Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
بیشک جزاء ان لوگوں کی جو لڑتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے ‘ اور کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد کی یہ ہے کہ ان کو قتل کیا جائے یا انہیں سولی پر لٹکایا جائے یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھے ‘ یا ان کو دور کردیا جائے زمین سے ۔ یہ ان کے لیے رسوائی ہے دنیا میں اور ان کے لیے آخرت میں عذاب عظیم ہے
ربط آیات گذشتہ آیات میں اللہ نے آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک نے ظلم وتعدی کے ساتھ دوسرے کو قتل کردیا اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قتل ناحق کی مذمت بیان فرمائی ۔ چونکہ بنی اسرائیل میں یہ بیماری بکثرت موجود تھی اس لیے اللہ نے فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کی تعلیم کے لیے یہ بات لکھدی کہ جو کوئی کسی شخص کو بغیر قتل نفس اور بغیر فساد فی الارض کے قتل کرتا ہے وہ گویا تمام انسانوں کا قاتل ہے کیونکہ دنیا میں جس قدر قتل ناحق ہوتے ہیں ان سب کا ایک ایک و بال سب سے پہلے قاتل پر بھی پڑتا ہے۔ ایک شخص کا قاتل پوری دنیا کے انسانوں کے قتل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کے برخلاف فرمایا کہ جو شخص کسی ایک انسانی جان کی حفاظت کرتا ہے ‘ وہ گو یا تمام نسل انسانی کی حفاظت میں شریک ہوتا ہے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے فساد کی ایک اور قسم کا ذکر کرکے مفسد کو دی جانے والی سزا کو بیان فرمایا ہے۔ لفظ فساد اپنے اندر بہت وسیع معانی رکھتا ہے۔ ویسے تو کفر ‘ شرک اور قتل ناحق فساد ہی کی اقسام ہیں۔ کسی کے مال وجان کو نقصان پہنچانا ‘ کسی کی عزت و آبرو سے کھیلنا فساد ہی کے حصے ہیں مگر اس آیت کریمہ میں فساد کی ایک قسم حرابہ ۔۔۔ یا ڈکیتی کا ذکر کرکے اس کی سزا کو بیان فرمایا ہے۔ اس سے اگلی آیات میں جہاد فی سبیل اللہ اور تقویٰ کا بیان ہے اور اس کے بعد پھر فساد ہی کی ایک قسم چوری اور اس کی سزا کا ذکر ہے۔ ڈاکہ کی تعریف چوری اور ڈاکہ میں فرق ہے۔ چوری کی صورت میں تو خفیہ طریقے سے کسی کا مال حاصل کیا جاتا ہے۔ مگر ڈاکے میں علی الاعلان بزورقوت مال حاصل کیا جاتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو جان کو مارنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ڈاکو جب ڈاکہ کے ارادہ سے نکلتے ہیں تو وہ مطلوبہ کام کے لیے افراد ی قوت جمع کرتے ہیں اسلحہ مہیا کرتے ہیں ‘ اپنی جان کی حفاظت کا بندو بست کرتے ہیں اور پھر اس ظلم وتعدی کا آغاز کرتے ہیں۔ چونکہ ڈاکو پوری تیاری کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں اس لیے وہ حملہ آور ہو کر مال و آسباب چھین لیتے ہیں اور بعض اوقات عورتوں کو بھی اغواء کرلیتے ہیں ‘ چونکہ مخالف فریق اس ناگہانی آفت کے لیے پہلے سے تیار نہیں ہوتا اس لیے بسا اوقات ڈاکوئوں سے تعرض کرتا ہے تو وہ ا س کی جان تلف کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ لہٰذا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ کہ اس قسم کے حالات میں لوگ خود ہی سب کچھ ڈاکوئوں کو پیش کردیتے ہیں اور اگر کوئی حیل و حجت کرتا ہے تو اسے مال کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ڈاکے کی بیماری قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے اور ساری دنیا اس میں مبتلا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ متمدن اور ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں ڈاکے کی شرح ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے مشرقی ممالک میں تو یہ وبا موجود ہے مگر امریکہ اور برطانیہ جیسے صف اول کے ملک بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو صاف فرمادیا ہے۔ ” واللہ لا یحب الفساد “ کہ وہ فتنہ و فساد کو بالکل پسند نہیں کرتا ‘ مگر دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ڈاکے جیسے قبیح جرم سے مامون ہے۔ اسلامی تعزیرات قرآن پاک میں حدود کا ذکر بہت مختصر ہے البتہ تعزیرات کا وسیع بیان موجود ہے۔ حدود میں چوری ‘ شراب نوشی ‘ قذف ‘ زنا ‘ ارتداو ‘ بغاوت اور ڈاکہ شامل ہیں۔ جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے اسلام نے تین قسم کی سزائیں مقرر کی ہیں۔ حدود مقررہ تعزیرات ہیں اور ان میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔ دوسری قسم تعزیرات ہیں جن کا باب بہت وسیع ہے ۔ اسلامی نظام میں تعزیرات کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ البتہ مختلف جرائم کی سزا تجویز کرنا مسلمان حاکم کی صوابدید پر ہے۔ وہ جرم کی نوعیت کے اعتبار سے جو سزا مناسب سمجھے ‘ عائد کردے۔ تاہم اصولی بات یہ ہے کہ ظلم کسی صورت میں بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ اللہ اور رسول سے جنگ ارشاد باری تعالیٰ ہے انما جزآ ئوا الذین یحاربون اللہ ورسولہ بیشک سزا ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ویسعون فی الارض فسادا اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہاں پر دو جرائم کا تذکرہ کر کے پھر ان کی سزا بیان فرمائی ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ اور فساد فی الارض۔ امام ابوبکر حصاص ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑائی تو پھر بھی کسی حد تک قابل فہم ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ جنگ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہ تو قادر مطلق ہے جب چاہے کسی کو فی الفور فنا کردے ‘ اس کے ساتھ مقابلہ کی کون جرأت کرسکتا ہے۔ اسی لیے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر اللہ کے ساتھ لڑائی کو حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے۔ کہ اللہ کے نزدیک مامون لوگوں کے ساتھ لڑائی کرنا خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ مسلمان کی جان و مال محفوظ ہے۔ اسی طرح مسلمان ملک میں خدا کے قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنے والے غیر مسلم ذمی بھی ‘ مون ہیں۔ ان کے مال ‘ جان ‘ عزت ‘ آبرو کی حفاظت اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ مامون لوگوں کے ساتھ تعرض کرتا ہے ‘ ان کے مال چھینتا ہے ‘ جان کے ساتھ کھیلتا ہے یا ان کی عزت و آبرو کے درپے ہوتا ہے ‘ تو وہ گویا اللہ کے قائم کردہ امن کو تباہ کرتا ہے۔ اللہ سے جنگ کی مثال دوسرے مقام پر بھی ملتی ہے فرمایا اگر سود خوری سے باز نہیں آتے فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔ یہاں پر بھی اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ کو انہی معانی میں لیا گیا ہے۔ امام ابوبکر حصاص ؓ نے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ ؓ سے فرمایا ‘ اے معاذ ؓ ! تھوڑی سی ریا کاری بھی شرک میں داخل ہے۔ ریاکاری عملی شرک ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔ دوسری بات یہ فرمائی من اذی ولیا فقد بارزنی بالحرب یعنی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے میرے ولی کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے جنگ کا چیلنج دیا۔ یہاں بھی مجازی معنی مراد ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ آمنے سامنے جنگ تو نہیں کرتا گویا خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنا ہے۔ کسی ہستی کے نافذ کردہ قانون کی خلاف ورزی خود اس ہستی کے ساتھ دشمنی کے برابر ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے تو امن قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب جو ان کے اس قانون کو توڑتا ہے گویا خدا کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔ بہر حال یہاں پر حقیقی جنگ مراد نہیں ہے بلکہ اللہ نے یہ لفظ مبالغہ کے طور پر فرمایا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے سے مراد اس کے بندوں سے جنگ کرنا ہے۔ ” یخدعون اللہ “ کی یہی توجیہ کی جاتی ہے کہ منافقین اللہ تعالیٰ کو دھوکہ تو نہیں دے سکتے ‘ یہ لفظ مجازاً اس کے بندوں کے لیے استعمال کیا گیا کہ وہ مومنوں کو دھوکا دیتے ہیں اسی طرح ” یحاربون اللہ “ سے مراد اللہ سے جنگ نہیں بلکہ اس کے بندوں کے ساتھ جنگ مراد ہے۔ اس طرح یہ مجاز مرسل ہوجائیگا جس میں اولیاء کو مضاف مخدوف مانا پڑے گا اور مطلب یہ ہوگا یحاربون اولیآء اللہ یعنی جو اللہ اور رسول کے دوستوں سے لڑتے ہیں ان کی سزا یہ ہے جہاں تک اس آیت میں بیان کردہ دوسرے جرم فساد فی الارض کا تعلق ہے تو کفر اور شرک سے بڑھ کر اور کیا فساد ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی اور گناہ کا ارتکاب زمین میں فساد ہی تو ہے۔ جو شخص دوسرے شخص پر ظلم وتعدی کرتا ہے ‘ وہ فساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق اس آیت میں سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ امن وامان کی ذمہ داری ملک میں امن وامان قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت اور جماعت المسلمین پر عائد ہوتی ہے ‘ ظاہر ہے کہ حکومت جماعت ہی کی فرع ہے۔ لہذا یہ جماعت اور حکومت دونوں کا فرض ہے۔ کہ وہ خود قانون کی پابندی کرے اور امن وامان کے مسئلہ سے عہدہ براء ہونے کے لیے ایسی انتظامیہ وجود میں لائے جو عوام الناس کو اسلامی قانون پر عملدرآمد پر مجبور کرسکے ‘ اللہ نے فرمایا ہے کہ جہاد کی ضرورت اس وقت تک ہے جب تک فتنہ مکمل طور پر ختم ہو کر ” ویکون الدین للہ “ دین خالصتاً اللہ کا قائم نہ ہوجائے ‘ لوگ خدا کے قانون کی پابندی کرنے لگیں ‘ معاشرے ک ہر فرد کو امن وامان اور اس کا جائز حق حاصل ہو اور ہر شخص ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی معرکتہ الآ را کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے 1 ؎ ہیں کہ بعثت انبیاء کے مقاصد میں ایک یہ مقصد بھی شامل ہے رفع التظالمہ من بین الناس لوگوں کے درمیان ظلم کو رفع کرنا۔ انبیائے کرام کی بعثت کا اولین مقصد تو اصلاح عقیدہ ہوتا ہے تاکہ انسان کی فکر کو درست کیا جائے تاہم ایک دسرے پر ظلم کا قلع قمع بھی انبیاء کے مشن میں داخل ہے۔ چناچہ تمام انبیاء اس فرض کو انجام دیتے آئے ہیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا اس ملک میں ابھی تک انگریزی قانون رائج ہے جو بلاشبہ امن وامان کے قیام میں ناکام ہوچکا ہے۔ بلکہ ہماری انتظامیہ کی حالت یہ ہے کہ یہ خود بڑے بڑے جرائم میں ملوث ہوتی ہے اور مجرموں کو ان کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے فرائض میں امان وامان کی نگرانی ہو اور وہ اس کام کے لیے باقعدہ تنخواہ وصول کرتے ہوں ‘ اگر وہی لوگ مجرموں 1 ؎ حجۃ اللہ البالغہ ص 337 (فیاض) کی حوصلہ افزائی کرنے لگیں تو امن کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ ہماری پولیس سے کون واقف نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ شاید ہی ڈکیتی کی کوئی واردات ایسی ہو جس میں خود پولیس کو دخل حاصل نہ ہو ‘ نظام سرمایہ دارانہ ہو یا اشتراکی ‘ ملوکیت ہو یا جمہوریت ‘ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرض کو کماحقہ ادا نہیں کریں گے۔ لوگ ظلم و جور کی چکی میں پستے رہیں گے۔ جرم اور سزا الغرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں جرم ڈاکہ کی مختلف نوعیتوں اور ان کی سزا کا ذکر کیا ہے۔ اس جرم میں واردات کی نوعیت چار اقسام سے ہو سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہے ۔ کہ ڈاکہ کا ارتکاب ہوا ہے مگر مجرمین مال حاصل نہیں کرسکے بلکہ صرف قتل ناحق کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تو فرمایا ایسے مجر میں کی سزا یہ ہے ان یقتلوا کہ ان کو بھی سزا کے طور پر قتل کیا جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ڈاکو مال بھی لے گئے ہیں اور کسی جان کو بھی تلف کیا ہے۔ ایسے مجرمین کے متعلق فرمایا او یصلبوا یا ان کو سولی پر لٹکا دیا جائے۔ چونکہ اس واردات میں دو جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے سزائیں بھی دو تجویز کی گئی ہیں۔ پہلے مجرم کو زندہ سولی پر لٹکا دیا جائے گا پھر نیزے مار مار کر اس کو ہلاک کردیا جائیگا۔ یہ حاکم صوابدید پر منحصر ہے۔ کہ مجرم کو کھلے عام سولی پر لٹکائے اور پھر عبرت کے لیے دو یا تین دن جس قدر مناسب سمجھے لٹکتا رہنے دے۔ ڈاکہ کی واردات کی تیسری قسم یہ ہو سکتی ہے۔ کہ ڈاکو مال حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ‘ البتہ کسی جان کا ضیاع نہیں ہوا ۔ ایسی صورت میں فرمایا اوتقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف ڈاکو کا ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹ دیا جائے۔ من خلاف کا مطلب یہ ہے ۔ کہ اگر ہاتھ دائیاں کاٹا ہے تو پائوں بایاں کٹے گا اور اگر ہاتھ بایاں ہے تو پائوں دائیاں ہوگا۔ اب چوتھی صورت یہ رہ گئی ہے کہ ڈاکہ تو ڈالا گیا ہے مگر ڈاکو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ نہ تو کوئی مال و متاع حاصل کرسکے ہیں اور نہ کسی جان کو نقصان پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر فریق ثانی کو بروقت اطلاع مل گئی ہے اور وہ چوکس ہوگئے ہیں۔ یا آگے سے مقابلہ ہوگیا ہے اور ڈاکو ناکام واپس لوٹ گئے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں مجرمین کی تعزیر کے متعلق فرمایا او ینفوا من الارض یعنی جرم کے مرتکبین کو زمین سے ہٹا دیا جائے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک زمین سے ہٹا دینے کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کو ملک بدر کردیا جائے۔ یہ بھی اچھی خاصی سزا ہے کہ کسی کو گھر بار اور وطن سے دور کردیا جائے۔ مگر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں۔ کہ اگر ایسے شخص کو ملک بدر کیا گیا تو جہاں جائیگا ہوسکتا ہے وہاں اس جرم کا پھر ارتکاب کرے ‘ لہذا آپ کی رائے میں ینفوا من الارض کا مطلب یہ ہے کہ اسے قید میں ڈال دیاجائے۔ ڈاکہ کے مقام کے ضمن میں بھی فقہائے کرام کے درمیان قدرے اختلاف پایا جاتا ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدی شہری آبادی میں ڈاکہ ڈالنے کی نوبت نہیں آتی کیونکہ وہاں پر پولیس اور دیگر حفاظتی انتظام ہوتے ہیں لہذا ڈاکہ کا اطلاق کسی شہر میں کی گئی واردات پر نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف امام شافعی (رح) اور امام ابو یوسف (رح) فرماتے ہیں کہ ڈاکے کی واردات خواہ کسی بھی مقام پر ہو ‘ وہ ڈاکہ ہی کہلائے گی اور جرم کی نوعیت کے مطابق سزادی جائیگی ڈاکہ ڈالنے کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً افرادی قوت ‘ اسلحہ ‘ سواری ‘ (گھوڑا ‘ موٹر سائیکل ‘ کار) وغیرہ کے ساتھ اگر ڈاکہ ڈالا گیا ہے تو ایسی واردات خواہ شہر ‘ دیہات ‘ یا قصبہ میں ہو بہرحال ڈاکہ تصور ہوگی اور مجرموں کو مناسب سزادی جائیگی۔ دنیا اور آخرت کی رسوائی ان چاروں اقسام کی سزا کے متعلق فرمایا ذلک لھم خزی فی الدنیا یہ ان کے لیے دنیا کی رسوائی ہے۔ جب سولی پر لٹکائے جائیں ‘ ہاتھ پائوں کٹیں گے یا قید و بند کی سزا ہوگئی تو دنیا میں بد نامی کا باعث ہوگی۔ ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم ایسے لوگوں کو آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہوگا۔ گویا دنیا اور آخرت ہر دو مقامات پر مجرمین کے یے ذلت اور رسوائی کا سامان ہوگا۔ اس آیت سے امام ابوحنیفہ (رح) استدلال کرتے ہیں کہ کسی جرم میں حد کا قیام اس جرم کا کفارہ نہیں بن جاتا بلکہ یہ تو زجر یعنی تنبیہ ہوتی ہے البتہ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے۔ کہ جب کسی شخص پر حد جاری ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن گئی۔ امام صاحب فرماتے ہیں۔ کہ یہ سزا آخرت کے لیے کفارہ بن جاتی تو پھر اس آیت کریمہ میں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا علیحدہ علیحدہ وکر نہ کیا جاتا۔۔ معلوم ہوا ہے کہ حد یا تعزیر دنیا کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے اور توبہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے ہے۔ عام وطر پر جب کوئی مسلمان کسی جرم میں سزا پاتا ہے تو وہ تو بہ کرلیتا ہے اور وہ آخرت کے عذاب عظیم سے بچ جاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی آدمی جرم کو جائز سمجھتا ہے تو ایسے شخص کے لیے حد یا تعزیر دنیا کی رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب بھی ہے۔ توبہ قبل از گرفتاری فرمایا الا الذین تابوا من قبل ا ن تقدروا علیھم ہاں جس شخص نے اس پر قابو پائے جانے سے قبل توبہ کرلی۔ وہ اپنے جرم پر نادم ہوگیا ‘ تو پھر اس پر حد جاری نہیں ہوگی ‘ اسے صرف حق تلفی کا ازالہ کرنا ہوگا۔ اگر کوئی حق تلفی ہوئی ہے ۔ کسی سے کوئی چیز چھینی ہے تو واپس کرے اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ فاعلموا ان اللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے۔ اگر اس نے سچے دل سے توبہ کرلی ہے تو وہ معافی کا مستحق ہے۔ یاد رہے کہ معافی کا قانون صرف چوری کے جرم میں ہے۔ باقی قابل حد جرائم زنا ‘ قذف ‘ شراب نوشی ‘ ارتداد ‘ وغیرہ میں جرم ثابت ہونے پر حد لازماً جاری ہوگی۔
Top