Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواری (جمع) يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم هَلْ : کیا يَسْتَطِيْعُ : کرسکتا ہے رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ : کہ وہ يُّنَزِّلَ : اتارے عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان قَالَ : اس نے کہا اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے ، اے عیسیٰ مریم کے فرزند ! کیا تیرا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ وہ اتارے ہمارے اوپر دستر خوان آسمان کی طرف سے۔ کہا عیسیٰ (علیہ السلام) نے ڈرو اللہ سے اگر تم ایمان والے ہو
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے تمام ابنیاء کو اکٹھا کرنے کا ذکر فرمایا کہ اللہ ان سے سوال کریگا کہ تمہاری دعوت کے نتیجے میں تمہاری قوموں نے کیا جواب دیا۔ تو انبیاء عاجزی کا اظہار کریں گے کہ مولانا کریم ! ہمیں کچھ علم نہیں۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرے میں ان پر ہونے والے انعامات کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان معجزات کو بیان فرمایا جو ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے انعامات تھے جو آپ پر اور آپ کی والدہ پر ہوئے۔ ان احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ تھا کہ اللہ نے آپ کو بنی اسرائیل کے شر سے محفوظ رکھا اور ان کی ناپاک سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا احسان تھا کہ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کے دل میں ایمان کی بات ڈال دی جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کی تائید کی۔ سورة صف میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا من انصاری الی اللہ یعنی اللہ کے راستے میں میرے ساتھ کون تعاون کرے گا ، تو حواریوں نے کہا ” نحن انصار اللہ “ ہم اللہ کے راستے میں آپ کی مدد گار ہیں۔ ہم آپ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے۔ اللہ نے حواریوں کے انصار اللہ بن جائے کہ بھی بطور احسان شمار کیا۔ اب آ ج کے درس میں حواریوں کی طرف سے نزول مائدہ کی درخواست اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی جواب کا ذکر ہے نزول مائدہ کو بھی اللہ نے اپنا ایک احسان جتلایا ہے۔ نزول مائدہ کی درخواست ارشاد ہوتا ہے اذ قال الحواریون جب عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے کہا یعیسی ابن مریم اے عیسیٰ مریم کے بیٹے ! ھل یستطیع ربک کیا تیرا پروردگار طاقت رکھتا ہے۔ ان ینزل علینا مآئدۃ من السمآء کہ ہم پر نازل کر دے طعام کا چنا چنایا دستر خوان آسمان سے یہ ہے وہ درخواست جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخلص متبعین نے آپ کی معرفت اللہ تعالیٰ سے کی۔ اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا قال اتقوا اللہ ، اللہ سے ڈر جائو اور اس قسم کے سوال نہ کرو ان کنت مومنین اگر تم صحیح معنوں میں ایمان والے ہو۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے حواریوں کے درمیان اس مکالمے میں کئی نکات پیدا ہوتے ہیں۔ جن کی تفصیل پیش کی جاتی ہے ۔ ابن اللہ یا ابن مریم عیسائیوں کا ایک فرقہ مسیح (علیہ السلام) کے ابن اللہ ہونے کا قابل ہے مگر اس آیت کریمہ میں یعیسی ابن مریم کے الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصل پیروکاروں نے آپ کو عیسیٰ ابن مریم کہہ کر پکارا نہ کہ ابن اللہ اگلی آیات میں آ رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی آپ کو اسی نام سے پکاریں گے۔ ” اذ قال اللہ یعسی ابن مریم “ جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے عیسیٰ ابن مریم۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو ایک مقدس خاتون کے بطن سے باپ کے واسطہ کے بغیر اپنی قدرت کا ملہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ پیدا کیا۔ لہٰذا یہ ہر صاحب عقل کا جزو ایمان ہے کہ آپ کی نسبت باپ کی طرف نہ کی جائے بلکہ آپ کو حضرت مریم کا بیٹا تسلیم کیا جائے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری نبوت کی گواہی دے گا اور اس بات کی بھی گواہی دے گا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے ، اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے فرشتے کے ذریعے حضرت مریم کے گریبان میں ڈالا ، نیز جو شخص یہ بھی گواہی دے گا کہ جنت اور دوزخ برحق ہیں ، اللہ تعالیٰ اسے نجات عطا فرمائیں گے۔ اس کے برخلاف عیسائیوں کا عقیدہ ابنیت سینٹ پال جیسے پادریوں اور غلط کار عیسائیوں کا وضع کردہ ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہت بعد کی پیداوار ہے۔ عیسائیوں کے مختلف فرقوں کی تفصیل اسی سورة میں پہلے گذر چکی ہے۔ بعض لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہت بعد کی پیداوار ہے۔ عیسائیوں کے مختلف فرقوں کی تفصیل اسی سورة میں پہلے گذر چکی ہے۔ بعض لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بعینہ خدا کہہ کر عینیت کا عقیدہ ایجاد کیا ، کسی نے ابن اللہ کہا۔ اس میں بھی کوئی فرقہ آپ کے خدا کا حقیقی بیٹا ہونے کا قائل ہے اور لوئی بناوٹی بیٹے کا۔ قرآن پاک کے الفاظ میں انہوں نے کہا ” اتخذ اللہ ولدا “ یعنی اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے پھر کسی فرقہ نے آپ کو تین خدائوں میں سے تیسرا تسلیم کیا ” ان اللہ ثالث ثلاثۃ “ غرضیکہ یہ سب باطل عقائد ہیں اور انہی کی بناء پر عیسیٰ (علیہ السلام) کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا گیا ۔ یہ عقائد نہ صرف عقل و نقل کے خلاف ہیں بلکہ خود انجیل کی تعلیم کے بھی منافی ہیں۔ تمام انبیاء کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ وحدئہ لاشریک ہے ، اس آیت سے بھی یہی بات واضح ہو رہی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مریم کے بیٹے ہیں مگر عیسائیوں کی ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا دیا ہے اور اسی عقیدے کی تبلیغ دنیا بھر میں کر رہے ہیں۔ بہرحال اس آیت سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم ہیں ، نہ کہ ابن اللہ لفظ یتطیع پر اشکال اس آیت کے الفاظ ھل یستطیع ربک کا عنی یہ ہے کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) کیا آپ کا پروردگار اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر مائدہ نازل فرمائے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو شک تھا کہ اللہ تعالیٰ مائدہ کے نزول پر قادر ہے۔ حالانکہ ان اللہ علی کل شیء قدیر وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ متصرف فی الامور ہے مرید لما یشآء ہے ” فعال لما یرید “ ہے ، وہ جو چاہے کرسکتا ہے تو پھر اس کی ذات میں شک کرنے کا کیا مقصد ؟ اس کے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر تستطیع کو لازم بول کر ملزوم مراد لیا گیا ہے اور یستطیع کا مقصد یفعل ہے۔ اس طرح معنی یہ ہوگا کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! کیا تیرا پروردگار ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما دے۔ یہ بالکل اس قسم کا محاورہ ہے جس طرح کوئی شخص کسی بڑے آدمی امیر ، حاکم یا وزیر کو یوں کہے کہ کیا آپ مجھے دو لاکھ روپیہ دینے کی استطاعت رکھتے ہیں یعنی کیا آپ مجھے اتنی رقم ادا کریں گے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس لفظ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک والی بات نہیں ہے بلکہ درخواست پیش کرنے کا ایک انداز ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس لفظ کی دوسری قرأت بھی ہے۔ حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ نے مجھے اس آیت کی تعلیم یوں دی ھل تستطیع ربک یعنی اس قرأت میں لفظ رب کو مفعول بنایا گیا ہے جب کہ پہلی قرأت میں فاعل ہے۔ اب اس کا معنی یہ ہے کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! کیا ت و استطاعت رکھتا ہے یعنی کیا تیرا یہ حوصلہ ہے کہ تو اپنے رب سے نزول مائدہ کی درخواست کرے۔ ظاہر ہے کہ اس قرأت سے اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے استطاعت کا اطلاق ان پر کیا گیا ہے۔ مائدۃ اور انجیل اس سورة مبارکہ کا نام اسی مائدۃ کے لفظ پر ہے۔ مائدہ ایسے دستر خوان کو کہا جاتا ہے جس پر کھانا چنا ہوا ہو اور وہ زمین پر بچھایا گیا ہو۔ اس کے برخلاف جس چھوٹی میز پر کھانا رکھ کر کھایا جاتا ہے اسے خوان کہتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس مائدہ کا ذکر قرآن پاک میں اس آیت میں کیا گیا ہے ، اس کا ذکر انجیل میں نہیں ملتا۔ ظاہر ہے کہ جس طرح عیسائیوں نے انجیل میں تحریف کر کے دیگر بہت سے احکام کو خارج کردیا ہے اسی طرح نزول مائدہ کے اس واقعہ کو بھی اڑا دیا ہے۔ البتہ انجیل لوقا میں مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ یہ معجزہ منسوب ہے۔ کہ آپ کسی جگہ پر موجود تھے وہاں پر پانچ ہزار آدمی جمع ہوگئے تو آپ کو تشویش ہوئی کہ اتنے آدمیوں کو کھانا کہاں سے کھلائیں گے۔ اس پر کسی شخص نے بتایا کہ یہاں پر ایک لڑکا ہے جس کے پاس جو کی پانچ روٹیاں اور دو تلی ہوئی مچھلیاں ہیں۔ آپ نے وہ روٹیاں حاصل کر کے سب لوگوں سے بیٹھ جانے کو کہا اور پھر روٹیاں اور مچھلی لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اس کھانے سے اتنے ٹکڑے بھی بچ گئے ۔ جس سے بارہ ٹوکرے بھر گئے۔ عیسٰی (علیہ السلام) نے ان ٹکڑوں کو بھی محفوظ کرا لیا۔ بہرحال قرآن کے بیان کردہ مائدہ کا ذکر انجیل میں کہیں نہیں ملتا۔ روزی کے جائز ذرائع بہرحال حواریوں کی فرمائش کے جواب میں عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے دو باتیں کیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور دوسری یہ کہ اگر تم ایماندار ہو۔ خدا تعالیٰ سے ڈرانے سے مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے لہٰذا اس کی قدرت اور طاقت میں شک کرنے سے ڈرو کیونکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری بات میں حواریوں کے ایمان کا جائزہ لیا کہ کسی ایماندار آدمی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ غیر معمولی فرمائش کرے یا نبی سے معجزات طلب کرے۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اپنے ترجمہ قرآن کے حاشیے میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کتنا بھی مہربان کیوں نہ ہو ، بندے کو اس کی آزمائش نہیں کرنی چاہئے کہ آیا وہ میری بات مانتا ہے یا نہیں کیونکہ یہ چیز ادب کے سراسر خلاف ہے۔ شاہ صاحب دوسری بات یہ فرماتے ہیں کہ ہر انسان کو روزی ہمیشہ جائز ذرائع سے ہی طلب کرنی چاہئے ، نزول مائدہ کی فرمئاش جائز ار درست ذرائع روزی میں سے نہیں ہے ، یہ تو فرمائش اور امتحان کا راستہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے تجارت ، زراعت ، ملازمت ، محنت مزدوری غیرہ کو جائزہ ذرائع روزی میں شمار کیا ہے۔ لہٰذا روزی انہی ذرائع سے حاصل کرنی چاہئے۔ فرمایا فاتقوا اللہ واجملوا فی الطلب اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور روزی کے لئے جائز ذرائع اختیار کرو۔ انسان کو یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ روزی اتنی ہی میسر آئیگی جتنی اللہ کے علم میں مقدر ہے۔ انسان کتنی بھی کوشش کرے اسے اپنے مقدمہ سے ایک حبہ بھی زیادہ نہیں مل سکتا۔ فرمایا ان الرزق لیطلب الانسان کما یطلبہ اجلہ۔ ہر انسان کو روزی اسی طرح تلاش کرتی پھرتی ہے جس طرح موت اس کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس طرح انسان کو موت ایسی جگہ پر آجاتی ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی ، اسی طرح اللہ تعالیٰ 1 ؎ کنز العمال ص 14 , 13 , 12 ج 4 (فیاض) اسے روزی بھی ایسے ذرائع سے دیتا ہے ” من حیث لا یحتسب “ جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ کسی شخص کی روزی کا ایک دانہ بھی دوسرا شخص حاصل نہیں کرسکتا ، لہٰذا روزی حلال اور جائز ذرائع سے ہی تلاش کرنی چاہئے۔ یہ سب باتیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس فرمان میں آجاتی ہیں کہ اللہ سے ڈرو ، اگر تم ایماندار ہو۔ مائدہ بطور متبرک کھانا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس تنبیہ کے بعد حواریوں نے اپنی فرمائش کی وضاحت کرتے ہوئے قالوا انہوں نے عرض کیا کہ حضرت ! ہماری یہ فرمائش کسی قسم کی آزمائش کے لئے نہیں بلکہ نرید ان تاکل منھا ہماری خواہش ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ معجزات کا اظہار فرماتا ہے ، تو ہم بھی اس قسم کا غیر معمولی کھانا چاہتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت حواریوں کے پاس خوراک کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہو اور کھانا حاصل کرنے کی بظاہر کوئی صورت بھی نظر نہ آتی ہو تو ان حالات میں انہوں نے آسمانی کھانے کی فرمائش کی ہو اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس کے لئے دعا کی درخواست کی ہو۔ کھانے میں برکت کے بعض واقعات حضور ﷺ والسلام کے زمانہ میں بھی پیش آئے۔ دوران سفر بعض اوقات کھانا ختم ہوگیا اور صحابہ کرام کو سخت پریشانی لاحق ہوئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس جس قدر توشہ ہے وہ سب لا کر ایک جگہ جمع کر دو ۔ ہر ایک کے پاس جو کچھ تھا کھجور کا دانہ یا روٹی کا ٹکڑا لایا گیا تو کل جمع شدہ اشیا کا ڈھیر ایک بکری کے وجود کے برابر بنا۔ حضور ﷺ نے دعا فرمائی تو اللہ نے اس کھانے میں اتنی برکت عطافرمائی کہ ہزاروں کے لشکر نے اپنے اپنے برتن بھر لئے ایسے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے بھی بابرکت کھانے کی درخواست کی اور یہ بھی کہا وتطمئن قلوبنا یہ کھانا کھا کر ہم اطمینان قلب کی دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو کھانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست نازل ہوگا۔ اس کے کھانے سے انسان کس قدر مطمئن ہوں گے۔ اس کے علاوہ حواریوں نے اپنی فرمائش کے حق میں یہ بھی دلیل پیش کی۔ ونعلم ان قد صدقنا ایسا متبرک کھانا کھا کر ہم جان لیں گے کہ آپ ہم سے سچ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت میں بیشمار نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جن کا ایک نمونہ مائدہ کی صورت میں ہم استعمال کریں گے۔ اس طرح گویا آپ کی صداقت کا مشاہدہ بھی ہوجائے گا۔ اس قسم کے مشاہدہ کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی رب العزت سے درخواست کی تھی رب ارنی کیف تحی الموتی “ اے اللہ ! مجھے مشاہدہ کرا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کیا تمہیں یقین نہیں ہے عرض کیا ، یقین تو ہے ولکن لیطمئن قلبی مگر میں آنکھوں سے مشاہدہ کر کے اطمینان قلب حاصل کرنا چاہتا ہوں تو یہاں پر حواریوں نے بھی طلب مائدہ کی علت یہ بیان کی کہ وہ اطمینان قلب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ حواریوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری خواہش کے مطابق اگر اللہ تعالیٰ مائدہ نازل فرمادے گا وتکون علیھا من الشھدین تو ہم اس پر گواہی دینے والے بن جائیں گے گویا ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ایسا غیر معمولی واقعہ ظاہر فرمایا ہے۔ حلال و حرام کی تمیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے نزول مائدہ کا مطالبہ کر کے حلال لیب اور بابرکت روزی حاصل کرنے کی خواہش کی تاکہ انہیں سکون قلب حاصل ہو۔ اس کے برخلاف مشکوک حرام اور ناجائز خوراک سے کسی کو سکون قلب حاصل نہیں ہو سکتا ، بلکہ اس کی خواہش میں اضافہ ہی ہوگا ایسے شخص کو برے وسوسے آئیں گے اور وہ ایمانی کاموں کی بجائے شیطانی امور پر توجہ مبذول کر دے گا۔ اکثر لوگ عبادت کی لذت سے محض اس لئے محروم ہوئے ہیں کہ ان کی خوراک درست نہیں ہوتی۔ عبادت کیسے مقبول ہو جب کہ پیٹ حرام مال سے بھرا ہوا ہو۔ جب خون میں حرام اجزا سرایت کرچکے ہوں گے تو دل کیسے لگے گا۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ انسانی اخلاق پر غذا کا خاص اثر ہوتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مضر اخلاق چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ نذر نعیر اللہ کا کھانا کھانے میں یہی خربای ہے ، بظاہر تو وہ چاول ، مٹھائی یا دودھی جیسی پاک چیز ہوتی ہے ۔ مگر اس میں ایسی روحانی خباثت اور بیماری ہے جس سے انسان کی روح پلید ہوجاتی ہے۔ پوری ملت ابراہیمیہ اس بات پر متفق ہے کہ نذر نعیر اللہ میں روحانی نجاست پائی جاتی ہے ، کتا بلی ، خنزیر وغیرہ اور بدبودار اور گندی چیزیں مضر اخلاق ہونے کی بناء پر ہی حرام ہیں اس کے برخلاف حلال اور طیب چیزیں کھانے سے اطمینان قلب حاصل ہوگا۔ عبادت میں دل لگے گا اور وہ مقبول ہوگی۔ نیکی کے کام انجام دینے کی طرف دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور اس طرح انسان اخلاق کے بلند ترین مقام پر پہنچ جائے گا۔ الغرض ! اس گفتگو سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ ان کے حواری نزول مائدہ کا مطالبہ کسی شک و شبہ کی بنا پر نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اس کا مشاہدہ کر کے سکون قلب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مشاہدہ اور اطمینان قلب کی درخواست کو رد نہیں فرمایا تھا ، بلکہ آپ کی خواہش کو پورا کردیا تھا اب جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے حواریوں کے جائز مطالبہ سے مطمئن ہوگئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نزول مائدہ کے لئے ہاتھ بلند کردیئے اس کا ذکر اگلی آیت میں آئے گا۔
Top