Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 118
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنْ : اگر تُعَذِّبْهُمْ : تو انہیں عذاب دے فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عِبَادُكَ : تیرے بندے وَاِنْ : اور اگر تَغْفِرْ : تو بخشدے لَهُمْ : ان کو فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اَنْتَ : تو الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اگر تو ان کو سزا دے تو بیشک وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو زبردست اور حکمت والا ہے
ربط آیات قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے خطاب کا ذکر ہو رہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ محاسبہ کرتے ہوئے پوچھے گا۔ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا اللہ کے علاوہ ، تو عیسیٰ (علیہ السلام) بیزاری کا اظہار کریں گے اور عرض کریں گے۔ اے پروردگار ! تیری ذات پاک ہے۔ میرے لائق یہ ہرگز نہیں کہ میں ایسی بات کروں جس کا مجھے حق نہیں پہنچتا۔ اور اگر بالفرض میں نے ایسی بات کی ہوگی تو تیرے علم میں ہے کیونکہ تو میرے دل کی بات کو جانتا ہے مگر میں تیرے دل کی بات کو نہیں جانتا۔ نیز یہ بھی کہ تمام پوشیدہ باتوں کو تو ہی جانتا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس طرح اپنی انکساری کا اظہار کیا ہے اور ان کی طرف منسوب شدہ غلط بات کا رد بھی کیا ہے۔ آپ یہ بھی عرض کریں گے کہ اے پروردگار ! میں نے تو وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ عبادت صرف اللہ کی کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے ان ان سے کوئی بات نہیں کی۔ الہ العالمین ! جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا۔ میں ان کی خبر رکھتا تھا مگر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے یعنی تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ اسلوب دعا اللہ تعالیٰ کے سوال کا جواب دینے کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے حق میں خاص اسلوب کے ساتھ دعا کریں گے۔ اے مولا کریم ! ان تعذبھم فانھم عبادک اگر تو ان کو سزا دے تو بیشک وہ تیرے بندے ہیں وان تغفرلھم اور اگر تو ان کو معاف کر دے فانک انت العزیز الحکیم تو تو عزیز یعنی کمال قوت کا مالک اور زبردست ہے اور حکیم یعنی حکمت والا ہے دعا کے یہ الفاظ نہایت لطیف اور پراز معانی ہیں اور اکثر انبیاء نے اپنی اپنی قوم کے حق میں دعا کے لئے اسی قسم کا اسلوب اختیار کیا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی بتوں اور معبودان باطلہ کے متعلق سی قسم کی دعا کی تھی رب انھن امنللن کثیراً من الناس فمن تبعنی فانذمنی ومن عصانی فانک غفور رحیم (ابراہیم) اے پروردگار ! یہ بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے ہیں۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ یقیناً فلاح پائیگا اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو غفور اور رحیم ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ مذکورہ بالا دونوں دعائوں کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کیا گیا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا میں عزیز اور حکیم ہے ، جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں غفور اور رحیم ہے اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء میں یہ اختلاف زمان و مکان کے اختلاف اور ہر مقام پر مطلوبہ مقصود کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اس دنیا میں تھی اور ان لوگوں کے لئے تھی جو اس وقت دنیا میں موجود تھے ، لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) اسی انداز میں دعا کریں گے کہ مولا کریم تو عزیز ہے یعنی کمال قوت کا مالک اور زبردست ہے تو جو چاہے کہ گزرنے پر قادرت میں ہے تو سزا دینے پر قادر ہے اس میں کس کو دخل کی مجال نہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو اس پر بھی قادر ہے اور تیرا کوئی بھی فیصلہ حکمت سے ، خالی نہیں ہوگا کیونکہ تو…بھی ہے ۔ اس طرح گویا نہایت لطیف اور محتاط انداز میں دعا کریں گے۔ خلقت عید ظاہر ہے کہ یہ دعا ان لوگوں کے لئے ہوگی جو عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ کو معبود ٹھہرا کر شرک کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ کیا ان کی دعا کے نتیجہ میں ایسے مشرکین کی معانی کا امکان ہے ؟ اس کے جواب میں مفسرین قرآن امام رازی اور امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وعدے کی خلاف ورزی تو نہیں کرتا کیونکہ اس کا فرمان ہے ان اللہ لایخلف المیعاد “ بلاشبہ ایسا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی ذات میں نقصان پایا جاتا ہے ، البتہ وعید کی خلاف ورزی میں کوئی نقصان نہیں ، کیونکہ اگر وہ سخت سے سخت وعید کے بعد بھی کسی کو معاف کر دے تو یہ اس کے اختیار میں ہے اور اس کا کرم ہے وہ ایسا کرسکتا ہے ، مگر کریگا نہیں کیونکہ اس کا فیصلہ یہ ہے ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ” یعنی اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کریگا ، دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس کے قانون کو توڑ یگا وہ اسے معاف نہیں کرے گا۔ یہی وہ مسئلہ ہے جسے متکلمین کی اصطلاح وعید کہا جاتا ہے۔ امکان کذب اور امکان نظیر امکان کذب اور امکان نظیر جیسے مسائل بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ یہی وہ مسائل ہیں جو مولانا شاہ اسماعیل شہید اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے درمیان اختلاف کا باعث ہیں اور بعد والوں نے انہیں شاہ صاحب کے خلاف غلط رنگ میں پیش کیا اور کہا کہ دیوبندیوں کا خدا جھوٹ بھی بولتا ہے مولانا خیر آبادی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کی نظیر پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کے ساتھ ختم نبوت کی خصوصیت باقی نہیں رہتی ، برخلاف اس کے شاہ صاحب کا موقف یہ تھا کہ حضور ﷺ کی نظیر پیدا کرنا بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے نیچے ہے مگر وہ ایسا نہیں کریگا ، کیونکہ اس طرح آپ کے علاوہ کوئی خاتم النبین بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم ایسا کرنا اس کی قدرت سے خارج نہیں کیونکہ سورة یٰسین میں موجود ہے ” اول لیس الذی خلق السموت والارض بقدر علی ان یخلق مثلھم بلی وھو الخلق العلی “ خدا چاہے تو اس پوری کائنات یا کسی چیز کی مثل پیدا کر دے۔ وہ خلاق علیمہ ہے۔ اسے مکمل قدرت حاصل ہے ۔ سورۃ لہب میں ابولہب کے متعلق آتا ہے ” سیصلی نارا ذات لھمب “ یعنی ابولہب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اللہ اس کے خلاف نہیں کرسکتا ؟ وہ قادر مطلق ہے ، چاہے تو ابولہب اور تمام کفار و مشرکین کو جنت میں داخل کر دے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا خدا تعالیٰ کی قدرت میں داخل ہے پھر وہ ایسا کرتا نہیں کیونکہ یہ اس کی حکمت اور سنت کے خلاف ہے ۔ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ مجرمین کو سزا دی جائے اور نیکو کاروں کو اچھا بدلہ دیا جائے مجدد صاحب بھی فرماتے ہیں ” اگر ہمہ راب جہنم فرستد جائے اعتراض نیست “ اگر اللہ تعالیٰ تمام لوگوں حتی کہ نیک ہتقی اور زاہداوں کو بھی جہنم میں داخل کر دے تو کوئی اعتراض نہیں کرسکتا کہ ایسا کیوں کیا ، مگر وہ ایسا نہیں کریگا کیونکہ نیکوں کو جہنم میں اور بدوں کو جنت میں داخل کرنا اس کی حکمت کے خلاف ہے البتہ قدرت کا ہونا الگ بات ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ شاہ صاحب ایک اور مثال بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے تعید قابمہ یعنی زید کھڑا ہے اور زید فی الواقع کھڑا بھی ہو ، تو خدا وند تعالیٰ اس کے خلاف کہہ سکتا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ کہہ سکتا ہے کیونکہ یہ اس کی قدرت میں داخل ہے۔ اگر اسے قدرت سے خارج کردیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انسان جیسی قدرت بھی نہیں رکھتا (نعوذ باللہ) کیونکہ انسان ایک بات کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نہیں کرسکتا ، امکان کذب اور مکان نظیر کا یہی مطلب ہے۔ بہرحال عیسیٰ (علیہ السلام) عرض کریں گے ، مولانا کریم ! اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں ، وہ تیرے حکم کی خلاف ورزی کر کے سزا کے مستحق ہوچکے ہیں ، تاہم اگر تو معاف کر دے تو تو عزیز اور حکیم ہے یعنی معاف کرنا تیری قدرت میں داخل ہے کیونکہ تو کمال قدرت کا مالک ہے اور تو حکیم بھی ہے اور ہر کام حکمت بالغہ کے ساتھ کرتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی تھیں کہ جب بادل اٹھتے تھے تو حضور ﷺ پریشانی کے عالم میں کبھی اندر جاتے ار کبھی باہر آتے ، میں نے عرض کیا حضور ! ایسے مواقع پر تو بادلوں کو دیکھ کر لوگ خوش ہوتے ہیں مگر آپ کی پریشانی کی کیا وجہ ہیڈ تو فرمایا مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں یہ بادل ہمارے لئے ویسے ہی نہ بن جائیں جیسے قوم عاد پر آئے تھے اور ان میں سے آگ برسی تھی۔ قرآن پاک میں موجود ہے وما کان اللہ لیعدبھم و انت فیھم ط وما کان اللہ معذبھم و ھم یستغفرون “ (انفال) جب تک حضور ﷺ اپنی قوم کے درمیان موجود ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سزا نہیں دے گا۔ اس واضح فرمان کے باوجود حضور ﷺ کا بادلوں کو دیکھ کر پریشان ہوجانا اس وجہ سے تھا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے سزا نہ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے مگر وہ سزا دینے پر قادر تو ہے یہی ہے وہ خلف وعید ، امکان کذب یا امکان نظیر۔ سچائی کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوال اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے عاجزانہ جواب کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا قال اللہ ھذا یوم ینفع الصدقین صدقھم یہ وہ دن ہے جس دن بچوں کو انکا سچ نفع دیگا۔ جنہوں نے دنیا میں سچا عقیدہ ، سچا عمل اور سچا اخلاص اختیار کیا ، آج ان کا احترام ہوگا ، عزت ہوگی یہاں پر صدق سے مراد قیامت والے دن کا صدق نہیں کیونکہ اس دن تو کفار بھی سچ بولیں گے اور صاف کہیں گے کہ ہم کفر کرنے والے تھے اور ہم نے غلط کام کیا مگر اس دن کا سچ بولنا کچھ مفید نہیں ہوگا۔ اس دن وہ سچ کام آئے گا جو لوگوں نے اس دنیا میں اختیار کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سچے تھے ، لہذا قیامت کے دن ان کی عزت افزائی ہوگی۔ اور ا ن کے متعلق غلط اعتقاد رکھنے والے عذاب میں مبتلا ہوں گے سچوں کی سچائی کا یہی مطلب ہے۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ نے اس نفع کا ذکر کیا جو بچوں کو اس دن حاصل ہوگا فرمایا لھم جنت تجری من تحتھا الانھار ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی خلدین فیھا ابداً وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ؓ اللہ تعالیٰ ان کے قول و فعل سے راضی ہوا ورضوا عنہ اور وہ اللہ تعالیٰ سے رضای ہوگئے۔ وہ کیوں راضی نہ ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں نیکی کی توفیق عطا فرمائی ، نور ایمان بخشا اور اپنے انعام و اکرام سے نوازا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے رضای ہوجائیں گے۔ فرمایا ذلک الفوز العظیم ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انسان جنت میں پہنچ جائے۔ جو خدا کی رحمت کا مقام ہے اور پھر اسے رضائے الٰہی حاصل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے اہل جنت ! کیا میں تمہیں کچھ لو بھی دوں ؟ تو جنتی عرض کریں گے مولا کریم ! تو نے ہر قسم کی نعمتیں عطا کردی ہیں ، اب اور کیا ہو سکتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا احل علیکم رضوانی فلا استخط بعدہ ابداً میں اپنی خوشنودی کا اعلان کرتا ہوں ، اب اس کے بعد کبھی بھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ تمہیں میری ابدی رضا حاصل ہوگی۔ اس سے بڑھ کر کیا کامیابی ہو سکتی ہے ؟ تکمیل احکام کی تاکید قرآن پاک کا یہ اسلوب بیان ہے کہ مختلف احکامات بیان کرنے کے بعد آخر میں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں جن سے سابقہ مضامین کی تاکید مقصود ہو۔ سورة مائدہ میں شکار اور اس کی حلت و حرمت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے باطل عقائد کا رد ہوا ہے اور ان کے ساتھ بحث مباحثہ کا بیان ہوا ہے ، قانون شہادت اور محرمات الٰہیہ کا ذکر آیا ہے۔ شراب اور جوئے کی حرمت ، طہارت اور قسم کے مسائل آئے ہیں ، مشرکین کے شرک کی مختلف صورتوں کا ذکر آیا ہے اس کے علاوہ کئی قسم کے مسائل بیان ہوئے ہیں اور اب اس آخری آیت میں ان احکامات پر عمل درآمد کی تاکید کے طور پر ارشاد ہوا ہے للہ ملک السموت والارض وما فیھن اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے زمین و آسمان کی بادشاہی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ یہ تمام کی تمام چیزیں اللہ کی پیدا کردہ ہیں ، اسی کی ملکیت ہیں اور اسی کا حکم ان پر نافذ ہے۔ تمام امور کا متصرف اللہ تعالیٰ ہے وہ جس قسم کا حکم چاہے اپنے بندوں کے لئے نازل فرمائے بندوں کا حق ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔ چونکہ بادشاہی اس کی ہے۔ لہٰذا اس کے ہر حکم پر امنا و صدقنا ہی کہنا ہوگا۔ اگر اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہوگی تو نتیجہ خراب نکلے گا پھر فرمایا یاد رکھو ! وھو علی کل شیء قدیر وہ اللہ کمال قدرت کا مالک ہے کوئی چیز اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں کوئی شخص اس کی نافرمانی کر کے اس کی سلطنت سے بھاگ نہیں سکتا ۔ وہ ایک ایک چیز کا حساب لے گا۔ اس کے علاوہ کوئی متصرف بھی نہیں اس سے عیسائیوں کے باطل عقیدہ کا بھی رد ہوگیا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت کا درجہ دیتے ہیں اور متصرف فی الامور مانتے ہیں۔ فرمایا ہر چیز پر وہی قاد ر ہے اور کوئی ہستی قادر مطلق نہیں ہے۔
Top