Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 110
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَ١ۘ اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١۫ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا١ۚ وَ اِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ١ۚ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ١ۚ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْ١ۚ وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
اِذْ قَالَ : جب کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم اذْكُرْ : یاد کر نِعْمَتِيْ : میری نعمت عَلَيْكَ : تجھ ( آپ) پر وَ : اور عَلٰي : پر وَالِدَتِكَ : تیری (اپنی) والدہ اِذْ اَيَّدْتُّكَ : جب میں نے تیری مدد کی بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح پاک تُكَلِّمُ : تو باتیں کرتا تھا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : پنگھوڑہ میں وَكَهْلًا : اور بڑھاپا وَاِذْ : اور جب عَلَّمْتُكَ : تجھے سکھائی الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَالتَّوْرٰىةَ : اور توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَاِذْ : اور جب تَخْلُقُ : تو بناتا تھا مِنَ : سے الطِّيْنِ : مٹی كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ : پرندہ کی صورت بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے فَتَنْفُخُ فِيْهَا : پھر پھونک مارتا تھا اس میں فَتَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا تھا طَيْرًۢا : اڑنے والا بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَتُبْرِئُ : اور شفا دیتا الْاَكْمَهَ : مادر زاد اندھا وَالْاَبْرَصَ : اور کوڑھی بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَاِذْ : اور جب تُخْرِجُ : نکال کھڑا کرتا الْمَوْتٰى : مردہ بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَاِذْ : اور جب كَفَفْتُ : میں نے روکا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل عَنْكَ : تجھ سے اِذْ جِئْتَهُمْ : جب تو ان کے پاس آیا بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ فَقَالَ : تو کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْهُمْ : ان سے اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر (صرف سِحْرٌ : جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
جب فرمائے گا اللہ ، اے عیسیٰ مریم کے فرزند ! یاد کہ میری نعمتیں جو میں نے تم پر کیں اور تیری والدہ پر۔ جب میں نے تیری تائید کی پاک روح کے ساتھ ، تو کلام کرتا تھا لوگوں کے ساتھ گہوارے میں اور ادھیڑ عمر میں اور جب میں نے سکھائی تمہیں کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل اور جب تم بناتے تھے مٹی سے ایک پرندے کی شکل میرے حکم سے ، پھر اس میں پھونکتے تھے ، پس وہ ہوجاتا تھا پرندہ اڑنے والا میرے حکم سے اور جب کہ تم تندرست کرتے تھے مادر زاد اندھوں کوڑھی مریضوں کو میرے حکم سے اور جب تم نکالتے (زندہ کرتے) تھے مردوں کو میرے حکم سے اور جب میں نے روکا بنی اسرائیل کو تم سے جب کہ تم آئے ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر ، پس کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا تھا ان میں سے نہیں ہے یہ مگر کھلا جادو
