Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰى
: موسیٰ
لِقَوْمِهٖ
: اپنی قوم کو
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
اذْكُرُوْا
: تم یاد کرو
نِعْمَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی نعمت
عَلَيْكُمْ
: اپنے اوپر
اِذْ
: جب
جَعَلَ
: اس نے پیدا کیے
فِيْكُمْ
: تم میں
اَنْۢبِيَآءَ
: نبی (جمع)
وَجَعَلَكُمْ
: اور تمہیں بنایا
مُّلُوْكًا
: بادشاہ
وَّاٰتٰىكُمْ
: اور تمہیں دیا
مَّا
: جو
لَمْ يُؤْتِ
: نہیں دیا
اَحَدًا
: کسی کو
مِّنَ
: سے
الْعٰلَمِيْنَ
: جہانوں میں
اور (وہ واقعہ قابل ذکر ہے) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا ‘ اے میری قوم ! یاد کرو اللہ کے احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے جب کہ اس نے تمہارے اندر نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تم کو وہ چیز دی جو اس نے نہیں دی کسی کو جہاں والوں میں سے
ربط آیات پہلے اہل کتاب کے دونوں گروہوں یہودو نصاریٰ کا رد فرمایا اور نصیحت کے طور پر یہ بات کہ دی کہ تمہارے پاس اللہ کا رسول اور اس کی کتاب آگئی ہے۔ اگر تم خرابی سے نکلنا چاہتے ہو تو اس کا اتباع کرو۔ اس سے پہلے یہ بھی واضح فرمایا تھا کہ ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دل سخت ہوگئے پھر انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کا ارتکاب کیا۔ نصاریٰ کے متعلق فرمایا کہ ان کی طرف سے ترک نصیحت کے جرم میں ہم نے ان کے درمیان عداوت اور دشمنی کا بیج بو دیا اور وہ آپس میں دست و گریباں رہے۔ اہل کتاب کی انہی خصلتوں کے پیش نظر اس سورة کی ابتداء میں اہل ایمان سے خطاب کر کے فرمایا اوفوا بالعقود یعنی عہد و پیمان کی پابندی کرو۔ اہل کتاب کی طرح عہد شکنی نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ یا اس کی مخلوق کے ساتھ جو بھی عہد کرو اس کو پورا کرو اس کے علاوہ شعارا کی تعظیم اور اللہ کے قانون حلت و حرمت کی پابندی کا حکم دیا۔ اس کے بعد اہل ایمان کو سچی گواہی کی تلقین فرمائی کونوا قومین للہ شھداء بالقسط “ بلا دورعایت انصاف کی گواہی دینے کے لیے کمر بستہ ہو جائو اور کسی قوم کی دوستی یا دشمنی تمہیں حق کے راستے سے گمراہ نہ کردے ‘ فرمایا تقویٰ کا تقاضا یہی ہے ۔ پھر اللہ نے اپنے احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ دیکھو ! ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا اور ان کی نگرانی کے لیے ان کے بارہ قبائل میں بارہ سردار مقرر کردیے اور اللہ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر تم اپنے عہد پر قائم رہے تو میری مدد تمہارے شامل حال رہی جس کے نتیجے میں تم جنت کے حقدار بن جائو گے۔ مگر بنی اسرائیل نقض عہد کے مرتکب ہوئے جس کے نتیجے میں ملعون ٹھہرے۔ پھر اللہ نے اہل کتاب کے باطل عقائد کا تذکرہ بھی کیا کہ یہود نقض عہد کی وجہ سے مغضوب علیہ ٹھہرے اور عیسائی نثیث اور انبیت کے عقیدے میں ملوث ہو کر راہ راست سے بھٹک گئے۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو وہ واقعہ یاد دلایا ہے جب اس نے ان پر مہربانی فرما کر انہیں غلامی سے آزادی دلائی اور ان سے ارض مقدس میں آباد کاری کا وعدہ فرمایا۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے غلط کردار اور ان کی ناامی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اشار تا اہل ایمان کو بھی خبردار کردیا گیا ہے کہ اگر تم بھی یہودیوں جیسا کردار ادا کرو گے تو تم بھی ان کی طرح ناکامی کا منہ دیکھو گے۔ ارض مقدس کا وعدہ ان آیات میں مذکور وعدہ کی ابتداء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوتی ہے اللہ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ شام و فلسطین کی سرزمین تیری اولاد کو دی جائیگی۔ آپ کا وطن مولودی تو بابل تھا جو بغداد سے ستر یا اسی میل دور آباد تھا۔ اس زمانے میں یہ وسیع آبادی کا متمدن شہر تھا ‘ وہاں پر عظیم حکومت قائمہ تھی۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے وہاں سے ہجرت کی توعرصہ دراز تک ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دے رکھی تھی کہ تیری اولاد کو بہت پھیلائوں گا ‘ بلکہ تورات کی روایت کے مطابق جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ اے ابراہیم ! یہ لوگ تجھے نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے ہیں میری مشیت یہ ہے کہ تیری اولاد کو ریت کے ذروں کی طرح پھیلادوں گا۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ تاریخ کا طویل عرصہ گز ر گیا حتیٰ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ آگیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کی تکمیل یوں کی کہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزادی حاصل ہوئی دشمن ہلاک ہوا ‘ اور بنی اسرائیل بحر قلزم کو عبور کرکے صحرائے سینا میں پہنچ گیے۔ اس وقت پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ اے بنی اسرائیل ! تم قابض قومہ سے جہاد کرو تاکہ شام و فلسطین کی وہ سرزمین تمہارے قبضہ میں دے دی جائے۔ جو تمہارے حصے میں لکھی جا چکی ہے۔ ارض مقدس کی داکذازی گذشتہ دروس میں یہ تذکرہ آچکا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں بارہ نقیب مقرر فرمائے تاکہ وہ اپنے اپنے قبیلے کی نگرانی کرسکیں۔ جب انہیں جہاد کا حکم ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں بارہ نقیبوں کو مقبوضہ مقدس سرزمین کے حالات معلوم کرنے پر مامور کیا تاکہ وہاں کے حالات اور قابض قوم عمالقہ کی قوت کے مطابق جہاد کی تیاری کی جاسکے۔ آپ نے انہیں یہ بھی سمجھا دیا تھا کہ تم اس قوم کی ظاہری طاقت اور شان و شوکت کو بنی اسرائیل کے سامنے ظاہر نہ کرنا ورنہ وہ بد دل ہو کر جہاد سے گریز کریں گے ‘ حالانکہ اللہ نے اس زمین کی واگذاری کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ ضرور ہمیں فتح نصیب کریگا۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو قوم عمالقہ کی وجاہت دیکھ کر سخت مرعوب ہوئے۔ ان میں سے دس آدمیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت پر عمل نہ کیا اور واپس آکر اپنی قوم کو اس قوم کی قوت کے لیے ایسے افسانے سنائے کہ بنی اسرائیل ہمت ہار بیٹھے اور انہوں نے جہاد سے انکار کردیا۔ اگرچہ باقی دو نقیبوں کا لب اور یوشع (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہدایت کے مطابق ارض پاک کی خوبیاں بیان کر کے قوم کو جہاد پر آمادہ کرنا چاہا۔ مگر قوم سخت بد دل ہوچکی تھی۔ لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو اس واقعہ سے سخت کو فت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے بطور سزا بنی اسرائیل کو فرمادیا کہ اس حکم عدولی کی وجہ سے تم چالیس سال تک صحرائوں میں سرگردان پھرتے رہو گے ‘ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر خروج مصر سے ستر پچھتر سال بعد جب نئی نسل تیار ہوئی تو انہوں نے دشمن کا مقابلہ کر کے شام و فلسطین کا علاقہ فتح کیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگیا۔ اگر یہ لوگ ابتداء ہی میں جہاد کے لیے تیار ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا اور وہ اسی وقت مقدس سرزمین پر قابض ہوجاتے مگر اپنی بزدلی کی وجہ سے انہیں چالیس سال تک صحرا نور دی اختیار کرنا پڑی۔ بنی اسرائیل پر احسانات ارشاد ہوتا ہے واذ قال موسیٰ لقومہ اس واقعہ کو یادکرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا یقوم اذکروا نعمۃ اللہ علیکم “ اے میری قوم ! اللہ کے ان احسانات کو یاد کرو۔ جو اس نے تم پر کیے۔ مئورخین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جن احسانات کی طرف اشارہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے 1440 سال قبل کیے تھے۔ پھر جب مسیح (علیہ السلام) کا زمانہ آیا تو انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کے وہ احسانات یاد دلائے۔ پھر مسیح (علیہ السلام) کے بعد چھ سو سال کا مزید عرصہ گزر گیا۔ جب کہ حضور خاتم النبین ﷺ کی بعثت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے گذشتہ واقعات کا تذکرہ فرمایا۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل پر سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ اللہ نے انہیں توحید پرست بنایا۔ بحیثیت قوم بنی اسرائیل خدا کی وحدانیت کا تصور رکھتے تھے۔ البتہ باقی احسانات کا تذکرہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے اذ جعل فیکم انبیآء تمہاری قوم میں اللہ تعالیٰ نے بکثرت نبی پیدا فرمائے تفسیری روایتوں میں آتا ہے کہ مجموعی طور پر بنی اسرائیل میں چار ہزار نبی مبعوث ہوئے۔ جو کہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ نبی کی بعثت بڑی فخر کی بات ہے کہ اسی کے ذریعے انسان کا ۔۔ عقیدہ نور عمل درست ہوتا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے روشناس ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ پہلا احسان تم پر یہ فرمایا کہ تم میں ہزاروں نبی مبعوث فرمائے۔ پھر فرمایا وجعلکم ملوکا اور تم کو بادشاہ بنایا۔ بڑی بڑی سلطنتیں عطا فرمائیں۔ چناچہ حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عظیم سلطنتیں تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ حضرت طالوت کی بادشاہت کا تذکرہ بھی سورة بقرہ میں آچکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بیشمار جلیل القدر بادشاہ پیدا کیے۔ یہ خدا کی مہربانی اور اس کا احسان تھا۔ عام طور پر بادشاہ تخت و تاج کے مالک کو کہا جاتا ہے ‘ مگر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ کہ بنی اسرائیل ہر خوشحال اور آسودہ حال آدمی کو بادشاہ کہتے تھے۔ صحیح مسلم شریف میں بھی آتا ہے کہ کچھ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کے پاس گئے اور کہنے لگے السنا فقرآء المھاجرین کیا ہم محتاج اور مہاجر نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا ‘ کیا تمہاری بیوی موجود ہے عرض کیا موجود ہے آپ نے پوچھا تمہارے پاس مکان بھی ہے ‘ کہا مکان بھی ہے ‘ آپ نے فرمایا پھر تم محتاج کیسے ہو آنت من الاغنیآء تم تو غنی ہو۔ اس شخص نے پھر عرض کیا ‘ حضرت میرے پاس تو خادم بھی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا انت من الملوک پھر تو ملوک میں سے ہے یعنی خوشحال آدمی ہے کیونکہ تیرے پاس بیوی ہے ‘ رہنے کے لیے مکان ہے اور خدمت کے لیے خادم بھی موجود ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یاد دلایا کہ تم میں انبیاء پیدا کیے ‘ تمہیں خوشحال بنایا تم میں عظیم سلطنتوں والے بادشاہ بنائے۔ ان میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بادشاہی جن ‘ ان اور طیور پر بھی تھی۔ آپ کو ہوا پر بھی تسلط حاصل تھا ‘ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی ” رب الغفر لی وھب لی ملک لا ینبغی لا حد من بعدی “ اے اللہ مجھے معاف کردے اور ایسی سلطنت عطا کر جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو ‘ چناچہ اس دعا کے۔ نتیجے میں اللہ نے آپ کو بیمثال حکومت عطا فرمائی۔ اس کے علاوہ بنی اسرائیل میں بڑے بڑے فوجی جرنیل ‘ حکیم ‘ فلاسفر ‘ دانشور اور صاحب علم لوگ پیدا ہوئے۔ یہ سب بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات تھے۔ آگے فرمایا واتکم مالم یئو ت احد من العلمین اور تمہیں وہ چیز عطا کی جو جہاں بھر میں کسی کو نہ دی گئی۔ یہ عظمت و تفوق بنی اسرائیل کو اپنے دور میں بحیثیت قوم حاصل ہوئی۔ اللہ نے ایسا اعزاز اور شرف عطا کیا کہ کوئی دوسری قوم بنی اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ پھر یہی عظمت اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم ﷺ میں سے قریش اور حضور خاتم النبیین ﷺ کو عطا کی ‘ اس کا ذکر احادیث اور قرآن میں بکثرت موجود ہے ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا “ امتِ محمد یہ کو یہ برتری عرصہ دراز تک دنیا میں حاصل رہی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام قوموں اور ملتوں میں اس امت کو سرفراز فرمایا مگر بالآخر ان میں بھی وہی قباحتیں پیدا ہوگئیں جو بنی اسرائیل میں پائی جاتی تھیں اور حضور ﷺ کی حذ والنعل بالنعل والی پیشین گوئی پوری ہوگئی۔ آخری امت بھی بنی اسرائیل کے نقش ِ قدم پر ہی چل پڑی۔ آج بنی اسرائیل والی تمام بری خصلتیں اور ذلتیں مسلمانوں میں موجود ہیں حتیٰ کہ مشرک اور دہریے بھی ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کے برخلاف دنیا کی ذلیل ترین یہودی قوم مادی لحاظ سے آج مسلمانوں سے کہیں آگے ہے۔ ارض مقدسہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلانے کے بعد فرمایا یقوم ادخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم اے میری قوم ! تم ارض ِ مقدسہ میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھدی ہے ۔ سرزمین شام و فلسطین کو مقدس اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی زرخیز خطہ ہے۔ جسے اللہ نے تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں سے نوازا ہے بعض مفسرین اس خطہ میں اردن کو بھی شامل کرتے ہیں۔ اس کے بابرکت ہونے کی انبیاء نے دعائیں کیں ‘ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین میں ہزاروں انبیاء مبعوث فرمائے یہ علاقہ حضرت ابراہیم ‘ اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا وطن ہونے کے علاوہ سینکڑوں اور ہزاروں دیگر انبیاء کا مولد و مسکن رہا ہے۔ ظاہری طور پر بھی بڑا زر خیز خطہ ہے۔ پانی کے چشمے ‘ باغات ‘ سبزہ زار اور معتدل موسم ہے ‘ اس سرزمین کو قبلہ اول ہونے کا بھی شرف حاصل ہے مگر یہی مقام اب ناپاک ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ دراصل مسلمان ہی اس سرزمین کے امین ‘ اس کی حفاظت اور تقدس کے ذمہ دار تھے ‘ مگر عربوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے اب مسلمان ذلت کا شکار ہیں۔ مصر کے عظیم شاعر شوقی نے بھی اس سرزمین کی شان و شوکت کا تذکرہ اپنے کلام میں کیا ہے۔ ہمارے ہاں علامہ اقبال کی طرح یہ بھی عربوں کا قومی شاعر تھا۔ عربی ادب سے واقف لوگ کہتے ہیں کہ گذشتہ ایک ہزار سال میں اتنا عظیم شاعر پیدا نہیں ہوا۔ اس نے 1921 ئ میں وفات پائی ‘ وہ دمشق کے متعلق کہتا ہے ؎ امنت باللہ واستثنیت جنتہ دمشق روح و جنت وریحان میں اللہ پر ایمان لایا ہوں مگر میں جنت کو متثنی کردیا ہے مجھے جنت پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سرزمین پر دمشق جنت کے نمونے طور پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں جنت کی تمام خوبیاں۔ پھل ‘ پھول ‘ پانی کے چشمے ‘ باغات ‘ نہریں وغیرہ پیدا کی ہیں اس شعر میں اگرچہ شاعرانہ مبالغہ ضرور ہے مگر اس سرزمین کی خوبیاں ایسی ہیں۔ داخلے کا حکم بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اس خطہ ارضی میں داخل ہو جائو ‘ اسے اللہ نے تمہارے مقدر میں کر رکھا ہے۔ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی وعدہ کیا تھا کہ اس سرزمین کو تیری اولاد کا مرکز بنائوں گا۔ لہٰذا تم اس میں داخلے کے لیے جہاد کا آغاز کرو ولاترتد علی ادبارکم اور اپنی پشتوں پر نہ پھرنا یعنی بزدل ہو کر واپس نہ آجانا بلکہ آگے کی طرف بڑھنا۔ اور اگر تم پیچھے کی طرف مڑے فتنقلبوا خسرین تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جائو گے۔ اللہ کے حکم کی تعمیل میں اقدام کرو تو ملک فتح ہوجائے گا ۔ مگر بنی اسرائیل کہنے لگے قالوا یموسی ان فیھا قوما جبارین وہاں تو بڑی زبردست قوم عمالقہ رہتی ہے وہ بڑے قد آور اور طاقتور لوگ ہیں ۔ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا وانا من ند خلھا حتی یخرجوا منھا ہم ان کے علاقے میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ فان یخرجوا منھا فانا دخلون جب وہ لوگ اس سرزمین سے نکل جائیں گے۔ تو پھر ہم داخل ہوجائیں گے۔ ہم ان کی موجودگی میں نہیں جاسکتے۔ کیونکہ وہ بڑے زبردست لوگ ہیں۔ فرمایا قال رجلن من الذین یخافون ان میں سے دو آدمیوں نے کہا جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں ۔ یہ وہی حضرات کا لب اور یوشع ہیں جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے دیگر نقیبوں کے ہمراہ ارض مقدسہ کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ باقی دس آدمی تو قوم عمالقہ سے خوف زدہ ہوگئے مگر ان دو حضرات نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے انہیں جہاد کی ترغیب دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد یہی حضرات آپ کے جانشین ہوئے ‘ حضرت یوشع (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔ تو ان آدمیوں کے متعلق فرمایا کہ انعم اللہ علیھما اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام فرمایا تھا۔ ایمان کا حصول اور بنی کا اتباع بہت بڑا انعام اور اللہ کا احسان ہے جو ان کو حاصل ہوا۔ تو ان دو حضرات نے قوم سے کہا ادخلوا علیھم۔۔ تم ایک مرتبہ قوم عمالقہ کے دروازے میں داخل ہو جائو فاذا دخلتموہ فانکم غلبون جب تم داخل ہو جائو گے تو تمہیں غلبہ بھی حاصل ہوجائے گا۔ توکل علی اللہ ان آدمیوں کی ایمان پر پختگی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم کا نتیجہ تھی۔ جب اللہ کا نبی فرما رہا ہے۔ کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ اس زمین میں داخل ہو جائو۔ یہ تمہیں دے دی گئی ہے تو اب اس کی طرف بڑھنے میں کوئی ہچکچاہت نہیں ہونی چاہیے۔ جب اللہ نے فتح کا وعدہ کرلیا ہے تو ممکن ہے کہ بغیر جنگ کے ہی فتح حاصل ہوجائے تاہم ایسے عظیم کام کے لیے پوری تیاری کے ساتھ نکلنا بھی ضروری ہے انہوں نے یہ بھی کہا وعلی اللہ فلیتوکلوا تم الہ کی ذات پر بھروسہ رکھو ‘ اپنی ظاہر کمزوری کو خاطر میں نہ لائو ! اسلحہ کے فقدان سے مت گھبرائو بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق حملہ آور ہو جائو ‘ تمہیں اللہ کی تائید حاصل ہے لہٰذ فتح تمہاری ہوگی۔ گذشتہ رکوع میں بھی گذر چکا ہے۔ کہ اللہ نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا کہ اگر تم نماز قائم کرو گے۔ زکوۃ اداکرو گے ‘ میرے رسولوں پر ایمان لائو گے ‘ ان کی تائید کرو گے تو انی معکم “ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ یہاں بھی فرمایا کہ تم اللہ پر بھروسہ رکھو ان کنتم مئومنین اگر تم ایمان رکھتے ہو اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ذات پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے اس کے حکم کی تعمیل کر گزرو۔ وہ مسبب الاسباب ہے ‘ تمہارے قلیل سازو سامان میں بھی اثر پیدا کر دے گا ‘ تاہم تمہاری طرف سے تعمیل حکم کا مظاہرہ تو ہو ناچاہیے۔ بہر حال ان دو حضرات نے بنی اسرائیل کو سمجھانے کی کوشش کی مگر جیسا کہ اگلی آیات میں آرہا ہے۔ قوم نے حکم کی تعمیل سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں وہ عرصہ دراز تک وطن سے محروم رہے پھر کچھ زمانہ گزرنے کے بعد نئی نسل آئی ‘ نیا خون پیدا ہوا ‘ اچھے شعور کے لوگ آگے آئے اور انہوں نے جہاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ارض مقدسہ بنی اسرائیل کو عطا فرمادی۔
Top