کے لوگ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں ، نہ کہ دوسروں کو حقیر سمجھیں ، حقیقت میں تمام شعوب اور قبائل کی جڑ بنیاد تو ایک مرد اور ایک عورت ہی ہیں لہٰذا کسی کو روا نہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے فخر کا اظہار کرے۔ امام جعفر صادق (رح) سے منقول ہے کہ جب کوئی شخص ان کی تعریف کرتا کہ آپ حضور ﷺ کے اہل بیت میں سے ہیں تو آپ نہایت عاجزی کے ساتھ جواب دیتے کہ یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس خاندان میں پیدا فرمایا ہے۔ مگر میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا کیونکہ اگر قیامت والے دن حضور ﷺ نے پوچھ لیا کہ اللہ نے تمہیں جو شرف بخشا تھا تو نے اسے قائم کیوں نہ رکھا یعنی بنی نوع انسان کی خدمت کیوں نہیں کی تو میرے پاس کیا جواب ہوگا ؟ میں تو بہت شرمسار ہوں ۔ اسی سلسلے میں صحیح احادیث میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے تعلموا من انسابکم ما تصلون بہ ارحاکم اپنے نسب میں سے کم از کم اتنا سیکھ لو جس سے تم صلہ رحمی کرسکو ۔ خاندان سے تعلق تو محض تمہارا تعارف ہے۔ اگر آپ کے دور کے رشتے دار ہیں تو ان کا تم پر اخلاقی حق ہوگا ، اور اگر قریبی رشتہ دار ہیں تو وراثت میں ان کا حق پہچاننا ضروری ہے۔ نیز تکلیف اور پریشانی میں ان کی مالی ، اخلاقی اور جسمانی مدد بھی کرنا لازمی ہے۔ صلہ رحمی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے خاندان میں محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ مال میں اضافہ فرماتا ہے ۔ یہی چیز انسان کے آثار کو دیر تک قائم رکھتی ہے ۔ نیک نامی اور شہرت بھی صلہ رحمی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ فخر کرنے کی ممانعت حضرت حذیفہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کلکم بنو آدم وآدم خلقہ من تراب تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور ان کو اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا لہٰذا لینتھین اقوام یفتخرون باباء ھم جو لوگ اپنے ابائو اجداد پر فخر کرتے ہیں وہ اس حرکت سے باز آجائیں ۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ اپنے ان آبائو اجداد کے ساتھ فخر کرنا ترک کردیں جو جہنم کے کوئلے بنے ہوئے ہیں ، وگرنہ لیکونن اھون علی اللہ من الجعل الذی یدھہ الخراء بانفہ یہ متکبر لوگ اس کالے کپڑے سے بھی ذلیل ہوں گے ۔ جو غلاظت کی گولیاں بنا بنا کر اپنی ناک کے ساتھ لڑ بھکاتا ہے دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اہل ایمان کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ لا یفخر بعضکم علی بعض تم میں سے بعض دوسروں پر فخر نہ کریں ، بلکہ ہمیشہ تواضع اور انکساری کو اختیار کرو۔ صحیح روایت میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے ، لہٰذا تمہارا فرض ہے اللہ کی منشاء کے خلاف دل میں بھی کوئی بات نہ لائو ، وہ تو تمہارے عقیدے اخلاص اور نیت کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسے ہیں اور تم اعمال کس قسم کے انجام دے رہے ہو ۔ انسان کا شرف نسل اور خاندان کی بناء پر نہیں بلکہ عقیدے اور عمل کی بناء پر ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حسب سے سوسائٹی کا تفوق ہوتا ہے بعض آدمی سوسائٹی کے اعتبار سے بلند سمجھے جاتے ہیں ۔ حسب مال سے پیدا ہوتا ہے جب کہ شرف اور بزرگی تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان میں تقویٰ موجود ہے تو اسے عزت اور تکریم بھی حاصل ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضور ﷺ نے نسلی تفاخر کے خاتمے کے لیے حضرت بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم دیا۔ بعض مشرکوں کے لیے یہ بڑا ناگوار گزرا کہ بلا ل ؓ حبشی نسل کا ہو کر خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دے گا ۔ بعض مشرکین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اچھا ہوا میرا باپ مر گیا ہے ورنہ وہ ایسا ذلت ناک منظر نہ دیکھ سکتا ۔ بعض نے کہا ، خاموش رہو ، اللہ تعالیٰ ہماری اس حالت کو ضرور ظاہر کر دے گا ۔ بہر حال جب بلال ؓ نے اذان پڑھی تو حضور ﷺ نے یہی آیت تلاوت فرمائی یایھا الناس اناخلقنکم ۔۔۔۔ الایۃ اس موقع پر حضور ﷺ نے خطبہ بھی ارشاد فرمایا یایھا الناس ان اللہ قد اذھب عنکم عبیۃ الجاھلیۃ وتعظمھا باباء ھا لوگو ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے زمانہ کی نخوت کو دور کردیا ہے اور آبائو اجداد کے نام سے نخوت و غرور کو بھی ختم کردیا ہے۔ رنگ و نسل کا امتیاز اب دو قسم کے لوگ ہوں گے برتقی نیک اور متقی او فاجر شقی ھین علی اللہ یا فاجر اور بد بخت ہوں گے جو خدا تعالیٰ کے سامنے ذلیل ہوں گے۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا الناس بنو ادم تمام انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں ۔ وخلق ادم من تراب اور آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی یا یھا الناس انا خلقنکم ۔۔۔۔ ان اکرمکم عد اللہ اتقکم تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے اس سلسلے میں ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال (رح) نے بھی کہا ہے۔ بتان رنگ و بود کو چھوڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی نہ افغانی نہ ایرانی رنگ و نسل کا یہ تفاوت سرخ ، سفید ، زرد اور سیاہ رنگ کے بت ہیں اور اس بت پرستی میں مشرق و مغرب کے سبھی لوگ شامل ہیں ، کوئی جاہلیت کی وجہ سے اور کوئی نخوت جاہلیت کی وجہ سے۔ چناچہ امریکہ میں آج بھی سفید فام لوگ سیاہ رنگ والوں کو ذلیل اور حقیر سمجھتے ہیں ۔ دونوں اقسام کے لوگوں کو ہوٹل الگ الگ ہیں سکول اور کالج علیحدہ ہیں ، ہسپتال مختلف ہیں ۔ گورے لوگ کالے لوگوں کو اپنے اداروں میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے۔ افریقہ میں کئی صدیوں سے سفید فام انگریز آباد ہیں وہ اپنی اسمبلیوں میں مقامی کالے لوگوں کو نہیں بیٹھنے دیتے۔ اس ملک کا اصل باشندے سیاہ فام ہیں مگر انگریزوں نے وہاں زبردستی قبضہ کر رکھا ہے ان کی آزادی کے لیے ساری دنیا سے آواز اٹھ رہی ہے مگر قابض قوم ٹس سے مس نہیں ہوتی برطانیہ میں بھی یہ تفاوت کسی حذ تک موجود ہے بعض گلیوں میں اگر کالا آدمی چلا جائے تو قتل کردیا جاتا ہے یا اس کی سخت تذلیل کی جاتی ہے ۔ مگر اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ، یہ تمام تعصبات ، انسانیت اور فطرت کے خلاف ہیں۔ حضرت ملا جامی (رح) نے بھی کہا ہے ؎ بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست جب تو عشق کا بندہ یعنی ایماندار بن گیا ہے ، خدا کی وحدانیت اور نبی کی نبوت و رسالت پر ایمان لے آیا ہے تو پھر نسب کو ترک کر دے ، اس میں دلچسپی نہ لے کیونکہ اس راہ میں فلاح ابن فلاں کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ الغرض ! بلا حبشی ؓ ، سلمان فارسی ؓ اور صہیب رومی ؓ نے وہ مقام حاصل کیا کہ اس سے بلند کوئی مقام نہیں ۔ حضرت علی ؓ کا شعر بھی ہے۔ الناس من جھۃ التمثال اکفاء ابوھم ادم والام حواء ہم مثل ہونے کی وجہ سے تمام انسان کفو یعنی برابر ہیں کیونکہ سب کا باپ آدم (علیہ السلام) اور ماں حوا ؓ ہیں۔ فان یکن لھم من اصلھم شرف یفاخرون بہ فا الطین والماء اگر اصل اور ذات کے اعتبار سے کوئی حسب نسب ہے تو وہ مٹی اور گارا ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اسی چیز سے پیدا فرمایا تھا۔ کفو کا مسئلہ یہاں پر کفو کا ایک شرعی مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے امام مالک (رح) تو برادریوں کے کفو کے قائل ہی نہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہر مومن دوسرے مومن کا کفو ہے خواہ وہ کسی خاندان سے تعلق رکھتا ہو ۔ البتہ دوسرے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ کفو کا مسئلہ ثابت ہے مگر یہ صرف مسلمانوں کی معاشرت کو درست رکھنے کے لیے ہے کوئی ایک پیشہ اختیار کرنے والے خاندان کا فرد اسی کسب والے خاندان کا مناسب کفو بن سکتا ہے ، کیونکہ ان کے حالات میں مناسبت پائی جاتی ہے ۔ تا ہم یہ بنیادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بنیادی چیزو ہی ہے جو اللہ نے بیان کردی ہے کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک با عزت وہ ہے جو زیادہ متقی ہے ۔ سید ، شیخ ، پٹھا یا مغل کہلانے میں کوئی شرف نہیں ہے۔ ذات پات کی تقسیم ذات پات کی تقسیم نے مسلمانوں کو بہت ذلیل کیا ہے جس کی وجہ سے ایک ذات والے دوسری ذات والوں کو کمتر سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں میں ذات پات کی تقسیم ہندوئوں کی طرف سے آئی ہے جو کسی طرح بھی مستحسن نہیں اللہ تعالیٰ نے اس خود ساختہ تقسیم کی جڑ بنیاد ہی اکھاڑ کر رکھ دی ہے اور یہ اہم اصول سمجھا دیا ہے کہ چاہئے نہ کہ دوسروں کو ذلیل اور حقیر سمجھنے لگیں ۔ عزت و شرف کا معیار تو دین اور تقویٰ ہے نہ کہ ذات اور برادری ۔ تم میں سے زیادہ شرف والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے ۔ ان اللہ علیم خیبر بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے وہ تمہارے عزم اور نیت کو بھی جانتا ہے اور تمہارے نخوت اور تکبر سے بھی واقف ہے اصل چیز تقویٰ اور عبادت ہے جس کی بناء پر انسانوں کو عزت حاصل ہوتی ہے ۔ تقویٰ کو اختیار کرنا چاہئے اور باقی چیزوں کو چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ خود ساختہ ذات پات اور غرور وتکبر کی وجہ سے ہی معاشرے میں خلفشار پیدا ہوتا ہے اور پھر لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
Top