Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے ایمان والو ! لازم پکڑو اپنے اوپر اپنے نفسوں کو ، تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا وہ جو گمراہ ہوا جبکہ تم ہدایت کی راہ پر قائم رہے۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو بتلا دے گا جو کام تم کیا کرتے تھے۔
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں ان جاہل مشرکوں کا رد فرمایا تھا جنہوں نے محض رسم و رواج کی بناء پر بعض جانوروں کو خود پر حرام قرار دے رکھا تھا اور الٹا اللہ پر افترا باندھتے تھے اس کے بعد گزشتہ درس میں اس بات کا ذکر ہوچکا ہے کہ جب ان لوگوں کو قرآن پاک اور پیغمبر (علیہ السلام) کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے آبائو اجداد کا طریقہ ہی کافی ہے ہم اسی پر قائم رہیں گے۔ اللہ نے فرمایا کیا وہ اپنے اجداد ہی کی اتباع کرتے رہیں گے خواہ وہ بےعلم اور گمراہ ہی کیوں نہ ہوں ؟ یہ بڑی بےسمجھی کی بات ہے اور اس سے ایمان والوں کو یقینا صدمہ پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو وہ کفر و شرک کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور دوسرا اس پر اصرار کرتے ہیں۔ پھر جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ حق کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں۔ اہل ایمان کے لئے یہ بھی تکلیف وہ بات ہے۔ اب اگلی آیت میں ایمان والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر لوگ شرک ، کفر اور گمراہی پر اصرار کرتے ہیں اور حق کا راستہ قبول نہیں کرتے تو آپ ان پر زیادہ افسوس نہ کریں بلکہ اپنا فریضہ ادا کرتے ہیں ایسا کرنے سے کفار و مشرکین تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے بلکہ وہ خود اپنے منطقی نتیجہ کو پہنچ جائیں گے۔ اصلاح نفس ارشاد ہوتا ہے یا یھا الذین امنوا اے ایمان والو ! علیکم انفسکم لازم پکڑو اپنے اوپر اپنی جانوں کو یعنی اگر دوسرے لوگ تمہاری تبلیغ کا اثر قبول نہیں کرتے تو اس کی زیادہ فکر نہ کرو بلکہ اپنی اصلاح کی فکر کرو اور پھر اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ بقدر ضرورت و ہمت دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کرو۔ تاہم تمہارے حق میں زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ اپنی اصلاح کو ملحوظ خاطر رکھو اگر ایسا کرو گے۔ تو لایضربکم من ضل گمراہ ہونے والا شخص تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ بعض اوقات اہل ایمان یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر دوسرے لوگ ہدایت قبول نہیں کریں گے تو شاید ہم بھی گمراہ ہو کر انہی میں شامل ہوجائیں ، تو اللہ نے فرمایا جو شخص خود گمراہ ہوچکا ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ مگر شرط یہ ہے اذا اھتدیتء کہ تم خود ہدایت کے راستے پر قائم رہو۔ امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس تسلی کا یہ مطلب نہیں کہ غیر ہدایت یافتہ لوگوں کو تبلیغ کرنا ہی چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ تمہارا فرض یہ ہے کہ حق کی بات دوسروں تک پہنچاتے رہو۔ ہاں ۔ اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ تمہاری بات بالکل غیر مئوثر ثابت ہو رہی ہے ، لوگ حق بات کو سننے تک کے لئے تیار نہیں اور تشدد پر اتر آئے ہیں ، تو پھر ان کے زیادہ در پے نہ ہوں اور اصلاح نفس کی طرف توجہ دیں۔ تاہم ان سے بالکل ہی کٹ کر نہ رہ جائیں بلکہ ان کے ساتھ اس حد تک رابطہ رہنا چاہئے کہ جب بھی مناسب موقع ملے۔ تبلیغ دین کا کام پھر سے شروع کیا جاسکے۔ فریضہ تبلیغ دین اصلاح نفس سے مراد محض اپنی واحد ذات نہیں بلکہ اس سے تمام ہم قوم اور ہم مذہب لوگ مراد ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جب تم اس قدر مجبور ہو جائو کہ اغیار تک تمہاری بات نہیں پہنچ جاتی تو پھر کلمہ حق کو اپنوں تک ہی پہنچاتے رہو تاکہ تم سب بات نہیں پہنچ جاتی تو پھر کلمہ حق کو اپنوں تک ہی پہنچاتے رہو تاکہ تم سب ہدایت کے راستے پر قائم رہ سکو ، اور اغیار کی کسی سازش کا شکار نہ ہو جائو۔ دین کی بات کا آپس میں اعادہ کرنا دین پر پختگی کی ضمانت ہوگا اور اس طرح تم دوسروں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو مزید مستحکم کرسکو گے۔ اذا اھتدیتم کا یہی مطلب ہے کہ جب تم خود اپنے دین پر مستحکم ہو گے تو دوسرے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ گویا ہدایت پر قائم رہنے میں دونوں باتیں آتی ہیں۔ ایک اپنی اصلاح اور دوسرے پیغام خداوندی کی دوسروں تک تبلیغ چناچہ تبلیغ دین پر ہر مسلمان کا ایک اہم فریضہ ہے۔ پہلے بھی گزر چکا ہے اے رسول ! ” بلغ ما انزل الیک من ربک “ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے دوسروں تک پہنچا دیں۔ اسی طرح ملت ، دین حق پر قائم رہ سکتی ہے۔ اگر تبلیغ دین کا فریضہ فراموش کردیا جائے تو قوم و ملت کی بنیادیں کمزور ہوجائیں گی اور وہ روبہ زوال ہو کر اغیار کا شکار ہو سکتی ہے۔ امر بالمعروف اللہ تعالیٰ نے سورة لقمان میں حضرت لقمان کی نصیحت نقل کی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی ” وامر بالمعروف وانہ عن المنکر “ اے بیٹے ! نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکت رہو تبلیغ دین ایک ایماندار کا فرض منصبی ہے۔ سورة توبہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی سات صفات بیان فرمائی ہیں ، ان میں ایک یہ بھی ہے الا مرون بالمعروف والناھون عن المنکر “ کہ وہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ اسی سورة میں بھی پہلے گزر چکا ہے۔ اللہ نے سابقہ اقوام خصوصاً یہود کے متعلق فرمایا کانوا لا یتنا ھرن عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون “ کہ وہ برائی سے منع نہیں کرتے تھے اور اس طرح وہ بہت بری بات کے مرتکب ہوتے تھے برائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس سے منع نہ کرنا بہت بری کارگزاری تھی۔ مروان کی گورنری کا زمانہ تھا ، عید کے دن وہ نماز عید کے لئے آیا تو نماز پڑھانے سے پہلے خطبہ شروع کردیا۔ ایک مسلمان نے اٹھ کر کہا کہ پہلے نماز پڑھائو پھر خطبہ دینا۔ کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کا یہی طریقہ ہے۔ جمعہ اور عیدین کے خطبے ان ہی نمازوں سے متعلق ہیں مگر جمعہ کا خطبہ پہلے اور نماز بعد میں ہے جب کہ عیدین کی نماز میں نماز پہلے اور خطبہ بعد میں ہے۔ بہرحال اس مسلمان کے ٹوکنے پر صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا کہ بیشک اس مسلمان نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کردیا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جہاں برائی کا ارتکاب ہو رہا ہے ، تم میں سے صاحب طاقت کو چاہئے کہ وہ اس برائی کو بزور طاقت ہٹا دے۔ اگر ہاتھ سے ہٹانے کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے۔ اگر اتنی طاقت بھی نہیں پاتا فبقلبہ تو اس کو لد سے ہی برا سمرجھے۔ فرمایا ذلک اضعف الایمان یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ اس کے بعد تو ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان کا درجہ نہیں ہے۔ حضرت جریر ابن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ کوئی شخص ایسے لوگوں میں رہتا ہو یعمل فیھم بالمعاصی جن میں گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے ، پھر جو لوگ اس کو روکنے پر قادر ہیں ، وہ اس کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ، ان کے متعلق فرمایا اصابھم اللہ بعذاب قبل ان یموتوا۔ یہ لوگ مرنے سے پہلے خدا کی طرف سے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اس سے عمومی عذاب مراد نہیں ہے تاہم کوئی کسی سزا میں مبتلا ہوجائے گا ، کوئی کسی تکلیف میں ۔ ہو سکتا ہے کہ غلام بنا لئے جائیں یا ان سے دین چھین لیا جائے یا ان پر غربت طاری کردی جائے یا وہ طوفان اور زلزلے کی زد میں آجائیں۔ بہرحال وہ کسی نہ کسی سزا میں ضرور مبتلا ہوں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے بھی منبر پر یہ بات فرمائی تھی ، اے لوگو ! تم علیکم نفسکم والی آیت پڑھتے ہو مگر اس سے غلط مطلب نہ اخذ کرلینا۔ اسا نہ ہو کہ تم تبلیغ دین کا کام چھوڑ بیٹھو اور صرف اپنی فکر میں لگے رہو۔ کیونکہ ان الناس اذا عمل فیھم بالمعاصی ولم یغین و اوشداء ان یعمھمء اللہ بعقاب ۔ جب لوگوں میں گناہ کئے جا رہے ہوں اور وہ اس کو تبدیل نہ کریں۔ تو قریب ہے کہ خدا تعالیٰ سب کو سزا میں مبتلا کر دے۔ تبلیغ کب ساقط ہے ایک مسلمان سے تبلیغ صرف اس وقت ساقط ہوتی ہے جب اس کو ادا کرنے کا کوئی طریقہ باقی نہ ہے حالات اس قدر دگرگوں ہوجائیں کہ تبلیغ بالکل مئوثر نہ ہو رہی ہو یا ایسا کرنے سے کسی تکلیف میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں تبلیغ کو مئوخر کردے اور اصلاح نفس کی طرف زیادہ توجہ دے۔ حضور ﷺ کے صحابی ابو ثعلبہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا بل ائنتمروا بالمعروف وتناھوا عن المنکر ۔ یعنی نیکی کی باتوں کی ہمیشہ تلقین کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو۔ ہاں جب دیکھو کہ ایسے حالات پیدا ہوگئے میں کہ بخل کی اطاعت کی جاتی ہے یعنی لوگوں میں بخل پیدا ہوگیا ہے اور فیاضی ختم ہوگئی ہے اور خواہشات کی پیروی کی جا رہی ہے ، قرآن و سنت اور دین کو کوئی پوچھتا نہیں۔ ہر طرف آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ہر آدمی اپنی ہی رائے کو حتمی سمجھتا ہے اور دوسرے کی بات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔ فرمایا اگر ایسا وقت آجائے فملیک نفسک پھر اپنی فکر کر اور دوسروں کی فکر چھوڑ دے ، ایسے حالات میں اپنے آپ کو بچانا بھی غنیمت ہے کہ کہیں گمراہی میں م بتلا نہ ہو جائو۔ کیونکہ آگے ایسے دن بھی آنے والے ہیں کہ صبر کرنا اتنا دشوار ہوجائیگا جیسے جلتے ہوئے کوئلے کو ہاتھ میں پکڑنا۔ فرمایا اس دور میں تم میں سے جو شخص نیک اعمال انجام دے گا اس کو پچسا آدمیوں کے عمل کے برابر اجر دیا جائیگا۔ کیونکہ یہ فتنہ و خلفشار کا زمانہ ہوگا۔ ظلم کی داستانیں فرمایا جب ظلم و ستم بڑھ جائے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ساقط ہوجاتا ہے۔ مثلاً حجاج بن یوسف کے زمانے کے ظلم و جور تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ ظلم شخص مردانیوں کے تحت بیس سال تک عراق کا گورنر رہا۔ حضرت امیر معاویہ تو صحابی رسول تھے ، آپ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سوا سب مشتبہ لوگ تھے اچھے کام بھی کرتے تھے مگر ظلم و ستم اور دیگر برائیاں بھی انجام دیتے تھے جب حجاج مر اتو حسن بصری نے کہا تھا ، اے اللہ ! تو نے اس کو مارا ہے تو اس کی سنت کو مٹا دے ، یہ اتنا ظالم شخص تھا۔ چھوٹی چھوٹی اور خراب آنکھوں والا آدمی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو پھیلاتا رہتا تھا۔ بخدا اگر جہاد میں جاتا تھا تو گھوڑے کی باگ پکڑنے سے کبھی اس کے ہاتھوں میں پسینہ نہیں آیا ہوگا یعنی اسے کبھی جہاد میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا۔ کنگھی پھیرتا تھا ، اکڑ کر چلتا تھا اور پھر بکواس شروع کردیتا تھا ، کبھی کوئی بات کبھی کوئی بات ، یہاں تک کہ حسن کہتے ہیں کہ کوئی آدمی اٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ حضرت ! وقت جا رہا ہے نماز ادا کرلیں ۔ اگر کوئی ایسی جرأت کرتا تو اس پر کوڑے برستے یا تلوار سے سر قلم کردیا جاتا۔ ایک دفعہ تقریر کر رہا تھا کہ کسی شخص نے کہہ دیا ایھا الامیر اے امیر ! وقت تنگ ہو رہا ہے الصلوۃ نماز پڑھا لیں کہنے لگا تم کون ہو ، اس نے کہا ، ایک مسلمان ہوں۔ کسی قبیلے سے تعلق ہے ، عرض کیا ، فلاں سے ، کہا تم بڑے نیک آدمی ہو ، بڑی نیکی کی بات کرتے ہو۔ ادھر اپنے فوجی سے کہا کہ اسے فوراً جنت میں پہنچا دو ۔ بس اتنی سی بات پر اس کا سر قلم کروا دیا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں عبدالملک بن عمیر جمعہ کے دن دوپہر کے وقت آ کر منبر پر بیٹھ گیا ۔ کبھی کسی کی مدح بیان کی ، کسی کی مذمت کی یہاں تک کہ مسجد کے میناروں پر سورج کی ہلکی سی سرخی باقی رہ گئی۔ پھر اس نے اذان کہلوائی اور جمعہ کی نماز پڑھی ، پھر عصر کی اذان کہلوائی اور عصر کی نماز پڑھی گئی اس کے ساتھ ہی مغرب کا وقت ہوگیا۔ پھر مغرب کی اذان ہوئی اور نماز ادا کی گئی کہتے ہیں کہ ان حالات میں بھی کوئی شخص زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا ، ورنہ جان جاتی تھی اگر اس قسم کا دور آجائے تو پھر آدمی تبلیغ دین کے معاملہ میں مجبور سمجھا جائے گا۔ ملوکیت کی تاریخ میں ظلم و ستم کی بڑی بڑی داستانیں ملتی ہیں مگر اہل حق پھر بھی وقتاً فوقتاً قائم ہوتے رہے ہیں ہندوستان میں بھی بعض بڑے جابر بادشاہ گزرے ہیں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ تغلق کے زمانے میں کسی بزرگ نے امر بالمعروف کیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کے دانت اکھاڑ کر اس کے سر میں میخوں کی طرح ٹھونک دیئے جائیں۔ اس کے باوجود حق پرست لوگ شہادت قبول کرلیتے تھے مگر اعلائے کلمہ حق سے باز نہیں آتے تھے۔ البتہ اس قسم کے حالات میں جب انسان کو جان کا خطرہ ہو تو وہ امر بالمعروف کے فریضہ سے معذور سمجھا جائے گا ، ورنہ عام حالات میں اپنی اصلاح بھی ضروری ہے اور دوسروں کی اصلاح بھی لازم ہے روحانی ترقی کے لئے اصلاح نفس بھی ضروری ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ حق کی حمایت میں سعی کرتا ہے۔ انا اھتدیت و ۔ میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ جہان کی اصلاح بھی مدنظر ہو۔ عدم ادائیگی فریضہ کا دبائو حضرت حذیفہ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے فرمایا ولذی نفسی بیدہ اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر۔ اے لوگو نیکی کا حکم ضرور کرتے رہو اور برائی سے ضرور روکتے رہو اور نہ لیعمکم اللہ بعقاب من عندہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تمہیں کسی عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ لم لتدعن فلا یستجیب لکم ۔ پھر تم دعائیں مانگتے رہو گے مگر قبول نہیں ہوں گی کیونکہ تم اپنے فریضہ کو ترک کرچکے ہو گے۔ ایک شخص حضرت عمر کے پاس آیا اور عرض کیا ، امیر المومنین ! اعمل بالاعمال الخیر الاخصلتین میں سارے نیکی کے کام کرتا ہوں مگر دو کام کرنے سے عاجز ہوں۔ فرمایا ، وہ دو کام کون سے ہیں کہنے لگا الامر بالمعروف والنھی عن المنکر۔ یعنی نیکی کا حکم برائی کی ممانعت ، یہ دو کام میں نہیں کرتا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا لقد طمست سھمین من سہام الاسلام تو نے اسلام کے دو حصے مٹا دیئے ہیں اور خدا کی گرفت میں آگئے ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اتنے ضروری امور ہیں کہ ان کو ترک کرنے سے خود اسلام کو نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ قرآن بطور مرکز فکر بہرحال اجتماعی طور پر اصلاح نفس اور اصلاح ناس کا فریضہ اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب قرآن پاک کو اپنی فکر کامرکز بنا لیا جائے۔ جب لوگ قرآن حکیم کی باریکیوں کو سمجھنے لگیں گے تو پھر اپنی اصلاح بھی کرسکیں گے اور دوسرے لوگوں کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اسی سورة میں پہلے آ چکا ہے ” فاتقون یا ولی الالباب لعلکم تفلحون۔ “ اے عقل مند لوگو ! اگر مجھ سے ڈرتے رہو گے تو تمہیں فلاح نصیب ہو جائیگی ، پھر دوسری قومیں تمہارا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ جب تمہاری عقلوں کو اتنی ترقی نصیب ہوجائے کہ قرآن پاک کی باریکیاں سمجھنے لگو تو پھر کامیابی تمہارے قدم چوم لے گی۔ فرمایا ، یاد رکھو ! الی اللہ مرجعکم جمیعاً تم سب کو لوٹ کر خدا کے ہاں جانا ہے فبنبئکم بما کنتم تعملون۔ پھر وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے اس کے پاس تمہاری زندگی کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ وہ ظاہر کر دے گا کہ فلاں فلاں وقت میں تم فلاں فلاں کام انجام دیتے رہے۔ اچھا یا برا جو کچھ بھی اس دنیا میں کیا میں تم فلاں فلاں کام انجام دیتے رہے۔ اچھا یا برا جو کچھ بھی اس دنیا میں کیا ہے ، سب کچھ سامنے آجائیگا۔ پھر یا تو اچھے کام کی جزا پا لو گے یا برے کام کی سزا بھگتنا ہوگی ، کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے محاسبے سے بچ نہیں سکے گا لہٰذا تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ نامساعد حالات میں بھی اپنی اصلاح کرو اور ہدایت کے راستے پر قائم رہو۔ اگر ایسا کرو گے تو دوسروں کا کفر ، شرک اور اغلاط تم پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا فریضہ بھی سمجھا دیا ار پھر اسے تسلی بھی دے دی ۔
Top