Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 8
مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ
مَّا لَهٗ : نہیں اس کے لیے مِنْ دَافِعٍ : کوئی دور کرنے والا
اسے کوئی ٹالنے والا نہیں
[ 8] رب کے عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکتا : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک تمہارے رب کے عذاب نے بہرحال آکر اور واقع ہو کر رہنا ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہوگا۔ اپنے اس وقت سے جو اس کے لئے تمہارے رب نے مقرر فرما رکھا ہے اور جس کا علم اسی وحدہٗ لاشریک کو ہے، یہاں کائِن [ ہونے والا ] نہیں بلکہ " واقعٌ " فرمایا گیا ہے جس کے معنی بلندی سے نیچے گرنے والی، اور زور سے لگنے والی چیز کے ہیں، سو وہ عذاب بڑا ہی ہولناک ہوگا، اور وہ بہرحال ہو کر رہنے والا ہے، یہ منکر لوگ نہ تو خود اس کو ٹال سکیں گے اور نہ ہی ان کے مزموعہ شرکاء و شفعاء میں سے کسی کے اندر اس کا ٹالنے کی کوئی ہمت و سکت ہوگی، پس کوئی مانے یا نہ مانے، ایمان لائے یا نہ لائے، تسلیم کرے یا نہ کرے۔ یہ امر بہرحال قطعی اور یقینی ہے کہ اس عذاب نے اپنے وقت پر بہرحال آکر اور واقع ہو کر رہنا ہے، سو بڑے بدنصیب، محروم اور خسارے والے ہیں وہ لوگ جو اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اور وہ اس کو بھول کر عمر رواں کی فرصت محدود و مختصر کو یونہی ضائع کر رہے ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو خبر دی گئی آسمانی اور الہامی کتابوں میں جو ریکارڈ مرقوم و مسطور ہے اور یہ زمین جن شواہد و دلائل سے مملوومعمور ہے، اور اس نیلگوں آسمان کا یہ سقف مرفوع جن عجائب قدرت سے مزین ہے اور یہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر جن آیات الٰہی اور دلائل قدرت کے امین و پاسدار ہیں، یہ سب اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ تمہارے رب کے عذاب نے بہرحال واقع ہر کر رہنا ہے، اور اس حد تک کہ اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، اس کے باوجود جو لوگ اس حقیقت کبری کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے، تو ان کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ وہ اس عذاب میں مبتلا ہو کر رہیں جس سے ان کو خبردار کیا جا رہا ہے، لیکن اس کے بعد ان کیلئے اس سے نچنے کی کوئی صورت کسی بھی طرح ممکن نہ ہوگی، اور جرم تکذیب و انکار کے نتیجے میں ان کو ہمیشہ ہمیش کے عذاب میں رہنا ہوگا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال۔
Top