Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ
: جب کہا
الْحَوَارِيُّوْنَ
: حواری (جمع)
يٰعِيْسَى
: اے عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: ابن مریم
هَلْ
: کیا
يَسْتَطِيْعُ
: کرسکتا ہے
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ
: کہ وہ
يُّنَزِّلَ
: اتارے
عَلَيْنَا
: ہم پر
مَآئِدَةً
: خوان
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
قَالَ
: اس نے کہا
اتَّقُوا اللّٰهَ
: اللہ سے ڈرو
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے ، اے عیسیٰ مریم کے فرزند ! کیا تیرا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ وہ اتارے ہمارے اوپر دستر خوان آسمان کی طرف سے۔ کہا عیسیٰ (علیہ السلام) نے ڈرو اللہ سے اگر تم ایمان والے ہو
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے تمام ابنیاء کو اکٹھا کرنے کا ذکر فرمایا کہ اللہ ان سے سوال کریگا کہ تمہاری دعوت کے نتیجے میں تمہاری قوموں نے کیا جواب دیا۔ تو انبیاء عاجزی کا اظہار کریں گے کہ مولانا کریم ! ہمیں کچھ علم نہیں۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرے میں ان پر ہونے والے انعامات کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان معجزات کو بیان فرمایا جو ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے انعامات تھے جو آپ پر اور آپ کی والدہ پر ہوئے۔ ان احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ تھا کہ اللہ نے آپ کو بنی اسرائیل کے شر سے محفوظ رکھا اور ان کی ناپاک سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا احسان تھا کہ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کے دل میں ایمان کی بات ڈال دی جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کی تائید کی۔ سورة صف میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا من انصاری الی اللہ یعنی اللہ کے راستے میں میرے ساتھ کون تعاون کرے گا ، تو حواریوں نے کہا ” نحن انصار اللہ “ ہم اللہ کے راستے میں آپ کی مدد گار ہیں۔ ہم آپ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے۔ اللہ نے حواریوں کے انصار اللہ بن جائے کہ بھی بطور احسان شمار کیا۔ اب آ ج کے درس میں حواریوں کی طرف سے نزول مائدہ کی درخواست اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی جواب کا ذکر ہے نزول مائدہ کو بھی اللہ نے اپنا ایک احسان جتلایا ہے۔ نزول مائدہ کی درخواست ارشاد ہوتا ہے اذ قال الحواریون جب عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے کہا یعیسی ابن مریم اے عیسیٰ مریم کے بیٹے ! ھل یستطیع ربک کیا تیرا پروردگار طاقت رکھتا ہے۔ ان ینزل علینا مآئدۃ من السمآء کہ ہم پر نازل کر دے طعام کا چنا چنایا دستر خوان آسمان سے یہ ہے وہ درخواست جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخلص متبعین نے آپ کی معرفت اللہ تعالیٰ سے کی۔ اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا قال اتقوا اللہ ، اللہ سے ڈر جائو اور اس قسم کے سوال نہ کرو ان کنت مومنین اگر تم صحیح معنوں میں ایمان والے ہو۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے حواریوں کے درمیان اس مکالمے میں کئی نکات پیدا ہوتے ہیں۔ جن کی تفصیل پیش کی جاتی ہے ۔ ابن اللہ یا ابن مریم عیسائیوں کا ایک فرقہ مسیح (علیہ السلام) کے ابن اللہ ہونے کا قابل ہے مگر اس آیت کریمہ میں یعیسی ابن مریم کے الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصل پیروکاروں نے آپ کو عیسیٰ ابن مریم کہہ کر پکارا نہ کہ ابن اللہ اگلی آیات میں آ رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی آپ کو اسی نام سے پکاریں گے۔ ” اذ قال اللہ یعسی ابن مریم “ جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے عیسیٰ ابن مریم۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو ایک مقدس خاتون کے بطن سے باپ کے واسطہ کے بغیر اپنی قدرت کا ملہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ پیدا کیا۔ لہٰذا یہ ہر صاحب عقل کا جزو ایمان ہے کہ آپ کی نسبت باپ کی طرف نہ کی جائے بلکہ آپ کو حضرت مریم کا بیٹا تسلیم کیا جائے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری نبوت کی گواہی دے گا اور اس بات کی بھی گواہی دے گا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے ، اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے فرشتے کے ذریعے حضرت مریم کے گریبان میں ڈالا ، نیز جو شخص یہ بھی گواہی دے گا کہ جنت اور دوزخ برحق ہیں ، اللہ تعالیٰ اسے نجات عطا فرمائیں گے۔ اس کے برخلاف عیسائیوں کا عقیدہ ابنیت سینٹ پال جیسے پادریوں اور غلط کار عیسائیوں کا وضع کردہ ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہت بعد کی پیداوار ہے۔ عیسائیوں کے مختلف فرقوں کی تفصیل اسی سورة میں پہلے گذر چکی ہے۔ بعض لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہت بعد کی پیداوار ہے۔ عیسائیوں کے مختلف فرقوں کی تفصیل اسی سورة میں پہلے گذر چکی ہے۔ بعض لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بعینہ خدا کہہ کر عینیت کا عقیدہ ایجاد کیا ، کسی نے ابن اللہ کہا۔ اس میں بھی کوئی فرقہ آپ کے خدا کا حقیقی بیٹا ہونے کا قائل ہے اور لوئی بناوٹی بیٹے کا۔ قرآن پاک کے الفاظ میں انہوں نے کہا ” اتخذ اللہ ولدا “ یعنی اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے پھر کسی فرقہ نے آپ کو تین خدائوں میں سے تیسرا تسلیم کیا ” ان اللہ ثالث ثلاثۃ “ غرضیکہ یہ سب باطل عقائد ہیں اور انہی کی بناء پر عیسیٰ (علیہ السلام) کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا گیا ۔ یہ عقائد نہ صرف عقل و نقل کے خلاف ہیں بلکہ خود انجیل کی تعلیم کے بھی منافی ہیں۔ تمام انبیاء کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ وحدئہ لاشریک ہے ، اس آیت سے بھی یہی بات واضح ہو رہی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مریم کے بیٹے ہیں مگر عیسائیوں کی ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا دیا ہے اور اسی عقیدے کی تبلیغ دنیا بھر میں کر رہے ہیں۔ بہرحال اس آیت سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم ہیں ، نہ کہ ابن اللہ لفظ یتطیع پر اشکال اس آیت کے الفاظ ھل یستطیع ربک کا عنی یہ ہے کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) کیا آپ کا پروردگار اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر مائدہ نازل فرمائے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو شک تھا کہ اللہ تعالیٰ مائدہ کے نزول پر قادر ہے۔ حالانکہ ان اللہ علی کل شیء قدیر وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ متصرف فی الامور ہے مرید لما یشآء ہے ” فعال لما یرید “ ہے ، وہ جو چاہے کرسکتا ہے تو پھر اس کی ذات میں شک کرنے کا کیا مقصد ؟ اس کے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر تستطیع کو لازم بول کر ملزوم مراد لیا گیا ہے اور یستطیع کا مقصد یفعل ہے۔ اس طرح معنی یہ ہوگا کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! کیا تیرا پروردگار ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما دے۔ یہ بالکل اس قسم کا محاورہ ہے جس طرح کوئی شخص کسی بڑے آدمی امیر ، حاکم یا وزیر کو یوں کہے کہ کیا آپ مجھے دو لاکھ روپیہ دینے کی استطاعت رکھتے ہیں یعنی کیا آپ مجھے اتنی رقم ادا کریں گے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس لفظ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک والی بات نہیں ہے بلکہ درخواست پیش کرنے کا ایک انداز ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس لفظ کی دوسری قرأت بھی ہے۔ حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ نے مجھے اس آیت کی تعلیم یوں دی ھل تستطیع ربک یعنی اس قرأت میں لفظ رب کو مفعول بنایا گیا ہے جب کہ پہلی قرأت میں فاعل ہے۔ اب اس کا معنی یہ ہے کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! کیا ت و استطاعت رکھتا ہے یعنی کیا تیرا یہ حوصلہ ہے کہ تو اپنے رب سے نزول مائدہ کی درخواست کرے۔ ظاہر ہے کہ اس قرأت سے اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے استطاعت کا اطلاق ان پر کیا گیا ہے۔ مائدۃ اور انجیل اس سورة مبارکہ کا نام اسی مائدۃ کے لفظ پر ہے۔ مائدہ ایسے دستر خوان کو کہا جاتا ہے جس پر کھانا چنا ہوا ہو اور وہ زمین پر بچھایا گیا ہو۔ اس کے برخلاف جس چھوٹی میز پر کھانا رکھ کر کھایا جاتا ہے اسے خوان کہتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس مائدہ کا ذکر قرآن پاک میں اس آیت میں کیا گیا ہے ، اس کا ذکر انجیل میں نہیں ملتا۔ ظاہر ہے کہ جس طرح عیسائیوں نے انجیل میں تحریف کر کے دیگر بہت سے احکام کو خارج کردیا ہے اسی طرح نزول مائدہ کے اس واقعہ کو بھی اڑا دیا ہے۔ البتہ انجیل لوقا میں مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ یہ معجزہ منسوب ہے۔ کہ آپ کسی جگہ پر موجود تھے وہاں پر پانچ ہزار آدمی جمع ہوگئے تو آپ کو تشویش ہوئی کہ اتنے آدمیوں کو کھانا کہاں سے کھلائیں گے۔ اس پر کسی شخص نے بتایا کہ یہاں پر ایک لڑکا ہے جس کے پاس جو کی پانچ روٹیاں اور دو تلی ہوئی مچھلیاں ہیں۔ آپ نے وہ روٹیاں حاصل کر کے سب لوگوں سے بیٹھ جانے کو کہا اور پھر روٹیاں اور مچھلی لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اس کھانے سے اتنے ٹکڑے بھی بچ گئے ۔ جس سے بارہ ٹوکرے بھر گئے۔ عیسٰی (علیہ السلام) نے ان ٹکڑوں کو بھی محفوظ کرا لیا۔ بہرحال قرآن کے بیان کردہ مائدہ کا ذکر انجیل میں کہیں نہیں ملتا۔ روزی کے جائز ذرائع بہرحال حواریوں کی فرمائش کے جواب میں عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے دو باتیں کیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور دوسری یہ کہ اگر تم ایماندار ہو۔ خدا تعالیٰ سے ڈرانے سے مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے لہٰذا اس کی قدرت اور طاقت میں شک کرنے سے ڈرو کیونکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری بات میں حواریوں کے ایمان کا جائزہ لیا کہ کسی ایماندار آدمی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ غیر معمولی فرمائش کرے یا نبی سے معجزات طلب کرے۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اپنے ترجمہ قرآن کے حاشیے میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کتنا بھی مہربان کیوں نہ ہو ، بندے کو اس کی آزمائش نہیں کرنی چاہئے کہ آیا وہ میری بات مانتا ہے یا نہیں کیونکہ یہ چیز ادب کے سراسر خلاف ہے۔ شاہ صاحب دوسری بات یہ فرماتے ہیں کہ ہر انسان کو روزی ہمیشہ جائز ذرائع سے ہی طلب کرنی چاہئے ، نزول مائدہ کی فرمئاش جائز ار درست ذرائع روزی میں سے نہیں ہے ، یہ تو فرمائش اور امتحان کا راستہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے تجارت ، زراعت ، ملازمت ، محنت مزدوری غیرہ کو جائزہ ذرائع روزی میں شمار کیا ہے۔ لہٰذا روزی انہی ذرائع سے حاصل کرنی چاہئے۔ فرمایا فاتقوا اللہ واجملوا فی الطلب اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور روزی کے لئے جائز ذرائع اختیار کرو۔ انسان کو یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ روزی اتنی ہی میسر آئیگی جتنی اللہ کے علم میں مقدر ہے۔ انسان کتنی بھی کوشش کرے اسے اپنے مقدمہ سے ایک حبہ بھی زیادہ نہیں مل سکتا۔ فرمایا ان الرزق لیطلب الانسان کما یطلبہ اجلہ۔ ہر انسان کو روزی اسی طرح تلاش کرتی پھرتی ہے جس طرح موت اس کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس طرح انسان کو موت ایسی جگہ پر آجاتی ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی ، اسی طرح اللہ تعالیٰ 1 ؎ کنز العمال ص 14 , 13 , 12 ج 4 (فیاض) اسے روزی بھی ایسے ذرائع سے دیتا ہے ” من حیث لا یحتسب “ جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ کسی شخص کی روزی کا ایک دانہ بھی دوسرا شخص حاصل نہیں کرسکتا ، لہٰذا روزی حلال اور جائز ذرائع سے ہی تلاش کرنی چاہئے۔ یہ سب باتیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس فرمان میں آجاتی ہیں کہ اللہ سے ڈرو ، اگر تم ایماندار ہو۔ مائدہ بطور متبرک کھانا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس تنبیہ کے بعد حواریوں نے اپنی فرمائش کی وضاحت کرتے ہوئے قالوا انہوں نے عرض کیا کہ حضرت ! ہماری یہ فرمائش کسی قسم کی آزمائش کے لئے نہیں بلکہ نرید ان تاکل منھا ہماری خواہش ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ معجزات کا اظہار فرماتا ہے ، تو ہم بھی اس قسم کا غیر معمولی کھانا چاہتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت حواریوں کے پاس خوراک کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہو اور کھانا حاصل کرنے کی بظاہر کوئی صورت بھی نظر نہ آتی ہو تو ان حالات میں انہوں نے آسمانی کھانے کی فرمائش کی ہو اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس کے لئے دعا کی درخواست کی ہو۔ کھانے میں برکت کے بعض واقعات حضور ﷺ والسلام کے زمانہ میں بھی پیش آئے۔ دوران سفر بعض اوقات کھانا ختم ہوگیا اور صحابہ کرام کو سخت پریشانی لاحق ہوئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس جس قدر توشہ ہے وہ سب لا کر ایک جگہ جمع کر دو ۔ ہر ایک کے پاس جو کچھ تھا کھجور کا دانہ یا روٹی کا ٹکڑا لایا گیا تو کل جمع شدہ اشیا کا ڈھیر ایک بکری کے وجود کے برابر بنا۔ حضور ﷺ نے دعا فرمائی تو اللہ نے اس کھانے میں اتنی برکت عطافرمائی کہ ہزاروں کے لشکر نے اپنے اپنے برتن بھر لئے ایسے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے بھی بابرکت کھانے کی درخواست کی اور یہ بھی کہا وتطمئن قلوبنا یہ کھانا کھا کر ہم اطمینان قلب کی دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو کھانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست نازل ہوگا۔ اس کے کھانے سے انسان کس قدر مطمئن ہوں گے۔ اس کے علاوہ حواریوں نے اپنی فرمائش کے حق میں یہ بھی دلیل پیش کی۔ ونعلم ان قد صدقنا ایسا متبرک کھانا کھا کر ہم جان لیں گے کہ آپ ہم سے سچ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت میں بیشمار نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جن کا ایک نمونہ مائدہ کی صورت میں ہم استعمال کریں گے۔ اس طرح گویا آپ کی صداقت کا مشاہدہ بھی ہوجائے گا۔ اس قسم کے مشاہدہ کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی رب العزت سے درخواست کی تھی رب ارنی کیف تحی الموتی “ اے اللہ ! مجھے مشاہدہ کرا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کیا تمہیں یقین نہیں ہے عرض کیا ، یقین تو ہے ولکن لیطمئن قلبی مگر میں آنکھوں سے مشاہدہ کر کے اطمینان قلب حاصل کرنا چاہتا ہوں تو یہاں پر حواریوں نے بھی طلب مائدہ کی علت یہ بیان کی کہ وہ اطمینان قلب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ حواریوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری خواہش کے مطابق اگر اللہ تعالیٰ مائدہ نازل فرمادے گا وتکون علیھا من الشھدین تو ہم اس پر گواہی دینے والے بن جائیں گے گویا ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ایسا غیر معمولی واقعہ ظاہر فرمایا ہے۔ حلال و حرام کی تمیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے نزول مائدہ کا مطالبہ کر کے حلال لیب اور بابرکت روزی حاصل کرنے کی خواہش کی تاکہ انہیں سکون قلب حاصل ہو۔ اس کے برخلاف مشکوک حرام اور ناجائز خوراک سے کسی کو سکون قلب حاصل نہیں ہو سکتا ، بلکہ اس کی خواہش میں اضافہ ہی ہوگا ایسے شخص کو برے وسوسے آئیں گے اور وہ ایمانی کاموں کی بجائے شیطانی امور پر توجہ مبذول کر دے گا۔ اکثر لوگ عبادت کی لذت سے محض اس لئے محروم ہوئے ہیں کہ ان کی خوراک درست نہیں ہوتی۔ عبادت کیسے مقبول ہو جب کہ پیٹ حرام مال سے بھرا ہوا ہو۔ جب خون میں حرام اجزا سرایت کرچکے ہوں گے تو دل کیسے لگے گا۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ انسانی اخلاق پر غذا کا خاص اثر ہوتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مضر اخلاق چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ نذر نعیر اللہ کا کھانا کھانے میں یہی خربای ہے ، بظاہر تو وہ چاول ، مٹھائی یا دودھی جیسی پاک چیز ہوتی ہے ۔ مگر اس میں ایسی روحانی خباثت اور بیماری ہے جس سے انسان کی روح پلید ہوجاتی ہے۔ پوری ملت ابراہیمیہ اس بات پر متفق ہے کہ نذر نعیر اللہ میں روحانی نجاست پائی جاتی ہے ، کتا بلی ، خنزیر وغیرہ اور بدبودار اور گندی چیزیں مضر اخلاق ہونے کی بناء پر ہی حرام ہیں اس کے برخلاف حلال اور طیب چیزیں کھانے سے اطمینان قلب حاصل ہوگا۔ عبادت میں دل لگے گا اور وہ مقبول ہوگی۔ نیکی کے کام انجام دینے کی طرف دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور اس طرح انسان اخلاق کے بلند ترین مقام پر پہنچ جائے گا۔ الغرض ! اس گفتگو سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ ان کے حواری نزول مائدہ کا مطالبہ کسی شک و شبہ کی بنا پر نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اس کا مشاہدہ کر کے سکون قلب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مشاہدہ اور اطمینان قلب کی درخواست کو رد نہیں فرمایا تھا ، بلکہ آپ کی خواہش کو پورا کردیا تھا اب جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے حواریوں کے جائز مطالبہ سے مطمئن ہوگئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نزول مائدہ کے لئے ہاتھ بلند کردیئے اس کا ذکر اگلی آیت میں آئے گا۔
Top