Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 12
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۚ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا١ؕ وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ١ؕ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذَ اللّٰهُ : اللہ نے لیا مِيْثَاقَ : عہد بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل وَبَعَثْنَا : اور ہم نے مقرر کیے مِنْهُمُ : ان سے اثْنَيْ عَشَرَ : بارہ نَقِيْبًا : سردار وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ مَعَكُمْ : بیشک میں تمہارے ساتھ لَئِنْ : اگر اَقَمْتُمُ : نماز قائم رکھو گے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَيْتُمُ : اور دیتے رہو گے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاٰمَنْتُمْ : اور ایمان لاؤ گے بِرُسُلِيْ : میرے رسولوں پر وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ : اور ان کی مدد کرو گے وَاَقْرَضْتُمُ : اور قرض دو گے اللّٰهَ : اللہ قَرْضًا : قرض حَسَنًا : حسنہ لَّاُكَفِّرَنَّ : میں ضرور دور کروں گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے گناہ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ : اور ضرور داخل کردوں گا تمہیں جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں فَمَنْ : پھر جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد مِنْكُمْ : تم میں سے فَقَدْ ضَلَّ : بیشک گمراہ ہوا سَوَآءَ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
البتہ تحقیق اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد و پیمان لیا ‘ اور بھیجے ہم نے ان میں سے بارہ سردار ‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوۃ ادا کرتے رہے اور تم میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی تائید کرتے رہے اور قرض دیا تم نے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض تو میں ضرور معاف کردوں گا تم سے تمہاے گناہ اور میں ضرور داخل کروں گا تم کو جنتوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اور جس نے کفر کیا اس کے بعد تم میں سے ‘ پس بیشک وہ گمراہ ہوگیا سیدھے راستے سے۔
ایفائے عہد سورۃ کی پہلی آیت میں ہی ایفائے عہد کی تلقین کی گئی تھی یا یھا الذین امنوآ افوا بالعقود “ یعنی اے ایمان والو ! اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ اس کے بعد دیگر آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے پابندی عہد کا حکم دیا ہے اور پھر اہل اسلام کو فرمایا کہ یہ ایفائے عہد کا قانون صرف تمہارے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ قانون بنی اسرائیل پر بھی نافذ تھا اور ان کو بھی عہد و پیمان کا پابند کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” واو فو بالعھد ان العھد کان مسئولا عہد کو پورا کرو کیونکہ اس کے متعلق باز پرس ہوگی۔ ایفائے عہد انسانی سوسائٹی کی ترقی کے لیے ضروری ہے ۔ عہد و پیمان اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہو یعنی حقوق اللہ ہوں یا انسانوں کے حقوق العباد ان سب کی وفا بہر طور ضروری ہے۔ ہر مومن جو ایمان قبول کرتا ہے ‘ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے مومن ہونے اور اس کے احکام کی تعمیل کا وعدہ کرتا ہے۔ میاں بیوی میں نکاح کی صورت میں بعض شرائط پر عہد و پیمان کرتے ہیں اور دونوں اپنے اپنے حقوق و فرائض کی ادائیگی کا ذمہ لیتے ہیں دو افراد میں کسی معاملہ میں شراکت کا معاہد ہ ہو تو اسے بھی پورا کرنا لازم ہے ۔ اسی طرح دو ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہوجائے تو دو نوں کا فرض ہے کہ اس کی پابندی کریں۔ کیونکہ عہد شکنی منافق کی نشانی ہے اذا عہد غدر جب وہ کسی سے عہد کرتا ہے تو غداری کرتا ہے مگر مومن کی صفت یہ ہے کہ جب عہد کرے تو اسے پورا کرے بنی اسرائیل سے عہد گذشتہ آیات میں اہل اسلام کو ایفائے عہد کی تلقین ہوتی رہی ہے اب فرمایا ‘ دیکھو ! ولقد اخذنا میثاق بنی اسرآء یل بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے بھی عہد و پیمان لیا اور ان عہدوں کی نوعیت مختلف ممتی۔ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا لاتعبدون الا للہ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے۔ اور والدین ‘ اقرباء یتیمیوں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرو گے اور نماز قائم کرو گے ‘ اور زکوۃ اداکرو گے۔ پھر یہ بھی ان سے عہد لیا ‘ لا تسفکون دمائکم “ کہ تم آپس میں خونریزی نہیں کرو گے۔ اور ایک دوسرے کو بےوطن نہیں کرو گے۔ سورة بقرہ میں طور پہاڑ ان کے سروں پر معلق کر کے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کے عہد کا ذکر آتا ہے پھر سورة آل عمران میں اللہ کی کتاب تورات کے متعلق عہد کا تذکرہ ہے۔ لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ کہ تم اس کے احکام کو لوگوں کے سامنے بیا ن کرو گے اور انہیں چھپا ئو گے نہیں۔ بہر حال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے عہد و کی مثال بیان کر کے اہل ایمان کو یاد دلایا ہے کہ جس طرح ان کے لیے عہد و پیمان کا ایفا ضروری تھا ‘ اسی طرح تمہارے لیے بھی ضرور ی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق سے کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ بارہ نقیب ارشاد ہوتا ہے ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسراء یل اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا وبعثنا منھم۔۔۔ اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب مقرر کئے۔ چونکہ بنی اسرائیل بارہ خاندانوں پر مشتمل تھے ‘ لہذا ہر خاندان کے لیے ایک نقیب مقرر کیا گیا۔ نقب سوراخ کو کہتے ہیں اور تنصیب کا معنی کر دیدنا ‘ دیکھ بھال کرنا ‘ حفاظت اور نگرانی کرنا ہوتا ہے ‘ اسی لیے نقیب سردار یا سر کردہ آدمی کے لیے بولاجاتا ہے ‘ کیونکہ وہ اپنے خاندان ‘ قبیلے یا گروہ کا سربراہ محافظ یا نگران ہوتا ہے۔ طلبا کے مانیٹر کے لیے بھی نقیب کا لفظ بولا جاتا ہے کہ وہ جماعت کی دیکھ بھال یا نگرانی کرتا ہے ۔ یہاں جس عہد کا ذکر کیا جارہا ہے ‘ یہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وساطت سے لیا تھا اور اس کا خلاصہ آگے آرہا ہے۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے بارہ نقیب مقرر کیے تھے اسی طرح حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے بھی انصار مدینہ کے بارہ نقیب مقرر کیے تھے۔ ہجرت مدینہ سے پہلے مدینہ کے دو عظیم خاندانوں اوس درخزر ج نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ جب وہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے مکہ مکرمہ حضور ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان کے معاملات کی دیکھ بھال اور مکہ سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور قبیلہ اوس سے تین۔ یہ لوگ مدینہ میں اسلام کی تبلیغ کرتے تھے اور مسلمانوں کی طرف سے تعمیل احکام کی نگرانی کرتے تھے۔ جب کسی معاملہ میں ہدایات کی ضرورت محسوس کرتے تو نبی ﷺ سے حاصل کرتے۔ معیت خدا بہرحال اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور بارہ نقیب مقرر فرمائے وقال اللہ انی معکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ ہوں یعنی اگر تم نے عہد کی پابندی اختیار کی تو میری شفقت اور مہربانی تمہارے شامل حال ہوگی۔ تمہیں بلند درجات نصیب ہوں گے اور تم فلاح پاجائو گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان انی معکم بہت بڑی قدرو قیمت رکھتا ہے یہاں کوئی معمولی تھا نیدار کسی کو کہ دے کر فکر نہ کرنا میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تو اس کی بھی بڑی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کسی کی پشت پر گورنر ہو یا صدر مملکت کسی کو امداد کی تسلی دے دے تو یہ متعلقہ شخص کے لیے بہت بڑی بات ہوتی ہے مگر یہی بات شہنشاہ مطلق اور مالک الملک فرمادے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو پھر کس چیز کی کمی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اپنی معیست کا وعدہ کیا مگر یہ قوم اپنے عہد و پیمان پر قائم نہ رہ سکی ‘ جس کی وجہ سے اللہ کے ہاں مغضوب علیہ ٹھہری۔ اس قسم کی معیست کی کئی ایک مثالیں قرآن پاک میں ملتی ہیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر نکل کھڑے ہوئے تو آگے سمندر آگیا اور پیچھے فرعون کی فوج آرہی تھی۔ قوم سخت پریشان ہوگئی تو اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا گھبرائو نہیں ” ان معی ربی “ بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے۔ ہجرت کی ابتدا میں جب حضور ﷺ اور صدیق اکبر ؓ پر گھراہٹ کی کیفیت طاری ہوئی تو حضور ﷺ نے یہی فرمایا تھا لا تحزن ان اللہ معنا یعنی گھبرائو نہیں بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم اسی کے حکم سے نکلے ہیں اور اس کی تائید و نصرت ہمارے شامل حال ہے وہ خود ہماری حفاظت فرمائیگا۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ جیسے باعمل لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا واللہ مع المئومنین اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معسیت کا وعدہ اس وقت تھا جب لوگ اس پر خلوص دل سے ایمان رکھتے تھے اور خلوص نیت سے اس کے احکام پر عمل کرتے تھے ‘ مگر آج وہ چیز کہاں ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نصر ت شامل حا ل ہوتی ہے۔ جب مخلوق اپنے عہد پر قائم نہیں رہی تو اللہ کی تائید و حمایت کیسے حاصل ہوگی۔ وہ ہمارے تمام امور کو جانتا ہے ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ہماری نیت اور ارادے تک سے واقف ہے لہذا اس کی معسیت اسی وقت حاصل ہوگی جب ہم خلوص نیت کے ساتھ اس کے احکام کی تعمیل پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔ نماز اور زکوۃ آگے اللہ تعالیٰ وہ شرائط بیان فرما رہے ہیں جن کو پورا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی معسیت نصیب ہو سکتی ہے ارشاد ہے۔ لئن اقمتم الصلوۃ اگر تم نے نماز اور زکوۃ اہم ترین ارکان اسلام ہیں۔ قرآن پاک میں ان دو چیزوں پر مداومت کی بار با تاکید کی گئی ہے ۔ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو نیکی یہ دو ظاہری علامات ہیں۔ نماز بدنی عبادت ہے اور اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ زکوۃ مالی عبادت ہے اور اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ نماز میں طہارت اور اخبات کی صفات پائی جاتی ہیں کیونکہ طہارت کے بغیر نماز ادا نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کے اظہار کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ زکوۃ کے عمل میں سماحت کی صفت پائی جاتی ہے۔ زکوۃ دینے والا شخص فیاض ‘ غریب پروری اور بنی نوع انسان سے ہمدردی کی صفات سے متصف ہوتا ہے ‘ امام شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ زکوۃ کے ذریعے انسان میں دو اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں ایک بنی نوع انسان سے ہمدردی اور دوسرے اپنی ذات سے بخل کی بیخ کنی۔ مال خرچ کرنے والا شخص بخیل نہیں ہوگا۔ بخل بہت بری بیماری ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک 1 ؎ ہے ای داع ادوء من البخل یعنی کنجوسی سے زیادہ بری بیماری کون سی ہو سکتی ہے۔ ایمان بالرسل فرمایا اگر تم نماز ادا کرتے رہے اور زکوۃ دیتے رہے وامنتم برسلی اور میرے رسولوں پر ایمان لائے۔ اس آیت کریمہ میں نماز اور زکوۃ کو پہلے بیان کیا ہے اور ایمان کا تذکرہ بعد میں ‘ حالانکہ ایمان ہی ہر عمل کی بنیاد ہے اور اس کا تذکرہ پہلے ہونا چاہیے تھا۔ مگر یہاں پر بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ نماز اور زکوۃ کا اس وقت تک کچھ فائدہ نہیں جب تک ایمان درست نہیں ہے یہ بھی ایک طرز بیان ہے ۔ کہ ایمان میں زور پیدا کرنے کے لیے اس کو بعد میں ذکر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے ۔ کہ نیکی کی قدرو قیمت ایمان کے ساتھ ہے۔ جو شخص صحیح ایمان سے محروم ہے اس کی لمبی لمبی نمازیں ‘ صدقہ و خیرات اور نیکی کے دیگر امور عبث محض ہیں۔ ایمان کے بغیر فلاح حاصل نہیں ہوسکتی ۔ فرمایا میرے رسولوں پر صرف زبانی ایمان لانا کافی نہیں۔ بلکہ ایمان کے ساتھ ساتھ اگر وعزرتموھم تم ان کی تائید کرو گے۔ رسولوں اے مسند احمد 308/90 وکنزالعمال 357/ج 3 (فیاض) کی لائی ہوئی شریعت کی تقویت کا باعث بنو گے تعزیر کا لفظ بھی اس سے ہے۔ مجرموں پر جو تعزیر لگائی جاتی ہے اس کا معنی بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے جرائم کی روک تھام کرنے والے ادارہ میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے جرائم کے سد باب میں مدد ملتی ہے۔ تو فرمایا اگر تم دین کے احکام پر عمل پیرا رہے اور تمام امور نبی کے احکام کے مطابق انجام دیے تو پھر اس کا صلہ آگے بیان ہو رہا ہے۔ قرض حسن فرمایا واقرضتم اللہ قرضا حسنا اور اگر تم اللہ کو قرض حسن دو گے۔ اللہ کو قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خوشنودی کے لیے غربا و مساکین پر خرچ کیا جائے ان کو صدقہ و خیرات دی جائے زکوۃ کا حکم چونکہ پہلے بیان ہوچکا ہے لہذا اس قرض حسن سے مراد نفلی صدقہ خیرات ہوگا جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر مستحقین میں تقسیم کیا جائے۔ قرض حسن وہ ہے جو خالص نیک نیتی کے ساتھ دیاجائے اور اس میں نہ کوئی ریاکاری ہو اور نہ اس سے کوئی دوسرا مفاد حاصل کرنا مقصود ہو جو شخص اللہ کے حکم کے مطابق قرض حسن دیتا ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا مال محفوظ ہے اور اسے اللہ تعالیٰ آخرت میں ضرور لوٹا دیں گے ‘ لہذا اسے قرض حسن کہا گیا ہے قرضف حسن اسے بھی کہتے ہیں جو کوئی شخص کسی حاجت مند کو مقررہ مدت کے لیے کوئی رقم ادھار دے دے اور اس کے ساتھ کوئی سود یا دیگر مفاد حاصل نہ کرے۔ اس قرض کے لیے بھی طرفین کی طرف سے خلوص نیت کی ضرورت ہے۔ قرض دینے والا محض اللہ کی رضا کی خاطر اپنے بھائی کی مدد کرے تاکہ ضرورت پور ی کرنے کے بعد وہ رقم واپس کردے ۔ اگر قرض خواہ کی نیت میں ذرہ بھی فتور ہوگا اور وہ قرض دے کر احسان جتلائیگا یا کوئی چھوٹا موٹا مفاد حاصل کر نیکی کوشش کریگا تو وہ قرض حسن نہیں ہوگا اسی طرح مقروض کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ قرض لیتے وقت خلوص نیت سے مقرر ہ مدت میں قرضہ کی واپسی کا ارادہ کرے اور پھر واپسی میں کسی قسم کا پس و پیش نہ کرے۔ اگر مقروض و اقعی مجبور ہے اور وقت مقررہ پر قرض واپس کرنے پر قادر نہیں تو قرض خواہ کو چاہیے کہ ” فنظرۃ الی میسرۃ “ کے مصداق اسے مزیدمہلت دے اور اگر مقروض زیادہ ہی نادار ہے تو قرض کا کچھ حصہ یا سارے کا سارا بھی معاف کردے تو اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا مستحق قرار پائیگا۔ زمانہ حال میں تو قرض حسن کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں ہر شخص اپنے مفاد کو دیکھتا ہے اور ہر وقت دولت جمع کر نیکی فکر میں رہتا ہے وہ کسی کو قرض حسن کیسے اد اکرے گا ۔ اسی طرح جو شخص قرض تو حاصل کرتا ہے مگر اس کی نیت میں فتور ہے اور واپسی کا ارادہ نہیں رکھتا اور مقررہ وقت پر ٹال مٹول کرتا ہے تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ اسی لیے کوئی آدمی قرض حسن دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسے واپسی کا یقین نہیں ہوتا۔ غرضیکہ دونوں طرف کی مفاد پرستی کی وجہ سے قرض حسن کا نظام ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بہت بڑا عمل شمار کیا ہے۔ اور اسے نماز زکوۃ اور ایمان بالرسل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ بہتر صلہ فرمایا اگر تم متذکرہ امور پر عمل پیرا ہو گے اس کا صلہ یہ ہے لاکفرن عنکم سیا تکم میں تمہارے گناہوں کو مٹادوں گا ‘ تمہاری خطائوں سے در گذر کروں گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا ولا دخلنکم جنت تمہیں جنتوں میں داخل کروں گا ‘ ایسے باغات تجری من تحتھا الا نھر جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ تمہارا ٹھکانا ایسے اعلیٰ مقامات میں ہوگا مگر یہ بھی یادرکھو فمن کفر بعد ذلک منکم ان احکام پر عملدرآمد کرنے کے عہد کے بعد جس شخص نے انکار کیا۔ فقد ضل سو آ ء السبیل وہ سیدھے راستے سے بہک گیا۔ اب انکار کی بھی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ اگر متذکرہ احکام پر ایمان ہی باقی نہیں رہا۔ تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہوگیا۔ اور زبان سے تعمیل احکام کا اقرار کرتا ہے مگر عملاً انکار کرتا ہے ‘ تو پھر کفر کے درجے کو تو نہیں پہنچا مگر ناشکر گزاروں میں ضرور داخل ہوگیا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فان الانسان کفور یعنی انسان عام طور پر ناشکر گزارہی ہوتے ہیں۔ بہر حال فرمایا کہ ایسا شخص سیدھے راستے سے بھٹک گیا ‘ کیونکہ سیدھا راستہ تو ایمان اور نیکی کا راستہ ہے ‘ صراط مستقیم اس شخص کو حاصل ہے جو انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان رکھتا ہے۔ ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت کا التزام کرتا ہے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک روا رکھتا ہے اور اپنے عہد کا پابند ہے۔ اسی کے متعلق فرمایا ان ھذا صراطی مستقیما “ میری رحمت کے مقام تک پہنچنے کا یہی صراط مستقیم ہے۔ جو اس راستے پر چلے گا ‘ وہ کامیاب ہوگا جو اس راستے سے بھٹک گیا وہ جہنم میں پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے عہد و پیمان کی بات بنی اسرائیل سے شروع کر کے یہی بات آخری امت کے لوگوں کو بھی سمجھائی ہے کہ جس طرح عہد و پیمان کی پابندی بنی اسرائیل پر لازم تھی ‘ اسی طرح تم بھی عہد و پیمان اور تمام احکام بجا لانے کے پابند ہو۔
Top