Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 30
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
فَطَوَّعَتْ : پھر راضی کیا لَهٗ : اس کو نَفْسُهٗ : اس کا نفس قَتْلَ : قتل اَخِيْهِ : اپنے بھائی فَقَتَلَهٗ : سو اس نے اس کو قتل کردیا فَاَصْبَحَ : تو ہوگیا وہ مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
پس آمادہ کیا اس کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر ‘ پھر اس نے اس کو قتل کرڈالا ‘ پس ہوگیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں
ربط آیات آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے درمیان تنازعہ کا ابتدائی حصہ گزشتہ درس میں بیان ہوا تھا۔ دونوں نے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنی اپنی قربانی پیش کی ۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگی جب کہ قابیل کی نہ ہوئی۔ اس نے غصے میں آکر اپنے بھائی کو قتل کی دہمکی دی مگر ہابیل نے کہا کہ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اللہ کے ہاں قربانی کی قبولیت کا معیار یہ ہے کہ وہ متقیوں سے قبول کرتا ہے۔ اگر تم بھی تقوے کی صفت متصف ہوتے تو اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی بھی قبول فرما لیتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا ئیگا۔ تو میں تیرے قتل کے لیے اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا ‘ کیونکہ میں اس اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اور اگر تم نے مجھے قتل کر ہی دیا۔ تو پھر تمہیں میرے قتل کا گناہ اور خود اپنے گناہ بھی اٹھانا ہوں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم جہنمی بن جائو گے۔ بھائی کا قتل باوجود اس کے کہ ہابیل نے بڑی مئوثر بات کی مگر قابیل اپنے ارادے سے باز نہ آیا۔ اللہ جل شانہ نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا۔ طوعت کے کئی ایک معنی آتے ہیں جیسے آمادہ کردینا ‘ آسان کردینا ‘ مزین کردینا ‘ ہموار کردینا وغیرہ۔ بہر حال قابیل کے نفس نے اسے اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ ہابیل کو اپنے راستے سے ہٹا دے ‘ فقتلہ پھر اس نے اس کو قتل کردیا۔ نفس کی آمادگی کے متعلق خود قرآن میں موجود ہے۔ ” ان النفس لامارۃ بالسوء “ نفس کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ انسان کو برائی پر آمادہ کرتا ہے۔ کوئی بھی گناہ کرتے وقت ابتدا میں جھجک محسوس ہوتی ہے پھر آہستہ آہستہ انسان کا نفس اور شیطان اس کو برائی پر آمادہ کرلیتا ہے پھر جب وہ ایک دفعہ گناہ میں ملوث ہوجاتا ہے۔ تو اس کے لیے راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ واعظ اللہ فی قلب کل مئومن ہر مومن کے دل میں خدا کی جانب سے ایک واعظ ہوتا ہے۔ اور اس سے مراد انسان کا ضمیر ہے جو بیدار ہوتا ہے اور ہر برائی پر اسے خبردار کرتا ہے۔ انسان جب اس نصیحت کو نظر انداز کرکے پہلی مرتبہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ تو اس کے دل پر سیاہ داغ لگ جاتا ہے۔ پھر بھی اس کے لیے موقع ہوتا ہے کہ توبہ کرلے اور آئندہ اس سے باز آجائے۔ اگر ایسا کرلے تو سیا ہ دہبہ صاف ہوجاتا ہے اور اگر گناہ پر اصرار کرتا ہے تو دل کی سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتی کہ سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” کلا بل سکتہ ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون “ لوگو ! سن لو ‘ ان لوگوں کی برائیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے اور ان کے دل سیاہ ہوچکے ہیں۔ بہرحال فرمایا کہ قابیل کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا اور اس نے اسے قتل کردیا۔ دوہر نقصان طریقہ قتل کے متعلق تفسیر ی روایات میں آتا ہے کہ ہا بیل کہیں سو رہا تھا۔ قابیل کو موقع مل گیا اور اس نے اوپر سے پتھر مار کر بھائی کا سر کچل دیا۔ قتل کی جو بھی صورت ہو ‘ اللہ نے فرمایا کہ اس فعل کے ارتکاب کے بعد فاصبح من الخسرین وہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگیا قاتل کو ظاہری نقصان تو یہ ہوا کہ اس کے ماں باپ سخت ناراض ہوگئے۔ گویا بھائی سے محرومی اور والدین کی ناراضگی بذات خود بہت بڑا نقصان ہے۔ عرب لوگ کہا کرتے ہیں ” المرء کثیر باخیہ بھائیوں کی وجہ سے آدمیوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ فارسی کا مقولہ بھی ہے ” ہر کہ برادر ندارو قوت بازو ندار و “ جس کا بھائی نہیں ہے ‘ اس کے پاس قوت بازو نہیں ہے۔ بھائیوں کی تائید انسان کی طاقت کا ذریعہ ہوتا ہے مصیبت کے قوت بھائیوں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے۔ تو بھائی کو قتل کر کے دوسرا بھائی قوت بازو سے محروم ہوگیا۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے فارسی والے کہتے ہیں “ ہر کہ وہ درندار و شفقت ندارو ‘ جس کی ماں نہیں ہے وہ شفقت سے محروم ہے۔ اور ہر کہ زن ندارو آسائش تن ندارو “ جس کی بیوی نہیں ہے اسے جسم کا آرام میسر نہیں ہے۔ اللہ نے بھی فرمایا کہ تمہارے لیے بیویاں پیدا کی ہیں لتسکنوا الیھا “ تاکہ تمہیں راحت نصیب ہو ۔ اسی طرح ایک بھائی کے لیے دوسرا بھائی بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ خاص طور پر نیک اور متقی بھائی سے محرومی نقصان عظیم ہے۔ اس دنیوی اور فوری نقصان کے علاوہ آخرت کا شدید ترین اور دائمی نقصان بھی پیش آنے والا ہے ‘ بھائی کا قتل انتہائی ظلم اور قطع رحمی کی بدترین مثال ہے۔ دنیا میں خونریزی کی ابتداء اسی قتل سے ہوئی اس سے پہلے کوئی خون نہیں بہا تھا۔ اس اولین قتل کا اثر نہ صرف والدین اور بھائی پر ہوا بلکہ پورے ماحول پر ہوا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ قاتل کا بدن سیاہ ہوگیا ‘ خارجی دنیا میں پھل کڑوے ہوگئے ‘ درختوں کے ساتھ کانٹے لگ گئے اور اسی طرح کئی دیگر ناگوار تغیرات پیش آئے۔ یہ سب تفسیری روایات میں آتا ہے۔ اخروی نقصانات میں سے ایک عظیم ترین نقصان یہ ہے۔ کہ اس قتل ناحق کا وبال قاتل پر ہمیشہ کے لیے قائم ہوگیا۔ اب قیامت تک جتنے بھی قتل ناحق ہوتے رہیں گے ان کا گناہ متعلقہ قاتل کے علاوہ اولین قاتل قابیل کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتا رہے گا کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے لانہ اول من من القتل اس لیے کہ قابیل نے دنیا پر پہلا قتل کر کے اس جرم کو رائج کیا۔ اب ہر ایسے فعل کی برائی اس کو بھی ملتی رہے گی۔ اسی طرح جو شخص کسی نیکی کا دستور قائم کرے گا۔ اس پر عمل کرنے والے ہر شخص کے علاوہ اس کا ثواب اس کے اولین جاری کنندہ کو بھی پہنچتا رہے گا۔ غرضیکہ اس لحاظ سے بھی قابیل کے لیے یہ بہت بڑا نقصان ہے کہ دنیا کے ہر قتل میں سے اس کو حصہ ملتا رہے گا۔ تدفین میت چونکہ اس سے پہلے کسی انسان کی موت واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے قابیل کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ بھائی کے بےجان لاش کو کیسے ٹھکانے لگائے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ وہ لاش کو کندھے پر اٹھائے پھرتا رہا اور جب وہ گلنے سڑنے لگی تو دماغ چکرانا شروع ہوگیا ‘ اس سے اسے مزید پریشانی لاحق ہوگئی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اس کی راہنمائی فرمائی فبعث اللہ غرابا اللہ نے کوے کو بھیجا یبحث فی الارض تو زمین میں کریدتا تھا۔ اس کا ذکر کر بائببل میں بھی موجود ہے مگر وہاں کوے کی بجائے جنگلی فاختہ کے الفاظ ہیں۔ بائیبل تو تحریف سے پاک نہیں رہی اور یہاں اللہ تعالیٰ نے صراحتا کوے کا ذکر فرمایا ہے۔ لہٰذا یہی بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام کوئے سے لیا۔ کوے کے ذریعے راہنمائی کے متعلق مفسرین نے کئی واقعات لکھے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دو کوئے آپس میں لڑپڑے ‘ پھر ایک نے دوسرے کے پر وغیرہ نوچ ڈالے حتی کہ اسے مارڈالا۔ اس کے بعد زمین کو کرید کر گڑھا بنایا اور مردہ کوے کو اس میں دفن کردیا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ کسی مردہ جانور کے دفن کرنے کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا بلکہ کوئی بھی ایسی چیز جسے فوری استعمال کرنا مطلوب نہ ہو اسے آئندہ استعمال کے لیے زمین میں دبا دیا جاتا ہے تو ایسا ہی کوئی واقعہ قابیل کے سامنے پیش آیا تھا۔ اس سلسلہ میں اللہ کی طرف سے کوئے کا انتخاب بڑا معنی خیز ہے کرے کی فطرت میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہم جنس کی لاش پر بڑا شور مچاتے ہیں اور سب کوے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ پھر جب تک وہ لاش کسی ٹھکانے نہ لگ جائے کو وں کی بےچینی اور شوروغل جاری رہتا ہے۔ چناچہ ہابیل کی لاش کی تدفین کے لیے بھی اللہ نے کوئے سے کام لیا اس نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین کو کریدا اور مردہ کوے یا کسی دوسری چیز کو اس گڑھے میں دفن کیا۔ مقصد یہ تھا لیر یہ کیف یواری سوء ۃ اخیہ کہ قابیل کو دکھادیا جائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔ سوء ۃ لاش پر بھی بولاجاتا ہے اور اعضائے مستورہ پر بھی ‘ اور اس کا اطلاق مطلق جسم پر بھی ہوتا ہے ۔ بہر حال اس پہلی میت کے تدفین کا طریقہ اللہ نے ایک کوے کے ذریعے سمجھا دیا۔ میت کی تدفین ایک فطری عمل ہے ‘ اس سے جسم انسانی کی حفاظت بھی ہوجاتی ہے اور اس کی توہین و تذلیل بھی نہیں ہوتی ‘ اس کے علاوہ میت کو ٹھکانے لگانے کے سارے طریقے غیر فطری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کا یہ بھی ایک خاصہ بیان فرمایا ہے الم نجعل الارض کفاتا احیآء وامواتا ( مرسلات) یہ زمین زندوں کو بھی اپنے اوپر تھامتی ہے اور مردوں کو بھی سمیٹ لیتی ہے۔ سورة عبس میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ پھر اس نے زندگی کی تمام منازل طے کیں ثم اماتہ فاقبرۃ “ پھر ہم نے اسے موت دی اور اسے قبر کے سپرد کردیا۔ گویا مردے کو قبر میں دفن کرنا ایک فطری عمل ہے ہندو اپنے مردوں کو جلا ڈالتے ہیں ۔ جو کہ اشرف المخلوقات کی سخت توہین ہے مجوسی لاش کو اونچی جگہ پر کھلے عام رکھ دیتے ہیں ۔ چپلیں آکر اس کا گوشت نوچ لیتی ہیں۔ اس کی ہڈیاں نیچے گر پڑتی ہیں جنہیں بعد میں ٹھکانے لگادیا جاتا ہے۔ یہ سب غیر فطری طریقے ہیں۔ انسان کی عزت و احترام کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے مردہ کو ادب و احترام کے ساتھ زمین میں دفن کردیا جائے۔ اظہار تاسف بہر حال جب قابیل نے ایک کوئے کو دیکھا کہ اس نے زمین کرید کر مردہ کوے کو دفن کیا ہے تو اپنے آپ پر افسوس کرنے لگا قال یویلتی اعجزت ہائے افسوس کیا میں اتنا عاجز آگیا ہوں ان اکون مثل ھذا الغراب کہ میں اس کوے جیسا بن جائوں۔ مطلب یہ تھا کہ افسوس میں ایک کوئے جتنی عقل بھی نہیں رکھتا۔ ایک پرندے نے تو لاش کو دفن کردیا مگر مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا۔ یہ قابیل کی طرف سے اظہار تاسف کے الفاظ تھے۔ اپنی کم عقلی اور کمزوری کو ظاہر کرنے کے بعد اس نے کوے سے سبق سیکھا فاواری سوء ۃ اخی مجھ سے تو اتنا بھی نہ ہوا کہ میں اپنے بھائی کی میت کو چھپا دیتا یعنی زمین میں دفن کردیتا۔ قانون ایفائے عہد اس سورة مبارکہ کی ابتداء میں اہل ایمان کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے ۔ ” اوفو ا بالعقود “ یعنی اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو اور نقض عہد کا ارتکاب مت کرو۔ اگر عہد کو پورا کرو گے تو تمہیں ترقی نصیب ہوگی اور عہد شکنی کے مرتکب ہوگئے تو برے نتائج سامنے آئیں گے۔ یہودی عہد شکنی کی وجہ سے ہی سنگدل اور طعون ٹھہرے اور نصاریٰ باہمی جنگ و جدل میں مبتلا ہوئے اہل ایمان کو سمجھایا گیا ہے۔ کہ اگر تم بھی اہل کتاب کی روش پر چلو گے تو یہ بیماریاں تمہارے اندر بھی پیدا ہوجائیں گی ‘ انسان قانون کا مکلف ہے اور اس کی پابندی میں ہی اس کا عروج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ملکیت اور بہیمیت کی باہمی کش مکش رکھ دی ہے۔ اب یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے ۔ وہ صفت ملکیت کو غالب لاکر قانون خداوندی کی پابندی کرے۔ اگر اس کی خلاف ورزی کرے گا تو انسانیت کے دائرہ سے نکل کر بہیمیت والوں کے گروہ میں شامل ہوجائے گا ‘ بلکہ ان سے بھی کم تر درجے میں چلا جائیگا۔ اللہ نے فرمایا ہے ” ثم رددنہ اسفل سفلین “ جب وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو درندوں ‘ پرندوں اور کیڑے مکوڑوں سے بھی ذلیل تر ہوجاتا ہے۔ اور قابیل کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے قانون خداوندی کے خلاف کیا تو اللہ نے اسے دکھا دیا کہ وہ کوے جیسے جانور سے بھی ذلیل ہوگیا ہے۔ احساس ندامت بہرحال قابیل نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑا ‘ بھائی کو قتل کیا ‘ پھر لاش کو ٹھکانے لگانے سے بھی عاجزرہا ‘ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا فاصبح من الندمین وہ ندامت اٹھانے والوں یعنی پچھتا نے والوں میں ہوگیا۔ اسے اپنی عاجزی اور بےعقلی پر افسوس ہوا جس کی وجہ سے اسے احساس ندامت ہوا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے التوبۃ الندم یعنی توبہ ندامت ہی کا نام ہے۔ جب کوئی شخص غلط کا م کر بیٹھتا ہے ۔ پھر اسے ندامت ہوتی ہے اور وہ اس کام سے باز آجاتا ہے۔ وہ آئندہ کے لیے بھی عزم کرتا ہے کہ ایسے کام کا اعادہ نہیں کریگا ‘ تو یہی توبہ ہے۔ مگر قابیل کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ اپنی بےعقلی پر اظہار ندامت کررہا تھا۔ کہ اسے ایک کوئے جیسی عقل بھی حاصل نہیں ‘ مگر وہ اپنے فعل قتل پر نادم نہیں ہوا اور نہ اس نے توبہ کی ‘ لہذا وقتی طور پر تو اس کی پریشانی دور ہوگئی۔ مگر جرم قتل عمد میں ہمیشہ کے لیے عذاب کا مستحق بن گیا۔
Top