Mualim-ul-Irfan - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے ایمان والو ! اگر لائے تمہارے پاس کوئی فاسق خبر ، پس خوب تحقیق کرلو ، اس وجہ سے کہ کہیں تم تکلیف نہ پہنچائو کسی قوم کو نادانی کے ساتھ ، پھر ہو جائو تم اپنے کیے پر پشیمان
ربط آیات مسلمانوں کی جماعتی اور اجتماعی زندگی کو درست رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں بڑے اہم ضوابط بیان کیے ہیں ۔ پہلا ضابطہ یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو اور دوسرا یہ کہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یعنی تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ نے تیسرا ضابطہ یہ دیا کہ پیغمبر (علیہ السلام) کی آواز سے اپنی آواز کو بلند نہ کرو اور آپ کے جانشینوں کے ساتھ بھی اسی ادب و احترام کا سلوک کرو ، گویا کہ جب تم نبی سے گفتگو کرو تو اپنی آواز کو پست رکھو اور اس طرح کڑک کر نہ بولو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بلند آواز سے گفتگو رتے ہو ۔ اگر ایسا کرو گے تو تمہارے تمام اعمال ضائع ہوجانے کا خدشہ ہے پھر اللہ نے ان لوگوں کی تعریف کی جو نبی (علیہ السلام) کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں ۔ فرمایا اللہ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے خاص کردیا ہے اور ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ اللہ نے ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو نبی (علیہ السلام) کو گھر سے باہر نام لے کر پکارتے ہیں ، فرمایا : ان میں سے اکثر بےعقل ہیں ۔ اگر یہ صبر کرتے حتیٰ کہ اللہ کے نبی خود گھر سے باہر تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اللہ کے رسول آرام فرما رہے ہوں ، کسی اہم امور کی انجام دہی میں مصروف ہوں یا آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو ۔ بہر حال آپ کو باہر سے آوازیں دینا یادروازہ کھٹکھٹانا پسندیدہ فعل نہیں ہے یہ چوتھا اصول ہے۔ حجرات امہات المومنین ؓ جب حضور ﷺ نے مسجد نبوی تعمیر کرائی تو اس کے اطراف میں امہات المومنین ؓ کی رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے کمرے بھی تعمیر کروائے جن کے دروازوں پر معمولی قسم کے موٹے موٹے پردے لٹک رہے ہوتے تھے ۔ یہ مکانات کچے تھے ، چھتیں بھی بہت اونچی نہیں تھی اورحضور ﷺ اپنی باری کے مطابق انہی کمروں میں سے کسی کمرے میں آرام فرمایا کرتے تھے۔ یہ کمرے دوسری صدی میں خلیفہ ولید بن عبد الملک کے زمانے تک قائم رہے۔ پھر جب مسجد کی توسیع کی ضرورت پیش آئی تو اس خلیفہ نے ان حجرات کو مسجد میں شامل کرلیا ۔ توسیع کی ضرورت حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں بھی پیش آئی تھی مگر یہ توسیع مسجد کی محراب والی جانب کی گئی تھی۔ لہٰذا یہ حجرات اسی طرح قائم رہے تھے ۔ انہی حجرات میں سے ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیق ؓ کا تھا جس میں اب آپ (علیہ السلام) کی قبر مبارک ہے۔ اس سے پچھلے حصے میں حضرت فاطمہ ؓ کی رہائش تھی اور یہ حصہ بھی اب تک محفوظ ہے البتہ باقی حجرات کا اب کوئی نشان باقی نہیں رہا ۔ سوائے حضرت صدیق ؓ کے خوخہ کے جس کے متعلق حضور ﷺ نے خود اجازت دی تھی کہ آپ یہ دروازہ یا کھڑکی مسجد کی طرف رکھ سکتے ہیں ۔ مسجد نبوی کی مغربی دیوار میں اس جگہ کی نشاندہی ایک کتبے کے ذریعے اب بھی موجود ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جس دن یہ حجرات مسجد نبوی میں شمولیت کے لیے گرائے جا رہے تھے تو مدینہ کے لوگ اس یادگار کے ختم ہوجانے کی وجہ سے بہت روئے تھے۔ بہر حال اس سورة میں آمدہ لفظ حجرات کے لفظ میں بہت سے حقائق پوشیدہ ہیں ۔ یہ حجرات اللہ کے معصوم نبی اور کائنات میں افضل ترین ہستی کی ازواج مطہرات ؓ کے استعمال میں تھے جن کے متعلق اللہ نے سورة احزاب میں فرمایا یٰـنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ (آیت : 32) اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو یعنی تمہیں اللہ نے جہاں بھر کی عورتوں پر فضلیت بخشی ہے۔ بہر حال یہ سادہ کمرے تھے جن میں کسی قسم کا تکلیف نہیں کیا گیا تھا۔ اگرچہ عمارات میں توسیع کرنا مباح ہے لیکن تکلف بہر حال مذموم ہے ، اس کی وجہ سے طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے اور پھر آپس میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا تعلق سادگی کے ساتھ ہی ہے اور امہات المومنین ؓ کے یہ حجرات اس کا بہترین نمونہ تھے۔ معاملات کی تحقیق کا حکم اب اللہ نے پانچواں اصول یہ بیان فرمایا ہے یایھا الذین امنوا اے ایمان والوان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا جب کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اسکی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو ان نصیبوا قوما بجھالۃ کہ تم کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو فتصبحوا علی ما فعلتھم ندمین اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونا پڑے ۔ لہٰذا کسی ایسے آدمی کی لائی ہوئی خبر کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کرو تا کہ اس کی صحت یا عدم صحت کا یقین ہوجائے اور اس کے بعد مناسب کارروائی عمل میں لائو ۔ فاسق کا عمومی معنی گناہ گار ہے جب کہ یہاں پر جھوٹا آدمی مراد ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر بلا سوچے سمجھے کسی جھوٹے آدمی کی اطلاع پر کوئی کارروائی کی جائے گی تو اس سے نہ صرف دوسرے لوگوں کا نقصان ہوگا بلکہ اپنا نقصان ہوجانا بھی عین ممکن ہے۔ آیت کا پس منظر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک شخص ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ کا مال وصول کرنے کے لیے بھیجا ۔ یہ شخص گھوڑے پر سوار ہو کر چل دیا ۔ جب اس قبیلہ کو حضور ﷺ کے قاصد کی آمد کی خبر ملی تو وہ اپنے دستور کے مطابق ہتھیار بند ہو کر استقبال کے لیے باہر نکلے۔ اس شخص کی اس قبیلہ کے ایک آدمی سے دیرینہ دشمنی تھی ۔ اس نے سمجھا کہ قبیلہ کے لوگ مجھے قتل کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں چناچہ وہ لوگوں کو اس حالت میں دیکھ کر راستے میں ہی مدینہ واپس لوٹ آیا اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس قبیلے کے لوگ تو مجھے قتل کرنے کے لیے نکل آئے تھے ، لہٰذا میں جا ن بچا کر بھاگ آیا ہوں ۔ یہ سن کر عام مسلمانوں اور خود حضور ﷺ کو بھی سخت غصہ آیا کہ ان لوگوں نے ہمارے نمائندے کے ساتھ ایسا برا سلوک کیا ۔ آپ نے اس قبیلہ کے ایک سرکردہ آدمی کی طرف پیغام بھیج کر اپنی تشویش کا اظہار کیا جب اہل قبیلہ کو یہ پیغام پہنچا تو وہ بھی سخت پریشان ہوئے کہ اس شخص نے ہمارے استقبال کا غلط مطلب لیا چناچہ قبیلہ کا ایک وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارے حالات سے آگاہ کیا ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔ ولید بن عقبہ کی غلط فہمی کی وجہ سے مسلمان سخت طیش میں تھے اور اگر وہ بلا تحقیق بنو مطلق پر حملہ کردیتے تو دونوں طرف کے مسلمانوں کا کس قدر جانی اور مالی نقصان ہوتا ۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تصدیق کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو جس کا بعد میں تم ہی کو رنج ہو۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یہاں پر فاسق سے مراد گناہ گار نہیں بلکہ جھوٹ بولنے والا ہے۔ اس قاصد نے واپس آ کر یہ خبردی کہ قبیلہ بنو مصطلق کے لوگ مجھے مارنے کے لیے باہر نکلے تھے حالانکہ ایسی بات نہیں تھی۔ جھوٹ کا دور دوروہ کسی خبر کی تحقیق کرلینا بہت بڑا ضابطہ ہے ۔ موجودہ زمانے میں تباہی اور بربادی کی ایک وجہ اسی ضابطہ پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔ نشر و اشاعت کے اس زمانے میں اخبارات اکثر جھوٹی خبریں شائع کردیتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے متعلقہ فرد ، جماعت یا ملک کا مشتعل ہوجانا فطری امر ہے۔ جھوٹی خبروں کی وجہ سے بد گمانی ، نفرت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ جو بہت بڑے جانی اور مالی نقصان کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ انگریز کا قائم کردہ نظام شہادت بھی اسی قبیل سے ہے۔ اس نظام کے تحت کوئی گواہ ٹھیک ٹھیک گواہی نہیں دے سکتا ۔ اللہ کا فرمان تو یہ ہے ۔ واقیمو الشھادۃ للہ ( الطلاق : 2) گواہی اللہ کے لیے ٹھیک ٹھیک دو ، مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ وکلاء حضرات عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ہر گواہ کو اس کی گواہی خود پڑھاتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ یوں کہنا اور یوں نہ کہنا ۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں گواہ صحیح صحیح گواہی نہیں دے پاتا جس کے نتیجے میں نہ تو لوگوں کو انصاف میسر آتا ہے اور نہ معاشرے میں امن وامان قائم ہوتا ہے۔ اسلام جھوٹی گواہی کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ اگر امن و سکون کی ضروریات ہے تو سچی گواہی دینا ہوگی ، جھوٹ کا قلع قمع کرنا ہوگا ، تا کہ عدل و انصاف مہیا ہو سکے اور دنیا میں امن قائم ہو سکے۔ ہمارا معاشرے اس وقت جھوٹی خبروں اور افواہوں میں گھرا ہوا ہے۔ جھوٹی خبروں کی اشاعت وبال جان بن چکی ہے۔ اکذب الناس الاخبار تون کے مطابق اخبار والے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں جو بلا تحقیق جھوٹی خبریں شائع کردیتے ہیں ۔ اسی طرح تاریخ میں بھی بہت سی اناب شناب باتیں پائی جاتی ہیں جو ناقابل اعتماد ہوتی ہیں یہ شرف تو صرف محدثین کرام (رح) کو حاصل ہے کہ انہوں نے ہر روایت کی پورے طریقے سے چھان بین اور تحقیق کرنے کے بعد اس کو نقل کیا ۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر کوئی فاسق آدمی خبر لائے تو اس پر فوراً عمل شروع نہ کردو بلکہ پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کرلو ، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کوئی ایسا قدم اٹھا بیٹھو جو بعد میں پشیمانی کا باعث بن جائے۔ فاسق کے متعلق احکام فاسق کا لغوی معنی تو نافرمان یا اطاعت سے باہر نکل جانے والا ہوتا ہے ، اور اس لحاظ سے اس کا اطلاق گناہ گار آدمی پر بھی ہوتا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے غلط بیانی کرتا ہے وہ بھی فاسق ہے ۔ تا ہم فاسق آدمی کی مطلق خبر کو ناقابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا ۔ امام ابوبکر جصاص ؓ فرماتے ہیں کہ بعض معاملات میں فاسق کی خبر بھی مقبول ہوتی ہے۔ مثلاً لین دین کے معاملہ میں فاسق کی بات کو تسلیم کیا جائے گا ۔ اگر کوئی فاسق آدمی خبر دے کہ فلاں آدمی نے ہمارے پاس فلاں چیز بطور ہدیہ بھیجی ہے تو اس پر اعتبار کیا جائے گا ۔ اسی طرح اگر فاسق آدمی یہ دعوے کرے کہ اسے فلاں چیز کی فروخت کے لیے مامور کیا گیا ہے تو ایک مسلمان آدمی کو حق پہنچتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس چیز کو خرید سکتا ہے ۔ اگر کسی فاسق نے خبر دی کہ فلاں شخص کے گھر میں داخلے کے لیے اجازت طلب کی گئی ہے ، تو اس کی یہ خبر بھی درست تسلیم کی جائیگی ۔ اسی طرح بعض معاملات میں بچے ، غلام یا ذمی کی خبر بھی مقبول ہوتی ہے۔ فاسق کی شہادت اور روایت بھی عام حالات میں معتبر سمجھی جاتی ہے۔ اہل بدعت اور خواہشات کے بندے سب فاسق ہیں مگر ان کی شہادت اور روایت معتبر ہے ، لیکن ایسے معاملات میں فاسق کی خبر ، شہادت یا روایت ناقابل قبول ہوگی جن میں کسی نقصان کا اندیشہ ہو ۔ اسی طرح غیر عادل آدمی کی گواہی بھی معتبر نہیں ہوتی ، گواہ کے لیے اللہ نے قرآن پاک میں دو شرائط رکھی ہیں۔ یعنی گواہ وہ ہونا چاہئے۔ جو اخلاق اور دیانت کے اعتبار سے عادل اور پسندیدہ ہو ۔ ایسے شخص کی گواہی بلا شبہ قابل قبول ہے۔ اطاعت رسول پر لزوم ارشاد ہوتا ہے واعلموا ان فیکم رسول اللہ جان لو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے ۔ لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات کو مان لے گا تو تم مشقت میں پڑ جائو گے۔ لہٰذا یہ خواہش نہ کرو کہ اللہ کا نبی تمہاری بات ضرور ہی مان لے ۔ شاید عبد القادر (رح) لکھتے ہیں کہ اگر تمہارا مشورہ نبی کی بارگاہ میں قبول نہ ہو تو اس کا برا نہ مانو کیونکہ اللہ کا رسول تو اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے ، اور اس عمل میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ اگر اللہ کا نبی تمہاری بات مانا کرے اور ہر کوئی اپنے ہی بھلے کی بات کرے تو پھر وہ کس کس کی بات پر چلے گا ۔ ایسی صورت میں تم مشقت میں پڑ جائو گے۔ اللہ کا نبی بعض معاملات میں مشورہ تو کرلیتا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ ہر ایک کی بات کو تسلیم کرے۔ اور اگر کسی شخص کی بات نہ مانی جائے تو مخالفت شروع کردی جائے ، یہ تو بہت ہی بری بات ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی کو مقدم رکھنا چاہئے۔ فرمایا اگر اللہ کا نبی بہت سے معاملات میں تمہاری بات کو مانے تو تم مشقت میں پڑ جائو گے ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم مگر اللہ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب ٹھہرا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے دلوں میں ایمان کی تخم ریزی کردی ہے جس کی وجہ سے تم اسے پسند کرتے ہو ۔ فکرہ الیکم الکفروا لفسوق والعصیان نیز اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں کفر ، نافرمانی اور گناہ سے متعلق نفرت پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے تم ان چیزوں کو ناپسند کرتے ہو ۔ فرمایا اولئک ھم الرشدون ایسی ہی صفات کے حاملین لوگ نیکی اور راہ راست پر ہیں ۔ فرمایا فضلاً من اللہ و نعمۃ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس نے تمہارے دلوں میں یہ چیزیں ڈال دی ہیں ، لہٰذا اگر اللہ کا نبی تمہاری کوئی بات نہ مانے تو اس کا برا نہ منائو بلکہ نبی کے فیصلے پر راضی ہو جائو ۔ ایمان دار آدمی وہی ہیں جو اپنی رائے پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو مقدم جانتے ہیں اور یہی ہدایت کا راستہ ہے۔ فرمایا واللہ علیم حکیم اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور تمام حکمتوں کا مالک ہے۔ وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ تم ان چیزوں کو نہیں جانتے جن سے اللہ تعالیٰ واقف ہے۔ وہ اپنے علم محیط اور حکمت کے مطابق جو احکام دیتا ہے ان کو بلا چون وچرا تسلیم کرلینا ہی مخلوق کے حق میں بہتر ہے۔
Top