ربطہ آیات اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اسے ایک مدت تک دنیا میں بھیج کر اپنے احکام کی تعمیل کا حکم دیا ہے۔ اب یہ ایک فطری امر ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان سے ان اعمال کی باز پرس بھی کرے جو وہ دنیا میں انجام دیتا رہا۔ یہی محاسبہ ہے جو اللہ جل جلالہ قیامت کے دن ہر شخص کے بارے میں کریں گے ، جس طرح کسی انسان کا اس دنیا میں آنا ایک قطعی امر ہے۔ اسی طرح اس کا محاسبہ بھی لازمی ہے۔ چناچہ گزشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو جمع فرمائے گا پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ جس قوم کی طرف تمہیں مبعوث کیا گیا ، انہوں نے تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا۔ رسولوں کے اس اجمالی ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے بطور مثال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ہے اور سورة کے آخر تک یہی مضمون چلے گا۔ مسیح (علیہ السلام) سے امت کے متعلق خصوصی سوال ہوگا مگر اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنے انعامات یاد دلائے ہیں کہ اے ابن مریم ! میں نے تم پر کتنے بڑے بڑے انعامات کئے اور تمہاری والدہ پر۔ جس ک جبرائی اور ملاء اعلیٰ کی تائید حاصل ہوجائے کس قدر مرتبے والا شخص ہو سکتا ہے۔ آپ کا گہوارے اور ادھیڑ عمر میں یکساں پیغمبرانہ کلام کرنا بھی غیر معمولی انعام تھا۔ پھر تحریر کا علم ، کتاب و حکمت کی تعلیم ، قرآن و سنت کا علم خود بخود دے دینا کتنا بڑا انعام ہے۔ ان سب کا ذکر گزشتہ درس میں ہوچکا ہے۔ معجزات انبیاء اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو عطا کئے گئے بعض نمایاں معجزات کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی اور رسول کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا کیا ہے۔ معجزہ سے مراد خلاف عادت ایسا فعل ہے جو بنی نوع انسان کو عاجز کر دے ۔ چونکہ معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی حکیم ، فلاسفر ، سائنس دان یا ساحر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خصوصی معجزہ عطا فرمایا ہے وہ قرآن کریم ہے۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ قیامت والے دن میرے پیرو کار سب سے زیادہ ہوں گے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ باقی انبیاء کے معجزات عارضی ہیں۔ معجزہ ظاہر ہوا دیکھنے والے لوگوں نے دیکھ لیا اور سا کے بعد ختم ہوگیا۔ مگر میرا معجزہ قرآن پاک دائمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خاص نشانی مجھے وحی کے ذریعے عطا فرمائی ہے۔ مفسر قرآن امام بیضاوی اور دوسرے محققین فرماتے ہیں کہ کسی نبی کے لئے معجزہ نبوت کی علت نہیں ہوتا بلکہ یہ نبوت کی محض ایک علامت ہوتی ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ ہر نبی لازماً معجزہ پیش کرے۔ بہرحال انبیاء کے معجزات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی عزت افزائی ہوتی ہے۔ بلکہ رومی صاحب تو فرماتے ہیں۔ روئے و آواز پیغمبر معجزاست ، یعنی پیغمبر (علیہ السلام) کی آواز اور اس کا رخ مبارک بھی معجزہ ہوتا ہے۔ صداقت شعار لوگ پیغمبر کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی ایمان قبول کرلیتے ہیں ۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن سلام کے متعلق آتا ہے کہ حضور ﷺ کا چہرہ انور دیکھا تو کہنے لگے واللہ ماھذا الوجہ بوجہ کذاب بخدا یہ چہرہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہو سکتا ۔ آپ نے پہلی ہی مجلس میں ایمان قبول کرلیا۔ تکمیل و تہذیب نفس جیسا کہ عرض کیا معجزات پیش کرنا انبیاء کے فرائض منصبی میں شامل نہیں البتہ جو چیز ان کے ذمے ہے وہ نفوس انسانیہ کی تکمیل و تہذیب ہے قرآن پاک نے اس کو ” یرکیھم “ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی لوگوں کا تزکیہ کرتا ہے اور اس کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب انسان سے تمام رذیل خصائل گندے اخلاق اور برے عقیدے نکل جائیں اور ان کی جگہ پاکیزہ اخلاق و عقائد پیدا ہوجائیں۔ جب یہ چیز پیدا ہوجائے تو انسان مہذب بن جاتا ہے آج کل کی اصلاح میں تو مہذب (Cultured) وہ آدمی ہوتا ہے جو بالکل نئی وضع قطع اور انگریزی تہذیب کا دلددہ ہو ، مگر اسلام کی نظر میں مہذب وہ شخص ہے جس کے قلب و ذہن کا تذکیہ ہوجائے بہرحال نبوت کا موضوع (Subject) نفوس انسانیہ کی تکمیل و تہذیب ہے۔ معجزہ کیا ہے معجزے کا ظہور بنی کا ذاتی فعل نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اکثر لوگ اس مقام پر آ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔ وہ معجزہ کرامت کو نبی یا ولی کا ذاتی فعل سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ سورة مومن میں موجود ہے ” وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ کسی نبی یا رسول کے اختیار میں نہیں کہ وہ کوئی نشانی یا معجزہ پیش کرسکے جب تک کہ اللہ کا حکم نہ ہو۔ اسی طرح کسی مومن کے ہاتھ پر خرق عادت چیز کا ظہور اس مومن کے لئے اعزاز ہوتا ہے اور اسے کرامت کہتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ نے اپنی کتاب فقہ اکبر میں اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ انبیاء کے معجزات اور اولیاء اللہ کی کرامات برحق ہیں ، جو ان کو صحیح نہیں مانتا ، وہ اہل سنت کی جماعت سے خاج ہے۔ میرے بڑے فلاسفر معنزلہ نیچری ، سرسید ، بروزی چکرالوی وغیرہ اسی لکھتے پر آ کر گمراہ ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ عقل کے خلاف ہے ۔ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ہی ان کی بےعقلی کی دلیل ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ آزمائش کے طور پر کسی خرق عادت چیز کو کسی کافر کے ہاتھ پر بھی ظاہر فرما دیتا ہے ، یہ معجزہ یا کرامت نہیں ، بلکہ استدراج ہوتا ہے۔ یہ خدا کی عطا کردہ مہلت ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے۔ جیسے دجال کے ہاتھ پر بہت سے کرشمے ظاہر ہوں گے۔ بہرحال معجزہ یا کرامت کے لئے ایمان کا ہونا شرط ہے اور پھر یہ کہ معجزہ یا کرامت نبی یا ولی کا ذاتی فعل نہیں ہوتا۔ اسے ذاتی فعل سمجھ کر ہی لوگ انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے لگتے ہیں اور پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ خالق صرف خدا ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے بعض معجزات کا ذکر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے وا ذلخلق اور جب تم بناتے تھے خلق کا معنی بنانا ، پیدا کرنا گھڑنا وغیرہ آتا ہے۔ تاہم اصطلاحی طور پر خلاق کا اطلاق صرف خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ کیونکہ حقیقت میں ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور بنانے والا وہی ہے۔ ” اللہ خالق کل شیء “ قرآن میں صراحت موجود ہے۔ مگر ہمارے اں اس معاملہ میں احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا اور مخلوق کو بھی خالق کہا جانے لگتا ہے مثلاً مسٹر جناح پاکستان کہا جاتا ہے۔ حالانکہ صرف خدا کی ذات ہے۔ آپ ان کو بانی پاکستان یا معمار پاکستان تو کہہ سکتے ہیں۔ خالق نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے ، اسی طرح ایک دوسرے کا نام بلانے میں بھی بےاحتیاطی کا مظاہر کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ غنی ، صمد ، رشید یا مجید وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں حالانکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ بھائی ! اپنے ساتھیوں کو بلانا ہے۔ تو عبدالغنی ، عبدالصمد ، عبدالرشید یا عبدالمجید کہہ کر ٓواز دو ، کیونکہ یہ سب اس مالک الملک کے عاجز بندے ہیں ان کو اللہ کا صفاتی نام لے کر پکارنا سو ادب ہے۔ اسی طرح کسی ملک ، پارٹی ، بلڈنگ ، کارخانے وغیرہ کا بانی تو ہو سکتا ہے خالق نہیں ہو سکتا خالق صرف ذات خداوندی ہے۔ معجزات عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ (علیہ السلام) جب آپ بناتے تھے۔ من الطین کھی ئۃ الطیر مٹی سے پرندے کی شکل بائونی میرے حکم سے فتنفخ فیھا پھر اس میں پھونک مارے تھے تھے فتکون طیراً باذنی پھر وہ ہوجانا تھا اڑنے والا پرندہ میرے حکم سے حضرت عیسیٰ کو یہ معجزہ عطا ہوا کہ وہ مٹی کا پرندہ بناتے تھے پھر اس میں پھونک مارتے تھے اور وہ جاندار پرندہ بن کر اڑ جاتا تھا۔ یہاں پر دو دفعہ باذنی کا لفظ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مٹی کے بنے ہوئے پرندے کو جاندار بنا دینا عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذاتی فعل نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ میرے حکم سے ہوتا تھا۔ سورة ٓل عمران میں باذن اللہ کا لفظ گزر چکا ہے۔ مقصد بہ ہے کہ معجزہ یا کرامت کا ظہور اللہ کے حکم سے ہوتا ہے نہ کہ بنی یا ولی کے ذاتی فعل سے۔ پھر فرمایا ۔ اے عیسیٰ (علیہ السلام) وتبری الا کمہ والابرص باذنی آپ مادر زاد اندھے کو اچھا کردیتے تھے حالانکہ عام حالات میں اس کی بینئای کا لوٹنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ مگر اللہ کے حکم سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ایسا ہوجاتا تھا آپ آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تھے تو وہ روشن ہوجاتی تھیں۔ اسی طرح کوڑھی مریض پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفایاب ہوجاتا۔ یہ بھی اللہ کے حکم سے ہوتا تھا۔ پھر چوتھا معجزہ یہ فرمایا واذتخرج الموتی باذنی جب آپ مردہ کو (قبر سے) نکا لیتے تھے میرے حکم سے۔ آپ کہتے قم باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم سے اٹھ بیٹھو تو وہ مردہ زندہ ہو کر نکل آتا۔ آپ اس سے بات چیت کرتے اور کچھ عرصہ بعد وہ پھر ختم ہوجاتا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات میں اس قسم کے چار واقعات کا تذکرہ ملتا ہے جن میں آپ نے مردوں کو زندہ کیا۔ یہ سب آپ کے نمایاں معجزات تھے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کے زمانے میں طبابت کا بڑا چرچا تھا۔ بڑے بڑے اطبا موجود تھے جو مہلک سے مہلک بیماریوں کا علاج کرتے تھے۔ بقراط جسے اطبا کا جد امجد مانا جاتا ہے۔ اسی زمانہ میں ہوا ہے ارسطو اور فیثا غورث اسی دور کے حکما ہیں۔ ذی مقراطیس جس نے سب سے پہلے ایٹمی ذرات پر تحقیق کی تھی ، اسی دور کا ہے یہ لوگ اپنے اپنے زمانے میں سائنسی ایجادات کے ذریعے علاج معالجے کے حیرت انگیز کارنایم انجام دیتے تھے مگر یونان کے قابل ترین ڈاکٹر بھی نہ مادر زاد اندھے کو بینائی دلا سکتے تھے اور نہ کوڑھی کو شفا دلا سکتے تھے اور نہ مردے کو زندہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس زمانے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے یہ تینوں معجزات ظاہر کردیئے جس کی وجہ سے ان لوگوں کے تمام کارنامے ہیچ ہوگئے۔ معجزات بمطابق ضرورت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جادوگروں کا بڑا زور تھا۔ وہ جادو کے زور سے عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا کا معجزہ عطا کیا۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے کے لئے پندرہ ہزار جادوگروں کو جمع کیا۔ جب انہوں نے اپنی رسیاں ڈالیں تو وہ سانپ بن گئے۔ اللہ نے فرمایا ، موسیٰ گھبرائو نہیں ، تم اپنی لاٹھی پھینک دو ۔ پھر وہ اژدھا بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔ اس کے نتیجے میں جادوگر تو ایمان لے آئے مگر فرعون نے پھر بھی تسلیم نہ کیا۔ وہ بدبخت ہی رہا شقی لوگ معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ اسی طرح حضور خاتم النبین ﷺ کے زمانہ میں فصاحت و بلاغت کو بڑا عروج حاصل تھا۔ عربی زبان ترقی کی اعلیٰ منازل پر تھی۔ عربوں کا فصیح و بلغی اور بلند پایہ کلام آج بھی محفوظ ہے۔ اپنی اسی زبان دانی کی وجہ سے وہ دوسری قوموں کو عجمی یعنی کو نگا کہتے تھے۔ عرب بڑے بڑے اعلیٰ قصیدے اور خطبے پڑھتے تھے جن کو سن کر لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ فصاحت و بلاغت کے اس دور میں اللہ تعالیٰ نے حضور ختم المرسلین ﷺ کو قرآن پاک کا معجزہ عطا فرمایا اور پوری دنیا کو چیلنج کردیا کہ قرآن کی ایک آیت کے برابر کلام بنا کر لائو مگر کوئی عرب اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا کیونکہ یہ کسی انسان کا فعل نہیں تھا بلکہ اللہ کی طرف سے معجزہ تھا۔ آگے پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) پر کئے گئے احسان کا ذکر فرمایا ہے واذ کففت بنی اسرائیل عنک اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روک دیا۔ انہوں نے آپ کا انکار کیا ، مخالف ہوگئے ، تذلیل و توہین کی ، آپ کو دجال کہا ، آپ کی والدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور آپ کی جان کے در پے ہوگئے۔ کہتے تھے یہ شخص ہمارے آبائو اجداد کی رسوم کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ہمیں ہمارے ذرائع آمدن سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اللہ نے فرمایا یہ اس وقت کی بات ہے۔ اذ جئتھم بالبینت جب آپ ان کے پاس کھلی اور واضح نشانیاں اور معجزات لے کر آئے ۔ مگر ان کی کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی ، میں نے آپ کی ان بدبختوں سے حافظت کی اور ان کے ناپاک ہاتھوں کو آپ تک نہیں پہنچنے دیا۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ اللہ نے فرمایا ، اے عیسیٰ (علیہ السلام ) گھبرائو نہیں ، میں ان کے ناپاک ہاتھ تم تک نہیں پہنچے دوں گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بحفاظت آسمان اٹھا لیا۔ فرمایا اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود فقفال الذین کفروا منھم ان میں سے کفر کرنے والوں نے کہا ان ھذا الا سحرمبین یہ تو کھلا جادو ہے۔ ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مٹی کے بنائے ہوئے پرندوں کو اڑتے دیکھا ، مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو شفایاب ہوتے پایا اور مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا مگر پکار اٹھے یہ تو صریح جادو ہے اور کافروں نے ہمیشہ ایسا ہی کیا ہے۔ حضور ﷺ کا شق القمر کا معجزہ دیکھ کر کہہ دیا۔ ” سحر مستمر “ یہ تو چلات ہوا جادو ہے۔ پہلے بھی ہوتا تھا اور اب بھی موجود ہے۔ حواریوں کا قبول ایمان اللہ نے فرمایا ، ذرا اس بات کو بھی یاد کرو واذ او حیت الی الحوارین جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی حواریوں کی طرف وحی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دل میں یہ بات ڈال دی او حیت کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی یہ بات اپنے حواریوں تک پہنچا دیں۔ حواری مخلص ساتھی کو کہا جاتا ہے۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے فرمایا ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے جو جنت میں بھی میرا پڑوسی ہوگا۔ تو فرمایا میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کے دلوں میں ڈال دی ان امنوا بی و برسولی کہ مجھ پر ایمان لائو اور میرے رسول پر ایمان لائو۔ اس کے جواب میں حواریوں نے کہا قالوا امنا اے اللہ ! ہم ایمان لے آئے ، تیری وحدانیت اور مسیح (علیہ السلام) کی رسالت کو قبول کرلیا اور ساتھ یہ بھی عرض کیا واشھد باننا مسلمون کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ، آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر اور آپ کے رسالت پر ایمان لے آئے ہیں لہٰذا آپ ہمارے ایمان کے گواہ بن جائیں۔ بہرحال حواریوں کے دلوں میں اچھی بات ڈال دینا ، ان کا ایمان قبول کرنا ، مسیح (علیہ السلام) کی رفاقت اختیار کرنا اور آپ کے حکم کے مطابق تبلیغ کا فریضہ انجام دینا ، یہ سب اللہ کا احسان اور انعام تھا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ مزید معجزات کا تذکرہ ہوگا اور پھر محاسبے کے ضمن میں سوال و جواب کا بیان آئے گا۔
Top