Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا
: یہی
جَزٰٓؤُا
: سزا
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُحَارِبُوْنَ
: جنگ کرتے ہیں
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
وَ
: اور
يَسْعَوْنَ
: سعی کرتے ہیں
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
فَسَادًا
: فساد کرنے
اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا
: کہ وہ قتل کیے جائیں
اَوْ
: یا
يُصَلَّبُوْٓا
: وہ سولی دئیے جائیں
اَوْ
: یا
تُقَطَّعَ
: کاٹے جائیں
اَيْدِيْهِمْ
: ان کے ہاتھ
وَاَرْجُلُهُمْ
: اور ان کے پاؤں
مِّنْ
: سے
خِلَافٍ
: ایکدوسرے کے مخالف سے
اَوْ يُنْفَوْا
: یا، ملک بدر کردئیے جائیں
مِنَ الْاَرْضِ
: ملک سے
ذٰلِكَ
: یہ
لَهُمْ
: ان کے لیے
خِزْيٌ
: رسوائی
فِي الدُّنْيَا
: دنیا میں
وَلَهُمْ
: اور ان کے لیے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
عَذَابٌ
: عذاب
عَظِيْمٌ
: بڑا
بیشک جزاء ان لوگوں کی جو لڑتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے ‘ اور کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد کی یہ ہے کہ ان کو قتل کیا جائے یا انہیں سولی پر لٹکایا جائے یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھے ‘ یا ان کو دور کردیا جائے زمین سے ۔ یہ ان کے لیے رسوائی ہے دنیا میں اور ان کے لیے آخرت میں عذاب عظیم ہے
ربط آیات گذشتہ آیات میں اللہ نے آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک نے ظلم وتعدی کے ساتھ دوسرے کو قتل کردیا اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قتل ناحق کی مذمت بیان فرمائی ۔ چونکہ بنی اسرائیل میں یہ بیماری بکثرت موجود تھی اس لیے اللہ نے فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کی تعلیم کے لیے یہ بات لکھدی کہ جو کوئی کسی شخص کو بغیر قتل نفس اور بغیر فساد فی الارض کے قتل کرتا ہے وہ گویا تمام انسانوں کا قاتل ہے کیونکہ دنیا میں جس قدر قتل ناحق ہوتے ہیں ان سب کا ایک ایک و بال سب سے پہلے قاتل پر بھی پڑتا ہے۔ ایک شخص کا قاتل پوری دنیا کے انسانوں کے قتل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کے برخلاف فرمایا کہ جو شخص کسی ایک انسانی جان کی حفاظت کرتا ہے ‘ وہ گو یا تمام نسل انسانی کی حفاظت میں شریک ہوتا ہے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے فساد کی ایک اور قسم کا ذکر کرکے مفسد کو دی جانے والی سزا کو بیان فرمایا ہے۔ لفظ فساد اپنے اندر بہت وسیع معانی رکھتا ہے۔ ویسے تو کفر ‘ شرک اور قتل ناحق فساد ہی کی اقسام ہیں۔ کسی کے مال وجان کو نقصان پہنچانا ‘ کسی کی عزت و آبرو سے کھیلنا فساد ہی کے حصے ہیں مگر اس آیت کریمہ میں فساد کی ایک قسم حرابہ ۔۔۔ یا ڈکیتی کا ذکر کرکے اس کی سزا کو بیان فرمایا ہے۔ اس سے اگلی آیات میں جہاد فی سبیل اللہ اور تقویٰ کا بیان ہے اور اس کے بعد پھر فساد ہی کی ایک قسم چوری اور اس کی سزا کا ذکر ہے۔ ڈاکہ کی تعریف چوری اور ڈاکہ میں فرق ہے۔ چوری کی صورت میں تو خفیہ طریقے سے کسی کا مال حاصل کیا جاتا ہے۔ مگر ڈاکے میں علی الاعلان بزورقوت مال حاصل کیا جاتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو جان کو مارنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ڈاکو جب ڈاکہ کے ارادہ سے نکلتے ہیں تو وہ مطلوبہ کام کے لیے افراد ی قوت جمع کرتے ہیں اسلحہ مہیا کرتے ہیں ‘ اپنی جان کی حفاظت کا بندو بست کرتے ہیں اور پھر اس ظلم وتعدی کا آغاز کرتے ہیں۔ چونکہ ڈاکو پوری تیاری کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں اس لیے وہ حملہ آور ہو کر مال و آسباب چھین لیتے ہیں اور بعض اوقات عورتوں کو بھی اغواء کرلیتے ہیں ‘ چونکہ مخالف فریق اس ناگہانی آفت کے لیے پہلے سے تیار نہیں ہوتا اس لیے بسا اوقات ڈاکوئوں سے تعرض کرتا ہے تو وہ ا س کی جان تلف کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ لہٰذا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ کہ اس قسم کے حالات میں لوگ خود ہی سب کچھ ڈاکوئوں کو پیش کردیتے ہیں اور اگر کوئی حیل و حجت کرتا ہے تو اسے مال کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ڈاکے کی بیماری قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے اور ساری دنیا اس میں مبتلا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ متمدن اور ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں ڈاکے کی شرح ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے مشرقی ممالک میں تو یہ وبا موجود ہے مگر امریکہ اور برطانیہ جیسے صف اول کے ملک بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو صاف فرمادیا ہے۔ ” واللہ لا یحب الفساد “ کہ وہ فتنہ و فساد کو بالکل پسند نہیں کرتا ‘ مگر دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ڈاکے جیسے قبیح جرم سے مامون ہے۔ اسلامی تعزیرات قرآن پاک میں حدود کا ذکر بہت مختصر ہے البتہ تعزیرات کا وسیع بیان موجود ہے۔ حدود میں چوری ‘ شراب نوشی ‘ قذف ‘ زنا ‘ ارتداو ‘ بغاوت اور ڈاکہ شامل ہیں۔ جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے اسلام نے تین قسم کی سزائیں مقرر کی ہیں۔ حدود مقررہ تعزیرات ہیں اور ان میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔ دوسری قسم تعزیرات ہیں جن کا باب بہت وسیع ہے ۔ اسلامی نظام میں تعزیرات کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ البتہ مختلف جرائم کی سزا تجویز کرنا مسلمان حاکم کی صوابدید پر ہے۔ وہ جرم کی نوعیت کے اعتبار سے جو سزا مناسب سمجھے ‘ عائد کردے۔ تاہم اصولی بات یہ ہے کہ ظلم کسی صورت میں بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ اللہ اور رسول سے جنگ ارشاد باری تعالیٰ ہے انما جزآ ئوا الذین یحاربون اللہ ورسولہ بیشک سزا ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ویسعون فی الارض فسادا اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہاں پر دو جرائم کا تذکرہ کر کے پھر ان کی سزا بیان فرمائی ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ اور فساد فی الارض۔ امام ابوبکر حصاص ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑائی تو پھر بھی کسی حد تک قابل فہم ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ جنگ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہ تو قادر مطلق ہے جب چاہے کسی کو فی الفور فنا کردے ‘ اس کے ساتھ مقابلہ کی کون جرأت کرسکتا ہے۔ اسی لیے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر اللہ کے ساتھ لڑائی کو حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے۔ کہ اللہ کے نزدیک مامون لوگوں کے ساتھ لڑائی کرنا خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ مسلمان کی جان و مال محفوظ ہے۔ اسی طرح مسلمان ملک میں خدا کے قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنے والے غیر مسلم ذمی بھی ‘ مون ہیں۔ ان کے مال ‘ جان ‘ عزت ‘ آبرو کی حفاظت اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ مامون لوگوں کے ساتھ تعرض کرتا ہے ‘ ان کے مال چھینتا ہے ‘ جان کے ساتھ کھیلتا ہے یا ان کی عزت و آبرو کے درپے ہوتا ہے ‘ تو وہ گویا اللہ کے قائم کردہ امن کو تباہ کرتا ہے۔ اللہ سے جنگ کی مثال دوسرے مقام پر بھی ملتی ہے فرمایا اگر سود خوری سے باز نہیں آتے فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔ یہاں پر بھی اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ کو انہی معانی میں لیا گیا ہے۔ امام ابوبکر حصاص ؓ نے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ ؓ سے فرمایا ‘ اے معاذ ؓ ! تھوڑی سی ریا کاری بھی شرک میں داخل ہے۔ ریاکاری عملی شرک ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔ دوسری بات یہ فرمائی من اذی ولیا فقد بارزنی بالحرب یعنی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے میرے ولی کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے جنگ کا چیلنج دیا۔ یہاں بھی مجازی معنی مراد ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ آمنے سامنے جنگ تو نہیں کرتا گویا خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنا ہے۔ کسی ہستی کے نافذ کردہ قانون کی خلاف ورزی خود اس ہستی کے ساتھ دشمنی کے برابر ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے تو امن قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب جو ان کے اس قانون کو توڑتا ہے گویا خدا کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔ بہر حال یہاں پر حقیقی جنگ مراد نہیں ہے بلکہ اللہ نے یہ لفظ مبالغہ کے طور پر فرمایا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے سے مراد اس کے بندوں سے جنگ کرنا ہے۔ ” یخدعون اللہ “ کی یہی توجیہ کی جاتی ہے کہ منافقین اللہ تعالیٰ کو دھوکہ تو نہیں دے سکتے ‘ یہ لفظ مجازاً اس کے بندوں کے لیے استعمال کیا گیا کہ وہ مومنوں کو دھوکا دیتے ہیں اسی طرح ” یحاربون اللہ “ سے مراد اللہ سے جنگ نہیں بلکہ اس کے بندوں کے ساتھ جنگ مراد ہے۔ اس طرح یہ مجاز مرسل ہوجائیگا جس میں اولیاء کو مضاف مخدوف مانا پڑے گا اور مطلب یہ ہوگا یحاربون اولیآء اللہ یعنی جو اللہ اور رسول کے دوستوں سے لڑتے ہیں ان کی سزا یہ ہے جہاں تک اس آیت میں بیان کردہ دوسرے جرم فساد فی الارض کا تعلق ہے تو کفر اور شرک سے بڑھ کر اور کیا فساد ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی اور گناہ کا ارتکاب زمین میں فساد ہی تو ہے۔ جو شخص دوسرے شخص پر ظلم وتعدی کرتا ہے ‘ وہ فساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق اس آیت میں سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ امن وامان کی ذمہ داری ملک میں امن وامان قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت اور جماعت المسلمین پر عائد ہوتی ہے ‘ ظاہر ہے کہ حکومت جماعت ہی کی فرع ہے۔ لہذا یہ جماعت اور حکومت دونوں کا فرض ہے۔ کہ وہ خود قانون کی پابندی کرے اور امن وامان کے مسئلہ سے عہدہ براء ہونے کے لیے ایسی انتظامیہ وجود میں لائے جو عوام الناس کو اسلامی قانون پر عملدرآمد پر مجبور کرسکے ‘ اللہ نے فرمایا ہے کہ جہاد کی ضرورت اس وقت تک ہے جب تک فتنہ مکمل طور پر ختم ہو کر ” ویکون الدین للہ “ دین خالصتاً اللہ کا قائم نہ ہوجائے ‘ لوگ خدا کے قانون کی پابندی کرنے لگیں ‘ معاشرے ک ہر فرد کو امن وامان اور اس کا جائز حق حاصل ہو اور ہر شخص ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی معرکتہ الآ را کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے 1 ؎ ہیں کہ بعثت انبیاء کے مقاصد میں ایک یہ مقصد بھی شامل ہے رفع التظالمہ من بین الناس لوگوں کے درمیان ظلم کو رفع کرنا۔ انبیائے کرام کی بعثت کا اولین مقصد تو اصلاح عقیدہ ہوتا ہے تاکہ انسان کی فکر کو درست کیا جائے تاہم ایک دسرے پر ظلم کا قلع قمع بھی انبیاء کے مشن میں داخل ہے۔ چناچہ تمام انبیاء اس فرض کو انجام دیتے آئے ہیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا اس ملک میں ابھی تک انگریزی قانون رائج ہے جو بلاشبہ امن وامان کے قیام میں ناکام ہوچکا ہے۔ بلکہ ہماری انتظامیہ کی حالت یہ ہے کہ یہ خود بڑے بڑے جرائم میں ملوث ہوتی ہے اور مجرموں کو ان کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے فرائض میں امان وامان کی نگرانی ہو اور وہ اس کام کے لیے باقعدہ تنخواہ وصول کرتے ہوں ‘ اگر وہی لوگ مجرموں 1 ؎ حجۃ اللہ البالغہ ص 337 (فیاض) کی حوصلہ افزائی کرنے لگیں تو امن کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ ہماری پولیس سے کون واقف نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ شاید ہی ڈکیتی کی کوئی واردات ایسی ہو جس میں خود پولیس کو دخل حاصل نہ ہو ‘ نظام سرمایہ دارانہ ہو یا اشتراکی ‘ ملوکیت ہو یا جمہوریت ‘ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرض کو کماحقہ ادا نہیں کریں گے۔ لوگ ظلم و جور کی چکی میں پستے رہیں گے۔ جرم اور سزا الغرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں جرم ڈاکہ کی مختلف نوعیتوں اور ان کی سزا کا ذکر کیا ہے۔ اس جرم میں واردات کی نوعیت چار اقسام سے ہو سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہے ۔ کہ ڈاکہ کا ارتکاب ہوا ہے مگر مجرمین مال حاصل نہیں کرسکے بلکہ صرف قتل ناحق کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تو فرمایا ایسے مجر میں کی سزا یہ ہے ان یقتلوا کہ ان کو بھی سزا کے طور پر قتل کیا جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ڈاکو مال بھی لے گئے ہیں اور کسی جان کو بھی تلف کیا ہے۔ ایسے مجرمین کے متعلق فرمایا او یصلبوا یا ان کو سولی پر لٹکا دیا جائے۔ چونکہ اس واردات میں دو جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے سزائیں بھی دو تجویز کی گئی ہیں۔ پہلے مجرم کو زندہ سولی پر لٹکا دیا جائے گا پھر نیزے مار مار کر اس کو ہلاک کردیا جائیگا۔ یہ حاکم صوابدید پر منحصر ہے۔ کہ مجرم کو کھلے عام سولی پر لٹکائے اور پھر عبرت کے لیے دو یا تین دن جس قدر مناسب سمجھے لٹکتا رہنے دے۔ ڈاکہ کی واردات کی تیسری قسم یہ ہو سکتی ہے۔ کہ ڈاکو مال حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ‘ البتہ کسی جان کا ضیاع نہیں ہوا ۔ ایسی صورت میں فرمایا اوتقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف ڈاکو کا ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹ دیا جائے۔ من خلاف کا مطلب یہ ہے ۔ کہ اگر ہاتھ دائیاں کاٹا ہے تو پائوں بایاں کٹے گا اور اگر ہاتھ بایاں ہے تو پائوں دائیاں ہوگا۔ اب چوتھی صورت یہ رہ گئی ہے کہ ڈاکہ تو ڈالا گیا ہے مگر ڈاکو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ نہ تو کوئی مال و متاع حاصل کرسکے ہیں اور نہ کسی جان کو نقصان پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر فریق ثانی کو بروقت اطلاع مل گئی ہے اور وہ چوکس ہوگئے ہیں۔ یا آگے سے مقابلہ ہوگیا ہے اور ڈاکو ناکام واپس لوٹ گئے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں مجرمین کی تعزیر کے متعلق فرمایا او ینفوا من الارض یعنی جرم کے مرتکبین کو زمین سے ہٹا دیا جائے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک زمین سے ہٹا دینے کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کو ملک بدر کردیا جائے۔ یہ بھی اچھی خاصی سزا ہے کہ کسی کو گھر بار اور وطن سے دور کردیا جائے۔ مگر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں۔ کہ اگر ایسے شخص کو ملک بدر کیا گیا تو جہاں جائیگا ہوسکتا ہے وہاں اس جرم کا پھر ارتکاب کرے ‘ لہذا آپ کی رائے میں ینفوا من الارض کا مطلب یہ ہے کہ اسے قید میں ڈال دیاجائے۔ ڈاکہ کے مقام کے ضمن میں بھی فقہائے کرام کے درمیان قدرے اختلاف پایا جاتا ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدی شہری آبادی میں ڈاکہ ڈالنے کی نوبت نہیں آتی کیونکہ وہاں پر پولیس اور دیگر حفاظتی انتظام ہوتے ہیں لہذا ڈاکہ کا اطلاق کسی شہر میں کی گئی واردات پر نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف امام شافعی (رح) اور امام ابو یوسف (رح) فرماتے ہیں کہ ڈاکے کی واردات خواہ کسی بھی مقام پر ہو ‘ وہ ڈاکہ ہی کہلائے گی اور جرم کی نوعیت کے مطابق سزادی جائیگی ڈاکہ ڈالنے کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً افرادی قوت ‘ اسلحہ ‘ سواری ‘ (گھوڑا ‘ موٹر سائیکل ‘ کار) وغیرہ کے ساتھ اگر ڈاکہ ڈالا گیا ہے تو ایسی واردات خواہ شہر ‘ دیہات ‘ یا قصبہ میں ہو بہرحال ڈاکہ تصور ہوگی اور مجرموں کو مناسب سزادی جائیگی۔ دنیا اور آخرت کی رسوائی ان چاروں اقسام کی سزا کے متعلق فرمایا ذلک لھم خزی فی الدنیا یہ ان کے لیے دنیا کی رسوائی ہے۔ جب سولی پر لٹکائے جائیں ‘ ہاتھ پائوں کٹیں گے یا قید و بند کی سزا ہوگئی تو دنیا میں بد نامی کا باعث ہوگی۔ ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم ایسے لوگوں کو آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہوگا۔ گویا دنیا اور آخرت ہر دو مقامات پر مجرمین کے یے ذلت اور رسوائی کا سامان ہوگا۔ اس آیت سے امام ابوحنیفہ (رح) استدلال کرتے ہیں کہ کسی جرم میں حد کا قیام اس جرم کا کفارہ نہیں بن جاتا بلکہ یہ تو زجر یعنی تنبیہ ہوتی ہے البتہ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے۔ کہ جب کسی شخص پر حد جاری ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن گئی۔ امام صاحب فرماتے ہیں۔ کہ یہ سزا آخرت کے لیے کفارہ بن جاتی تو پھر اس آیت کریمہ میں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا علیحدہ علیحدہ وکر نہ کیا جاتا۔۔ معلوم ہوا ہے کہ حد یا تعزیر دنیا کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے اور توبہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے ہے۔ عام وطر پر جب کوئی مسلمان کسی جرم میں سزا پاتا ہے تو وہ تو بہ کرلیتا ہے اور وہ آخرت کے عذاب عظیم سے بچ جاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی آدمی جرم کو جائز سمجھتا ہے تو ایسے شخص کے لیے حد یا تعزیر دنیا کی رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب بھی ہے۔ توبہ قبل از گرفتاری فرمایا الا الذین تابوا من قبل ا ن تقدروا علیھم ہاں جس شخص نے اس پر قابو پائے جانے سے قبل توبہ کرلی۔ وہ اپنے جرم پر نادم ہوگیا ‘ تو پھر اس پر حد جاری نہیں ہوگی ‘ اسے صرف حق تلفی کا ازالہ کرنا ہوگا۔ اگر کوئی حق تلفی ہوئی ہے ۔ کسی سے کوئی چیز چھینی ہے تو واپس کرے اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ فاعلموا ان اللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے۔ اگر اس نے سچے دل سے توبہ کرلی ہے تو وہ معافی کا مستحق ہے۔ یاد رہے کہ معافی کا قانون صرف چوری کے جرم میں ہے۔ باقی قابل حد جرائم زنا ‘ قذف ‘ شراب نوشی ‘ ارتداد ‘ وغیرہ میں جرم ثابت ہونے پر حد لازماً جاری ہوگی۔
Top