Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اے ایمان والو : - نہ سوال کرو ایسی چیزوں کے بارے میں کہ اگر وہ ظاہر کردی جائیں تمہارے لئے تو تم کو ناگوار گزریں اور اگر تم سوال کرو گے ان کے بارے میں جب کہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تمہارے لئے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے معاف کردیا ہے جو اس سے پہلے گذر چکا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشش کرنے والا اور تحمل والا ہے
ربط آیات گزشتہ دروس میں بہت سے دینی احکام کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ دین میں غلو اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا۔ یہود و نصاریٰ نے حد سے تجاوز کیا تو وہ گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ پھر فرمایا طیبات اور محرمات میں تغیر و تبدل نہ کرو۔ اللہ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے انہیں حرام نہ بنائو اور جو چیزیں ناپاک اور خبیث ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرو کیونکہ اسی میں دنیوی اور اخروی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کعبتہ اللہ کی مرکزیت ، اس کے عز و شرف اور اس کے احکام بیان فرمائے پھر قلت و کثرت کا مسئلہ واضح کیا اور فرمایا کہ پاک اور خبیث برابر نہیں ہو سکتے۔ خباثت کی کثرت اس کے مفید ہونے کی دلیل نہیں بلکہ پاک اور طیب چیز ہی انسان کے لئے مفید ہے۔ اب آج کی آیات میں فضول سوال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اس بات سے خاص طور پر مطلع کیا گیا ہے کہ اگر تم نزول قرآن کے زمانہ میں لا یعنی سوالات پوچھو گے تو اللہ تعالیٰ ان کا جواب وحی الٰہی سے دے دیگا اور پھر ہو سکتا ہے کہ وہ جواب تمہیں برا محسوس ہو ، تمہیں ناگوار گزرے اور تمہاری بد نامی کا باعث ہو ، لہٰذا بےمعنی سوالات کرنے سے گریز کرو۔ اشارتاً یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ تم سے پہلے لوگوں نے کثرت سے سوال کئے تھے ، پھر جب ان کے جواب آئے تو وہ ان کی تعمیل نہ کرسکے اور اس کا نتیجہ خسران اور ضلالت کی صورت میں برآمد ہوا۔ پھر آج ہی کی اگلی آیت میں اللہ نے تحریمات العباد یعنی انسانوں کی از خود حرام کردہ چیزوں کا ذکر کر کے ان کا رد فرمایا ہے۔ فضول رسومات کی ممانعت ارشاد ہوتا ہے یا یھا الذین امنوا اے ایمان والو : - لاتسئلو عن اشیاء ان تبدلکم تسوکم ، ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھو کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں وان تئلوا عنھا حین ینزل القرآن اور اگر یہ ایسے دور میں پوچھی جائیں جب کہ قرآن پاک نازل ہو رہا ہے تبدک لکم تو تمہارے لئے ظاہر کردی جائیں گی اور اس طرح تمہارے لئے مشکل پیدا ہو جائیگی ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر ہر سوال پوچھنے سے منع نہیں فرمایا گیا بلکہ صرف فضول اور لایعنی سوالات کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس کی مثال حدیث شریف میں اس طرح آئی ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ غصے کی حالت میں مسجد میں تشریف لائے ، منبر پر بیٹھے اور فرمایا ، جب تک میں یہاں بیٹھا ہوں ، مجھ سے جو سوال کرو گے اس کا جواب دوں گا اس پر ایک شخص نے سوال کیا من ابی یعنی میرا باپ کون ہے ؟ اس نے یہ سوال اس لئے کیا تھا کہ لوگ اسے نسب کے معاملے میں بدنام کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے غصے کی حالت میں فرمایا تیرا باپ فلاں ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص نے ایسا ہی فضول سوال کیا تو حضور ﷺ کا غصہ مزید بڑھ گیا۔ اس پر حضرت عمر نے آگے بڑھ کر کہا رضینا باللہ رباً وبالا سلام دینا و بمحمد نبیاً تو آپ کا غصہ فرد ہوا۔ بہرحال نسب کے متعلق یہ سوال نہایت بیہودہ تھا۔ کیونکہ شریعت کا ایک عام ضابطہ یہ ہے الولہ للفسراش یعنی بچہ اس کا سمجھا جائیگا جس کے بستر پر پیدا ہوا۔ بچہ جننے والی عورت جس مرد کی منکوحہ ہے ، اولاد اسی کی تصور ہوگی خواہ حقیقت اس کے خلاف ہو کسی اولاد کو زانی کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔ اس سوال کے متعلق جب سائل کی والدہ کو علم ہوا تو وہ بھی سخت ناراض ہوئی کہ تم نے ایسا سوال کیوں پوچھا۔ کہنے لگی ہم جاہلیت کے دور سے گزر کر آئے ہیں ، اگر تیرا نسب درست نہ ہوتا تو یہ بات میرے لئے کس قدر بدنامی کا باعث بنتی۔ بہرحال اس قسم کے فضول سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ سے ایک منافق شخص نے بھی سوال کیا۔ کہ میری اونٹنی گم ہوگئی ہے ، و ہ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا لا ادری میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔ اس پر اس شخص نے پراپیگنڈا شروع کردیا کہ دیکھو جی ! اس نبی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ، آسمن تک کی خبریں دیتا ہے۔ مگر میری اونٹنی کا علم نہیں رکھتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی۔ اس شخص کو بلایا گیا وہ آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا ، مجھے واقعی علم نہیں تھا۔ اب جبرائیل نے آ کر بتایا ہے کہ تمہاری اونٹنی ، فلاں درخت کے ساتھ لٹک رہی ہے۔ اس کے کلے کا قلاوہ کہیں اٹک گیا ہے اور وہ درخت کی ٹہنیوں میں منہ مار رہی ہے ایک اور شخص نے سوال کیا این انا یعنی میں مرنے کے بعد کہاں ہوں گا۔ آپ نے فرمایا فی النار یعنی جہنم میں اس پر حضرت عمر نے پھر رضینا باللہ پڑھا تو حضور ﷺ کا غصہ فرو ہوا۔ کثرت سوال کی ممانعت جس طرح فضول سوالات سے منع کیا گیا ہے ، اسی طرح کثرت سوال سے بھی منع کی گیا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بال کی کھال اتارنا ، باریکیاں دریافت کرنا عام فہم مسائل کی جزیات کے متعلق پوچھنا کبھی سود مند نہیں ہوتا۔ اس قسم کے سوال کرنے والے اکثر بےعمل لوگ ہوتے ہیں۔ وہ مسائل تو بہت زیادہ دریافت کرتے ہیں مگر عمل کسی پر نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیدھے سادھے معاملہ میں بھی پابندیاں لگ جاتی ہیں اور پھر ان سے عہدہ برا ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال بنی اسرائیل کی گائے والا واقعہ ہے جسے سورة بقرہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک آدمی کے قتل پر اللہ نے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کر کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کو لگائو تو وہ اپنے قاتل کی نشاندہی کر دیگا۔ تاکہ متعلقہ لوگوں نے طرح طرح کے سوال کرنے شروع کردیئے یعنی اس کا رنگ کیا ہو ، عمر کیا ہو ، اس کی صفت کیسی ہونی چاہئے۔ وغیرہ وغیرہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عام گائے ذبح کر نیکی بجائے انہیں مسئولہ صفات کی حامل گائے تلاش کرنا پڑی۔ اور تفسیری روایات کے مطابق اس گائے کی قیمتوں اس کی کھال ، عصر دینار ادا کرنے پڑے۔ یہ ساری مشقت انہیں کثرت سوال کی وجہ سے اٹھانا پڑی۔ مسلم شریف میں حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا یہ ارشاد بھی موجود ہے۔ نھی عن قلیل وقال وکثرۃ السوال و عن اضاعۃ المال یعنی حضور نبی کریم ﷺ نے فضول قیل قال اور کثرت سوال سے منع فرمایا۔ اس کا کیا فائدہ ؟ بات تو وہ ہونی چاہئے جس سے دنیا میں بھی فائدہ ہو اور آخرت میں بھی فائدہ ہو۔ اسی طرح مال کے ضیاع سے بھی منع فرمایا گیا ہے ۔ حلال مال کو بےبنیاد رسوم کی نذر کردینا ، تعیش اور زیب وزینت میں اڑا دینا نہایت ناپسندیدہ بات ہے۔ کثرت سوال کے ضمن میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ مسلمانوں میں بڑا مجرم وہ ہے جس کے سوال کی وجہ سے غیر حرام چیز پر بنائے وضاحت حرام قرار دیدی گئی ہو اور اس پر لوگوں پر تنگی پیدا ہوگئی ہو۔ مسلم شریف کی روایات میں آتا ہے کہ جب حج کا حکم نازل ہوا تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سوال کیا ، کیا حج ہر سال فرض کیا گیا ہے ؟ حضور ﷺ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا اگر میں کہہ دیتا کہ ہاں حج ہر سال کرنا ہے ، تو تمہیں کرنا پڑتا ، اور پھر کتنی دشواری پیش آتی۔ لہذا تعمیل حکم کیا کرو۔ اس قسم کے سوال مت کیا کرو۔ دوسری اصولی بات اس میں یہ ہے کہ جب کسی کام کے کرنے کا مطلق حکم ہوتا ہے تو وہ تکرار نہیں چاہتا۔ اگر ایک دفعہ تعمیل حکم کرلی جائے تو کافی ہے ۔ جب کسی عمل کا تکرار آتا ہے تو وہ اس کے اسباب کی وجہ سے آتا ہے۔ جیسے نماز بار بار اس لئے ادا کی جاتی ہے کہ اس کے اوقات بار بار آجاتے ہیں۔ وگرنہ درود شریف کے مسئلہ میں غور فرمائیے اللہ تعالیٰ کا مطلق ارشاد ہے یا یھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلم وا تسلیماً “ (احزاب) یعنی اے ایمان والو ! حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) پر درود سلام پڑھو۔ اس حکم کی تعمیل میں اگر کوئی مسلمان زندگی بھر میں ایک دفعہ بھی درود پاک پڑھ لیتا ہے تو اس کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب محمد ﷺ سے بہتر کسی قوم کو نہیں دیکھا کہ وہ زیادہ سوال نہیں کیا کرتے تھے۔ قرآن پاک میں یسئلونک (اے پیغمبر ! لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں) کا لفظ تقریباً 3 ۃ مقامات پر آیا ہے۔ ان میں زیادہ تر یہود اور مشرکین کے سوالات ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے بہت کم سوال کئے گئے۔ صحابہ کرام سوال کرنے کی بجائے آپ کے ارشادات سنتے تھے اور پھر جو کچھ سنتے تھے اس پر عمل شروع کردیتے تھے۔ حضور ﷺ کے حاضر باش صحابہ کی تو یہ حالت تھی ، البتہ دیہات کے رہنے والے صحابہ چونکہ حضور کی اکثر مجالس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے ، اس لئے ان کی تعلیم کے لئے ہر قسم کے سوالات پوچھنے کی اجازت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب تک جو سوال ہوچکے ہیں عفا اللہ عنہا اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے واللہ غفور حلیم اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور برد بار ہے۔ پھر فرمایا قد سالھا قوم من قبلکم اس قسم کے سوالات تم سے پہلی قوموں نے بھی کیے۔ وہ لوگ اپنے انبیاء (علیہم السلام) سے صرف سوال کرتے تھے ان کے احکام کی تعمیل نہیں کرتے تھے۔ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کے کثرت سوال کا ذکر موجود ہے۔ وہ لوگ سوالات دریافت کرنے کے باوجود اپنے انبیاء کی مخالفت کرتے تھے اور اس کثرت سوال کا نتیجہ یہ نکلا ثماصبحوا بھا کفرین کہ وہ لوگ کافر ہوگئے۔ جب حکم معلوم ہوجانے کے بعد اس پر عمل نہ کیا تو گویا عملی طور پر اس حکم کا انکار کردیا پھر یا تو صریحاً انار کر کے کافر ہوئے یا عمل سے گریز کر کے عملی منافق ٹھہرے۔ بحیریہ اور سائبہ اس سورة میں تحریمات الٰہیہ کا بہت حد تک ذکر ہوچکا ہے جن جن چیزوں کو اللہ نے حرار قرار دیا ہے۔ ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اب اگلی آیت میں تحریمات العباد یعنی ان محرمات کا ذکر ہ جو بندوں نے از خود اسے اوپر حرام قرار دے لی ہیں۔ چنبانچہ یہاں پر ان چیزوں کا تذکر ہے جو مشرکین نے نزول قرآن کے زمانہ میں اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ما جعل اللہ من بحیرۃ ۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بحیرہ نہیں بنایا دو طریق پر کرتے ہیں۔ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں نقل کیا ہے کہ مشرکین جس جانور کا دودھ اپنے معبود ان باطلہ کے نام پر واقف کردیتے تھے ، اس کا دودھ اپنے اوپر حرام کر یتے پھر ایسے جانور کا کام بھی چھید دیتے تھے جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس جانور کا دودھ کوئی شخص استعمال نہیں کرسکتا ایسے جانور کو بحیرہ کہتے تھے۔ بحیرہ کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ نام اس مادہ جانور کو دیا جاتا تھا جو مسلسل دس مادہ بچے جنے اور اس کا آخری بچہ نر ہو۔ اسے بھی معبود ان باطلہ کے نام پر وقف کردیتے تھے اور اس کا دودھ استعمال نہیں کرتے تھے۔ فرمایا ولا سآئبۃ اور سائبہ بھی اللہ نے نہیں بنایا۔ سائبہ اس جانور کو کہتے تھے جو کسی مست کے پورا ہنے پر بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا ، نہ اس کا دودھ استعمال کیا جاتا ، نہ اس پر سواری کی جاتی اور نہ اس سے بار برداری یا کوئی دوسرا کام لیا جاتا۔ جیسے برصغیر میں ہندو گائے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وصیلہ اور حام فرمایا : ولا وصب یلۃ اللہ تعالیٰ نے کسی کو وصیلہ بھی نہیں بنایا بلکہ یہ بھی مشرکین کی اپنی اختراع ہے۔ وصیلہ اس اونٹنی کو کہتے تھے جو مسلسل مادہ بچے جنتی اور درمیان میں کوئی نر بھی پیدا ہوجاتا تو کہتے یہ وصیلہ ہے کہ اس نے نر اور مادہ کو ملا دیا ہے مشرکین اس کا استعمال بھی درست نہیں سمجھتے تھے مسلسل مادہ بچے جننے والی اونٹنی کو بھی وصیلہ بنا کر بتوں کے نام پر وقف کردیتے تھے اور پھر ن ہ اس کا دودھ پیتے تھے اور نہ اس سے کوئی دیگر کام لیتے تھے ولا حام اور اللہ نے کوئی حام بھی مقرر نہیں کیا۔ حام کا معنی بچا لینے والا ہے۔ جس اونٹ کی جفتی سے دس بچے پیدا ہوجائیں اسے حام بنا دیتے تھے۔ پھر نہ اس سے بار برداری کا کام لیتے تھے اور اسے کسی دوسرے کام میں استعمال کرتے تھے۔ بہرحال مشرکین نے جاہلیت کے زمانہ میں اقسم کی رسومات جاری کر کے بعض جانوروں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تو ایسا کوئی حکم نہیں دیا ، یہ ان کی اپنی اختراع ہے اور پھر بتوں کے نام پر جانوروں کو وقف کردیتا تو ویسے ہی شرک ہے جس کے ذمہ دار یہ لوگ خود ہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام رسومات کا رد فرمایا ہے۔ بت پرستی کی ابتداء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر تقریباً ڈیڑھ ہزار سال تک عرب کے لوگ صحیح دین ابراہیمی پر قائم تھے۔ بت پرستی کی ابتداء حضور ﷺ کی بعثت سے تقریباً چار سو سال قبل ہوئی۔ ایک شخص عمر و ابن الحی کسی دوسرے ملک میں گای۔ وہاں اس نے بت اور مجسمے دیکھے جو اسے پسند آئے وہ ان میں سے کچھ اپنے ساتھ بھی لے آیا اور اس طرح اس نے عرب میں بت پرستی کی ابتدا کی۔ معبود ان باطلہ کے نام پر جانور وقف کرنے کا کام بھی اسی شخص نے شروع کیا تھا۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے فرمایا کہ میں نے عمرو ابن لحی کو جہنم میں اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اپنی آنتوں کو اس طرح زمین پر گھسٹتا جا رہا تھا جس طرح خراس کا جانور خراس کو کھینچتا ہے آپ نے اپنے ایک صحابی حضرت اکثم کو فرمایا کہ عمرو ابن لحی کی شکل تمہارے ساتھ ملتی جلتی ہے۔ اس شخص نے عرض کیا ، کیا میرا اس بدبخت کے ساتھ ہم شکل ہونا میرے لئے باعث و بال تو نہیں ؟ حضور نے فرمایا ، یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔ فرمایا تم مومن ہو۔ اور کافر اور مومن ہم شکل تو ہو سکتے ہیں مگر ان دونوں کا انجام الگ الگ ہے۔ بہرحال بت پرستی شروع ہونے کے بعد اس کا رواج اس قدر بڑھا کہ حضور ﷺ کئے زمانہ مبارک میں فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کے اندر ، اس کی دیواروں پر اور اس کے قریب تین سو ساٹھ بت موجود تھے جنہیں توڑ کر باہر پھینک دیا گیا اور اس طرح بیت اللہ شریف کو بتوں کی نجاست سے پاک کردیا گیا۔ افترا علی اللہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بحیرہ بنایا ہے ، نہ سائبہ ، نہ وصیلہ اور نہ حام ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب بلکہ یہ کافر لوگ اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتے ہیں جھوٹ ، انہوں نے غیر اللہ کی نذر و نیاز کی سب جھوٹی کہانیاں بنا رکھی ہیں کہ ایسا کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے یہ سب غلط اور اللہ تعالیٰ پر بہتان ہے انہوں نے خود اپنے اوپر بعض جانور حرام قرار دے دیئے ہیں حالانکہ اللہ نے انہیں حلال قرار دیا ہے۔ فرمایا واک ترھم لا یعقلون ۔ ان میں سے اکثر لوگ بےعقل ہیں انہوں نے اپنی بےوقوفی اور حماقت کی وجہ سے خود ساختہ عقیدے اور رسمیں جاری کر رکھی ہیں یہ تو عقل سلیم کے بھی خلاف ہے اللہ تعالیٰ کا ان بیہودہ باتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ محرت کی کچھ تفصیل اگلی سورة انعام میں بھی آ رہی ہے۔ وہاں پر شرک کی تمام قسمیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔
Top